اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے ان چیزوں کی قسم کھا کر جو اس کی عظیم الشان قدرت کی نشانیاں ہیں فرماتا ہے کہ اس کا عذاب ہو کر ہی رہے گا جب وہ آئے گا کسی کی مجال نہ ہو گی کہ اسے ہٹا سکے ۔ طور اس پہاڑ کو کہتے ہیں جس پر درخت ہوں جیسے وہ پہاڑ جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے کلام کیا اور جہاں سے حضرت عیسیٰ کو بھیجا تھا اور جو خشک پہاڑ ہو اسے جبل کہا جاتا ہے طور نہیں کہا جاتا آیت ( کتاب مسطور ) سے مراد یا تو لوح محفوظ ہے یا اللہ کی اتاری ہوئی لکھی ہوئی کتابیں ہیں جو انسانوں پر پڑھی جاتی ہیں اسی لئے ساتھ ہی فرما دیا کھلے ہوئے اوراق میں آیت ( بیت المعمور ) کی بابت معراج والی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ساتویں آسمان سے آگے بڑھنے کے بعد مجھے بیت المعمور دکھلایا گیا جس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے عبادت اللہ کے لئے جاتے ہیں ، دوسرے دن اتنے ہی اور لیکن جو آج گئے ان کی باری پھر قیامت تک نہیں آتی ۔ جس طرح زمین پر کعبتہ اللہ کا طواف ہوتا ہے اسی طرح آسمانیوں کے طواف کی اور عبادت کی جگہ وہ ہے ۔ اسی حدیث میں ہے کہ آپ نے اس وقت حضرت ابراہیم کو دیکھا کہ بیت العمور سے کمر لگائے بیٹھے ہیں اس میں ایک باریک نکتہ یہ ہے کہ چونکہ خلیل اللہ بانی بیت اللہ تھے جن کے ہاتھوں زمین میں کعبۃ اللہ بنا تھا تو انہیں وہاں بھی اس کے کعبے سے لگے ہوئے آپ نے دیکھا ۔ تو گویا اس عمل کی جزا اسی جیسی پروردگار نے اپنے خلیل کو دی ، یہ بیت المعمور ٹھیک خانہ کعبہ کے اوپر ہے اور ہے ساتویں آسمان پر ، یوں تو ہر آسمان میں ایک ایسا گھر ہے جہاں اس آسمان کے فرشتے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں پہلے آسمان جو اسی جگہ ہے اس کا نام بیت العزت ہے واللہ اعلم ۔ ابن ابی حاتم میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آسمان میں ایک گھر ہے جسے معمور کہتے ہیں جو کعبہ کی سمت میں ہے ، چوتھے آسمان میں ایک نہر ہے جس کا نام نہر حیوان ہے حضرت جبرائیل علیہ السلام ہر روز اس میں غوطہ لگاتے ہیں اور نکل کر بدن جھاڑتے ہیں جس سے ستر ہزار قطرے جھڑتے ہیں ایک ایک قطرے سے اللہ تعالیٰ ایک ایک فرشتہ پیدا کرتا ہے جنہیں حکم ہوتا ہے کہ وہ بیت المعمور میں جائیں اور نماز ادا کریں ، پھر وہ وہاں سے نکل آتے ہیں اب انہیں دوبارہ جانے کی نوبت نہیں آتی ، ان کا ایک سردار ہوتا ہے جسے حکم دیا جاتا ہے کہ انہیں لے کر کسی جگہ کھڑا ہو جائے پھر وہ اللہ کی تسبیح کے بیان میں لگ جاتے ہیں ، قیامت تک ان کا یہی شغل رہتا ہے ، یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اس کے راوی روح بن صباح اس میں منفرد ہیں ، حافظوں کی ایک جماعت نے ان پر ایک حدیث کا انکار کیا ہے جیسے جوزجانی عقیلی حاکم وغیرہ امام حاکم ابو عبداللہ نیشاپوری اسے بالکل بے اصل بتاتے ہیں ، حضرت علی سے ایک شخص نے پوچھا کہ بیت المعمور کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ آسمان میں ہے اسے صراح کہا جاتا ہے کعبہ کے ٹھیک اوپر ہے جس طرح زمین کا کعبہ حرمت کی جگہ ہے اسی طرح وہ آسمانوں میں حرمت کی جگہ ہے ، ہر روز اس میں ستر ہزار فرشتے نماز ادا کرتے ہیں لیکن جو آج گئے ہیں ان کی باری قیامت تک دوبارہ نہیں آتی کیونکہ فرشتوں کی تعداد ہی اس قدر ہے ، ایک روایت میں ہے یہ پوچھنے والے ابن کواء تھے ، ابن عباس سے منقول ہے کہ یہ عرش کے محاز میں ہے ایک مرفوع روایت میں ہے کہ صحابہ کو ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیت المعمور کو جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول جانتے ہیں ، فرمایا