59۔ 1 ذنوب کے معنی بھرے ڈول کے ہیں۔ کنویں سے ڈول میں پانی نکال کر تقسیم کیا جاتا ہے اس اعتبار سے یہاں ڈول کو حصے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ مطلب ہے کہ ظالموں کو عذاب سے حصہ پہنچے گا، جس طرح اس سے پہلے کفر و شرک کا ارتکاب کرنے والوں کو ان کے عذاب کا حصہ ملا تھا۔ 59۔ 2 لیکن یہ حصہ عذاب انہیں کب پہنچے گا، یہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، اس لئے طلب عذاب میں جلدی نہ کریں۔
[٥١] کنوئیں وغیرہ سے پانی نکالنے والا ڈول یا بالٹی اگر خالی ہو تو اسے دلو کہتے ہیں اور اگر بھرا ہوا ہو تو اسے ذنوب کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دعوت حق کی مخالفت کے لحاظ سے یہ مکہ کے ظالم لوگ بھی اسی پستی تک پہنچ چکے ہیں۔ اور ان کی بقا کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے جیسے ان جیسے اور ان سے پہلے کے ظالموں کا ہوا تھا۔ اور اب ان پر اللہ کا عذاب آنے والا ہے (اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورة مکی زندگی کے آخری دور میں نازل ہوئی تھی) لہذا انہیں جلدی مچانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب ان کے گناہوں سے بھرا ہوا ڈول ڈوب کے ہی رہے گا۔
(١) فان للذین ظلموا ذنوباً …:” ذنوباً “ (ڈال کر فتحہ کے ساتھ) اصل میں بڑے ڈول کو کہتے ہیں اور ” ذنوب “ (ڈال کے ضمہ کے ساتھ)” ذنب “ کی جمع ہے، گناہ پہلے لوگ ایک ہی کنوئیں سے پانی لینے کے لئے آتے تو ہر ایک اپنا ڈول ساتھ لاتا تھا، پھر باری باری اپنا ڈول ڈلاتے اور پانی بھر کرلے جاتے، اس لئے ” ذنوب “ (ڈول) کا لفظ باری کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ سورت کے آخر میں کفار قریش کے متعلق فرمایا ہ جس طرح ان سے پہلے ان کے ساتھیوں پر عذاب باری باری آیا اسی طرح ان مشرکین پر عذاب کی نوبت (باری) بھی آرہی ہے جنہوں نے ظلم کیا۔ ظلم سے مراد اللہ کے ساتھ شرک ہے۔ باری آنے میں کچھ انتظار کرنا پڑتا ہے۔- (٢) فلا یستجلون : یہ اصل میں ” فلا یستعجلونی “ تھا،” یائ “ حذف ہوگئی، نون وقایہ پر کسرہ یہ بتانے کے لئے باقی رہا کہ یہاں سے ” یائ “ حذف ہوئی ہے۔ سو وہ مجھ سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ نہ کریں، باری آنے پر ان کا یہ مطالبہ بھی پورا ہوجائے گا۔
ذَنُوْبًا، لفظ ذنوب بفتح الذال اصل میں بڑے ڈول کو کہا جاتا ہے اور بستی کے عام کنوؤں پر پانی بھرنے کے لئے بغرض سہولت بھرنے والوں کے نمبر اور باری مقرر کرلی جاتی ہے، ہر ایک پانی بھرنے والا اپنی باری میں پانی بھرتا ہے، اس لئے یہاں لفظ ذنوب کے معنی باری اور حصہ کے لئے گئے ہیں، مراد یہ ہے کہ جس طرح پچھلی امتوں کو اپنے اپنے وقت میں عمل کرنے کا موقع اور باری دی گئی جن لوگوں نے اپنی باری میں کام نہیں کیا وہ ہلاک و برباد اور گرفتار عذاب ہوئے، اسی طرح موجودہ مشرکین کی بھی باری اور وقت مقرر ہے، اگر اس وقت تک یہ اپنے کفر سے باز نہ آئے تو خدا کا عذاب ان کو کبھی تو اسی دنیا میں اور نہیں تو آخرت میں ضرور پکڑے گا، اس لئے ان کو فرما دیجئے کہ اپنی جلد بازی سے باز آجاؤ یعنی یہ کفار جو بطور تکذیب و انکار کے یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم واقعی مجرم ہیں اور مجرمین پر عذاب آنا آپ کے قول سے ثابت ہے تو پھر ہم پر عذاب کیوں نہیں آجاتا ؟ ان کا جواب یہ ہے کہ عذاب اپنے مقررہ وقت پر اور اپنی باری پر آتا ہے، تمہاری باری بھی آنے والی ہے جلد بازی نہ کرو۔ - الحمد للہ سورة ذاریات آج دو شنبہ 21 ربیع الاول 1391 ھ کو پوری ہوگئی۔
فَاِنَّ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ذَنُوْبًا مِّثْلَ ذَنُوْبِ اَصْحٰبِہِمْ فَلَا يَسْتَعْجِلُوْنِ ٥٩- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - ذنب - والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] ،- الذنب ( ض )- کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، - ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40]- ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔
سو یہ کفار مکہ سن لیں کہ ان کی سزا بھی باری باری ہے جیسا کہ ان سے پہلے ان کے ساتھیوں کی سزا کی باری مقرر تھی سو مجھ سے عذاب و ہلاکت جلدی طلب نہ کریں۔
آیت ٥٩ فَاِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذَنُوْبًا مِّثْلَ ذَنُوْبِ اَصْحٰبِہِمْ فَلَا یَسْتَعْجِلُوْنِ ۔ ” پس ان ظالموں کا پیمانہ بھی لبریز ہوچکا ہے جس طرح ان کے ساتھیوں کا پیمانہ لبریز ہوا تھا ‘ سو یہ مجھ سے جلدی نہ مچائیں۔ “- ” ذَنُوب “ ایسے ڈول کو کہتے ہیں جو پانی وغیرہ سے لبالب بھرا ہوا ہو۔ مراد یہ کہ زمانہ ماضی میں عذاب کا شکار ہونے والی اقوام کی طرح ان کفار و مشرکین کی بداعمالیوں کا ڈول بھی لبریزہو چکا ہے اور یہ ڈول اب کسی وقت بھی کھینچا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اگر فوری طور پر ان کی پکڑ نہیں بھی ہو رہی تو اس سے وہ یہ نہ سمجھیں کہ انہیں یونہی چھوڑ دیا جائے گا ۔
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :56 ظلم سے مراد یہاں حقیقت اور صداقت پر ظلم کرنا ، اور خود اپنی فطرت پر ظلم کرنا ہے ۔ سیاق و سباق خود بتا رہا ہے کہ یہاں ظلم کرنے والوں سے وہ لوگ مراد ہیں جو خداوند عالم کے سوا دوسروں کی بندگی کر رہے ہیں ، جو آخرت کے منکر ہیں اور اپنے آپ کو دنیا میں غیر ذمہ دار سمجھ رہے ہیں ، اور ان انبیاء کو جھٹلا رہے ہیں جنہوں نے ان کو حقیقت سے خبردار کرنے کی کوشش کی ہے ۔ سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :57 یہ جواب ہے کفار کے اس مطالبہ کا کہ وہ یوم الجزا کہاں آتے آتے رہ گیا ہے ، آخر وہ آ کیوں نہیں جاتا ۔