Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

59۔ 1 بات سے مراد قرآن کریم ہے، یعنی اس سے تم تعجب کرتے اور اس کا مذاق کرتے ہو، حالانکہ اس میں نہ تعجب والی کوئی بات ہے نہ مذاق اور جھٹلانے والی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٢] یعنی تم تعجب تو ایسے کرتے ہو جیسے دوبارہ مر کر جی اٹھنے کی بات آج پہلی بار سنی ہے۔ حالانکہ تمام انبیاء یہی بات کہتے آئے ہیں۔ اب چاہئے تو یہ تھا کہ تم اپنے انجام سے ڈر جاتے اور اللہ کے خوف سے رونے لگتے۔ مگر تم اس کے برعکس ان باتوں کا مذاق اڑاتے ہو اور انجام سے غافل رہ کر کھیل کود میں وقت گزار رہے ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَفَمِنْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ :” ھذا الحدیث “ سے مراد رسولوں کو جھٹلانے والی اقوام کے عبرتناک انجام کی اور قیامت قریب ہونے کی بات ہے جو ابھی بیان ہوئی ہے۔ فرمایا بھلا یہ کوئی انوکھی اور ناقابل یقین بات ہے جس پر تم تعجب کر رہے ہو ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اَفَمِنْ ھٰذَا الْحَدِيْثِ تَعْجَبُوْنَ وَتَضْحَكُوْنَ وَلَا تَبْكُوْنَ ، ہذا الحدیث سے مراد قرآن کریم ہے معنی آیت کے یہ ہیں کہ قرآن کریم جیسا کلام الٰہی جو خود ایک معجزہ ہے تمہارے سامنے آ چکا کیا اس پر بھی تم تعجب کرتے ہو اور بطور استہزاء کے ہنستے ہو اور اپنی معصیت یا عمل کوتاہی پر روتے نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَفَمِنْ ھٰذَا الْحَدِيْثِ تَعْجَبُوْنَ۝ ٥٩ ۙ- هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال :- هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- حدیث - وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ- [يوسف 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه،- حدیث - ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔- أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں - عجب - العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا - [يونس 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ- [ ق 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] ،- ( ع ج ب ) العجب اور التعجب - اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٩۔ ٦٢) سو کیا اے مکہ والو تم اس قرآن کریم کا جو تم کو رسول اکرم پڑھ کر سناتے ہیں مذاق کرتے ہو یا یہ کہ جھٹلاتے ہو اور بطور مذاق ہنستے ہو۔- اور اس میں خوف و عذاب کے جو مضامین ہیں ان سے روتے نہیں ہو اور تم اس سے تکبر کرتے ہو اور اس پر ایمان نہیں لاتے۔ سو اللہ کے سامنے توحید کے قائل ہو کر اور توبہ کر کے جھک جاؤ اور اس کی بغیر کسی شریک کے عبادت کرو۔- شان نزول : وَاَنْتُمْ سٰمِدُوْنَ (الخ)- اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ کفار رسول اکرم کے پاس سے مذاق اڑاتے اور تکبر کرتے ہوئے گزرتے تھے حالانکہ آپ نماز پڑھ رہے ہوتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩ اَفَمِنْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ ۔ ” تو کیا تم لوگوں کو اس کلام کے بارے میں تعجب ہورہا ہے ؟ “- ہٰذَا الْحَدِیْثِ سے مراد یہاں قرآن مجید ہے ‘ یعنی کیا تم لوگ قرآن کے بارے میں تعجب کر رہے ہو ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :52 اصل میں لفظ ھٰذَا الْحَدِیْث استعمال ہوا ہے جس سے مراد وہ ساری تعلیم ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے قرآن مجید میں پیش کی جا رہی تھی ۔ اور تعجب سے مراد وہ تعجب ہے جس کا اظہار آدمی کسی انوکھی اور ناقابل یقین بات کو سن کر کیا کرتا ہے ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کی طرف دعوت دے رہے ہیں وہ یہی کچھ تو ہے جو تم نے سن لی ۔ اب کیا یہی وہ باتیں ہیں جن پر تم کان کھڑے کرتے ہو اور حیرت سے اس طرح منہ تکتے ہو کہ گویا کوئی بڑی عجیب اور نرالی باتیں تمہیں سنائی جا رہی ہیں؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani