[٣١] یعنی ہر شخص کا رنج و راحت، مسرت اور غم وغیرہ دونوں طرح کے ظاہری اور باطنی اسباب اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ وہ ہر شخص کی قسمت کو اتفاقاً بھی اور تدریجاً بھی بدل دینے کی قدرت رکھتا ہے۔
١۔ وانہ ھو اضحک وابکی۔۔۔۔۔ اس سے پچھلی آیات میں ان معاملات کا ذکر تھا جو انسان کے اختیار میں ہیں ، اختیار کے باوجود ان میں انسان کی کوتاہی ایک مسلم امر ہے ، جیسا کہ فرمایا ( کَلاَّ لَمَّا یَقْضِ مَآ اَمَرَہٗ ) (عبس : ٢٣)” ہرگز نہیں ، ابھی تک اس نے وہ کام پورا نہیں کیا جس کا اس نے اسے حکم دیا۔ “ پھر کسی کے پاس اپنے تزکیے کی کیا گنجائش ہے ؟ اب ان معاملات کا ذکر ہے جن میں انسان کا کچھ اختیار نہیں ، مثلاً ہنسنانا ، رلانا ، مارنا ، جلانا ( زندہ کرنا) ایک نطفہ سے کسی کو مرد اور کسی کو عورت بنادینا ، مارنے کے بعد دوبارہ زندہ کردینا، غنی کردینا ، خزانے بخش دینا ، مشرکین جن ستاروں کو پوجتے ہیں ان سب کا ، خصوصاً ” شعریٰ “ کا رب ہونا اور بڑی بڑی قوت والی قوموں کو نافرمانی پر ہلاک کردینا ، یہ سب کچھ صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے ۔ پھر جب انسان اس قادر مطلق کے سامنے اتنا بےبس ہے کہ اس کا رونا ، ہنسنا اور مرنا جینا بھی اس کے اختیار میں نہیں اور نہ اسے اگلے لمحے تک خبر ہے کہ اسے ہنسنا یا رونا ، جینا ہے یا مرنا ، تو وہ اپنا تزکیہ کس منہ سے کرتا ہے ؟ - ٢۔ وانہ ھو اغنی واقنی۔۔۔۔ اقنی ” قنیۃ “ سے ہے جس کا معنی خزانہ ہے۔ یعنی اس نے جمع کرنے اور خزانہ بنانے کے لیے مال عطا فرمایا۔ آیت :(وانہ ھو اضحک وابکی) اور یہ آیت (وانہٗ ھو اغنی و اقنی) دونوں میں ” انہ “ کے بعد ” ھو “ ضمیر سے حصر پیدا ہو رہا ہے ، یعنی وہی ہے جس نے ہنسایا اور رلایا۔۔۔۔۔- ٣۔ وانہٗ ھو رب الشعری : ہر چیز کا رب ہونے کے باوجود اس ستارے کا رب ہونے کا خاص طور پر ذکر اس لیے فرمایا کہ بعض عرب مثلاً خزاعہ وغیرہ اس کی پرستش کرتے تھے ، اس لیے فرمایا کہ تم جس ستارے کی پرست کرتے ہو تمہاری قسمتیں اس کے اختیار میں نہیں ، وہ تو خود اپنی قسمت کا مالک نہیں ، بلکہ اس کا رب بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
وَاَنَّهٗ هُوَ اَضْحَكَ وَاَبْكٰى، یعنی نوع انسان میں خوشی اور غم اور اس کے نتیجہ میں ہنسنے اور رونے کا سلسلہ ہر شخص دیکھتا ہے اور ان دونوں چیزوں کو ان کے ظاہری طور پر پیش آنے والے اسباب کی طرف منسوب کر کے معاملہ ختم کردیتا ہے، یہاں غور و فکر کی جگہ ہے، گہری نظر سے جو دیکھے گا کہ کسی کی خوشی یا غم اور ہنسنا یا رونا خود اس کے یا کسی دوسرے کے قبضہ میں نہیں، یہ دونوں چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، وہ اسباب کو پیدا کرتا ہے وہی اسباب میں تاثیر دیتا ہے وہ جب چاہتا ہے تو رونے والوں کو ایک لمحہ میں ہنسا دیتا ہے، اور ہنسنے والوں کو ایک منٹ میں رلا دیتا ہے، ولنعم ما قیل - بگوش گل چہ سخن گفتہ کہ خندان ست بعندلیب چہ فرمودہ کہ نالان ست
وَاَنَّہٗ ہُوَاَضْحَكَ وَاَبْكٰى ٤٣ ۙ- ضحك - الضَّحِكُ : انبساطُ الوجه وتكشّر الأسنان من سرور النّفس، ولظهور الأسنان عنده سمّيت مقدّمات الأسنان الضَّوَاحِكِ. - قال تعالیٰ “ وَامْرَأَتُهُ قائِمَةٌ فَضَحِكَتْ [هود 71] ، وضَحِكُهَا کان للتّعجّب بدلالة قوله : أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود 73] ، ويدلّ علی ذلك أيضا قوله : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ إلى قوله : عَجِيبٌ [هود 72] ، وقول من قال : حاضت، فلیس ذلک تفسیرا لقوله : فَضَحِكَتْ كما تصوّره بعض المفسّرين «1» ، فقال : ضَحِكَتْ بمعنی حاضت، وإنّما ذکر ذلک تنصیصا لحالها، وأنّ اللہ تعالیٰ جعل ذلک أمارة لما بشّرت به، فحاضت في الوقت ليعلم أنّ حملها ليس بمنکر، إذ کانت المرأة ما دامت تحیض فإنها تحبل،- ( ض ح ک ) الضحک - ( س) کے معنی چہرہ کے انبساط اور خوشی سے دانتوں کا ظاہر ہوجانا کے ہیں اور ہنستے وقت چونکہ سامنے کے دانت ظاہر ہوجاتے ہیں اس لئے ان کو ضواحک کہاجاتا ہے اور بطور استعارہ ضحک بمعنی تمسخر بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ ضحکت منہ کے معنی ہیں میں نے اس کا مذاق اڑایا اور جس شخص کا لوگ مذاق اڑائیں اسے ضحکۃ اور جو دوسروں کا مذاق اڑائے اسے ضحکۃ ( بفتح الحاء ) کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَامْرَأَتُهُ قائِمَةٌ فَضَحِكَتْ [هود 71] اور حضرت ابراہیم کی بیوی ( جوپ اس ) کھڑیتی ہنس پڑی ۔ میں ان کی بیوی ہنسنا تعجب کی بنا پر تھا جیسا کہ اس کے بعد کی آیت : أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود 73] کیا خدا کی قدرت سے تعجب کرتی ہو سے معلوم ہوتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ إلى قوله : عَجِيبٌ [هود 72] اسے ہے میرے بچو ہوگا ؟ میں تو بڑھیا ہوں ۔۔۔۔ بڑی عجیب بات ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ اور جن لوگوں نے یہاں ضحکت کے معنی حاضت کئے ہیں انہوں نے ضحکت کی تفسیر نہیں کی ہے ۔ جیسا کہ بعض مفسرین نے سمجھا سے بلکہ اس سے حضرت ابراہیم کی بیوی کی حالت کا بیان کرنا مقصود ہے کہ جب ان کو خوشخبری دی گئی تو بطور علامت کے انہیں اسی وقت حیض آگیا ۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ ان کا حاملہ ہونا بھی کچھ بعید نہیں ہے ۔ کیونکہ عورت کو جب تک حیض آتا ہے وہ حاملہ ہوسکتی ہے - بكي - بَكَى يَبْكِي بُكًا وبُكَاءً ، فالبکاء بالمدّ : سيلان الدمع عن حزن وعویل، يقال إذا کان الصوت أغلب کالرّغاء والثغاء وسائر هذه الأبنية الموضوعة للصوت، وبالقصر يقال إذا کان الحزن أغلب، وجمع البَاكِي بَاكُون وبُكِيّ ، قال اللہ تعالی: خَرُّوا سُجَّداً وَبُكِيًّا [ مریم 58]- ( ب ک ی ) بکی - یبکی کا مصدر بکی وبکاء یعنی ممدود اور مقصور دونوں طرح آتا ہے اور اس کے معنی غم کے ساتھ آنسو بہانے اور رونے کے ہیں اگر آواز غالب ہو تو اسے بکاء ( ممدود ) کہا جاتا ہے جیسے رغاء وثغاء اور اس نوع کے دیگر اوزاں جو صوت کے لئے وضع کئے گئے ہیں اور اگر غم غالب ہو تو اسے بکی ( بالقصر ) کہا جاتا ہے الباکی رونے والا غم اور اندوہ سے آنسو بہانے والا اس کی جمع باکون وب کی آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ خَرُّوا سُجَّداً وَبُكِيًّا [ مریم 58] تو سجدے میں کر پڑتے اور روتے رہتے تھے ۔
(٤٣۔ ٤٤) اور وہی اہل جنت کو ایسی نعمتیں دیتا ہے جس سے وہ خوش ہوتے ہیں اور وہی دوزخیوں کو ایسی ذلت دیتا ہے جو ان کے رنج و غم کا باعث ہوتی ہے اور یہ کہ وہی دنیا میں مارتا ہے اور آخرت میں جلاتا ہے یا یہ کہ آباء کو مارتا ہے اور اولاد کو زندہ کرتا ہے۔
آیت ٤٣ وَاَنَّـہٗ ہُوَ اَضْحَکَ وَاَبْکٰی ۔ ” اور یہ کہ وہی ہے جو ہنساتا بھی ہے اور رلاتا بھی ہے۔ “- یعنی اچھے برے حالات ‘ خوشی ‘ غم ‘ تکلیف ‘ بیماری سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :40 یعنی خوشی اور غم ، دونوں کے اسباب اسی کی طرف سے ہیں ۔ اچھی اور بری قسمت کا سر رشتہ اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ کسی کو اگر راحت و مسرت نصیب ہوئی ہے تو اسی کے دینے سے ہوئی ہے ۔ اور کسی کو مصائب و آلام سے سابقہ پیش آیا ہے تو اسی کی مشیت سے پیش آیا ہے ۔ کوئی دوسری ہستی اس کائنات میں ایسی نہیں ہے جو قسمتوں کے بنانے اور بگاڑنے میں کسی قسم کا دخل رکھتی ہو ۔