Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 رق یہ متعلق ہے مَسْطُورِ کے۔ رَقِ وہ باریک چمڑا جس پر لکھا جاتا تھا۔ منشور بمعنی مبسوط پھیلا یا کھلا ہوا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] رق کا لغوی مفہوم :۔ رَقِّ بمعنی پتلا اور نرم ہونا اور رق ہر وہ چیز ہے جو پتلی اور نرم ہو۔ مثلاً درختوں کے پتے جھلی، پتلا چمڑہ اور کاغذ وغیرہ (مفردات) اور کتب سماویہ عموماً جھلی اور پتلے چمڑے پر لکھے جاتی تھیں۔ تاکہ امتداد زمانہ کا ساتھ دے سکیں اور خراب نہ ہوں۔ اور نشر کے معنی کھولنا بھی ہے اور پھیلانا بھی۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب ہوگا وہ کتاب جس کے صفحات کھلے ہوئے ہیں، کہتے ہیں نَشَرْتُ الْکِتَابَ ثُمَّ طَوَیْتُہ، میں نے کتاب کھولی پھر بند کردی اور اس سے مراد کوئی بھی آسمانی کتاب ہوسکتی ہے بلکہ لوح محفوظ بھی اور ربط مضمون یا طور کے ذکر کے لحاظ سے تورات کی تختیاں بھی۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے اس سے مراد اہل کتاب کی کتابوں کا وہ مجموعہ ہے جو دور نبوی میں بھی دستیاب تھا، نایاب نہیں تھا اور لوگوں میں معروف و مشہور تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فِيْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ۝ ٣ ۙ- رق - الرِّقَّةُ : کالدّقّة، لکن الدقّة تقال اعتبارا بمراعاة جوانبه، والرِّقَّةُ اعتبارا بعمقه . فمتی کانت الرّقّة في جسم تضادّها الصّفاقة، نحو : ثوب رَقِيقٍ وصفیق، ومتی کانت في نفس تضادّها الجفوة والقسوة، يقال : فلان رَقِيقُ القلب، وقاسي القلب . والرَّقُّ : ما يكتب فيه، شبه الکاغد، قال تعالی: فِي رَقٍّ مَنْشُورٍ [ الطور 3] ، وقیل لذکر السّلاحف : رِقٌّ ، والرِّقُّ : ملک العبید .- والرَّقِيقُ : المملوک منهم، وجمعه أَرِقَّاءُ ، واسْتَرَقَّ فلان فلانا : جعله رقیقا . والرَّقْرَاقُ : تَرَقْرُقُ الشّراب، والرَّقْرَاقَةُ : الصافية اللون . والرَّقَّةُ : كلّ أرض إلى جانبها ماء، لما فيها من الرّقّة بالرّطوبة الواصلة إليها . وقولهم : أعن صبوح تُرَقِّقُ أي : تلین القول .- ( ر ق ق ) الرقۃ ( باریکی ) اور دقۃ کے ایک ہی معنی ہیں ۔ لیکن رقۃ بلحاظ کناروں کی باریکی کے استعمال ہوتا ہے اور دقۃ بلحاظ عمق کے بولا جاتا ہے ۔ پھر اگر رقت کا لفظ اجسام کے متعلق استعمال ہو تو اس کی ضد صفاقت آتی ہے جیسے ثوب رقیق ( باریک کپڑا ) اور ثوب صفیق ( موٹا کپڑا ) اور دل کے متعلق استعمال ہو تو اس کی ضد قساوت اور جفاء آتی ہے مثلا نرم دل کے متعلق کہا جاتا ہے۔ فلاں رقیق القلب اور اس کے بالمقابل سخت دل آدمی کو قاسی القلب کہتے ہیں ۔ الرق ۔ کاغذ کی طرح کی کوئی چیز جس پر لکھا جائے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فِي رَقٍّ مَنْشُورٍ [ الطور 3] ( اور چوڑے چکلے ) کاغذ پر لکھی ہوئی ( کتاب کی قسم ہے ) اور نیز نر کچھوے کو بھی رق کہا جاتا ہے ۔ الرق کے معنی غلاموں کا مالک ہونے کے ہیں ۔ اسی سے مملوک غلام کو رقیق کہا جاتا ہے اس کی جمع ارقاء آتی ہے اور استرق فلان فلانا کے معنی کسی کو غلام بنانے کے ہیں ۔ الرقراق شراب کی چمک دمک کو کہتے ہیں اور رقرقۃ کے معنی شفاف شراب کے ہیں نیز ہر وہ قطعہ زمین پانی سے متصل ہو اسے رقۃ کہا جاتا ہے کیونکہ مرطوب ہونے کی وجہ سے وہ نرم رہتی ہے مثال مشہور ہے أعن صبوح تُرَقِّقُ : کیا تمہارا اشارہ صبح کی شراب سے ہے ۔ یہ حسن طلب کے موقع پر بولا جاتا ہے ۔- نشر - النَّشْرُ ، نَشَرَ الثوبَ ، والصَّحِيفَةَ ، والسَّحَابَ ، والنِّعْمَةَ ، والحَدِيثَ : بَسَطَهَا . قال تعالی: وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير 10] ، وقال : وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف 57] «2» ، وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ [ الشوری 28] ، وقوله : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً- [ المرسلات 3] أي : الملائكة التي تَنْشُرُ الریاح، أو الریاح التي تنشر السَّحابَ ، ويقال في جمع النَّاشِرِ : نُشُرٌ ، وقرئ : نَشْراً فيكون کقوله :«والناشرات» ومنه : سمعت نَشْراً حَسَناً. أي :- حَدِيثاً يُنْشَرُ مِنْ مَدْحٍ وغیره، ونَشِرَ المَيِّتُ نُشُوراً. قال تعالی: وَإِلَيْهِ النُّشُورُ- [ الملک 15] ، بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان 40] ، وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلانُشُوراً [ الفرقان 3] ، وأَنْشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ فَنُشِرَ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ- [ عبس 22] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] وقیل : نَشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ وأَنْشَرَهُ بمعنًى، والحقیقة أنّ نَشَرَ اللَّهُ الميِّت مستعارٌ من نَشْرِ الثَّوْبِ. كما قال الشاعر :- 440-- طَوَتْكَ خُطُوبُ دَهْرِكَ بَعْدَ نَشْرٍ ... كَذَاكَ خُطُوبُهُ طَيّاً وَنَشْراً- «4» وقوله تعالی: وَجَعَلَ النَّهارَ نُشُوراً [ الفرقان 47] ، أي : جعل فيه الانتشارَ وابتغاء الرزقِ كما قال : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص 73] ، وانْتِشَارُ الناس : تصرُّفهم في الحاجاتِ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم 20] ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب 53] ، فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة 10] وقیل : نَشَرُوا في معنی انْتَشَرُوا، وقرئ : ( وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة 11] «1» أي : تفرّقوا . والانْتِشَارُ : انتفاخُ عَصَبِ الدَّابَّةِ ، والنَّوَاشِرُ : عُرُوقُ باطِنِ الذِّرَاعِ ، وذلک لانتشارها، والنَّشَرُ : الغَنَم المُنْتَشِر، وهو للمَنْشُورِ کالنِّقْضِ للمَنْقوض، ومنه قيل : اکتسی البازي ريشا نَشْراً. أي : مُنْتَشِراً واسعاً طویلًا، والنَّشْرُ : الكَلَأ الیابسُ ، إذا أصابه مطرٌ فَيُنْشَرُ. أي : يَحْيَا، فيخرج منه شيء كهيئة الحَلَمَةِ ، وذلک داءٌ للغَنَم، يقال منه :- نَشَرَتِ الأرضُ فهي نَاشِرَةٌ. ونَشَرْتُ الخَشَبَ بالمِنْشَارِ نَشْراً اعتبارا بما يُنْشَرُ منه عند النَّحْتِ ، والنُّشْرَةُ : رُقْيَةٌ يُعَالَجُ المریضُ بها .- ( ن ش ر )- النشر کے معنی کسی چیز کو پھیلانے کے ہیں یہ کپڑے اور صحیفے کے پھیلانے ۔ بارش اور نعمت کے عام کرنے اور کسی بات کے مشہور کردیتے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير 10] اور جب دفتر کھولے جائیں گے ۔ وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف 57] اور وہی تو ہے جو لوگوں کے ناامیدہو جانیکے بعد مینہ برساتا اور اپنی رحمت ( یعنی بارش کے برکت ) کو پھیلا دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات 3] اور بادلوں کو ( بھاڑ ) ( پہلا دیتی ہے ۔ میں ناشرات سے مراد وہ فرشتے ہن جو ہواؤں کے پھیلاتے ہیں یا اس سے وہ ہوائیں مراد ہیں جو بادلون کو بکھیرتی ہیں ۔ چناچہ ایک قرات میں نشرابین یدی رحمتہ بھی ہے جو کہ وہ الناشرات کے ہم معنی ہے اور اسی سے سمعت نشرا حسنا کا محاورہ ہے جس کے معنی میں نے اچھی شہرت سنی ۔ نشرالمیت نشودا کے معنی ہیت کے ( ازسرنو زندہ ہونے کے ہیں ) چناچہ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک 15] اسی کے پاس قبروں سے نکل کر جانا ہے بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان 40] بلکہ ان کو مرنے کے بعد جی اٹھنے کی امیدہی نہیں تھی ۔ وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے ۔ اور نہ جینا اور نہ مرکراٹھ کھڑے ہونا ۔ انشر اللہ المیت ک معنی میت کو زندہ کرنے کے ہیں۔ اور نشر اس کا مطاوع آتا ہے ۔ جس کہ معنی زندہ ہوجانے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس 22] پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ بعض نے کہا ہے ک نشر اللہ المیت وانشرہ کے ایک ہی معنی میں ۔ لیکن درحقیقت نشر اللہ المیت نشرالثوب کے محاورہ سے ماخوذ ہے شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (425) طوتک خطوب دھرک بعد نشر کذاک خطوبہ طیا ونشرا تجھے پھیلانے کے بعد حوادث زمانہ نے لپیٹ لیا اس طرح حوادث زمانہ لپیٹنے اور نشر کرتے رہتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] اور دن کو اٹھ کھڑا ہونے کا وقت ٹھہرایا ۔ میں دن کے نشوربنانے سے مراد یہ ہے کہ اس کا روبار کے پھیلانے اور روزی کمانے کے لئے بنایا ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص 73] اور اس نے رحمت سے تمہارے لئے رات کو اور دن کو بنایا ۔ تاکہ تم اس میں آرام کرو اور اس میں اس کا فضل تلاش کرو ۔ اور انتشارالناس کے معنی لوگوں کے اپنے کاروبار میں لگ جانے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم 20] پھر اب تم انسان ہوکر جابجا پھیل رہے ہو ۔ فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب 53] تو جب کھانا کھا چکو تو چل دو ۔ فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة 10] پھر جب نماز ہوچکے تو اپنی اپنی راہ لو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ نشروا بمعنی انتشروا کے آتا ہے۔ چناچہ آیت کریمہ : وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة 11] اور جب کہاجائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑا ہوا کرو ۔ میں ایک قراءت فاذا قیل انشروافانشروا بھی ہے ۔ یعنی جب کہاجائے کہ منتشر ہوجاؤ تو منتشر ہوجایا کرو ۔ الانتشار کے معنی چوپایہ کی رگوں کا پھول جانا ۔۔ بھی آتے ہیں ۔ اور نواشر باطن ذراع کی رگوں کو کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بدن میں منتشر ہیں ۔ النشر ( ایضا) پھیلنے والے بادل کو کہتے ہیں ۔ اور یہ بمعنی منشور بھی آتا ہے جیسا کہ نقض بمعنی منقوض آجاتا ہے اسی سے محاورہ ہے ؛اکتسی البازی ریشا نشرا ۔ یعنی باز نے لمبے چوڑے پھیلنے والے پروں کا لباس پہن لیا ۔ النشر ( ایضا) خشک گھاس کو کہتے ہیں ۔ جو بارش کے بعد سرسبز ہوکر پھیل جائے اور اس سے سر پستان کی سی کونپلیں پھوٹ نکلیں یہ گھاس بکریوں کے لئے سخت مضر ہوتی ہے ۔ اسی سے نشرت الارض فھی ناشرۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی زمین میں نشر گھاس پھوٹنے کے ہیں ۔ شرت الخشب بالمنشار کے معنی آرے سے لکڑی چیرنے کے ہیں ۔ اور لکڑی چیر نے کو نشر اس لئے کہتے ہیں کہ اسے چیرتے وقت نشارہ یعنی پر ادہ پھیلتا ہے ۔ اور نشرہ کے معنی افسوں کے ہیں جس سے مریض کا علاج کیا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ ۔ ” کشادہ ورق میں۔ “- یعنی وہ تختیاں خوب کشادہ تھیں جن پر تورات کی عبارت تحریر تھی۔ گویا یہ تین قسمیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات سے متعلق ہیں۔ کو ہِ طور پر آپ (علیہ السلام) کو مکالمہ الٰہی سے سرفراز فرمایا گیا اور آپ (علیہ السلام) کو ایک ایسی کتاب عطا کی گئی جو کشادہ تختیوں پر لکھی ہوئی تھی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :2 قدیم زمانے میں جن کتابوں اور تحریروں کو زمانہ دراز تک محفوظ رکھنا ہوتا تھا انہیں کاغذ کے بجائے ہرن کی کھال پر لکھا جاتا تھا ۔ یہ کھال خاص طور پر لکھنے ہی کے لیے رقیق جلد یا جھلی کی شکل میں تیار کی جاتی تھی اور اصطلاح میں اسے رَقّ کہا جاتا تھا ۔ اہل کتاب بالعموم توراۃ ، زَبور ، انجیل اور صُحُف انبیاء کو اسی رَقّ پر لکھا کرتے تھے تاکہ طویل مدت تک محفوظ رہ سکیں ۔ یہاں کھلی کتاب سے مراد یہی مجموعہ کتب مقدسہ ہے جو اہل کتاب کے ہاں موجود تھا ۔ اسے کھلی کتاب اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ نایاب نہ تھا ، پڑھا جاتا تھا ، اور بآسانی معلوم کیا جا سکتا تھا کہ اس میں کیا لکھا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani