Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

طے شدہ بدنصیب اور نشست وبرخواست کے آداب مشرکوں اور کافروں کے عناد کا بیان ہو رہا ہے کہ یہ اپنی سرکشی ضد اور ہٹ دھرمی میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اللہ کے عذاب کو محسوس کر لینے کے بعد بھی انہیں ایمان کی توفیق نہ ہو گی یہ اگر دیکھ لیں گے کہ آسمان کا کوئی ٹکڑا اللہ کا عذاب بن کر ان کے سروں پر گر رہا ہے تو بھی انہیں تصدیق ویقین نہ ہو گا بلکہ صاف کہدیں گے کہ غلیظ ابر ہے جو پانی برسانے کو آرہا ہے ۔ جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَظَلُّوْا فِيْهِ يَعْرُجُوْنَ 14۝ۙ ) 15- الحجر:14 ) ، اگر ہم ان کے لئے آسمان کا کوئی دروازہ بھی کھول دیں اور یہ وہاں چڑھ جائیں تب بھی یہ تو یہی کہیں گے کہ ہماری آنکھیں باندھ دی گئی ہیں بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے یعنی معجزات جو یہ طلب کر رہے ہیں اگر ان کی چاہت کے مطابق ہی دکھا دئیے جائیں بلکہ خود انہیں آسمانوں پر چڑھا دیا جائے جب بھی یہ کوئی بات بنا کر ٹال دیں گے اور ایمان نہ لائیں گے ۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ انہیں چھوڑ دیجئے قیامت والے دن خود انہیں معلوم ہو جائے گا اس دن ان کی ساری فریب کاریاں دھری کی دھری رہ جائیں گی کوئی مکاری وہاں کام نہ دے گی چوکڑی بھول جائیں گے اور چالاکی بھول جائیں گے ۔ آج جن جن کو یہ پکارتے ہیں اور اپنا مددگار جانتے ہیں اس دن سب کے منہ تکیں گے اور کوئی نہ ہو گا جو ان کی ذرا سی بھی مدد کر سکے بلکہ ان کی طرف سے کچھ عذر بھی پیش کر سکے یہی نہیں کہ انہیں صرف قیامت کے دن ہی عذاب ہو اور یہاں اطمینان و آرام کے ساتھ زندگی گذار لیں بلکہ ان ناانصافوں کے لئے اس سے پہلے دنیا میں بھی عذاب تیار ہیں ۔ جیسے اور جگہ فرمان ہے آیت ( وَلَنُذِيْـقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ 21؀ ) 32- السجدة:21 ) یعنی ہم انہیں آخرت کے بڑے عذاب کے علاوہ دنیا میں بھی عذاب کا مزہ چکھائیں گے تاکہ یہ رجوع کریں لیکن ان میں سے اکثر بےعلم ہیں نہیں جانتے کہ یہ دنیوی مصیبتوں میں بھی مبتلا ہوں گے اور اللہ کی نافرمانیاں رنگ لائیں گی ۔ یہی بےعلمی ہے جو انہیں اس بات پر آمادہ کرتی ہے ۔ کہ گناہ پر گناہ ظلم پر ظلم کرتے جائیں پکڑے جاتے ہیں عبرت حاصل ہوتی ہے لیکن جہاں پکڑ ہٹی یہ پھر ویسے کے ویسے سخت دل بدکار بن گئے ۔ بعض احادیث میں ہے کہ منافق کی مثال اونٹ کی سی ہے جس طرح اونٹ نہیں جانتا کہ اسے کیوں باندھا اور کیوں کھولا ؟ اسی طرح منافق بھی نہیں جانتا کہ کیوں بیمار کیا گیا ؟ اور کیوں تندرست کر دیا گیا ؟ اثر الہٰی میں ہے کہ میں کتنی ایک تیری نافرمانیاں کروں گا اور تو مجھے سزا نہ دے گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے میرے بندے کتنی مرتبہ میں نے تجھے عافیت دی اور تجھے علم بھی نہ ہوا ۔ پھر فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ صبر کیجئے ان کی ایذاء دہی سے تنگ دل نہ ہو جائیے ان کی طرف سے کوئی خطرہ بھی دل میں نہ لائیے سنئے آپ ہماری حفاظت میں ہیں آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں آپ کی نگہبانی کے ذمہ دار ہم ہیں تمام دشمنوں سے آپ کو بچانا ہمارے سپرد ہے پھر حکم دیتا ہے کہ جب آپ کھڑے ہوں تو اللہ تعالیٰ کی پاکی اور تعریف بیان کیجئے اس کا ایک مطلب یہ کیا گیا ہے کہ جب رات کو جاگیں دونوں مطلب درست ہیں چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ نماز کو شروع کرتے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دعا ( سبحانک اللھم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الہ غیرک ) صحیح مسلم ۔ یعنی اے اللہ تو پاک ہے تمام تعریفوں کا مستحق ہے تیرا نام برکتوں والا ہے تیری بزرگی بہت بلند و بالا ہے ۔ تیرے سوا معبود برحق کوئی اور نہیں مسند احمد اور سنن میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا مروی ہے مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص رات کو جاگے اور کہے دعا ( لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر سبحان اللہ والحمد اللہ ولا الہ الاللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ) پھر خواہ اپنے لئے بخشش کی دعا کرے خواہ جو چاہے طلب کرے اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرماتا ہے پھر اگر اس نے پختہ ارادہ کیا اور وضو کر کے نماز بھی ادا کی تو وہ نماز قبول کی جاتی ہے ۔ یہ حدیث صحیح بخاری شریف میں اور سنن میں بھی ہے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں اللہ کی تسبیح اور حمد کے بیان کرنے کا حکم ہر مجلس سے کھڑے ہونے کے وقت ہے حضرت ابو الاحوص کا قول بھی یہی ہے کہ جب مجلس سے اٹھنا چاہے یہ پڑھے دعا ( سبحانک اللھم وبحمدک ) حضرت عطا بن ابو رباح بھی یہی فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر اس مجلس میں نیکی ہوئی ہے تو وہ اور بڑھ جاتی ہے اور اگر کچھ اور ہوا ہے تو یہ کلمہ اس کا کفارہ ہو جاتا ہے جامع عبدالرزاق میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم دی کہ جب کبھی کسی مجلس سے کھڑے ہو تو دعا ( سبحانک اللھم وبحمدک اشھد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک ) پڑھو ۔ اس کے راوی حضرت معمر فرماتے ہیں میں نے یہ بھی سنا ہے کہ یہ قول اس مجلس کا کفارہ ہو جاتا ہے ۔ یہ حدیث تو مرسل ہے لیکن مسند حدیثیں بھی اس بارے میں بہت سی مروی ہیں جن کی سندیں ایک دوسری کو تقویت پہنچاتی ہیں ایک حدیث میں ہے جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے وہاں کچھ بک جھک ہو اور کھڑا ہونے سے پہلے ان کلمات کو کہہ لے تو اس مجلس میں جو کچھ ہوا ہے اس کا کفارہ ہو جاتا ہے ( ترمذی ) اس حدیث کو امام ترمذی حسن صحیح کہتے ہیں ۔ امام حاکم اسے مستدرک میں روایت کر کے فرماتے ہیں اس کی سند شرط مسلم پر ہے ہاں امام بخاری نے اس میں علت نکالی ہے میں کہتا ہوں امام احمد امام مسلم امام ابو حاتم امام ابو زرعہ امام دارقطنی وغیرہ نے بھی اسے معلول کہا ہے اور وہم کی نسبت ابن جریج ہیں ہی نہیں ، اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری عمر میں جس مجلس سے کھڑے ہوتے ان کلمات کو کہتے بلکہ ایک شخص نے پوچھا بھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس سے پہلے تو اسے نہیں کہتے تھے ؟ آپ نے فرمایا مجلس میں جو کچھ ہوا ہو یہ کلمات اس کا کفارہ ہو جاتے ہیں یہ روایت مرسل سند سے بھی حضرت ابو العالیہ سے مروی ہے واللہ اعلم نسائی وغیرہ ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں یہ کلمات ایسے ہیں کہ جو انہیں مجلس سے اٹھتے وقت تین مرتبہ کہہ لے اس کے لئے یہ کفارہ ہو جاتے ہیں مجلس خیر اور مجلس ذکر میں انہیں کہنے سے یہ مثل مہر کے ہو جاتے ہیں ( ابو داؤد وغیرہ ) الحمد اللہ میں نے ایک علیحدہ جزو میں ان تمام احادیث کو ان کے الفاظ کو اور ان کی سندوں کو جمع کر دیا ہے اور ان کی علتیں بھی بیان کر دی ہیں اور اس کے متعلق جو کچھ لکھنا تھا لکھ دیا ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ رات کے وقت اس کی یاد اور اس کی عبادت تلاوت اور نماز کے ساتھ کرتے رہو جیسے فرمان ہے آیت ( وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا 79؀ ) 17- الإسراء:79 ) ، رات کے وقت تہجد پڑھا کرو یہ تیرے لئے نفل ہے ممکن ہے تیرا رب تجھے مقام محمود پر اٹھائے ستاروں کے ڈوبتے وقت سے مراد صبح کی فرض نماز سے پہلے کی دو رکعتیں ہیں کہ وہ دونوں ستاروں کے غروب ہونے کے لئے جھک جانے کے وقت پڑھی جاتی ہیں چنانچہ ایک مرفوع حدیث میں ہے ان سنتوں کو نہ چھوڑو گو تمہیں گھوڑے کچل ڈالیں ۔ اسی حدیث میں ہے دن رات میں پانچ نمازیں ہیں سننے والے نے کہا کیا مجھ پر اس کے سوا اور کچھ بھی ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں مگر یہ کہ تو نفل ادا کرے بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوافل میں سے کسی نفل کی بہ نسبت صبح کی دو سنتوں کے زیادہ پابندی اور ساری دنیا سے اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بہتر ہیں الحمد اللہ سورہ الطور کی تفسیر پوری ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

44۔ 1 مطلب ہے کہ اپنے کفر وعناد سے پھر بھی باز نہ آئیں گے، بلکہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہیں گے کہ یہ عذاب نہیں، بلکہ ایک پر ایک بادل چڑھا آرہا ہے، جیسا کہ بعض موقعوں پر ایسا ہوتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٧] کافروں کی ہٹ دھرمی کی انتہا :۔ بعض دفعہ مسلمانوں کو حتیٰ کہ خود رسول اللہ کو بھی یہ خیال آجاتا تھا کہ کافر جس حسی معجزہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کوئی ایسا معجزہ دکھا دے تو ممکن ہے یہ لوگ ایمان لے آئیں جس سے اسلام کی قوت میں اضافہ ہوجائے اور مسلمانوں پر مصائب کم ہوجائیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کو بتایا جارہا ہے کہ یہ لوگ کبھی ایمان نہ لائیں گے کیونکہ یہ اس قدر ضدی اور ہٹ دھرم واقع ہوئے ہیں کہ اگر ان کے مطالبہ کے مطابق آسمان سے کوئی ٹکڑا گرا بھی دیا جائے تو پھر بھی یہ اس کی طبعی توجیہیں تلاش کرنے لگیں گے اور کہہ دیں گے کہ آسمان کا ٹکڑا کب ہے ؟ یہ تو بادل کا ٹکڑا ہے جو تہہ بہ تہہ ہو کر موٹا غلیظ اور بوجھل ہونے کی وجہ سے زمین پر گرپڑا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(وان یروا کسفاً من السمآء ساقطاً…:” کسافاً “ سین کی جزم کے ساتھ واحد ہے، ٹکڑا۔ بعض کہتے ہیں جمع ہے، جیسا کہ ” سدرۃ “ کی جمع ” سدر “ ہے، ٹکڑے۔ (اعراب القرآن از درویش) یعنی ان لوگوں نے ہر قیمت پر انکار کیا ت ہیہ کر رکھا ہے اور ایمان لانے کی شرط کے طور پر جن معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں وہ صرف لا جواب کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ اگر ان کے تمام طلب کردہ معجزات بھی دکھا دیئے جائیں پھر بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (دیکھیے انعام : ١١- یونس ٩٦، ٩٧) پھر یا تو اسے آنکھوں پر جادو کہہ کر رد کردیں گے (دیکھیے حجر : ١٥) یا کوئی اور بہانہ بنا کر ایمان لانے سے انکار کردیں گے۔ مثلاً ان کا مطالبہ ہے کہ ہم پر آسمان کو ٹکڑے کر کے گرا دے (دیکھیے بنی اسرائیل : ٩٢) اگر ہم ان کا یہ مطالبہ بھی پورا کردیں اور آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دیں تو اسے تہ ہبہ تہ بادل کہہ کر ایمان لانے سے انکار کردیں گے، حالانکہ وہ دیکھ رہے ہوں گے اور انہیں یقین ہوگا کہ وہ تہ بہ تہ بادل نہیں ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ يَّرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ سَاقِطًا يَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْكُوْمٌ۝ ٤٤- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - كسف - كُسُوفُ الشمس والقمر : استتارهما بعارض مخصوص، وبه شبّه كُسُوفُ الوجه والحال، فقیل : كَاسِفُ الوجه وكَاسِفُ الحال، والکِسْفَةُ : قطعة من السّحاب والقطن، ونحو ذلک من الأجسام المتخلخلة الحائلة، وجمعها كِسَفٌ ، قال : وَيَجْعَلُهُ كِسَفاً [ الروم 48] ، فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء 187] ، أَوْ تُسْقِطَ السَّماءَ كَما زَعَمْتَ عَلَيْنا كِسَفاً [ الإسراء 92] وکسفا «1» بالسّكون . فَكِسَفٌ جمع كِسْفَةٍ ، نحو : سدرة وسِدَرٍ. وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ [ الطور 44] . قال أبو زيد : كَسَفْتُ الثّوب أَكْسِفُهُ كِسْفاً :إذا قطعته قطعا «2» ، وقیل : كَسَفْتُ عرقوب الإبل، قال بعضهم : هو كَسَحْتُ لا غيرُ.- ( ک س ف )- کسوف الشمش والقمر کے معنی ہیں سورج یا چاند کا کیس خاص عارض سے مستور یعنی گہن میں آجانا کے ہیں ۔ اور تشبیہ کے طور پر چہرہ یا حالت کے خراب ہونے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے کا سف الوجھہ یا کا سف الحال ۔ الکسفۃ کے معنی بادل روئی یا اس قسم کے دوسرے متخلخل اجسام کے ٹکڑے کے ہیں اس کی جمع کسف آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَيَجْعَلُهُ كِسَفاً [ الروم 48] اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے ۔ فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء 187] تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لاکر گراؤ أَوْ تُسْقِطَ السَّماءَ كَما زَعَمْتَ عَلَيْنا كِسَفاً [ الإسراء 92] یا جیسا تم کہا کرتے ہو ہم پر آسمان کے ٹکڑے لاکر گراؤ ۔ ایک قرات میں کسفا بسکون سین ہے اور کسف کا واحد کسفۃ ہے جیسے سدرۃ وسدرۃ اور فرمایا : ۔ وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ [ الطور 44] اور اگر یہ آسمان سے عذاب کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھیں ابو ذید نے کہا ہے کسفت الثوب ( ج ) کسفا کے معنی کپڑے کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے ہیں بعض نے کسفت عر قوب الابل بھی کہا ہے جس کے معنی اونٹ کی کونچ کاٹ دینے کے ہیں لیکن ) بعض ایک لغت کے نزدیک اس معنی میں صر ف کسحت ( ف ) ہی استعمال ہوتا ہے ۔- سقط - السُّقُوطُ : طرح الشیء، إمّا من مکان عال إلى مکان منخفض کسقوط الإنسان من السّطح، قال تعالی: أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا[ التوبة 49] ، وسقوط منتصب القامة، وهو إذا شاخ وکبر، قال تعالی: وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ ساقِطاً [ الطور 44] ، وقال : فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء 187] ، والسِّقَطُ والسُّقَاطُ : لما يقلّ الاعتداد به، ومنه قيل : رجل سَاقِطٌ لئيم في حَسَبِهِ ، وقد أَسْقَطَهُ كذا، وأسقطت المرأة اعتبر فيه الأمران :- السّقوط من عال، والرّداءة جمیعا، فإنه لا يقال : أسقطت المرأة إلا في الولد الذي تلقيه قبل التمام، ومنه قيل لذلک الولد : سقط «1» ، وبه شبّه سقط الزّند بدلالة أنه قد يسمّى الولد، وقوله تعالی: وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 149] ، فإنه يعني النّدم، وقرئ : تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم 25] «2» ، أي : تسّاقط النّخلة، وقرئ : تُساقِطْ «3» بالتّخفیف، أي : تَتَسَاقَطُ فحذف إحدی التاء ین، وإذا قرئ ( تَسَاقَطْ ) فإنّ تفاعل مطاوع فاعل، وقد عدّاه كما عدّي تفعّل في نحو : تجرّعه، وقرئ : يَسَّاقَطْ عليك «4» أي : يسّاقط الجذع .- ( س ق ط )- السقوط ( ن ) اس کے اصل معنی کسی چیز کے اوپر سے نیچے گرنے کے ہیں مثلا کسی انسان کا چھت سے گر پڑنا یا اس کا بوڑھا ہو کر نیچے جھک جانا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ ساقِطاً [ الطور 44] اور اگر یہ آسمان ( سے عذاب ) کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھیں ۔ فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء 187] تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لا گراؤ اور اس کے معنی قدر و قیمت اور مرتبہ کے لحاظ سے گر جانا بھی آتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا[ التوبة 49] دیکھو یہ آفت میں پڑے گئے ۔ السقط والسقاطۃ ناکاری اور ردی چیز کو کہتے ہیں اور اسی سے رجل ساقط ہے جس کے معنے کمینے آدمی کے ہیں ۔ اسقطہ کذا : فلاں چیز نے اس کو ساقط کردیا ۔ اور اسقط المرءۃ ( عورت نے نا تمام حمل گرا دیا ) میں اوپر سے نیچے گرنا اور ردی ہونا دونوں معنی اکٹھے پائے جاتے ہیں ۔ کیونکہ اسقطت المرءۃ اس وقت بولتے ہیں جب عورت نا تمام بچہ گرا دے اور اسی سے نا تمام بچہ کو سقط یا سقط کہا جاتا ہے ۔ پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر چقماق کی ہلکی سی ( ناقص ) چنگاری کو سقط الزند کہا جاتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ کبھی اس کے ساتھ بچہ کو بھی موسوم کیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 149] اور جب وہ نادم ہوئے ۔ میں پشیمان ہونا مراد ہے ۔ اور آیت : ۔ تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم 25] تم پر تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی ۔ میں ایک قراءت تساقط بھی ہے اور اس کا فاعل نخلۃ ہے اور ایک قراءت میں تساقط ہے جو اصل میں تتساقط فعل مضارع کا صیغہ ہے اس میں ایک تاۃ محذوف ہے اس صورت میں یہ باب تفاعل سے ہوگا اور یہ اگرچہ فاعل کا مطاوع آتا ہے لیکن کبھی متعدی بھی ہوجاتا ہے جیسا کہ تجرعہ میں باب تفعل متعدی ہے ۔ اور ایک دوسری قرات میں یساقط ( صیغہ مذکر ) ہے اس صورت میں اس کا فاعل جذع ہوگا ۔- سحب - أصل السَّحْبِ : الجرّ کسحب الذّيل، والإنسان علی الوجه، ومنه : السَّحَابُ ، إمّا لجرّ الرّيح له، أو لجرّه الماء، أو لانجراره في مرّه، قال تعالی: يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] ، وقال تعالی: يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ [ غافر 71] ، وقیل : فلان يَتَسَحَّبُ علی فلان، کقولک : ينجرّ ، وذلک إذا تجرّأ عليه، والسَّحَابُ : الغیم فيها ماء أو لم يكن، ولهذا يقال : سحاب جهام «4» ، قال تعالی: أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحاباً [ النور 43] ، حَتَّى إِذا أَقَلَّتْ سَحاباً [ الأعراف 57] ، وقال : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] ، وقد يذكر لفظه ويراد به الظّلّ والظّلمة، علی طریق التّشبيه، قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40] .- ( س ح ب ) السحب اس کے اصل معنی کھینچنے کے ہیں ۔ چناچہ دامن زمین پر گھسیٹ کر چلنے یا کسی انسان کو منہ کے بل گھسیٹنے پر سحب کا لفظ بولا جاتا ہے اسی سے بادل کو سحاب کہا جاتا ہے یا تو اس لئے کہ ہوا اسے کھینچ کرلے چلتی ہے اور یا اس بنا پر کہ وہ چلنے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گھسٹتا ہوا چل رہا ہے قرآن میں ہے :۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] جس دن ان کو انکے منہ کے بل ( دوزخ کی ) آگ میں گھسیٹا جائیگا ۔ اور فرمایا : يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ [ غافر 71] انہیں دوزخ میں کھینچا جائے گا ۔ محاورہ ہے :۔ فلان یتسحب علی فلان : کہ فلاں اس پر جرات کرتا ہے ۔ جیسا کہ یتجرء علیہ کہا جاتا ہے ۔ السحاب ۔ ابر کو کہتے ہیں خواہ وہ پانی سے پر ہو یا خالی اس لئے خالی بادل کو سحاب جھام کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحاباً [ النور 43] کیا تو نے غور نہیں کیا کہ اللہ بادل کو چلاتا ہے ۔ حَتَّى إِذا أَقَلَّتْ سَحاباً [ الأعراف 57] حتی کہ جب وہ بھاری بادل کو اٹھا لاتی ہیں ۔ وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] اور وہ بھاری بادل اٹھاتا ہے ۔ اور کبھی لفظ سحاب بول کر بطور تشبیہ کے اس سے سایہ اور تاریکی مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40] یا ( ان کے اعمال کی مثال ) بڑے گہرے دریا کے اندورنی اندھیروں کی سی ہے کہ دریا کو لہر نے ڈھانپ رکھا ہے اور ( لہر بھی ایک نہیں بلکہ ) لہر کے اوپر لہر ان کے اوپر بادل ( کی تاریکی غرض اندھیرے ہیں ایک کے اوپر ایک ۔- ركم - يقال : ( سحاب مَرْكُومٌ ) أي : متراکم، والرُّكَامُ : ما يلقی بعضه علی بعض، قال تعالی:- ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُکاماً [ النور 43] ، والرُّكَامُ يوصف به الرّمل والجیش، ومُرْتَكَمُ الطّريق :- جادّتُهُ التي فيها رُكْمَةٌ ، أي : أثر مُتَرَاكِمٌ.- ( ر ک م ) رکم ( ن ) کے معنی ہیں کسی چیز کو اوپر تلے رکھنا قرآن میں ہے ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُکاماً [ النور 43] تہ بہ تہ بادل ۔ الرکام اوپر تلے رکھی ہوئی چیزیں جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُکاماً [ النور 43] پھر اسے تہ بہ تہ کردیتا ہے ۔ اسی سے ریت کے ٹیلے اور لشکر کو بھی رکام کہا جاتا ہے اور مرتکم الطریق شاہراہ کو کہتے ہیں ۔ جس میں آمد رفت کے نشانات بکثرت ہوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور اگر یہ کفار مکہ اس آسمان کے ٹکڑے کو دیکھ بھی لیں کہ گرتا ہوا آرہا ہے تو اس کو بھی اپنے جھٹلانے کی وجہ سے یوں کہہ دیں گے کہ یہ تو تہ بتہ جما ہوا بادل ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤ وَاِنْ یَّرَوْا کِسْفًا مِّنَ السَّمَآئِ سَاقِطًا یَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْکُوْمٌ ۔ ” اور اگر کبھی یہ دیکھیں آسمان کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا تو کہیں گے کہ یہ تو بادل ہیں تہ بر تہ۔ “- ان کی حالت تو یہ ہے کہ اگر آسمان کا کوئی ٹکڑا بھی عذاب الٰہی بن کر ان پر گر رہا ہو تو اسے بھی یہ لوگ بارش برسانے والا بادل ہی سمجھیں گے۔ جیسا کہ قوم عاد کے لوگوں نے اپنی طرف بڑھتے ہوئے عذاب کو دیکھ کر کہا تھا : ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا (الاحقاف : ٢٤) ” یہ تو بادل ہے جو ہم کو سیراب کرنے والا ہے “۔ یہ بادل برسیں گے تو ہمارے علاقے میں جل تھل کردیں گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :36 اس ارشاد سے مقصود ایک طرف سرداران قریش کی ہٹ دھرمی کو بے نقاب کرنا ، اور دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو تسلی دینا ہے ۔ حضور اور صحابہ کرام کے دل میں بار بار یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی معجزہ ایسا دکھا دیا جائے جس سے ان کو نبوت محمدیہ کی صداقت معلوم ہو جائے ۔ اس پر فرمایا گیا ہے کہ یہ خواہ کوئی معجزہ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ، بہرحال یہ اس کی تاویل کر کے کسی نہ کسی طرح اپنے کفر پر جمے رہنے کا بہانہ ڈھونڈ نکالیں گے ، کیونکہ ان کے دل ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ قرآن مجید میں متعدد دوسرے مقامات پر بھی ان کی اس ہٹ دھرمی کا ذکر کیا گیا ہے ۔ مثلاً سورہ انعام میں فرمایا اگر ہم فرشتے بھی ان پر نازل کر دیتے اور مردے ان سے باتیں کرتے اور دنیا بھر کی چیزوں کو ہم ان کی آنکھوں کے سامنے جمع کر دیتے تب بھی یہ ماننے والے نہ تھے ۔ ( آیت 111 ) ۔ اور سورہ حجر میں فرمایا اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ بھی کھول دیتے اور یہ دن دہاڑے اس میں چڑھنے بھی لگتے ، پھر بھی یہ لوگ یہی کہتے کہ ہماری آنکھیں دھوکا کھا رہی ہیں ، بلکہ ہم پر جادو کیا گیا ہے ( آیت ۔ 15 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

13: مشرکین مکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نت نئے معجزات دکھانے کا مطالبہ کرتے رہتے تھے، مثلاً یہ کہ آسمان سے کوئی ٹکڑا ہمیں توڑ کر دکھائیے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ان سارے مطالبات کا مقصد حق کی طلب نہیں ہے، بلکہ محض ضد اور عناد ہے، اور اگر ان کو ایسا کوئی معجزہ دکھا بھی دیا جائے تو یہ پھر بھی نہیں مانیں گے، اور یہ کہہ دیں گے کہ یہ آسمان کا ٹکڑا نہیں ہے، بلکہ کوئی گہرا بادل ہے۔