حضرت شعبی فرماتے ہیں خالق تو اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہے قسم کھا لے لیکن مخلوق سوائے اپنے خالق کے کسی اور کی قسم نہیں کھا سکتی ( ابن ابی حاتم ) ستارے کے جھکنے سے مراد فجر کے وقت ثریا کے ستارے کا غائب ہونا ہے ۔ بعض کہتے ہیں مراد زہرہ نامی ستارہ ہے ۔ حضرت ضحاک فرماتے ہیں مراد اس کا جھڑ کر شیطان کی طرف لپکنا ہے اس قول کی اچھی توجیہ ہو سکتی ہے مجاہد فرماتے ہیں اس جملے کی تفسیر یہ ہے کہ قسم ہے قرآن کی جب وہ اترے ۔ اس آیت جیسی ہی آیت ( فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ 75ۙ ) 56- الواقعة:75 ) ہے ۔ پھر جس بات پر قسم کھا رہا ہے اس کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نیکی اور رشد و ہدایت اور تابع حق ہیں وہ بےعلمی کے ساتھ کسی غلط راہ لگے ہوئے یا باوجود علم کے ٹیڑھا راستہ اختیار کئے ہوئے نہیں ہیں ۔ آپ گمراہ نصرانیوں اور جان بوجھ کر خلاف حق کرنے والے یہودیوں کی طرح نہیں ۔ آپ کا علم کامل آپ کا عمل مطابق علم آپکا راستہ سیدھا آپ عظیم الشان شریعت کے شارع ، آپ اعتدال والی راہ حق پر قائم ۔ آپ کا کوئی قول کوئی فرمان اپنے نفس کی خواہش اور ذاتی غرض سے نہیں ہوتا بلکہ جس چیز کی تبلیغ کا آپکو حکم الہٰی ہوتا ہے آپ اسے ہی زبان سے نکالتے ہیں جو وہاں سے کہا جائے وہی آپ کی زبان سے ادا ہوتا ہے کمی بیشی زیادتی نقصان سے آپ کا کلام پاک ہوتا ہے ، مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخص کی شفاعت سے جو نبی نہیں ہیں مثل دو قبیلوں کے یا دو میں سے ایک قبیلے کی گنتی کے برابر لوگ جنت میں داخل ہوں گے ۔ قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضر اس پر ایک شخص نے کہا کیا ربیعہ مضر میں سے نہیں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو وہی کہتا ہوں جو کہتا ہوں ۔ مسند کی اور حدیث میں ہے حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا تھا اسے حفظ کرنے کے لئے لکھ لیا کرتا تھا پس بعض قریشیوں نے مجھے اس سے روکا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان ہیں کبھی کبھی غصے اور غضب میں بھی کچھ فرما دیا کرتے ہیں چنانچہ میں لکھنے سے رک گیا پھر میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا لکھ لیا کرو اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری زبان سے سوائے حق بات کے اور کوئی کلمہ نہیں نکلتا یہ حدیث ابو داؤد اور ابن ابی شیبہ میں بھی ہے بزار میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں جس امر کی خبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا میں سوائے حق کے اور کچھ نہیں کہتا ۔ اس پر بعض صحابہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی ہم سے خوش طبعی بھی کرتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا اس وقت بھی میری زبان سے ناحق نہیں نکلتا ۔
یہ پہلی سورت ہے جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار کے مجمع عام میں تلاوت کیا، تلاوت کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے جتنے لوگ تھے، سب نے سجدہ کیا، ماسوائے امیہ بن خلف کے، اس نے اپنی مٹھی میں مٹی لے کر اس پر سجدہ کیا۔ چناچہ یہ کفر کی حالت میں ہی مارا گیا (صحیح بخاری، تفسیر سورة نجم) بعض طریق میں اس شخص کا نام عتبہ بن ربیعہ بتلایا گیا ہے (تفسیر ابن کثیر) واللہ اعلم۔ حضرت زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اس سورت کی تلاوت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں سجدہ نہیں کیا (صحیح بخاری، باب مذکور) اس کا مطلب یہ ہوا کہ سجدہ کرنا مستحب ہے، فرض نہیں۔ اگر کبھی چھوڑ بھی دیا جائے تو جائز ہے۔ 1۔ 1 بعض مفسرین نے ستارے سے ثریا ستارہ اور بعض نے زہرہ ستارہ مراد لیا ہے، یعنی جب رات کے اختتام پر فجر کے وقت وہ گرتا ہے، یا شیاطین کو مارنے کے لئے گرتا ہے یا بقول بعض قیامت والے دن گریں گے۔
[١] بعض علماء نے (ألْنَّجْمُ ) سے مراد زہرہ لیا ہے بعض نے ثریا اور بعض نے اس سے مراد ستاروں کی جنس لی ہے۔ یعنی اس وقت کی قسم جب ستارے غائب ہوجاتے ہیں اور دن کی روشنی پھیل جاتی ہے۔ یا ان ستاروں کی قسم جو اپنی مقررہ راہ ہی پر چلتے رہتے ہیں کبھی ادھر ادھر نہیں ہٹتے۔
(١) والنجم اذا ھویٰ :” النجم “ ستارہ۔” الف لام “ تعریف کیلئے ہو تو مراد ” ثریا “ ہے کیونکہ عرب کے ہاں ” النجم “ بول کر ” ثریا “ مراد لینا معروف ہے اور اگر ” الف لام “ جنس کے لئے ہو تو ستاروں کی جنس مراد ہے، خواہ کوئی ہوں اور یہاں جنس مراد لینا زیادہ مناسب ہے۔ “” ھوی یھوی ھویاً “ (ض ) کا معنی جکرنا اور غروب ہونا بھی آتا ہے اور چڑھنا اور طلوع ہونا بھی اور ” ھوی یھوی ھوی “ (س) کا معنی ہے محبت کرنا۔- (٢) قرآن مجید کی قسمیں اپنے جواب قسم کی شہادت کے طور پر لائی جاتی ہیں اورق سم اور جواب قسم میں معنوی طور پر مناسب ہوتی ہے۔ یہاں ” والنجم اذا ھویٰ “ میں مذکور قسم بعد کی آیت ” ماضل صاحبکم وما غوی “ کے دعویٰ کی شہادت کے طور پر لائی گی ہے اور دونوں میں معنوی مناسبت ہے۔ مفسرین نے اس مناسبت کی تقریر کئی طرح سے فرمائی ہے، ان میں سب سے واضح دو تقریریں یہاں درج کی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ ” النجم “ سے مراد عام ستارے ہیں، یعنی جس طرح تمام ستارے اپنے اپنے مدار میں چلتے ہیں، اپنی مقررہ جگہ سے طلوع ہوتے اور مقررہ جگہ غروب ہوتے ہیں اسی طرح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر چل رہے ہیں، اس سے ذرہ برابر ادھر ادھر نہیں ہوتے، حتیٰ کہ وحی الٰہی کے بغیر بولتے بھی نہیں اور ستاروں کے احوال میں سے غروب کا وقت خاص طور پر ذکر کرنے کی مناسبت یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ عظیم مخلوق مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابند ہے۔ اپنی تمام تر وسعت، روشنی اور چمک کے باوجود اس کی مجالس نہیں کہ غروب ہونے اور ڈوبنے سے انکار کرسکے۔ (واللہ اعلم) اس تقریر کی مزید تفصیل سورة تکویر کی آیات (١٥ تا ١٩) :(فلا اقسم بالخنس …انہ لقول رسول کریم) کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔- دوسری تقریر یہ ہے کہ ستاروں سے مراد شہاب ثاقب ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بھیجی جانے والی وحی کی حفاظت کا ایسا زبردست انتظام کر رکھا ہے کہ اگر کوئی شیطان آسمان کے نیچے جا کر اسے سننے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر ہر طرف سے شہاب ثاقب پھینکے جاتے ہیں جو اسے جلا کر راکھ بنا دیتے ہیں۔ دیکھیے سورة صافات (٦ تا ١٠) اور سورة جن (٨، ٩) ۔ حفاظت کا یہ زبردست انتظام شاہد ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے سیھے راستے پر قائم ہیں اور ان پر نازل ہونے والی وحی الٰہی میں کسی قسم کی مداخلت یا کمی بیشی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہی بات سورة واقعہ کی آیت (٧٥):(فلا اقسم بموقع النجوم) میں بیان فرمائی گئی ہے۔
خلاصہ تفسیر - قسم ہے ستارہ کی جب وہ غروب ہونے لگے ( یعنی کوئی بھی ستارہ ہو اور اس قسم میں مضمون جواب قسم مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰى کے ساتھ ایک خاص مناسبت ہے، یعنی جس طرح ستارہ طلوع سے غروب تک اس تمام تر مسافت میں اپنی باقاعدہ رفتار سے ادھر ادھر نہیں ہوا اسی طرح آپ اپنی عمر بھر ضلال وغوایت سے محفوظ ہیں اور نیز اشارہ ہے اس طرف کہ جیسے نجم سے ہدایت ہوتی ہے، اسی طرح آپ سے بھی بوجہ عدم ضلال و عدم غوایت کے ہدایت ہوتی ہے اور چونکہ ستاروں کے وسط سماء میں ہونے کے وقت کسی سمت کا اندازہ نہیں ہوتا، اس لئے اس وقت ستارے سے راستہ کا پتہ نہیں لگتا، اس لئے اس میں قید لگائی غروب کے وقت کی اور گو قرب من الافق طلوع کے وقت بھی ہوتا ہے لیکن غروب میں یہ بات زیادہ ہے کہ اس وقت طالبان اہتداء اس کو غنیمت سمجھتے ہیں اس خیال سے کہ اگر استدلال میں ذرا توقف کیا پھر غائب ہوجاوے گا، بخلاف طلوع کے کہ اس میں بےفکری رہتی ہے پس اس میں اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہدایت حاصل کرلینے کو غنیمت سمجھو اور شوق سے دوڑو، آگے جواب قسم ہے کہ) یہ تمہارے (ہمہ وقت) ساتھ کے ( اور سامنے) رہنے والے (پیغمبر جن کے عام احوال و افعال تم کو معلوم ہیں جن سے بشرط انصاف ان کی راستی اور حقانیت پر استدلال کرسکتے ہو یہ پیغمبر) نہ راہ (حق) سے بھٹکے اور نہ غلط راستے ہو لئے (ضلال یہ کہ بالکل راستہ بھول کر کھڑا رہ جاوے اور غوایت یہ کہ غیر راہ کو راہ سمجھ کر غلط سمت میں چلتا رہے کذا فی الخازن، یعنی تم جو ان کو دعوائے نبوت و دعوت الی الاسلام میں بےراہ سمجھتے ہو یہ بات نہیں ہے، بلکہ آپ نبی برحق ہیں) اور نہ آپ اپنی نفسیانی خواہش سے باتیں بناتے ہیں ( جیسا تم لوگ کہتے ہو افتراہ بلکہ) ان کا ارشاد نری وحی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے ( خواہ الفاظ کی بھی وحی ہو جو قرآن کہلاتا ہے خواہ صرف معافی کی ہو جو سنت کہلاتی ہے اور خواہ وحی جزئی ہو یا کسی قاعدہ کلیہ کی وحی ہو، جس سے اجتہاد فرماتے ہوں، پس اس سے نفی اجتہاد کی نہیں ہوتی اور اصل مقصود مقام نفی ہے کفار کے اس خیال کی کہ آپ خدا کی طرف غلط بات کی نسبت فرماتے ہیں، آگے وحی آنے کا واسطہ بتلاتے ہیں کہ) ان کو ایک فرشتہ ( اس وحی کی منجانب اللہ) تعلیم کرتا ہے جو بڑا طاقتور ہے ( اور وہ اپنی کوشش و محنت سے طاقتور نہیں ہوا بلکہ) پیدائشی طاقتور ہے ( جیسا کہ ایک روایت میں خود جبرئیل (علیہ السلام) نے اپنی طاقت کا بیان فرمایا کہ میں نے قوم لوط کی بستیوں کو جڑ سے اکھاڑ کر آسمان کے قریب اس کو لے جا کر چھوڑ دیا (رواہ فی تفسیر سورة التکویر من الدر المنثور) مطلب یہ کہ یہ کلام کسی شیطان کے ذریعہ سے آپ تک نہیں پہنچا کہ کاہن ہونے کا احتمال ہو بلکہ فرشتہ کے ذریعہ سے آیا اور شاید شدید القوی کا ذکر فرمانے میں یہ مقصود ہو کہ اس کا احتمال بھی نہ کیا جاوے کہ شاید اصل میں فرشتہ ہی لے کر چلا ہو مگر درمیان میں کوئی شیطانی تصرف ہوگیا ہو اس میں اشارہ ہوگیا جواب کی طرف کہ وہ نہایت شدید القویٰ ہیں شیطان کی مجال نہیں کہ ان کے پاس پھٹک سکے، پھر ختم وحی کے بعد خود حق تعالیٰ نے اس کے بعینہ ادا کردینے کا وعدہ فرمایا ہے اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَه آگے اس شبہ کا جواب ہے کہ اس وحی لانے والے کا فرشتہ اور جبریل ہونا اس وقت معلوم ہوسکتا ہے، جب آپ ان کو پہچانتے ہوں اور پوزی صحیح پہچان موقوف ہے اصل صورت میں دیکھنے پر تو کیا آپ نے جبرئیل (علیہ السلام) کو اپنی اصلی صورت پر دیکھا ہے اس کی نسبت فرماتے ہیں کہ ہاں یہ بھی ہوا ہے، جس کی کیفیت یہ ہے کہ چند بار تو دوسری صورت میں دیکھا) پھر ( ایک بار ایسا بھی ہوا کہ) وہ فرشتہ (اپنی) اصلی صورت پر (آپ کے روبرو) نمودار ہوا ایسی حالت میں کہ وہ (آسمان کے) بلند کنارہ پر تھا ( ایک روایت میں افق شرقی سے اس کی تفسیر آئی ہے، کما فی الدر المنثور، اور افق میں دکھلا دینے کی غالباً یہ حکمت ہے کہ وسط سماء میں دیکھنا خالی از مشقت و تکلف نہیں اور اعلیٰ میں غالباً یہ حکمت تھی کہ باکل نیچے افق پر بھی پوری چیز نظر نہیں آتی، اس لئے ذرا اونچے پر نظر آئے اور اس دیکھنے کا قصہ یہ ہوا تھا کہ ایک بار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل (علیہ السلام) سے خواہش کی کہ مجھ کو اپنی اصلی صورت دکھلا دو ، انہوں نے حرا کے پاس وحسب روایت ترمذی محلہ جیاد میں وعدہ ٹھہرایا، آپ وہاں تشریف لے گئے تو ان کو افق مشرق میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو ہیں اور اس قدر پھیلے ہوئے ہیں کہ افق غربی تک گھیر رکھا ہے، آپ بیہوش ہو کر گر پڑے، اس وقت جبرئیل (علیہ السلام) بصورت بشر ہو کر آپ کے پاس تسکین کے لئے اتر آئے جس کا آگے ذکر ہے کذا فی الجلالین، حاصل یہ کہ وہ فرشتہ اول صورت اصلیہ میں افق اعلیٰ پر نمو دار ہوا) پھر ( جب آپ بےہوش ہوگئے تو) وہ فرشتہ ( آپ کے) نزدیک آیا پھر اور نزدیک آیا سو (قرب کی وجہ سے) دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ (غایت قرب کی وجہ سے) اور بھی کم (فاصلہ رہ گیا، مطلب دو کمانوں کا یہ ہے کہ عرب کی عادت تھی کہ جب دو شخص باہم غایت درجہ کا اتفاق و اتحاد کرنا چاہتے تھے تو دونوں اپنی اپنی کمانیں لے کر ان کے چلے یعنی تانت کو باہم متصل کردیتے اور اس صفت میں بھی بعض اجزاء کے اعتبار سے کچھ فصل ضروری رہتا ہے، پس اس محاورہ کی وجہ سے یہ کنایہ ہوگیا قرب و اتحاد سے اور چونکہ یہ محض اتفاق صوری کی علامت تھی تو اگر روحانی و قلبی اتفاق بھی ہو تو وہاں اَو اَدنیٰ بھی صادق آسکتا ہے، پس اَو اَدنیٰ کے بڑھا دینے میں اشارہ ہوگیا کہ مجاورت صوریہ کے علاوہ آپ میں اور جبرئیل (علیہ السلام) میں روحانی مناسبت بھی تھی جو مدار اعظم ہے معرفت تامہ اور حفظ صورت کا، غرض یہ کہ ان کی تسکین سے آپ کو تسکین ہوئی اور افاقہ ہوا) پھر (افاقہ کے بعد) اللہ تعالیٰ نے ( اس فرشتہ کے ذریعہ سے) اپنے بندہ ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل فرمائی جو کچھ نازل فرمانا تھی ( جس کی تعیین بالتخصیص معلوم نہیں اور نہ معلوم ہونے کی حاجت اور باوجودیکہ اصل مقصود اس وقت وحی نازل کرنا نہیں بلکہ جبرئیل کو ان کی اصلی صورت میں دکھلا کر ان کی پوری معرفت آپ کو عطا کرنی تھی مگر اس وقت اور بھی وحی نازل فرمانا شاید اس لئے ہو کہ یہ معرفت میں اور زیادہ معین ہو، کیونکہ اس وقت کی وحی کو جس کا منجانب اللہ ہونا جبرئیل (علیہ السلام) کی اصل صورت میں ہونے کی وجہ سے قطعی اور یقینی ہے اور دوسرے اوقات کی وحی جو بواسطہ صورت بشریہ ہے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دونوں کو ایک شان پر دیکھیں گے تو زیادہ سے زیادہ یقین میں قوت ہوگی کہ دونوں حالتوں میں وحی لانے والا واسطہ یعنی فرشتہ ایک ہی ہے، جیسا کہ کسی شخص کی آواز کے لب و لہجہ اور طرز کلام سے خوب آگاہ ہوں تو اگر کبھی وہ صورت بدل کر بھی بولتا ہے تو صاف پہچانا جاتا ہے، آگے اس دیکھنے کے متعلق ایک شبہ کا جواب ہے وہ شبہ یہ ہے کہ صورت اصلیہ میں دیکھنے کے باوجود یہ بھی تو احتمال ہوسکتا ہے کہ قلب کے ادراک و احساس میں غلطی ہوجائے جیسا کہ احساسات میں غلطی ہوجانا اکثر مشاہدہ کیا جاتا ہے، مجنون باوجود سلامت جس کے بعض اوقات پہچانے ہوئے لوگوں کو دوسرا شخص بتلانے لگتا ہے، پس یہ رویت صحیحہ تھی یا نہیں، آگے اس شبہ کا جواب ہے یعنی وہ رویت صحیحہ تھی کہ اس کے دیکھنے کے وقت) قلب نے دیکھی ہوئی چیز میں غلطی نہیں کی ( رہا یہ کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ قلب نے غلطی نہیں کی سو بات یہ ہے کہ اگر مطلقاً ایسے احتمالات قابل التفات ہوا کریں تو محسوسات کا کبھی اعتبار نہ رہے، پھر تو ساری دنیا کے معاملات ہی مختلف ہوجاویں، ہاں کسی کے پاس کوئی منشا شبہ کا معتدبہ موجود ہو تو اس پر غور کیا جاتا ہے اور احتمال خطائے قلبی کا منشاء یہ ہوسکتا ہے کہ ادراک کرنے والا مختل العقل ہو اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صحیح العقل، فطین و ذہین، صاحب فراست ہونا مشاہد اور ظاہر تھا، چونکہ باوجود اس اثبات بلیغ کے پھر بھی معاندین جدال و خلاف سے باز نہ آتے تھے اسی لئے آگے بطور توبیخ و تعجیب کے ارشاد فرماتے ہیں کہ جب تم نے ایسے شافی کافی بیان سے معرفت و رویت کا ثبوت سن لیا) تو کیا ان (پیغمبر) سے ان کی دیکھی (بھالی) ہوئی چیز میں نزاع کرتے ہو (یعنی جن چیزوں کا علم و ادراک انسان کو ہوتا ہے ان میں محسوسات جیسی چیزیں شک و شبہ سے بالاتر ہوتی ہیں، غضب کی بات ہے کہ تم حیات میں بھی اختلاف کرتے ہو، پھر یوں تو تمہاری حسیات میں بھی ہزاروں خدشے نکل سکتے ہیں) اور ( اگر یہ مہل خدشہ ہو کہ جس چیز کو ایک ہی بار دیکھا ہو تو اس کی پہچان کیسے ہو سکتی ہے تو جواب یہ ہے کہ اول تو یہ ضروری نہیں کہ ایک بار دیکھنے سے پہچان نہ ہو اور اگر علیٰ سبیل التنزل شناخت کے لئے تکرار مشاہدہ ہی کی ضروری ہے تو) انہوں نے (یعنی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے) اس فرشتہ کو ایک اور دفعہ بھی (صورت اصلیہ میں) دیکھا ہے (پس اب تو وہ تو ہم بھی مدفوع ہوگیا، کیونکہ تطابق صورتین سے پوری تعیین ہوگئی کہ ہاں جبرئیل (علیہ السلام) یہی ہیں، آگے اس دوبارہ دیکھنے کی جگہ بتلاتے ہیں کہ کہاں دیکھا یعنی شب معراج میں دیکھا ہے) سدرة المنتہیٰ کے پاس (سدرہ کہتے ہیں بیری کے درخت کو اور منتہیٰ کے معنی ہیں انتہا کی جگہ، حدیث میں آیا ہے کہ یہ ایک درخت ہے بیری کا، ساتویں آسمان میں عالم بالا سے جو احکام و ارزاق وغیرہ آتے ہیں وہ اول سدرة المنتہیٰ تک پہنچتے ہیں پھر وہاں سے ملائکہ زمین پر لاتے ہیں، اسی طرح یہاں سے جو اعمال صعود کرتے ہیں وہ بھی سدرة المنتہیٰ تک پہنچتے ہیں، پھر وہاں سے اوپر اٹھا لئے جاتے ہیں، دنیا میں اس کی مثال ڈاک خانہ کی سی ہے کہ آمد و برآمد خطوط وہاں سے ہوتی ہے اور عند سدرة المنتہیٰ میں تو امکان رویت بتلایا تھا، آگے اس مکان کا شرف بتلاتے ہیں کہ) اس (سدرة المنتہیٰ ) کے قریب جنت الماوی ہے (ماویٰ کے معنی رہنے کی جگہ چونکہ جنت نیک بندوں کے رہنے کی جگہ ہے اس لئے جنت الماویٰ کہتے ہیں، حاصل یہ کہ وہ سدرة المنتہیٰ ایک ممتاز موقع پر ہے، اب بعد تعیین مکان رویت کے رویت کا زمانہ بتلاتے ہیں کہ رویت کب ہوئی، پس فرماتے ہیں کہ) جب اس سدرة المنتہیٰ کو لپٹ رہی تھیں جو چیزیں لپٹ رہی تھیں ( ایک روایت میں ہے کہ سونے کے پروانے تھے، یعنی صورت پروانہ کی سی تھی اور ایک روایت میں ہے کہ وہ فرشتے تھے یعنی حقیقت ان کی یہ تھی اور ایک روایت میں ہے کہ ملائکہ نے حق تعالیٰ سے اجازت چاہی تھی کہ ہم بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کریں ان کو اجازت ہوگئی، وہ اس سدرہ پر جمع ہوگئے تھے، (الروایات کلہا فی الدر المنثور) اس میں بھی اشارہ ہوسکتا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معزز و مکرم ہونے کی طرف اور باقی وہی تقریر ہے جو تقیید سابق میں بیان کی گئی، اب ایک احتمال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسی حیرت انگیز چیزیں دیکھ کر نگاہ چکرا جاتی ہے پوری طرح ادراک پر قدرت نہیں رہتی، پس اس صورت میں جبرئیل (علیہ السلام) کی صورت کا کیا ادراک ہوگا، جب یہ ادراک ثانی معتبر نہ ہوا تو پھر اس خدشہ مذکورہ کا جو جواب لقدراہ نزلتہ اخری سے دیا گیا ہے وہ کافی نہ ہوا اس احتمال کے رفع کے لئے فرماتے ہیں کہ آپ ان عجائب کو دیکھ کر ذرا نہیں چکرائے اور بالکل متحیر نہیں ہوئے، چناچہ جن چیزوں کی رویت کا حکم تھا ان کی طرف نظر کرنے سے آپ کی) نگاہ نہ تو ہٹی (بلکہ ان چیزوں کو خوب دیکھا) اور ( جن چیزوں کے دیکھنے کا حکم جب تک نہ ہوا) نہ ( ان کی طرف دیکھنے کو آپ کی نگاہ) بڑھی (یعنی قبل اذن نہیں دیکھا، کذا فی المدارک فی الفرق بین زاغ وطغی، یہ دلیل ہے آپ کے غایت استقلال کی، کیونکہ عجیب چیزوں میں آ کر آدمی یہی دو حرکتیں کیا کرتا ہے جن چیزوں کے دیکھنے کو کہا جاتا ہے ان کو تو دیکھتا نہیں اور جن کے لئے نہیں کہا گیا ان کو تکتا ہے، غرض اس میں انضباط نہیں رہتا، آگے آپ کے استقلال کی قوت بیان کرنے کے لئے فرماتے ہیں کہ) انہوں نے (یعنی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے) اپنے پروردگار (کی قدرت) کے بڑے بڑے عجائبات دیکھے ( مگر ہر چیز کے دیکھنے میں آپ کی یہی شان رہی مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى، وہ عجائبات احادیث معراج میں آئے ہیں، انبیاء (علیہم السلام) کو دیکھنا ارواح کو دیکھنا جنت وغیرہ کو دیکھنا، پس ثابت ہوا کہ آپ میں غایت استقلال ہے، پس متحیر ہوجانے کا احتمال نہیں پس خدشہ کا جو جواب وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى میں مذکور تھا وہ سالم رہا، غرض تمام تر تقریر سے رویت و معرفت جبرئیل کے متعلق شبہ مندفع ہو کر امر سالت ثابت اور متحقق ہوگیا جو کہ مقصود مقام تھا)- معارف و مسائل - سورة نجم کی خصوصیات :- سورة نجم پہلی سورت ہے جس کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ میں اعلان فرمایا ( رواہ عبداللہ بن مسعود قرطبی) اور یہی سب سے پہلی سورت ہے جس میں آیت سجدہ نازل ہوئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سجدہ تلاوت کیا اور اس سجدہ میں ایک عجیب صورت یہ پیش آئی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سورت مجمع عام میں تلاوت فرمائی، جس میں مسلمان اور کفار سب شریک تھے، جب آپ نے آیت سجدہ پر سجدہ ادا کیا تو مسلمان تو آپ کے اتباع میں سجدہ کرتے ہی، سب نے حضور کے ساتھ سجدہ کیا، تعجب کی چیز یہ پیش آئی کہ جتنے کفار و مشرکین موجود تھے وہ بھی سب سجدہ میں گر گئے، صرف ایک متکبر شخص جس کے نام میں اختلاف ہے، ایسا رہا جس نے سجدہ نہیں کیا، مگر زمین سے ایک مٹھی مٹی کی اٹھا کر پیشانی سے لگالی اور کہنے لگا کہ بس یہی کافی ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود راوی حدیث فرماتے ہیں کہ میں نے اس شخص کو کفر کی حالت میں مرا ہوا دیکھا ہے (رواہ البخاری و مسلم و اصحاب السنن، ابن کثیر ملخصاً )- اس سورت کے شروع میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول برحق ہونے اور آپ پر نازل ہونے والی وحی میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ ہونے کا بیان ہے۔- وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰى، لفظ نجم ستارے کے معنی میں آتا ہے، ہر ایک ستارے کو نجم اور جمع نجوم بولی جاتی ہے اور کبھی یہ لفظ خاص طور سے ثریا ستارے کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو چند ستاروں کا مجموعہ ہے، اس آیت میں بھی بعض حضرات نے نجم کی تفسیر ثریا سے کی ہے، فرا اور حضرت حسن بصری نے پہلی تفسیر یعنی مطلق ستارے کو ترجیح دی ہے (قرطبی) اسی کو اوپر خلاصہ تفسیر میں اختیار کیا گیا ہے۔- اِذَا هَوٰى لفظ ہوٰی، ساقط ہونے اور گرنے کے معنی میں آتا ہے، ستارے کا گرنا اس کا غروب ہونا ہے، اس آیت میں حق تعالیٰ نے ستاروں کی قسم کھا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وحی کا حق و صحیح و شکوک سے بالاتر ہونا بیان فرمایا ہے، سورة صافات میں مفصل گزر چکا ہے کہ حق تعالیٰ کو اختیار ہے کہ وہ خاص مصالح اور حکمتوں کے لئے اپنی خاص خاص مخلوقات کی قسم کھاتے ہیں، دوسروں کو اس کی اجازت نہیں کہ اللہ کے سوا کسی کی قسم کھائے، یہاں حق تعالیٰ نے ستاروں کی قسم کھائی جس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ ستارے اندھیری رات میں سمتیں اور راستے بتانے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اور ان سے سمت مقصود کی طرف ہدایت ہوتی ہے، ایسے ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ کے راستے کی طرف ہدایت ہوتی ہے۔
وَالنَّجْمِ اِذَا ہَوٰى ١ ۙ- نجم - أصل النَّجْم : الكوكب الطالع، وجمعه :- نُجُومٌ ، ونَجَمَ : طَلَعَ ، نُجُوماً ونَجْماً ، فصار النَّجْمُ مرّة اسما، ومرّة مصدرا، فَالنُّجُوم مرّة اسما کالقلُوب والجُيُوب، ومرّة مصدرا کالطُّلوع والغروب، ومنه شُبِّهَ به طلوعُ النّبات، والرّأي، فقیل : نَجَمَ النَّبْت والقَرْن، ونَجَمَ لي رأي نَجْما ونُجُوماً ، ونَجَمَ فلانٌ علی السّلطان : صار - عاصیا، ونَجَّمْتُ المالَ عليه : إذا وَزَّعْتُهُ ، كأنّك فرضت أن يدفع عند طلوع کلّ نَجْمٍ نصیباً ، ثم صار متعارفا في تقدیر دفعه بأيّ شيء قَدَّرْتَ ذلك . قال تعالی: وَعَلاماتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل 16] ، وقال : فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات 88] أي : في علم النُّجُوم، وقوله : وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم 1] ، قيل : أراد به الكوكب، وإنما خصّ الهُوِيَّ دون الطّلوع، فإنّ لفظة النَّجْم تدلّ علی طلوعه، وقیل : أراد بِالنَّجْم الثُّرَيَّا، والعرب إذا أطلقتْ لفظَ النَّجم قصدتْ به الثُّرَيَّا . نحو : طلع النَّجْمُ غُدَيَّه ... وابْتَغَى الرَّاعِي شُكَيَّه «1»- وقیل : أراد بذلک القرآن المُنَجَّم المنزَّل قَدْراً فَقَدْراً ، ويعني بقوله : هَوى نزولَهُ ، وعلی هذا قوله : فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] فقد فُسِّرَ علی الوجهين، والتَّنَجُّم : الحکم بالنّجوم، وقوله تعالی: وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن 6] فَالنَّجْمُ : ما لا ساق له من النّبات، وقیل : أراد الکواكبَ.