وہ آسمانی کعبہ ہے اور زمینی کعبہ کے بالکل اوپر ہے ایسا کہ اگر وہ گرے تو اسی پر گرے اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے نماز ادا کرتے ہیں جن کی باری قیامت تک پھر نہیں آتی ، حضرت ضحاک فرماتے ہیں یہ فرشتے ابلیس کے قبیلے کے جنات میں سے ہیں ، واللہ اعلم ، اونچی چھت سے مراد آسمان ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَجَعَلْنَا السَّمَاۗءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا ښ وَّهُمْ عَنْ اٰيٰـتِهَا مُعْرِضُوْنَ 32 ) 21- الأنبياء:32 ) ربیع بن انس فرماتے ہیں مراد اس سے عرش ہے اس لئے کہ وہ تمام مخلوق کی چھت ہے ، اس قول کی توجیہ اسطرح ہو سکتی ہے کہ مراد عام ہو ، آیت ( بحر مسجور سے مراد وہ پانی ہے جو عرش تلے ہے جو بارش کی طرح برسے گا جس سے قیامت کے دن مردے اپنی اپنی قبروں سے اٹھیں گے جمہور کہتے ہیں یہی دریا مراد ہیں انہیں جو ( مسجور ) کہا گیا ہے یہ اس لئے قیامت کے دن ان میں آگ لگا دی جائے گی جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ Č۽ ) 81- التكوير:6 ) جبکہ دریا بھڑکا دیئے جائیں اور ان میں آگ لگ جائے گی جو پھیل کر تمام اہل محشر کو گھیر لے گی حضرت علاء بن بدر کہتے ہیں کے بھڑکتے ہوئے دریا اس لیے کہا گیا کہ نہ اس کا پانی پینے کے کام میں آئے اور نہ کھیتی کو دیا جائے یہی حال قیامت کے دن دریاؤں کا ہو گا ، یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ دریا بہتا ہوا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دریا پرشدہ ادھر ادھر جاری ابن عباس فرماتے ہیں مسجور سے مراد فارغ یعنی خالی ہے کوئی لونڈی پانی لینے کو جائے پھر لوٹ کر کہے کہ حوض مسجور ہے اس سے مراد یہی ہے کہ خالی ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ معنی یہ ہیں کہ اسے زمین سے روک دیا گیا ہے اس لئے کہ ڈبو نہ سکے ۔ مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ہر رات تین مرتبہ دریا اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کرتا ہے کہ اگر حکم ہو تو تمام لوگوں کو ڈبو دوں لیکن اللہ تعالیٰ اسے روک دیتا ہے دوسری روایت میں ہے کہ ایک بزرگ مجاہد جو سمندر کی سرحد کے لشکروں میں تھے وہ جہاد کی تیاری میں وہیں رہتے تھے فرماتے ہیں ایک رات میں چوکیداری کے لئے نکلا اس رات کوئی اور پہرے پر نہ تھا میں گشت کرتا ہوا میدان میں پہنچا اور وہاں سے سمندر پر نظریں ڈالیں تو ایسا معلوم ہوا کہ گویا سمندر پہاڑ کی چوٹیوں سے ٹکرا رہا ہے بار بار یہی نظارہ میں نے دیکھا ۔ میں نے ابو صالح سے یہ واقعہ بیان کیا انہوں نے بہ روایت حضرت عمر بن خطاب اوپر والی حدیث مجھے سنائی لیکن اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے جس کا نام نہیں لیا گیا ان قسموں کے بعد اب جس چیز پر قسمیں کھائی گئی تھیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ کافروں کو جو عذاب الہیہ ہونے والا ہے وہ یقینی طور پر آنے والا ہی ہے جب وہ آئے گا کسی کے بس میں اس کا روکنا نہ ہو گا ابن ابی الدنیا میں ہے کہ ایک رات حضرت عمر فاروق شہر کی دیکھ بھال کے لئے نکلے تو ایک مکان سے کسی مسلمان کی قرآن خوانی کی آواز کان میں پڑی وہ سورہ والطور پڑھ رہے تھے ، آپ نے سواری روک لی اور کھڑے ہو کر قرآن سننے لگے جب وہ اس آیت پر پہنچے تو زبان سے نکل گیا کہ رب کعبہ کی قسم سچی ہے پھر اپنے گدھے سے اتر پڑے اور دیوار سے تکیہ لگا کر بیٹھ گئے چلنے پھرنے کی طاقت نہ رہی دیر تک بیٹھے رہنے کے بعد جب ہوش و حواس ٹھکانے آئے وہ اپنے گھر پہنچے لیکن اللہ کے کلام کی اس ڈراؤنی آیت کے اثر سے دل کی کمزوری کی یہ حالت تھی کہ مہینہ بھر تک بیمار پڑے رہے اور ایسے کہ لوگ بیمار پرسی کو آتے تھے گو کسی کو معلوم نہ تھا کہ بیماری کیا ہے ؟ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ایک روایت میں ہے آپ کی تلاوت میں ایک مرتبہ یہ آیت آئی اسی وقت ہچکی بندھ گئی اور اس قدر قلب پر اثر پڑا کہ بیمار ہو گئے چنانچہ بیس دن تک عیادت کی جاتی رہی ۔ اس دن آسمان تھر تھرائے گا پھٹ جائے گا چکر کھانے لگے گا پہاڑ اپنی جگہ سے ہل جائیں گے ہٹ جائیں گے ادھر کے ادھر ہو جائیں گے کانپ کانپ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر پھر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے آخر روئی کے گالوں کی طرح ادھر ادھر اتر جائیں گے اور بےنام و نشان ہو جائیں گے اس دن ان لوگوں پر جو اس دن کو نہ مانتے تھے ویل وحسرت خرابی ہلاکت ہو گی اللہ کا عذاب فرشتوں کی مار جہنم کی آگ ان کے لئے ہو گی جو دنیا میں مشغول تھے اور دین کو ایک کھیل تماشہ مقرر کر رکھا تھا اس دن انہیں دھکے دے کر نار جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا اور داروغہ جہنم ان سے کہے گا کہ یہ وہ جہنم ہے جسے تم نہیں مانتے تھے پھر مزید ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر کہیں گے اب بولو کیا یہ جادو ہے یا تم اندھے ہو ؟ جاؤ اس میں ڈوب جاؤ یہ تمہیں چاروں طرف سے گھیر لے گی اب اس کے عذاب کی تمہیں سہارا ہو یا نہ ہو ہائے وائے کرو خواہ خاموش رہو اسی میں پڑے جھلستے رہو گے کوئی ترکیب فائدہ نہ دے گی کسی طرح چھوٹ نہ سکو گے یہ اللہ کا ظلم نہیں بلکہ صرف تمہارے اعمال کا بدلہ ہے ۔
2۔ 1 مَسْطُوْرِ کے معنی ہیں مکتوب، لکھی ہوئی چیز۔ اس کا مصداق مختلف بیان کئے گئے ہیں۔ قرآن مجید، لوح محفوظ، تمام کتب منزلہ یا انسانی اعمال نامے جو فرشتے لکھتے ہیں۔
(وکتب مسطور ، فی رق منشور :” مسطور “ ترتیب اور خوبصورتی کے ساتھ سطر میں لکھی ہوئی کتاب۔ ” رق “ کا مادہ رقت اور باریکی کے لئے استعمال ہوتا ہے، مراد باریک چمڑا یا جھلی ہے جو مضبوط اور دیرپا ہونے کی وجہ سے لکھنے کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ کاغذ یا کسی طرح کا باریک ورق بھی ” رق “ ہے۔ ” منشور “ کھلا ہوا، جسے کھول کر پڑھا جاسکے۔ اس ” کتاب مسطور “ کے متعلق مفسرین کے متعدد اقوال ہیں، لوح محفوظ، اعمال نامے، تورات، آسمانی کتابیں اور قرآن مجید وغیرہ۔ لفظ عام ہونے کی وجہ سے ” کتاب مسطور “ میں یہ تمامم کتابیں اور انسان، جن یا فرشتے جو کچھ لکھتے ہیں وہ سب کچھ شامل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لکھنا اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے بہت بڑی نشانی ہے، خواہ اس نے خود لکھا ہو، جیسے لوح محفوظ ہے ، یا اس کے فرشتوں نے لکھا ہو، جیسے نامہ ہائے اعمال ہیں، یا اس کے سکھانے سے انسانوں نے لکھا ہو۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے ” اکرم “ ہونے کا ذکر لکھنے کی تعلیم دینے کے حوالے سے فرمایا :(اقرا و ربک الاکرم، الذی علم بالقلم) (العلق : ٣، ٣)” پڑھ اور تیرا رب ہی سب سے زیادہ کرم والا ہے۔ وہ جس نے قلم کے ساتھ سکھایا۔ “ اور سورة قلم میں تمام لکھنے والوں کی لکھی ہوئی تحریروں کو شاہد کے طور پر پیش کرنے کے لئے ان کی قسم کھائی، جیسا کہ فرمایا :(ن و القلم وما یسطرون) (اقلم : ١)” ن۔ قسم ہے قلم کی اور اس کے جو وہ لکھتے ہیں “ یہاں قیامت کے قیام اور اس میں عذاب واقع ہونے کا ایک شاہد ” کتاب مسطور “ کو قرار دیا ہے۔
وَكِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ فِيْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ ، لفظ رق دراصل پتلی باریک کھال کے لئے بولا جاتا ہے، جو لکھنے کے واسطے کاغذ کی جگہ بنائی جاتی تھی، مراد اس سے وہ چیز ہے جس پر لکھا گیا ہو، اس لئے اس کا ترجمہ کاغذ سے کردیا جاتا ہے اور کتاب مسطور سے مراد تو انسان کا نامہ اعمال ہے جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں لکھا گیا ہے اور بعض مفسرین نے اس سے مراد قرآن کریم قرار دیا ہے (قرطبی )
وَكِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ ٢ ۙ- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - سطر - السَّطْرُ والسَّطَرُ : الصّفّ من الکتابة، ومن الشّجر المغروس، ومن القوم الوقوف، وسَطَّرَ فلان کذا : كتب سطرا سطرا، قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] ، وقال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] ، وقال : كانَ ذلِكَ فِي الْكِتابِ مَسْطُوراً [ الإسراء 58] ، أي : مثبتا محفوظا، وجمع السّطر أَسْطُرٌ ، وسُطُورٌ ، وأَسْطَارٌ ، قال الشاعر :- 233-- إنّي وأسطار سُطِرْنَ سطرا«6» وأما قوله : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام 24] ، فقد قال المبرّد : هي جمع أُسْطُورَةٍ ، نحو : أرجوحة وأراجیح، وأثفيّة وأثافي، وأحدوثة وأحادیث . وقوله تعالی: وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] ، أي : شيء کتبوه کذبا ومینا، فيما زعموا، نحو قوله تعالی: أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان 5]- ( س ط ر ) السطر - والسطر قطار کو کہتے ہیں خواہ کسی کتاب کی ہو یا درختوں اور آدمیوں کی ۔ اور سطر فلان کذا کے معنی ایک ایک سطر کر کے لکھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] ن قلم کی اور جو ( اہل قلم ) لکھتے ہیں اس کی قسم ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] اور کتابت جو لکھی ہوئی ہے ۔ یہ حکم کتاب ( یعنی قرآن میں لکھ دیا گیا ہے ۔ یعنی غفو ذا اور ثابت ہے ۔ اور سطر کی جمع اسطر وسط ور واسطار ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ( 227 ) انی واسطار سطرن سطرا یعنی قسم ہے قرآن کی سطروں کی کہ میں اور آیت کریمہ : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام 24] پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ۔ میں مبرد نے کہا ہے کہ یہ اسطرۃ کی جمع ہے جیسے ارجوحۃ کی جمع اراجیع اور اثقیۃ کی جمع اثانی اور احد وثہ کی احادیث آتی ہے ۔ اور آیت : ۔ وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] اور جب ان ( کافروں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہے ۔ تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں یعنی انہوں نے بزعم خود یہ کہا کہ یہ جھوٹ موٹ کی لکھی ہوئی کہانیاں ہیں جیسا کہ دوسری جگہ ان کے قول کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان 5] اور کہتے ہیں کہ یہ ( پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جن کو اس نے جمع کر رکھا ہے وہ صبح وشام ان کو پڑھو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ۔
(٢۔ ٣) اور قسم ہے اس کتاب یعنی لوح محفوظ کی جس میں انسانوں کے اعمال لکھے ہوئے ہیں اور قسم ہے لکھے ہوئے نامہ اعمال کی جس کو ہر ایک انسان قیامت کے دن پڑھے گا اور وہ اس کے سامنے کھلا ہوا ہوگا۔
آیت ٢ وَکِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ ۔ ” اور اس کتاب کی قسم جو لکھی ہوئی ہے۔ “- اس بارے میں غالب گمان یہی ہے کہ اس سے مراد تورات ہے ‘ کیونکہ تورات پتھر کی تختیوں پر لکھی ہوئی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کی گئی تھی ‘ جبکہ قرآن قلب ِمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر براہ راست نازل ہوا تھا۔