[٥] قَابَ (الارض) بمعنی زمین کو گول کھودنا اور قاب بمعنی مقدار، اندازہ، کمان کے کونے سے قبضہ تک کا فاصلہ۔ محاورہ ہے ھو علٰی قاب قوسین بمعنی وہ نہایت قریب ہے (منجد) اور مجاہد کہتے ہیں قاب قوسین کی عبارت میں قلب ہوا ہے یعنی اصل لفظ قابی قَوْسٍ ہے یعنی کمان کے دو کنارے (بخاری۔ کتاب التفسیر) پہلے معنی کے لحاظ سے یہ فاصلہ کمان کی تانت کا نصف اور دوسرے معنی کے لحاظ سے کمان کی تانت کے برابر فاصلہ ہے اور آیت مذکورہ میں (أوْاَدْنٰی) سے معلوم ہوا کہ اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جبرئیل کا درمیانی فاصلہ کمان کے دونوں کناروں سے بہرحال کم تھا۔ زیادہ نہیں تھا۔
فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى، قاب، کمان کی لکڑی جہاں دستہ پکڑنے کا ہوتا ہے اور اس کے مقابل کمان کی ڈور (تانت) ہوتی ہے، ان دونوں کے درمیانی فاصلہ کو قاب کہا جاتا ہے، جس کا اندازہ تقریبی ایک ہاتھ سے کیا جاتا ہے، قاب قوسین، یعنی دو کمانوں کی قاب فرمانے کی وجہ عرب کی ایک خاص عادت ہے کہ دو آدمی اگر آپس میں معاہدہ صلح اور دوستی کا کرنا چاہتے تو جیسی اس کی ایک علامت ہاتھ پر ہاتھ مارنے کی معروف مشہور ہے، اسی طرح دوسری علامت جس سے دوستی کا مظاہرہ کیا جاتا تھا یہ تھی کہ دونوں شخص اپنی اپنی کمانوں کی لکڑی تو اپنی طرف کرلیتے اور کمان کی ڈور دوسرے کی طرف، اس طرح جب دونوں کمانوں کی ڈوریں آپس میں مل جاتیں تو باہمی قرب و مودت کا اعلان سمجھا جاتا تھا، اس قرب کے وقت ان دونوں شخصوں کے درمیان دونوں قوسوں کے قاب کا فاصلہ رہتا تھا، یعنی تقریباً دو ہاتھ ( یا ایک گز) اس کے بعد او ادنی کہہ کر یہ بھی بتلا دیا کہ یہ قرب و اتصال عام رسمی اتصال کی طرح نہیں تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ تھا۔- آیات مذکورہ میں جبر ئیل کا بغایت قریب ہوجانا اس لئے بیان فرمایا گیا کہ یہ ثابت ہوجاوے کہ جو وحی انہوں نے پہنچائی ہے اس کے سننے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں اور یہ کہ اس قرب و اتصال کی وجہ سے یہ بھی احتمال نہیں رہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جبرئیل امین کو نہ پہچانیں اور کوئی شیطان مداخلت کرسکے۔
فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى ٩ ۚ- قاب - القَابُ : ما بين المقبض والسّية من القوس . قال تعالی: فَكانَ قابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى[ النجم 9] . ( ق و ب ) قاب کے معنی کمان کے درمیانی حصہ ( مقبض ) سے لے کر ایک گوشہ کمان تک کے فاصلہ کے ہیں استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا ۔ فَكانَ قابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى[ النجم 9] تو دو کھانوں کے قاب کے فاصلہ پر یا اس سے بھی کم ۔- قوس - القَوْسُ : ما يرمی عنه . قال تعالی: فَكانَ قابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى[ النجم 9] ، وتصوّر منها هيئتها، فقیل للانحناء : التَّقَوُّسُ ، وقَوَّسَ الشّيخ وتَقَوَّسَ : إذا انحنی، وقَوَّسْتُ الخطّ فهو مُقَوَّسٌ ، والْمِقْوَسُ : المکان الذي يجري منه القوس، وأصله : الحبل الذي يمدّ علی هيئة قوس، فيرسل الخیل من خلفه .- ( ق و س ) القوس کمان ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَكانَ قابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى[ النجم 9] تو دوکمان کے فاصلے پر یا اس سے بھی کم ۔ اور کمان کی ہیشت کذائی کے لحاظ سے تقوس بمعنی انحناء آتا ہے محاورہ ہے ۔ قوس الشیخ وتقوس : بوڑھا خمیدہ ہوگیا ۔ قوست الخط : میں نے خمیدہ خط کھینچا ۔ اور خمیدہ خط کو مقوس کہا جاتا ہے ۔ المقوس وہ جگہ جہاں سے گھوڑ دوڑ میں گھوڑے دوڑنا شروع کرتے ہیں اور اس کے اصل معنی اس یرسی کے ہیں جس سے گھوڑدوڑ میں گھوڑوں کی صف بندی کی جاتی ہے اور پھر انہیں دوڑنے کے لئے چھوڑا جاتا ہے ۔- او ادنی - ۔ اس جگہ او بمعنی یا ( شکیہ) نہیں ہے بلکہ او بمعنی بل ہے جیسے کہ آیت وارسلنہ الی مائۃ الف او یزیدون (37:147) اور ہم نے ان کو ایک لاکھ بلکہ اس سے زیادہ ( لوگوں) کی طرف ّپیغمبر بنا کر) بھیجا۔ ادنی۔ افعل التفضٰل کا صیغہ واحد مذکر اقصی کے مقابلہ میں آتا ہے۔ بہت نزدیک ۔ قریب تر۔
آیت ٩ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی ۔ ” بس دو کمانوں کے برابر (فاصلہ رہ گیا) یا اس سے بھی قریب۔ “
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :8 یعنی آسمان کے بالائی مشرقی کنارے سے نمودار ہونے کے بعد جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آ گے بڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ بڑھتے بڑھتے وہ آپ کے اوپر آ کر فضا میں معلق ہو گئے ۔ پھر وہ آپ کی طرف جھکے اور اس قدر قریب ہو گئے کہ آپ کے اور ان کے درمیان صرف دو کمانوں کے برابر یا کچھ کم فاصلہ رہ گیا ۔ عام طور پر مفسرین نے قَابَ قَوْسَیْن کے معنی بقدر دو قوس ہی بیان کیے ہیں ، لیکن حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے قوس کو ذراع ( ہاتھ ) کے معنی میں لیا ہے اور کَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ کا مطلب وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ دونوں کے درمیان صرف دو ہاتھ کا فاصلہ رہ گیا تھا ۔ اور یہ جو فرمایا کہ فاصلہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ کم تھا ، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذ اللہ فاصلے کی مقدار کے تعین میں اللہ تعالیٰ کو کوئی شک لاحق ہو گیا ہے ۔ دراصل یہ طرز بیان اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ تمام کمانیں لازماً ایک ہی ناپ کی نہیں ہوتیں اور ان کے حساب سے کسی فاصلے کو جب بیان کیا جائے گا تو مقدار فاصلہ میں ضرور کمی بیشی ہو گی ۔
5: یہ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے۔ جب دو آدمی آپس میں دوستی کا عہد کرتے تھے تو اپنی کمانیں ایک دوسرے سے ملا لیتے تھے۔ اس وجہ سے جب زیادہ قرب بیان کرنا ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ وہ دو کمانوں کے فاصلے کے برابر قریب آ گئے۔