Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 یہ بیت معمور، ساتویں آسمان پر وہ عبادت خانہ ہے جس میں فرشتے عبادت کرتے ہیں، یہ عبادت خانہ فرشتوں سے اس طرح بھرا ہوتا ہے کہ روزانہ اس میں ستر ہزار فرشتے عبادت کے لئے آتے ہیں جن کی پھر دوبارہ قیامت تک باری نہیں آتی۔ جیسا کہ احادیث معراج میں بیان کیا گیا۔ بعض بیت معمور سے خانہ کعبہ مراد لیتے ہیں۔ جو عبادت کے لیے آنے والے انسانوں سے ہر وقت بھرا رہتا ہے معمور کے معنی ہی آباد اور بھرے ہوئے کے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] بیت المعمور کونسا گھر ہے ؟ یعنی ہر وقت آباد رہنے والا گھر۔ اس سے مراد خانہ کعبہ ہے۔ جو ہر وقت حج وعمرہ اور طواف اور عبادت کرنے والوں سے بھرا رہتا ہے اور کبھی خالی نہیں ہوتا۔ نیز اس سے مراد ساتویں آسمان پر فرشتوں کی وہ عبادت گاہ بھی ہے جو خانہ کعبہ کے عین سیدھ میں واقع ہے۔ رسول اللہ کو شب معراج میں جب آسمانوں کی سیر کرائی گئی تو آپ نے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو اسی گھر کی دیوار سے ٹیک لگائے دیکھا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(والبیت المعمور : آباد گھر۔ اس کے متعلق بھی مفسرین کے مختلف اقوال ہیں بعض نے فرمایا، اس سے مراد حدیث میں مذکور ساتویں آسمان پر موجود ایک مکان ہے۔ انس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :(ثم عرج بنا الی السماء السابعۃ فاستفتح جبریل فقیل من ھذا ؟ قابل جبریل، قبل و من معک ؟ قال محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، قیل وقد بعث الیہ ؟ قال قد بعث الیہ، فتح لنا فاذا انا ابراہیم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسنداً ظھرہ الی البیت المعمور واذا ھو یدخلہ کل یوم سبعون الف ملک لایعودون الیہ) (مسلم، الایمان، باب الاسراء برسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الی السموات…: ١٦٢)” پھر ہمارے ساتھ ساتویں آسمان کی طرف چڑھے تو جبریل نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا، کہا گیا :” کون ہے ؟ “ کہا :” جبریل ہوں۔ “ کہا گیا :’ اور آپ کیساتھ کون ہے ؟ “ کہا :” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ “ کہا گیا :” کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے ؟ “ کہا :” ہاں، پیغام بھیجا گیا ہے۔ “ تو ہمارے لئے دروازہ کھول دیا گیا تو میں نے ابراہیم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ وہ اپنی پیٹھ کی ٹیک بیت المعمور (آباد گھر) کے ساتھ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے اور اس گھر میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں، (اور جو ایک دفعہ داخل ہوجاتے ہیں وہ) پھر دوبارہ کبھی اس میں داخل نہیں ہوتے۔ “- بعض مفسرین نے فرمایا اس سے مراد کعبہ ہے جو ہر وقت عمرہ، حج ، قیام اور طواف کرنے والوں کے ساتھ آباد رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ” البیت المعمور “ کے لفظ میں ان دونوں عظیم الشان گھروں کے علاوہ ہر آباد گھر بھی شامل ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی زبردست قدرت کا کھلا نشان ہے کہ اس نے زمین کے ہر حصے کو آباد کردیا ہے۔ شہروں، بستیوں ، میدانوں، صحراؤں، پہاڑوں، سمندروں غرض زمین کے جس حصے کو دیکھو وہیں آباد نظر آئے گی۔ حتی کہ قطب شمالی، جہاں ہر طرف برف ہی برف ہے، وہاں بھی آباید ملے گی۔ یعنی یہ آباد گھر (زمین) شاہد ہے کہ جس نے ابتداء اتنی آبادی پھیلا دی ہے جب کچھ بھی نہیں تھا، تو وہ انہیں دوبارہ زندہ کر کے مجرموں کو عذاب دے سکتا ہے اور یقیناً دے گا، کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو انسان کو پیدا کرنا بےمقصد ٹھہرتا ہے، جبکہ ایسا نہیں، فرمایا :(ایحسب الانسان انی ترک سدی) (القیامۃ : ٣٦)” کیا انسان گمان کرتا ہے کہ اسے بغیر پوچھے ہی چھوڑ دیا جائے گا ؟ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

آسمانی کعبہ بیت معمور :- وَّالْبَيْتِ الْمَعْمُوْرِ ، بیت معمور آسمان میں فرشتوں کا کعبہ ہے، دنیا کے کعبہ کے بالمقابل ہے، صحیحین کی احادیث میں ثابت ہے کہ شب معراج رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ساتویں آسمان پر پہنچے تو آپ کو بیت معمور کی طرف لے جایا گیا جس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے عبادت کے لئے داخل ہوتے ہیں، پھر کبھی ان کو دوبارہ یہاں پہنچنے کی نوبت نہیں آتی ( کیونکہ ہر روز دوسرے نئے فرشتوں کا نمبر ہوتا ہے) ابن کثیر - بیت معمور ساتویں آسمان کے رہنے والے فرشتوں کا کعبہ ہے، اسی لئے شب معراج میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بیت معمور پر پہنچے تو دیکھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) اس کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں چونکہ وہ دنیا کے کعبہ کے بانی تھے، اللہ تعالیٰ نے اس کی جزا میں آسمان کے کعبہ سے بھی ان کا خاص تعلق قائم کردیا (ابن کثیر)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّالْبَيْتِ الْمَعْمُوْرِ۝ ٤ ۙ - بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - عمر - العِمَارَةُ : نقیض الخراب : يقال : عَمَرَ أرضَهُ :- يَعْمُرُهَا عِمَارَةً. قال تعالی: وَعِمارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ [ التوبة 19] . يقال : عَمَّرْتُهُ فَعَمَرَ فهو مَعْمُورٌ. قال : وَعَمَرُوها أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوها [ الروم 9] ، وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ [ الطور 4] ، وأَعْمَرْتُهُ الأرضَ واسْتَعْمَرْتُهُ : إذا فوّضت إليه العِمَارَةُ ، قال : وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيها[هود 61] .- ( ع م ر ) العمارۃ - یہ خراب کی ضد ہے عمر ارضہ یعمرھا عمارۃ اس نے اپنی زمین آباد کی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَعِمارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ [ التوبة 19] اور مسجد محترم ( یعنی خانہ کعبہ ) کو آباد کرنا ۔ کہا جاتا ہے ۔ عمرتہ میں نے اسے آباد کیا ۔ معمر چناچہ وہ آباد ہوگئی اور آباد کی ہوئی جگہ کو معمور کہا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔- وَعَمَرُوها أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوها [ الروم 9] اور اس کو اس سے زیادہ آباد کیا تھا جو انہوں نے کیا ۔ وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ [ الطور 4] اور آباد کئے ہوئے گھر کی ۔ اعمر تہ الارض واستعمرتہ میں نے اسے آباد کرنے کے لئے زمین دی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيها[هود 61] اور اس نے آباد کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤۔ ٥) اور قسم ہے بیت المعمور کی وہ ساتویں آسمان پر بیت اللہ کے محاذ میں فرشتوں کی عبادت گاہ اور ان کا حرم ہے اس کے اور بیت اللہ کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جیسا کہ ساتویں زمین کی تہہ تک اور اس میں ستر ہزار فرشتے یومیہ داخل ہوتے ہیں اور جو ایک بار داخل ہوچکے ان کی پھر کبھی باری نہیں آئے گی اور یہ وہ گھر ہے جس کی حضرت آدم نے تعمیر فرمائی تھی اور پھر طوفان کے ذریعے ساتویں آسمان کی طرف اسے اٹھالیا گیا تھا اور اسے صراح بھی کہتے ہیں اور قسم ہے آسمان کی جو کہ ہر چیز سے بلند ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ وَّالْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ ۔ ” اور قسم ہے آباد گھر کی ۔ “- ” البَیْتِ الْمَعْمُوْر “ سے بعض مفسرین بیت اللہ مراد لیتے ہیں کہ اس میں طواف اور عبادت کے لیے ہر وقت لوگ موجود رہتے ہیں۔ بعض دوسرے مفسرین کی رائے میں اس سے مراد خانہ کعبہ کے عین اوپر ساتویں آسمان میں فرشتوں کا کعبہ ہے جو ہر وقت ” معمور “ رہتا ہے ‘ جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔ اس کے علاوہ بعض مفسرین کی رائے میں اس سے دنیا مراد ہے جو طرح طرح کی مخلوق سے معمور ہے اور مجھے ذاتی طور پر اس رائے سے اتفاق ہے۔ اس لیے کہ بعد والی قسم اسی مفہوم سے مناسبت رکھتی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :3 آباد گھر سے مراد حضرت حسن بصری کے نزدیک بیت اللہ ، یعنی خانہ کعبہ ہے جو کبھی حج اور عمرہ اور طواف و زیارت کرنے والوں سے خالی نہیں رہتا ۔ اور حضرت علی ، ابن عباس ، عِکرِمہ ، مجاہد ، قَتَادہ ، ضحّاک ، ابن زَید اور دوسرے مفسرین اس سے مراد وہ بیتِ معمور لیتے ہیں جس کا ذکر معراج کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ، جس کی دیوار سے آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ٹک لگائے دیکھا تھا ۔ مجاہد ، قتادہ اور ابن زید کہتے ہیں کہ جس طرح خانہ کعبہ اہل زمین کے لیے خدا پرستوں کا مرکز و مرجع ہے ، اسی طرح ہر آسمان میں اس کے باشندوں کے لیے ایسا ہی ایک کعبہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کے لیے ایسی ہی مرکزیت رکھتا ہے ۔ ان ہی میں سے ایک کعبہ وہ تھا جس کی دیوار سے ٹیک لگائے حضرت ابراہیم علیہ السلام معراج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر آئے تھے ، اور اس سے حضرت ابراہیم کی مناسبت فطری تھی کیونکہ آپ ہی زمین والے کعبہ کے بانی ہیں ۔ اس تشریح کو نگاہ میں رکھا جائے تو یہ دوسری تفسیر حضرت حسن بصری کی تفسیر کے خلاف نہیں پڑتی ، بلکہ دونوں کو ملا کر ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں قَسم صرف زمین ہی کے کعبہ کی نہیں کھائی گئی ہے بلکہ اس میں ان تمام کعبوں کی قَسم بھی شامل ہے جو ساری کائنات میں موجود ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani