Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 الدَّعُّ کے معنی ہیں نہایت سختی کے ساتھ دھکیلنا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠] دعَّ بمعنی دھکے مار کر نکال دینا۔ سختی سے رفع کرنا (فقہ اللغۃ) یعنی کافر جہنم کی طرف جانے کو تیار نہ ہوں گے تو انہیں دھکے مار مار کر جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یوم یدغون الی نار جھنم دعا :”’ ع یدع “ سختی کے ساتھ دھکیلنا۔”’ غا “ مصدر مجہول برائے تاکید ہے، بری طرح دھکیلا جانا۔ یعنی فرشتے انہیں نہایت سختی کے ساتھ بری طرح دھکیلتے ہوئے جہنم کی آگ کی طرف لے جائیں گے۔ مزید دیکھیے سورة دخان (٤٧) ، رحمان (٤١) ، قمر (٤٨) اور سورة مومن (٧٠ تا ٧٢) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ يُدَعُّوْنَ اِلٰى نَارِ جَہَنَّمَ دَعًّا۝ ١٣ ۭ- دع - الدَّعُّ : الدفع الشدید وأصله أن يقال للعاثر : دع دع، كما يقال له : لعا، قال تعالی: يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلى نارِ جَهَنَّمَ دَعًّا[ الطور 13] ، وقوله : فَذلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ [ الماعون 2] ، قال الشاعر : دَعَّ الوصيّ في قفا يتيمه - ( د ع ع ) الدع ۔ کے معنی سختی کے ساتھ دھکا دینے کے ہیں ۔ اصل میں یہ کلمہ زجر ہے جس طرح پھسلنے والے کو ( بطور دعا لعا کہا جاتا ہے ۔ اسیطرح دع دع بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں : ۔ يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلى نارِ جَهَنَّمَ دَعًّا[ الطور 13] جس دن وہ آتش جہنم کی طرف نہایت سختی سے دھکیلے جائیں گے ۔ فَذلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ [ الماعون 2] یہ وہی ( بدبخت ) ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے شاعر نے کہا ہے جیسا کہ وحی یتیم کی گدی پر گھونسا مارتا اور اسے دھکے دیتا ہے ۔- إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام - ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

جس روز کہ ان کو جہنم کی طرف دھکے دے دے کر لائیں گے فرشتے ان کو دھکے دیں گے اور ان کے منہ کے بل ان کو دوزخ کی طرف گھسیٹیں گے اور ان سے زبانیہ فرشتے کہیں گے کہ یہ وہی دوزخ ہے جس کا تم دنیا میں انکار کیا کرتے تھے تو کیا یہ دن اور یہ عذاب بھی سحر کیونکہ تم دنیا میں انبیاء کرام (علیہم السلام) کو ساحر کہتے تھے یا تم اب بھی نہیں سمجھ رہے۔- پھر ارشاد خداوندی ہوگا اچھا تو اب دوزخ میں داخل ہوجاؤ پھر خواہ اس عذاب کو سہو یا نہ سہو کیونکہ خاموشی سے سہنا اور شور مچانا دونوں تمہارے حق میں برابر ہیں اور تم دنیا میں جیسا کرتے اور کہتے تھے ویسا ہی تمہیں بدلہ دیا جائے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ یَوْمَ یُدَعُّوْنَ اِلٰی نَارِ جَہَنَّمَ دَعًّا ۔ ” جس دن ان کو دھکے دے دے کر جہنم کی طرف دھکیلاجائے گا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani