گناہ اور ضابطہ الہٰی مالک آسمان و زمین بےپرواہ مطلق شہنشاہ حقیقی عادل خالق حق و حق کار اللہ تعالیٰ ہی ہے ہر کسی کو اس کے اعمال کا بدلہ دینے والا نیکی پر نیک جزا اور بدی پر بری سزا دہی دے گا اس کے نزدیک بھلے لوگ وہ ہیں جو اس کی حرام کردہ چیزوں اور کاموں سے بڑے بڑے گناہوں اور بدکاریوں و نالائقیوں سے الگ رہیں ان سے بہ تقاضائے بشریت اگر کبھی کوئی چھوٹا سا گناہ سرزد ہو بھی جائے تو پروردگار پردہ پوشی کرتا ہے اور معاف فرما دیتا ہے جیسے اور آیت میں ہے ( اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَاۗىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِيْمًا 31 ) 4- النسآء:31 ) اگر تم ان کبیرہ گناہوں سے پاکدامن رہے جن سے تمہیں روک دیا گیا ہے تو ہم تمہاری برائیاں معاف فرما دیں گے ، یہاں بھی فرمایا مگر چھوٹی چھوٹی لغزشیں اور انسانیت کی کمزوریاں معاف ہیں ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں لم کی تفسیر میرے خیال میں حضرت ابو ہریرہ کی بیان کردہ اس حدیث سے زیادہ اچھی کوئی نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر اس کا زنا کا حصہ لکھ دیا ہے جسے وہ یقینا پا کر ہی رہے گا آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے زبان کا زنا بولنا ہے دل امنگ اور آرزو کرتا ہے ، اب شرمگاہ خواہ اسے سچا کر دکھائے یا جھوٹا ( بخاری و مسلم ) حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں آنکھوں کا زنا نظر کرنا ہے اور ہونٹوں کا بوسہ لینا ہے اور ہاتھوں کا زنا پکڑنا ہے اور پیروں کا زنا چلنا ہے اور شرمگاہ اسے سچا کرتی ہے یا جھوٹا کر دیتی ہے یعنی اگر شرمگاہ کو نہ روک سکا اور بدکاری کر بیٹھا تو سب اعضاء کا زنا ثابت اور اگر اپنے اس عضو کو روک لیا تو وہ سب لم میں داخل ہے ، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ لم بوسہ لینا چھڑنا دیکھنا مس کرنا ہے اور جب شرمگاہیں مل گئیں تو غسل واجب ہو گیا اور زناکاری کا گناہ ثابت ہو گیا ، حضرت ابن عباس سے اس جملہ کی تفسیر یہی مروی ہے یعنی جو پہلے گذر چکا ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں گناہ سے آلودگی ہو پھر چھوڑ دے تو لم میں داخل ہے ، شاعر کہتا ہے ان تغفر اللھم تغفر جما ، وای عبد لک ما الما اے اللہ جبکہ تو معاف فرماتا ہے تو سب کچھ ہی معاف فرما دے ورنہ یوں آلودہ عصیاں تو ہر انسان ہے ۔ مجاہد فرماتے ہیں اہل جاہلیت اپنے طواف میں عموماً اس شعر کو پڑھا کرتے تھے ۔ ابن جریر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شعر کو پڑھنا بھی مروی ہے ترمذی میں بھی یہ مروی ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح غریب کہتے ہیں ، بزار فرماتے ہیں ہمیں اس کی اور سند معلوم نہیں صرف اسی سند سے مرفوعاً مروی ہے ابن ابی حاتم اور بغوی نے بھی اسے نقل کیا ہے بغوی نے اسے سورہ تنزیل میں روایت کیا ہے لیکن اس مرفوع کی صحت میں نظر ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مراد یہ ہے کہ زنا سے نزدیکی ہونے کے بعد توبہ کرے اور پھر نہ لوٹے چوری کے قریب ہو جانے کے بعد چوری نہ کی اور توبہ کرکے لوٹ آیا اسی طرح شراب پینے کے قریب ہو کر شراب نہ پی اور توبہ کر کے لوٹ گیا یہ سب المام ہیں جو ایک مومن کو معاف ہیں ، حضرت حسن سے بھی یہی مروی ہے ایک روایت میں ہے صحابہ سے عمومًا اس کا مروی ہونا بیان کیا گیا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں مراد اس سے شرک کے علاوہ گناہ ہیں ۔ ابن زبیر فرماتے ہیں دو حدوں کے درمیان حد زنا اور عذاب آخرت ہے ، حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ہر وہ چیز جو دو حدوں کے درمیان حد دنیا اور حد آخرت نمازیں اس کا کفارہ بن جاتی ہیں اور وہ ہر واجب کر دینے والی سے کم ہے حد دنیا تو وہ ہے جو کسی گناہ پر اللہ نے دنیاوی سزا مقرر کر دی ہے اور اس کی سزا دنیا میں مقرر نہیں کی ۔ تیرے رب کی بخشش بہت وسیع ہے ہر چیز کو گھیر لیا ہے اور تمام گناہوں پر اس کا احاطہ ہے جیسے فرمان ہے آیت ( قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 53 ) 39- الزمر:53 ) اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جان پر اسراف کیا ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے اور وہ بڑی بخشش والا اور بڑے رحم والا ہے پھر فرمایا وہ تمہیں دیکھنے والا اور تمہارے ہر حال کا علم رکھنے والا اور تمہارے ہر کلام کو سننے والا اور تمہارے تمام تر اعمال سے واقف ہے جبکہ اس نے تمہارے باپ آدم کو زمین سے پیدا کیا اور ان کی پیٹھ سے ان کی اولاد نکالی جو چیونٹیوں کی طرح پھیل گئی پھر ان کی تقسیم کر کے دو گروہ بنا دئیے ایک جنت کے لئے اور ایک جہنم کے لئے اور جب تم اپنی ماں کے پیٹ میں بچے تھے اس کی مقرر کردہ فرشتے نے روزی عمر عمل نیکی بدی لکھ لی بہت سے بچے پیٹ سے ہی گر جاتے ہیں ۔ بہت سے دودھ پینے کی حالت میں فوت ہو جاتے ہیں ، بہت سے دودھ چھٹنے کے بعد بلوغت سے پہلے ہی چل بستے ہیں بہت سے عین جوانی میں دار دنیا خالی کر جاتے ہیں ، اب جبکہ ہم تمام منازل کو طے کر چکے اور بڑھاپے میں آگئے جس کے بعد کوئی منزل موت کے سوا نہیں اب بھی اگر ہم نہ سنبھلیں تو ہم سے بڑھ کر غافل کون ہے ؟ خبردار تم اپنے نفس کو پاک نہ کہو اپنے نیک اعمال کی تعریفیں کرنے نہ بیٹھ جاؤ اپنے آپ سراہنے نہ لگو جس کے دل میں رب کا ڈر ہے اسے رب ہی خوب جانتا ہے اور آیت میں ہے ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يُزَكُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ ۭ بَلِ اللّٰهُ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ وَلَا يُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا 49 ) 4- النسآء:49 ) کیا تو نے ان لوگوں کو نہ دیکھا جو اپنے نفس کی پاکیزگی آپ بیان کرتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ یہ اللہ کے ہاتھ ہے جسے وہ چاہے برتر اعلیٰ اور پاک صاف کر دے کسی پر کچھ بھی ظلم نہ ہو گا ۔ محمد بن عمرو بن عطا فرماتے ہیں میں نے اپنی لڑکی کا نام برہ رکھا تو مجھ سے حضرت زینت بنت ابو سلمہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نام سے منع فرمایا ہے خود میرا نام بھی برہ تھا جس پر آپ نے فرمایا تم خود اپنی برتری اور پاکی آپ نہ بیان کرو تم میں سے نیکی والوں کا علم پورے طور پر اللہ ہی کو ہے لوگوں نے کہا پھر ہم اس کا کیا نام رکھیں ؟ فرمایا زینب نام رکھو مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی ایک شخص کی بہت تعریفیں بیان کیں آپ نے فرمایا افسوس تو نے اس کی گردن ماری کئی مرتبہ یہی فرما کر ارشاد فرمایا کہ اگر کسی کی تعریف ہی کرنی ہو تو یوں گمان فلاں کی طرف سے ایسا ہے حقیقی علم اللہ کو ہی ہے پھر اپنی معلومات بیان کرو خود کسی کی پاکیزگیاں بیان کرنے نہ بیٹھ جاؤ ۔ ابو داؤد اور مسلم میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عثمان کے سامنے ان کی تعریفیں بیان کرنا شروع کر دیں اس پر حضرت مقداد بن اسود اس کے منہ میں مٹی بھرنے لگے اور فرمایا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تعریفیں کرنے والوں کے منہ مٹی سے بھر دیں ۔
31۔ 1 یعنی ہدایت اور گمراہی اسی کے ہاتھ میں ہے، وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے، گمراہی کے گڑھے میں ڈال دیتا ہے، تاکہ نیکوکار اس کی نیکیوں کا صلہ اور بدکار کو اس کی برائیوں کا بدلہ دے۔
[٢١] اس آیت میں واضح طور پر آخرت، اس کی اہمیت اور اس کی حکمت بیان کی گئی ہے یعنی دنیا میں مشرک و موحد، نیک اور بد، متقی اور ظالم کے اعمال کا نتیجہ کبھی اتنا واضح طور پر نہیں نکلا کرتا جس سے انسان بھلائی کی راہ قبول کرنے پر مجبور ہوجائے۔ یہ دنیا صرف دارالعمل ہے دارالجزا اخروی زندگی ہے۔ وہاں برے اور بھلے مشرک اور موحد کا فرق اتنا واضح ہوگا جس کو ہر شخص دیکھ بھی لے گا اور عذاب وثواب اس پر واقع ہوگا۔
(١) وللہ ما فی السموت وما فی الارض : لفظ ” للہ “ پہلے لانے سے حصر پیدا ہو رہا ہے۔ اس جملے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے اختیار کے کمال کا ذکر ہے کہ ساری کائنات کی ہر چیز کا وہی مالک ہے۔- (٢) لیجزی الذین آساء وبما عملوا : تو جب وہ علم اور قدرت دونوں میں کامل ہے تو اس کا نتیجہ یہی ہے کہ وہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلا دے گا اور بھلائی کرنے والوں کو بھلائی کے ساتھ بدلا دے گا، ان میں سے کوئی بھی نہ کے علم سے اوجھل ہے نہ اس کی قدرت سے باہر ہے۔ اس میں برائی کرنے والوں کے لئے وعید اور بھلائی کرنے والوں کے لئے وعدہ ہے۔
وَلِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ٠ ۙ لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اَسَاۗءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰى ٣١ ۚ- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - ساء - ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال :- سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما - [ الأعراف 20] .- ساء - اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔
آسمانوں اور زمین میں جس قدر مخلوق ہے وہ سب اللہ ہی کے اختیار میں ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین کو ان کے شرک کی سزا دے گا اور موحدین کو ان کی توحید کے صلہ میں جنت عطا کرے گا۔
آیت ٣١ وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ” اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے “- آسمانوں اور زمین کی ہرچیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔- لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَآئُ وْا بِمَا عَمِلُوْا ” تاکہ وہ بدلہ دے ان کو جنہوں نے برائیاں کمائی ہیں ان کے اعمال کا “- وَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰی ۔ ” اور بدلہ دے ان کو جنہوں نے نیک کام کیے ہیں اچھا۔ “
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :28 بالفاظ دیگر کسی آدمی کے گمراہ یا بر سر ہدایت ہونے کا فیصلہ نہ اس دنیا میں ہونا ہے نہ اس کا فیصلہ دنیا کے لوگوں کی رائے پر چھوڑا گیا ہے ۔ اس کا فیصلہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ، وہی زمین و آسمان کا مالک ہے ، اور اسی کو یہ معلوم ہے کہ دنیا کے لوگ جن مختلف راہوں پر چل رہے ہیں ان میں سے ہدایت کی راہ کون سی ہے اور ضلالت کی راہ کون سی ۔ لہٰذا تم اس بات کی کوئی پروا نہ کرو کہ یہ مشرکین عرب اور یہ کفار مکہ تم کو بہکا اور بھٹکا ہوا آدمی قرار دے رہے ہیں اور اپنی جاہلیت ہی کو حق اور ہدایت سمجھ رہے ہیں ۔ یہ اگر اپنے اسی زعم باطل میں مگن رہنا چاہتے ہیں تو انہیں مگن رہنے دو ۔ ان سے بحث و تکرار میں وقت ضائع کرنے اور سر کھپانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :29 یہاں سے پھر وہی سلسلہ کلام شروع ہو جاتا ہے جو اوپر سے چلا آ رہا تھا ۔ گویا جملہ معترضہ کو چھوڑ کر سلسلہ عبارت یوں ہے : اُسے اس کے حال پر چھوڑ دو تاکہ اللہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دے ۔