1۔ 1 طور وہ پہاڑ ہے جس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ ہم کلام ہوئے۔ اسے طور سینا بھی کہا جاتا ہے۔ اللہ نے اس کے اس شرف کی بنا پر اس کی قسم کھائی۔
[١] کوہ طور کے مختلف نام اور محل وقوع :۔ طور کو طور سیناء اور طور سینین بھی کہا گیا ہے۔ سیناء اور سینین دونوں ایک ہی پہاڑ کے نام ہیں۔ جس کی سطح سمندر سے بلندی ٧٢٦٠ فٹ ہے اور مدین سے مصر یا مصر سے مدین جاتے ہوئے (شام کے ملک میں) راستے میں پڑتا ہے۔ اسی مقام پر موسیٰ (علیہ السلام) کو دو دفعہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا۔ اسی پہاڑ کی ایک چوٹی کا نام طور ہے اور اسی پہاڑ کے دامن میں واقع وادی کا نام طویٰ ہے جسے قرآن میں وادی مقدس اور بقعۃ المبارکۃ بھی کہا گیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) جب بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر لائے تو اسی راستے سے گزرے تھے۔ کوہ طور کو اسی نسبت سے طور سینین کہا جاتا ہے۔
(١) والطور : اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی پانچ عظیم الشان مخلوقات کی قسم اٹھائی ہے، اس بات کا یقین دلانے کے لئے کہ اس کا عذاب قیامت کے دن اس کے دشمنوں پر واقع ہو کر رہنے والا ہے، اسے کوئی ہٹانے والا نہیں۔ یہ پانچوں مخلوقات اللہ تعالیٰ کی عظیم اور لا محدود قوت و قدرت کی شاہد ہیں اور اس بات کی دلیل ہیں کہ ان عظیم مخلوقات کے خلاق کے لئے قیامت برپا کرنا اور اپنے منکروں کو عذاب دینا نفاق بات ہے۔- (٢)” الطور “ کا معنی وہ پہاڑ جس پر پودے اگتے ہوں۔ ایک خاص پہاڑ کا نام بھی ” طور “ ہے جس کے دامن میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام کیا اور اگر اس پر ” الف لام “ جنس کا ہو تو تمام پہاڑ مراد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کی طرف توجہ دلانے کے لئے متعدد مقامات پر پہاڑوں کا ذکر فرمایا ہے۔ ان کا زمین میں گڑا ہوا ہونا ، آسمان کی طرف بلند ہونا، سمندر سے ہز اورں فٹ بلند ہونے کے باوجود ان پر چشموں، پودوں اور درختوں کا اور اتنی بلندی پر گلیشیروں کی صورت میں پانی کے بےحساب ذخیروں کا موجود ہونا ، ان کے اندر چھپے ہوئے معدنیات کے بیشمار خزانے ، اتنے بلند اور ٹھوس ہونے کے باوجود ان میں راستوں کا موجود ہونا، غرض پہاڑوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت و عظمت کی بیشمار نشانیاں ہیں۔ مزید دیکھیے سورة رعد (٣) ، حجر (١٩) ، نحل (١٥، ٨١) ، لقمان (١٠) ، فاطر (٢٧) ، مرسلات (٢٧) ، نبا (٧) ، نازعات (٣٢) اور سورة غاشیہ (١٩) ۔
خلاصہ تفسیر - قسم ہے طور (پہاڑ) کی اور اس کتاب کی جو کھلے ہوئے کاغذ میں لکھی ہے (مراد اس سے نامہ اعمال ہے جس کی نسبت دوسری آیت میں آیا ہے كِتٰبًا يَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا اور جس چیز میں وہ لکھا ہوا ہے اس کو تشبیہاً کاغذ کہہ دیا) اور (قسم ہے) بیت المعمور کی ( کہ ساتویں آسمان میں عبادت خانہ ہے فرشتوں کا، کما فی الدر مرفوعاً ) اور (قسم ہے) اونچی چھت کی (مراد آسمان ہے، قال تعالیٰ وَجَعَلْنَا السَّمَاۗءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا و قال تعالیٰ اَللّٰهُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ ، وصرح بھذا التفسیر عن علی بسند صحیح کنز العمال عن مستدرک الحاکم) اور (قسم ہے) دریائے شور کی جو (پانی سے) پر ہے ( آگے جواب قسم ہے) کہ بیشک آپ کے رب کا عذاب ضرور ہو کر رہے گا کوئی اس کو ٹال نہیں سکتا ( اور یہ اس روز واقع ہوگا) جس روز آسمان تھر تھرانے لگے گا اور پہاڑ ( اپنی جگہ سے) ہٹ جاویں گے (مراد قیامت کا دن ہے اور تھرانا یا تو باعتبار معنی متبادر کے ہو، یا مراد اس سے انشقاق ہو جو دوسری آیت میں مذکور ہے فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاۗءُ روح المعانی میں ابن عباس سے دونوں تفسیریں نقل کی ہیں اور دونوں میں کوئی تعارض نہیں، آگے پیچھے دونوں کا تحقق ہوسکتا ہے اور یہاں پہاڑوں کا ہٹنا مذکور ہے اور دوسر آیتوں میں ریزہ ریزہ ہونا پھر اڑ جانا مذکور ہے قولہ، يَنْسِفُهَا رَبِّيْ ، قولہ، وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا فَكَانَتْ هَبَاۗءً ، اور ان قسموں میں اس مقصد کو ذہن کے قریب لانا ہے جس کے لئے قسم کھائی گئی اور وہ یہ کہ قیامت کے وقوع کی اصل وجہ جزا و سزا ہے اور مجازاة میں مدار کار احکام شرعیہ ہیں، پس طور کی قسم کھانے پر اشارہ ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ صاحب کلام و احکام ہے، پھر ان احکام کی مخالفت یا موافقت مبنیٰ ہے مجازاة کا، نامہ اعمال کی قسم کھانے میں اشارہ ہوگیا اس موافقت یا مخالفت کے محفوظ و منضبط ہونے کی طرف مجازاة اس پر بھی موقوف ہے کہ احکام الٰہیہ کی اطاعت ضروری ہو، بیت المعمور کی قسم میں اشارہ ہوگیا کہ عبادت ایسا ضروری امر ہے کہ فرشتوں کو بھی باوجود اس کے کہ ان کے لئے جزا و سزا نہیں اس سے نہیں چھوڑا گیا، پھر نتیجہ مجازاة دو چیزیں ہیں، جنت اور دوزخ، سماء کی قسم میں اشارہ ہوگیا کہ جنت ایسی ہی رفعت کا مکان ہے، جیسے آسمان اور بحر مسجور کی قسم میں اشارہ ہوگیا کہ دوزخ بھی ایسی ہی خوفناک چیز ہے، جیسے سمندر، یہ وجہ تخصیص تقسیم اقسام کی ہو سکتی ہے اور نفس قسم کی توجیہ سورة حجر کی آیت لعمرک کے ذیل میں اور غایت و غرض کی شروع سورة صافات میں گزر چکی ہے، آگے اس یوم کے بعض واقعات ارشاد فرماتے ہیں کہ جب یہ ثابت ہوا کہ مستحقین عذاب کے لئے عذاب ضرور واقع ہوگا) تو جو لوگ (قیامت کے اور دیگر امور حقہ توحید و رسالت کے) جھٹلانے والے ہیں (اور) جو تکذیب کے مشغلہ میں بیہودگی کے ساتھ لگ رہے ہیں ( جس سے وہ مستحق عذاب ہوگئے ہیں) ان کی اس روز بڑی کم بختی آوے گی جس روز کہ ان کو آتش دوزخ کی طرف دھکے دے دے کر لاویں گے (کیونکہ خوشی سے ایسی جگہ کون آتا ہے، پھر جب ان کے ڈالنے کا وقت ہوگا تو اس حالت سے پکڑ کے ڈال دیئے جاویں گے فَيُؤْخَذُ بالنَّوَاصِيْ وَالْاَقْدَام اور ان کو دوزخ دکھلا کر زجراً کہا جاوے گا کہ) یہ وہی دوزخ ہے جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے (یعنی جن آیتوں میں اس کی خبر تھی ان کو جھٹلاتے تھے اور نیز ان آیات کو سحر کہا کرتے تھے، خیر وہ تو تمہارے نزدیک سحر تھا) تو کیا یہ (بھی) سحر ہے (دیکھ کر بتلاؤ) یا یہ کہ تم کو (اب بھی) نظر نہیں آتا ( جیسا دنیا میں نظر نہ آنے کی وجہ سے منکر ہوگئے تھے اچھا تو اب) اس میں داخل ہو پھر خواہ (اس کی) سہار کرنا یا سہار نہ کرنا تمہارے حق میں دونوں برابر ہیں ( نہ یہی ہوگا کہ تمہاری ہائے واویلا سے نجات ہوجاوے اور نہ یہی ہوگا کہ تمہاری تسلیم وانقیاد و سکوت پر رحم کر کے نکال دیا جاوے بلکہ ہمیشہ اسی میں رہنا ہوگا اور) جیسا تم کرتے تھے ویسا ہی بدلہ تم کو دیا جائے گا ( تم کفر کیا کرتے تھے جو سب سے بڑی نافرمانی اور اللہ تعالیٰ کے حقوق اور کمالات غیر متناہیہ کی ناشکری ہے، پس بدلہ میں دوزخ کا خلود نصیب ہوگا جو کہ عذاب اشد و غیر متناہی ہے، آگے ان کے اضداد کا بیان ہے یعنی) متقی لوگ بلاشبہ (بہشت کے) باغوں اور سامان عیش میں ہوں گے (اور) ان کو جو چیزیں (عیش و آرام کی) ان کے پروردگار نے دی ہوں گی اس سے خوشدل ہوں گے اور ان کا پروردگار ان کو عذاب دوزخ سے محفوظ رکھے گا (اور جنت میں داخل کر کے فرما دے گا کہ) خوب کھاؤ اور پیو مزہ کے ساتھ اپنے (ان نیک) عملوں کے بدلہ میں ( جو دنیا میں کیا کرتے تھے) تکیہ لگائے ہوئے تختوں پر جو برابر بچھائے ہوئے ہیں اور ہم ان کا گوری گوری بڑی آنکھوں والیوں سے (یعنی حوروں سے) بیاہ کردیں گے (یہ حال تو سب اہل ایمان کا ہوا) اور (آگے ان خاص مومنین کا ذکر ہے جن کی اولاد بھی موصوف بالایمان تھی پس ارشاد ہے کہ) جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کا ساتھ دیا (یعنی وہ بھی ایمان لائے گو اعمال میں وہ اپنے آباء کے رتبہ کو نہیں پہنچے، جیسا کہ عدم ذکر اعمال اس کا قرینہ ہے، ونیز احادیث میں مصرح ہے کانوا دونہ فی العمل، وکانت منازل ابائھم ارفع، ولم یبلغوا درجتک و عملک، رواھا فی الدر المنثور، تو گو ان کے عمل میں کمی کا مقتضا یہ تھا کہ ان کا درجہ بھی کم ہو، لیکن ان آباء مومنین کے اکرام اور ان کو خوش کرنے کے لئے) ہم ان کی اولاد کو بھی (درجہ میں) ان کے ساتھ شامل کردیں گے اور (اس شامل کرنے کے لئے) ہم ان (اہل جنت متبوعین) کے عمل میں سے کوئی چیز کم نہیں کریں گے، یعنی یہ نہ کریں گے کہ ان متبوعین کے بعض اعمال لے کر ان کی ذریت کو دے کر دونوں کو برابر کردیں، جیسے مثلاً ایک شخص کے پاس چھ سو روپے ہوں اور ایک کے پاس چار سو اور دونوں کا برابر کرنا مقصود ہو تو اس کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ چھ سو روپے والے سے ایک سو روپے لے کر اس چار سو والے کو دے دیے جائیں کہ دونوں کے پاس پانچ پانچ سو ہوجائیں اور دوسری صورت جو کریموں کی شان کے لائق ہے یہ ہے کہ چھ سو والے سے کچھ نہ لیا جائے بلکہ اس چار سو والے کو دو سو روپے اپنے پاس سے دیدیں اور دونوں کو برابر کردیں، پس مطلب یہ ہے کہ وہاں پہلی صورت واقع نہ ہوگی جس کا اثر یہ ہوتا کہ متبوع کو بوجہ کم ہوجانے اعمال کے اس کے درجہ سے کچھ نیچے لاتے اور تابع کو کچھ اوپر لے جاتے اور دونوں ایک متوسط درجہ میں رہتے یہ نہ ہوگا، بلکہ دوسری صورت واقع ہوگی اور متبوع اپنے درجہ عالیہ میں بدستور رہے گا اور تابع کو وہاں پہنچا دیا جائے گا اور متبوع اور ذریت میں ایمان کی شرط اس لئے ہے کہ اگر وہ ذریت مومن نہیں تو آباء مومنین کے ساتھ الحاق نہیں ہوسکتا، کیونکہ کافروں میں سے ہر شخص اپنے اعمال (کفریہ) میں محبوس (فی النار اور ماخوذ) رہے گا (کقولہ تعالیٰ اکل نفس بما کسبت رہینتہ الا اصحب الیمین، فسرہ ابن عباس کما فی الدر، یعنی نجات کی کوئی صورت نہیں، لہٰذا ان کا الحاق آباء مومنین کے ساتھ متصور نہیں، اس لئے الحاق میں ایمان ذریت شرط ہے) اور ( آگے پھر مطلق اہل ایمان و اہل جنت کا بیان ہے کہ) ہم ان کو میوے اور گوشت جس قسم کا ان کو مرغوب ہو روز افزوں دیتے رہیں گے ( اور) وہاں آپس میں (بطور خوش طبعی کے) جام شراب میں چھینا جھپٹی بھی کریں گے کہ اس (شراب) میں نہ بک بک لگے گی (کیونکہ نشہ نہ ہوگا) اور نہ کوئی بیہودہ بات (عقل و متانت کے خلاف) ہوگی اور ان کے پاس (فواکہ وغیرہ لانے کے لئے) ایسے لڑکے آئیں جائیں گے (یہ لڑکے کون ہوں گے اس کی تحقیق تفسیر سورة واقعہ میں آئے گی) جو خاص انہی (کی خدمت) کے لئے ہوں گے (اور غایت حسن و جمال سے ایسے ہوں گے کہ) گویا وہ حفاظت سے رکھے ہوئے موتی ہیں (کہ ان پر ذرا گرد و غبار نہیں ہوتا اور آب و تاب اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے) اور (ان کو روحانی مسرت بھی ہوگی، چناچہ اس میں سے ایک کا بیان یہ ہے کہ) وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر بات چیت کریں گے (اور اثنائے گفتگو میں) یہ بھی کہیں گے کہ (بھائی) ہم تو اس سے پہلے اپنے گھر (یعنی دنیا میں انجام کار سے) بہت ڈرا کرتے تھے سو خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا اور ہم کو عذاب دوزخ سے بچا لیا (اور) ہم اس سے پہلے (یعنی دنیا میں) اس سے دعائیں مانگا کرتے تھے ( کہ ہم کو دوزخ سے بچا کر جنت میں لے جاوے سو اللہ نے دعا قبول کرلی) واقعی وہ بڑا محسن مہربان ہے (اور اس مضمون سے مسرت ہونا ظاہر ہے اور چونکہ یہ امر دو حیثیت سے نعمت تھا، ایک فی نفسہ عذاب سے بچانا، دوسرے ہم ناکاروں کی ناچیز عرض قبول کرلینا، اس لئے دو عنوانوں سے تعبیر کیا گیا )- معارف و مسائل - وَالطُّوْرِ ، طور کے معنی عبرانی زبان میں پہاڑ کے ہیں جس پر درخت اگتے ہوں، یہاں طور سے مراد وہ طور سینین ہے جو ارض مدین میں واقع ہے، جس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حق تعالیٰ سے شرف ہم کلامی نصیب ہوا، بعض روایات حدیث میں ہے کہ دنیا میں چار پہاڑ جنت کے ہیں ان میں سے ایک طور ہے (قرطبی) طور کی قسم کھانے میں اس کی خاص تعظیم و تشریف کی طرف بھی اشارہ ہے اور اس کی طرف بھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لئے کچھ کلام اور احکام آئے ہیں جن کی پابندی ان پر فرض ہے۔
وَالطُّوْرِ ١ ۙ- طور - طَوَارُ الدّارِ وطِوَارُهُ : ما امتدّ منها من البناء، يقال : عدا فلانٌ طَوْرَهُ ، أي : تجاوز حدَّهُ ، ولا أَطُورُ به، أي : لا أقرب فناء ه . يقال : فعل کذا طَوْراً بعد طَوْرٍ ، أي : تارة بعد تارة، وقوله :- وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْواراً [ نوح 14] ، قيل : هو إشارة إلى نحو قوله تعالی: خَلَقْناكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ [ الحج 5] ، وقیل : إشارة إلى نحو قوله : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] ، أي : مختلفین في الخَلْقِ والخُلُقِ. والطُّورُ اسمُ جبلٍ مخصوصٍ ، وقیل : اسمٌ لكلّ جبلٍ وقیل : هو جبل محیط بالأرض «2» . قال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] ، وَما كُنْتَ بِجانِبِ الطُّورِ [ القصص 46] ، وَطُورِ سِينِينَ- [ التین 2] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وَرَفَعْنا فَوْقَهُمُ الطُّورَ [ النساء 154] .- ( ط و ر )- طوارا لدار وطوارھ کے معنی گھر کی عمارت کے امتداد یعنی لمبا ہونے اور پھیلنے کے ہیں محاورہ ہے : ۔ عدا فلان طوارہ فلاں اپنی حدود سے تجاوز کر گیا ۔ لاوطور بہ میں اسکے مکان کے صحن کے قریب تک نہیں جاؤں گا ۔ فعل کذا طورا بعد طور اس نے ایک بار کے بعد دوسری باریہ کام کیا اور آیت کریمہ : ۔ وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْواراً [ نوح 14] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ کہ اطوارا سے ان مختلف منازل ومدارج کی طرف اشارہ ہے جو کہ آیت : ۔ خَلَقْناكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ [ الحج 5] ہم نے تم کو ( پہلی بار بھی ) تو پیدا کیا تھا ( یعنی ابتداء میں ) مٹی سے پھر اس سے نطفہ بناکر پھر اس سے خون کا لوتھڑا بناکر پھر اس سے بوٹی بناکر ۔ میں مذکور ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے مختلف احوال مراد ہیں جن کی طرف آیت : ۔ وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا جدا جدا ہونا ۔ میں اشارہ فرمایا ہے یعنی جسمانی اور اخلاقی تفاوت جو کہ ہر معاشرہ میں نمایاں طور پر پا یا جاتا ہے ۔ الطور ( ایلہ کے قریب ایک خاص پہاڑ کا نام ہے) اور بعض نے کہا ہے کہ ہر پہاڑ کو طور کہہ سکتے ہیں اور بعض کے نزدیک طور سے وہ سلسلہ کوہ مراد ہے جو کرہ ارض کو محیط ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] کوہ طور کی قسم اور کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے ۔ وَما كُنْتَ بِجانِبِ الطُّورِ [ القصص 46] اور نہ تم اس وقت طور کے کنارے تھے ۔ وَطُورِ سِينِينَ [ التین 2] اور طورسنین کی ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کی داہنی جانب سے پکارا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَهُمُ الطُّورَ [ النساء 154] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کر کھڑا کیا ۔
قسم ہے کوہ طور کی سریانی اور قبطی زبان میں ہر ایک پہاڑ کو طور کہتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا اس مقام پر وہ پہاڑ مقصود ہے جس پر موسیٰ سے کلام فرمایا اور وہ مدین میں ہے اور اس کو زبیر بھی کہتے ہیں۔
آیت ١ وَالطُّوْرِ ۔ ” قسم ہے طور کی۔ “- طور عام پہاڑ کو بھی کہا جاتا ہے ‘ لیکن ” الطُّور “ سے مراد وہ خاص پہاڑ (طور ِسینین٭) ہے جس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے تھے۔
سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :1 طُور کے اصل معنی پہاڑ کے ہیں ۔ اور الطور سے مراد وہ خاص پہاڑ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو نبوت سے سرفراز فرمایا تھا ۔