[٦] پانچ قسموں کی تفصیل :۔ مذکورہ بالا پانچ چیزوں کی قسم کھاتے ہوئے یا انہیں بطور شہادت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ قیامت اور اس کا عذاب واقع ہو کے رہے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ پانچوں چیزیں کسی اہم مفید اور قدرت کاملہ پر دلالت کرتی ہیں۔ پھر اسی قدرت کاملہ سے انسان کو یہ یقین حاصل ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فی الواقع قیامت بپا کرنے پر قادر ہے۔ (١) طور وہ مقام ہے جہاں سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت عطا ہوئی اور اسی رات اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ صادر کردیا تھا کہ بنی اسرائیل کو فرعون جیسے جابر بادشاہ کی غلامی سے آزاد کیا جائے گا۔ چناچہ یہ آزادی انہیں نصیب ہوئی اور ان کا دشمن غرق ہوا۔ (٢) تمام کتب سماویہ جو اہل کتاب کے ہاں موجود تھیں سب میں صراحت کے ساتھ آخرت کے یقینی ہونے کا ذکر موجود تھا (٣) کعبہ کی رونق اور آبادی، کعبہ کی ابرہہ یا اصحاب الفیل سے حفاظت، کعبہ کی تولیت کی بنا پر قریش مکہ کا عرب بھر میں عزت و احترام اور سیاسی برتری سب چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس کی پشت پر کوئی زبردست قوت موجود ہے (٤) اسی اونچی چھت کو دوسرے مقام پر محفوظ چھت بھی کہا گیا ہے یعنی فضائے بسیط میں لاتعداد شہاب ہر وقت ٹوٹتے اور گرتے رہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ ایسا انتظام کردیا ہے کہ زمین پر گرنے سے پہلے ہی ختم ہوجاتے ہیں اور انسان ایسی بلاؤں سے محفوظ رہتے ہیں، (٥) اس بھرے ہوئے سمندر کو اللہ نے کس طرح روک اور باندھ رکھا ہے۔ یہ ممکن تھا کہ سمندر کا سارا پانی زمین میں جذب ہوجاتا پھر نہ بخارات بنتے نہ بارش ہوتی اور نہ پیداوار۔ اس طرح تمام جاندار مخلوق کو کھانا تو درکنار پانی بھی پینے کو نہ ملتا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے سمندر کو اس بات سے بھی روک رکھا ہے کہ وہ جوش میں آکر روئے زمین پر پھیل جائے اور سطح زمین کو غرقاب کردے۔ ان سب چیزوں کو شہادت کے طور پر پیش کرکے فرمایا کہ وہ عذاب واقع ہو کر رہے گا۔
(ان عذاب ربک لواقع) یہ جواب قسم ہے، جس کا یقین دلانے کے لئے پانچوں قسمیں کھائی گی ہیں۔
اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍ (بیشک آپ کے رب کا عذاب واقع ہو کر رہے گا اس کو کوئی دفع کرنے والا نہیں) یہ جواب قسم ہے اور طور، صحائف، اعمال، بیت المعمور، آسمان، سمندر کی جس مضمون کے لئے قسم کھائی ہے اس کا یہ بیان ہے کہ کفار کے اوپر اللہ کا عذاب ضرور واقع ہوگا۔- واقعہ فاروق اعظم :- حضرت فاروق اعظم نے ایک روز سورة طور پڑھی جب اس آیت پر پہنچے تو ایک آہ سرد بھری، جس کے بعد بیس روز تک بیمار رہے، لوگ عیادت کو آتے، مگر یہ کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ بیماری کیا ہے (ابن کثیر)- حضرت جبیر بن مطعم فرماتے ہیں کہ میں مسلمان ہونے سے پہلے ایک مرتبہ مدینہ طیبہ اس لئے آیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بدر کے قیدیوں کے متعلق گفتگو کروں، میں پہنچا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مغرب کی نماز میں سورة طور پڑھ رہے تھے اور آواز مسجد سے باہر تک پہنچ رہی تھی، جب یہ آیت پڑھی اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍ ، اچانک میری یہ حالت ہوئی کہ گویا میرا دل خوف سے پھٹ جائے گا، میں نے فوراً اسلام قبول کیا، مجھے اس وقت یہ محسوس ہو رہا تھا کہ میں اس جگہ سے ہٹ نہیں سکوں گا کہ مجھ پر عذاب آجائے گا (قرطبی)
اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ ٧ ۙ- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- وقع - الوُقُوعُ : ثبوتُ الشیءِ وسقوطُهُ. يقال : وَقَعَ الطائرُ وُقُوعاً ، والوَاقِعَةُ لا تقال إلّا في الشّدّة والمکروه، وأكثر ما جاء في القرآن من لفظ «وَقَعَ» جاء في العذاب والشّدائد نحو : إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة 1- 2] ،- ( و ق ع ) الوقوع - کے معنی کیس چیز کے ثابت ہونے اور نیچے گر نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ وقع الطیر وقوعا پر ندا نیچے گر پڑا ۔ الواقعۃ اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں سختی ہو اور قرآن پاک میں اس مادہ سے جس قدر مشتقات استعمال ہوئے ہیں وہ زیادہ تر عذاب اور شدائد کے واقع ہونے کے متعلق استعمال ہوئے ہیں چناچہ فرمایا ۔- إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة 1- 2] جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے اس کے واقع ہونے میں کچھ جھوٹ نہیں ۔
(٧۔ ١٢) غرض کہ ان تمام قسموں کے بعد ارشاد ہوا کہ قیامت کے دن بالخصوص قریش پر آپ کے رب کا عذاب ضرور ہوگا کوئی اس عذاب کو ٹال نہیں سکتا جس روز آسمان اور آسمان والوں کو لے کرچکی کی طرح گردش کرنے لگے گا اور تمام مخلوق کانپ ٹھے گی اور پہاڑ زمین پر سے ہٹ کر بادلوں کی طرح فضا میں لچنے لگیں گے۔- سو جو لوگ خصوصا ابو جہل وغیرہ رسالت اور قرآن کریم کا انکار کرنے والے ہیں ان کو قیامت میں سخت ترین عذاب ہوگا اور جو کہ تکذیب کے مشغلہ میں بےہودگی کے ساتھ لگے رہے ہیں۔
آیت ٧ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ ۔ ” تیرے رب کا عذاب یقینا واقع ہو کر رہے گا ۔ “- اس سے قیامت کا سخت دن مراد ہے جس کے اٹل ہونے کی حقیقت کو سورة الشوریٰ کی آیت ٤٧ میں یَوْمٌ لاَّ مَرَدَّ لَـہٗ ” وہ دن جسے لوٹایا نہ جاسکے گا “ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
1: پچھلی سورت کے شروع میں قرآنِ کریم کی قسموں پر جو حاشیہ ہم نے دیا ہے، اُسے یہاں بھی ملاحظہ فرمالیا جائے۔ یہاں اﷲ تعالیٰ نے پانچ چیزوں کی قسم کھائی ہے، پہلے کوہِ طور کی جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اﷲ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے، اور اﷲ تعالیٰ نے اُنہیں تورات عطا فرمائی۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آخرت میں نافرمانوں کو عذاب ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ کوہ طور پر جو کتاب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی تھی، وہ بھی اس بات کی گواہ ہے، دوسری قسم ایک کتاب کی کھائی گئی ہے جو ایک صحیفے میں لکھی ہوئی ہے۔ اس سے مراد بعض مفسرین کے نزدیک تورات ہے، اُس صورت میں اس قسم کا بھی آخرت کے عذاب سے وہی تعلق ہے جو کوہ طور کا عرض کیا گیا۔ البتہ بعض مفسرین نے اس سے مراد نامۂ اعمال لیا ہے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اِنسانوں کا جو نامۂ اعمال ہر آن لکھا جارہا ہے، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ کسی وقت حساب و کتاب ہوگا، اور نافرمانوں کو ان کے اعمال کی سزا ملے گی۔ تیسری قسم بیتِ معمور کی کھائی گئی ہے۔ یہ عالمِ بالا میں ایک ایسا ہی گھر ہے جیسا دُنیا میں بیت اللہ ہے۔ عالمِ بالا کا یہ گھر فرشتوں کی عبادت گاہ ہے۔ اس کی قسم کھاکر اشارہ فرمایا گیا ہے کہ فرشتے اگرچہ اِنسانوں کی طرح مکلف نہیں، لیکن وہ پھر بھی عبادت میں لگے ہوئے ہیں۔ اِنسان تو مکلف اسی لئے بنایا گیا ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرے، اور اگر نہیں کرے گا تو سزا کے لائق ہوگا۔ چوتھی قسم اُونچی چھت یعنی آسمان کی اور پانچویں قسم بھرے ہوئے سمندر کی کھائی گئی ہے۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ اگر جزا وسزا نہ ہو تو اس کائنات کا جس کے اُوپر آسمان اور نیچے سمندر اﷲ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں، پیدا کرنے کا کوئی مقصد نہیں رہتا، نیز یہ کہ جو ذات اتنی عظیم چیزیں پیدا کرنے پر قادر ہے، وہ یقینا اِنسانوں کو دُوسری زندگی دینے پر بھی قادر ہے۔