- ( ن ج م ) النجم - اصل میں طلوع ہونے ولاے ستارے کو کہتے ہیں اس کی جمع نجوم آتی ہے ۔ اور نجم ( ن ) نجوما ونجاما کے معنی طلوع ہونے کے ہیں نجم کا لفظ کبھی اسم ہوتا ہے اور کبھی مصدر اسی طرح نجوم کا لفظ کبھی قلوب وجیوب کی طرح جمع ہوتا ہے اور کبھی طلوع و غروب کی طرح مصدر اور تشبیہ کے طور پر سبزہ کے اگنے اور کسی رائے کے ظاہر ہونے پر بھی نجم النبت والقرن ونجم لی رای نجما کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ نجم فلان علی السلطان بادشاہ سے لغایت کرنا نجمت المال علیہ اس کے اصل منعی تو ستاروں کے طلوع کے لحاظ سے قرض کی قسطیں مقرر کرنے کے ہیں ۔ مثلا فلاں ستارے کے طلوع پر مال کی اتنی قسط ادا کرتا رہوں گا ۔ مگر عرف میں لطلق اقساط مقرر کرنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل 16] اور لوگ ستاروں سے بھی رستے معلوم کرتے ہیں ۔ فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات 88] تب انہوں نے ستاروں کی طرف ایک نظر کی ۔ یعنی علم نجوم سے حساب نکالا ۔ اور آیت کریمہ ؛ ۔ وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم 1] تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نجم سے مراد ستارہ ہے اور طلع کی بجائے ھوی کا لفظ لانے کی وجہ یہ ہے کہ طلوع کے معنی پر تو لفظ نجم ہی دلالت کر رہا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ جنم سے مراد ثریا یعنی پر دین ہے کیونکہ اہل عرب جب مطلق النجم کا لفظ بولتے ہیں تو پر دین ہی مراد ہے جیسا کہ مقولہ ہے طلع النجم غد یہ وابتغی الراعی سکیہ صبح کا ستارہ طلوع ہوا اور چر واہے نے اپنا مشکیزہ سنبھالا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آیت مذکورہ میں النجم سے مراد نجوم القرآن ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی تد ریجا معین مقدار میں نازل ہوتا رہا ہے اور ھوی سے اس کا نزول مراد ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ میں بھی مواقع النجوم کی دو طرح تفسیر بیان کی گئی ہے یعنی بعض نے مواقع النجوم سے مراد ستاروں کے منازل لئے ہیں اور بعض نے نجوم القرآن مراد لئے ہیں ۔ التنجم علم نجوم کے حساب سے کوئی پیش گوئی کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدے کر رہے ہیں ۔ میں نجم سے بےتنہ نباتات یعنی جڑی بوٹیاں مراد ہیں اور بعض نے ستارے مراد لئے ہیں ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- ھویٰ- ماضی واحد مذکر غائب ھ و ی مادہ سے مصدر۔ ھوی ھ کی فتح سے باب ضرب سے بمعنی ( ستارہ کا طلوع ہونا۔ اور مصدر ھوی ( ھ کے ضمیر سے) باب ضرب سے بمعنی ( ستارہ کا) غروب ہونا۔ مستعمل ہے ۔ چونکہ ہر دو مصادر میں ھوی یھوی ( ماضی اور مضارع) کی ایک ہی صورت ہے لہٰذا ھوی بمعنی ( ستارہ کا) طولع ہونا یا غروب ہونا ہر دو طرح جائز ہے اور دونوں معانی بھی ایک ہی صیغہ میں لئے جاسکتے ہیں یعنی ( ستارہ کا) طلوع و غروب ہونا۔ - هوى- الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى.- ( ھ و ی ) الھوی - ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ - الھوی - ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت - وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ - وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔- وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ - الھوی - ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔
(١۔ ٢) اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی قسم کھا کر فرماتا ہے جب کہ قرآن حکیم کو بذریعہ جبریل امین رسول اکرم پر قسط وار ایک ایک دو دو تین تین اور چار چار آیتیں کر کے پورے بیس سال میں نازل فرمایا جب آیت نازل ہوئی تو عتبہ بن ابی لہب نے سنا کہ محمد قرآن حکیم کے حصوں کی قسم کھاتے ہیں تو اس نے کہا کہ محمد کو یہ بات پہنچا دو کہ میں قرآن کریم کے حصوں کا انکار کرتا ہوں، جبکہ ان لوگوں نے آپ کو یہ بات پہنچائی تو آپ نے فرمایا الہ العالمین اپنے درندوں میں سے کوئی درندہ اس پر مسلط کردے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے حران کے قریب ایک شیر کو اس پر مسلط کردیا تو اس شیر نے اسے اس کے ساتھیوں میں سے نکال کر قریب ہی سر سے لے کر پیر تک پھاڑ دیا اور شیر نے اس کی نجاست کی وجہ سے اسے چکھا بھی نہیں اور رسول اکرم کی بددعا کی وجہ سے جیسا وہ تھا اسی طرح اس کو چھوڑ دیا۔- یا یہ مطلب ہے کہ قسم ہے مطلق ستاروں کی جبکہ وہ غروب ہونے لگیں کہ محمد جو تم سے بیان کرتے ہیں اس میں نہ وہ راہ حق سے بھٹکے اور نہ غلطی پر ہوئے۔
آیت ١ وَالنَّجْمِ اِذَا ہَوٰی ۔ ” قسم ہے ستارے کی جبکہ وہ گرتا ہے۔ “- ھَوٰی یَھْوِیْ ھَوِیًّا کا اصل معنی ہے اوپر سے نیچے گرنا۔ یہاں اس سے ستاروں کا افق سے غائب ہونا ‘ ڈوب جانا یا فنا ہوجانا مراد ہوسکتا ہے۔ (اس پر قدرے تفصیلی بحث سورة الواقعہ میں ” مَوَاقِعِ النُّجُوْم “ کے ضمن میں آئے گی۔ ) الْھَوِیَّۃ گہرے کنویں کو اور ھَاوِیَۃ دوزخ کو کہا جاتا ہے۔ جبکہ اسی مادہ سے ھَوِیَ یَھْوٰی ھَوًی کا معنی ہے خواہش کرنا۔ یہ لفظ (الھَوٰی) آگے آیت ٣ میں آ رہا ہے۔
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :1 اصل میں لفظ النّجم استعمال ہوا ہے ۔ ابن عباس ، مجاہد اور سُفیان ثوری کہتے ہیں کہ اس سے مراد ثریا ( ) ہے ۔ ابن جریر اور زمخشری نے اسی قول کو ترجیح دی ہے ، کیونکہ عربی زبان میں جب مطلقاً النجم کا لفظ بولا جاتا ہے تو عموماً اس سے ثریا ہی مراد لیا جاتا ہے ۔ سدی کہتے ہیں کہ اس سے مراد زہرہ ( ) ہے ۔ اور ابو عبیدہ نجوی کا قول ہے کہ یہاں النجم بول کر جنس نجوم مراد لی گئی ہے ، یعنی مطلب یہ ہے کہ جب صبح ہوئی اور سب ستارے غروب ہو گئے ۔ موقع و محل کے لحاظ سے ہمارے نزدیک یہ آخری قول زیادہ قابل ترجیح ہے ۔
1: ستارے کے گرنے سے مراد اُس کا غائب ہونا ہے۔ جیسا کہ سورت کے تعارف میں عرض کیا گیا، اس سورت کا اصل موضوع حضور نبی کریم (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی رسالت کو ثابت کرنا ہے، اس لئے سورت کے شروع میں آپ پر نازل ہونے والی وحی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ایک قابلِ اعتماد فرشتہ آپ کے پاس لے کر آتا ہے۔ شروع میں ستارے کی قسم کھانے سے اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جس طرح ستارہ روشنی کی ایک علامت ہے، اور عرب کے لوگ اُس سے صحیح راستے کا پتہ لگاتے تھے، اسی طرح حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم لوگوں کے لئے روشنی اور ہدایت کا پیکر ہیں۔ اس کے علاوہ ستارے کے سفر کے لئے اﷲ تعالیٰ نے جو راستہ مقرّر فرمایا ہے، وہ اُس سے بال برابر بھی اِدھر اُدھر نہیں ہوتا، اور نہ اُس سے بھٹکتا ہے، اسی طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ وہ نہ راستہ بھولے ہیں، نہ بھٹکے ہیں۔ پھر جب ستارہ غائب ہونے والا ہوتا ہے تو اُس کے ذریعے راستہ زیادہ آسانی سے معلوم ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ مسافروں کو اُس کا زبانِ حال سے یہ پیغام ہوتا ہے کہ میں رُخصت ہونے والا ہوں، مجھ سے راستہ معلوم کرنے میں جلدی کرو۔ اسی طرح حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم دُنیا میں زیادہ عرصے مقیم نہیں رہیں گے، اس لئے آپ سے ہدایت حاصل کرنے والوں کو جلدی کرنی چاہئیے۔