اللہ تعالیٰ قیامت کے قرب کی اور دنیا کے خاتمہ کی اطلاع دیتا ہے جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ Ǻ ) 16- النحل:1 ) اللہ کا امر آچکا اب تو اس کی طلب کی جلدی چھوڑ دو اور فرمایا آیت ( اقترب للناس حسابھم ) الخ ، لوگوں کے حساب کے وقت ان کے سروں پر آ پہنچا اور وہ اب تک غفلت میں ہیں ۔ اس مضمون کی حدیثیں بھی بہت سی ہیں بزار میں ہے حضرت انس فرماتے ہیں سورج کے ڈوبنے کے وقت جبکہ وہ تھوڑا سا ہی باقی رہ گیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو خطبہ دیا جس میں فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں مری جان ہے دنیا کے گذرے ہوئے حصے میں اور باقی ماندہ حصے میں وہی نسبت ہے جو اس دن کے گذرے ہوئے اور باقی بچے ہوئے حصے میں ہے ۔ اس حدیث کے راویوں میں حضرت خلف بن موسیٰ کو امام ابن حبان ثقہ راویوں میں گنتے تو ہیں لیکن فرماتے ہیں کبھی کبھی خطا بھی کر جاتے تھے ، دوسری روایت جو اس کی تقویت بلکہ تفسیر بھی کرتی ہے وہ مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت سے ہے کہ عصر کے بعد جب کہ سورج بالکل غروب کے قریب ہو چکا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری عمریں گزشتہ لوگوں کی عمروں کے مقابلہ میں اتنی ہی ہیں جتنا یہ باقی کا دن گذرے ہوئے دن کے مقابلہ میں ہے ۔ مسند کی اور حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلمہ کی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا کہ میں اور قیامت اس طرح مبعوث کئے گئے ہیں اور روایت میں اتنی زیادتی ہے کہ قریب تھا وہ مجھ سے آگے بڑھ جائے ولید بن عبدالملک کے پاس جب حضرت ابو ہریرہ پہنچے تو اس نے قیامت کے بارے میں حدیث کا سوال کیا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ تم اور قیامت قربت میں ان دونوں انگلیوں کی طرح ہو ۔ اس کی شہادت اس حدیث سے ہو سکتی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ناموں میں سے ایک نام ( حاشر ) آیا ہے اور ( حاشر ) وہ ہے جس کے قدموں پر لوگوں کا حشر ہو حضرت بہز کی روایت سے مروی ہے کہ حضرت عتبہ بن غزوان نے اپنے خطبہ میں فرمایا اور کبھی کہتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ سناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا دنیا کے خاتمہ کا اعلان ہو چکا یہ پیٹھ پھیرے بھاگے جا رہی ہے اور جس طرح برتن کا کھانا کھا لیا جائے اور کناروں میں کچھ باقی لگا لپٹا رہ جائے اسی طرح دنیا کی عمر کا کل حصہ نکل چکا صرف برائے نام باقی رہ گیا ہے تم یہاں سے ایسے جہان کی طرف جانے والے ہو جسے فنا نہیں پس تم سے جو ہو سکے بھلائیاں اپنے ساتھ لے کر جاؤ سنو ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ جہنم کے کنارے سے ایک پتھر پھینکا جائے گا جو برابر ستر سال تک نیچے کی طرف جاتا رہے گا لیکن تلے تک نہ پہنچے گا اللہ کی قسم جہنم کا یہ گہرا گڑھا انسانوں سے پر ہونے والا ہے تم اس پر تعجب نہ کرو ہم نے یہ بھی ذکر سنا ہے کہ جنت کی چوکھٹ کی دو لکڑیوں کے درمیان چالیس سال کا راستہ ہے اور وہ بھی ایک دن اس حالت پر ہو گی کہ بھیڑ بھاڑ نظر آئے گی ( مسلم ) ابو عبدالرحمن سلمی فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ہمراہ مدائن گیا اور بستی سے تین میل کے فاصلے پر ہم ٹھہرے ۔ جمعہ کے لئے میں بھی اپنے والد کے ہمراہ گیا حضرت حذیفہ خطیب تھے آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا لگوں سنو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قیامت قریب آگئی اور چاند دو ٹکرے ہو گیا ۔ بیشک قیامت قریب آچکی ہے بیشک چاند پھٹ گیا ہے بیشک دنیا جدائی کا الارم بجا چکی ہے آج کا دن کوشش اور تیاری کا ہے کل تو دوڑ بھاگ کر کے آگے بڑھ جانے کا دن ہو گا میں نے اپنے باپ سے دریافت کیا کہ کیا کل دوڑ ہو گی ؟ جس میں آگے نکلنا ہو گا ؟ میرے باپ نے مجھ سے فرمایا تم نادان ہو یہاں مراد نیک اعمال میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا ہے ۔ دوسرے جمعہ کو جب ہم آئے تو بھی حضرت حذیفہ کو اسی کے قریب فرماتے ہوئے سنا اس کے آخر میں یہ بھی فرمایا کہ غایت آگ ہے اور سابق وہ ہے جو جنت میں پہلے پہنچ گیا ۔ چاند کا دو ٹکڑے ہو جانا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا ذکر ہے جیسے کہ متواتر احادیث میں صحت کے ساتھ مروی ہے ، حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ یہ پانچوں چیزیں ردم ، دھواں ، لزام ، بطشہ اور چاند کا پھٹنا یہ سب گذر چکا ہے اس بارے کی حدیثیں سنئے ۔ مسند احمد میں ہے کہ اہل مکہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ طلب کیا جس پر دو مرتبہ چاند شق ہو گیا جس کا ذکر ان دونوں آیتوں میں ہے ۔ بخاری میں ہے کہ انہیں چاند کے دو ٹکڑے دکھا دئیے ایک حراء کے اس طرف ایک اس طرف مسند میں ہے ایک ٹکڑا ایک پہاڑ پر دوسرا دوسرے پہاڑ پر ۔ اسے دیکھ کر بھی جن کی قسمت میں ایمان نہ تھا بول پڑے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہماری آنکھوں پر جادو کر دیا ہے ۔ لیکن سمجھداروں نے کہا کہ اگر مان لیا جائے کہ ہم پر جادو کر دیا ہے تو تمام دنیا کے لوگوں پر تو نہیں کر سکتا اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے اور روایتیں بھی بہت سی ہیں ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چاند گرہن ہوا کافر کہنے لگے چاند پر جادو ہوا ہے اس پر یہ آیتیں مستمر تک اتریں ، ابن عمر فرماتے ہیں جب چاند پھٹا اور اس کے دو ٹکڑے ہوئے ایک پہاڑ کے پیچھے اور ایک آگے اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ تو گواہ رہ ، مسلم اور ترمذی وغیرہ میں یہ حدیث موجود ہے ابن مسعود فرماتے ہیں سب لوگوں نے اسے بخوبی دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو یاد رکھنا اور گواہ رہنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم سب منیٰ میں تھے اور روایت میں ہے کہ مکہ میں تھے ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ کفار نے یہ دیکھ کر کہا یہ ابن ابی کبشہ ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کا جادو ہے لیکن ان کے سمجھداروں نے کہا مان لو ہم پر جادو کیا ہے لیکن ساری دنیا پر تو نہیں کر سکتا ، اب جو لوگ سفر سے آئیں ان سے دریافت کرنا کہ کیا انہوں نے بھی اس رات کو چاند کو دو ٹکڑے دیکھا تھا چنانچہ وہ آئے ان سے پوچھا انہوں نے بھی تصدیق کی کہ ہاں فلاں شب ہم نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے کفار کے مجمع نے یہ طے کیا تھا کہ اگر باہر کے لوگ آکر یہی کہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی میں کوئی شک نہیں ، اب جو باہر سے آیا جب کبھی آیا جس طرف سے آیا ہر ایک نے اس کی شہادت دی کہ ہاں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اسی کا بیان اسی آیت میں ہے ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں پہاڑ چاند کے دو ٹکڑوں کے درمیان دکھائی دیتا تھا اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصاً حضرت صدیق سے فرمایا کہ اے ابو بکر تم گواہ رہنا اور مشرکین نے اس زبردست معجزے کو بھی جادو کہہ کر ٹال دیا ، اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ جب یہ دلیل حجت اور برہان دیکھتے ہیں سہل انکاری سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے اور مانتے ہیں بلکہ حق کو جھٹلا کر احکام نبوی کے خلاف اپنی خواہشات نفسانی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اپنی جہالت اور کم عقلی سے باز نہیں آتے ۔ ہر امر مستقر ہے یعنی خیر خیر والوں کے ساتھ اور شر شر والوں کے ساتھ ۔ اور یہ بھی معنی ہیں کہ قیامت کے دن ہر امر واقع ہونے والا ہے اگلے لوگوں کے وہ واقعات جو دل کو ہلا دینے والے اور اپنے اندر کامل عبرت رکھنے والے ہیں ان کے پاس آچکے ہیں ان کی تکذیب کے سلسلہ میں ان پر جو بلائیں اتریں اور ان کے جو قصے ان تک پہنچے وہ سراسر عبرت و نصیحت کے خزانے ہیں اور وعظ و ہدایت سے پر ہیں ، اللہ تعالیٰ جسے ہدایت کرے اور جسے گمراہ کرے اس میں بھی اس کی حکمت بالغہ موجود ہے ان پر شقاوت لکھی جا چکی ہے جن کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے انہیں کوئی ہدایت پر نہیں لا سکتا جیسے فرمایا آیت ( قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۚ فَلَوْ شَاۗءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ ١٤٩ ) 6- الانعام:149 ) ، اللہ تعالیٰ کی دلیلیں ہر طرح کامل ہیں اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت پر لا کھڑا کرتا اور جگہ ہے آیت ( وَمَا تُغْنِي الْاٰيٰتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ ١٠١ ) 10- یونس:101 ) بے ایمانوں کو کسی معجزے نے اور کسی ڈرنے اور ڈر سنانے والے نے کوئی نفع نہ پہنچایا ۔
یہ بھی ان سورتوں میں ہے جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز عید میں پڑھا کرتے تھے،. 1۔ 1 ایک تو بہ اعتبار اس زمانے کے جو گزر گیا، کیونکہ جو باقی ہے، وہ تھوڑا ہے۔ دوسرے ہر آنے والی چیز قریب ہی ہے چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بابت فرمایا کہ میرا وجود قیامت سے متصل ہے، یعنی میرے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی نہیں آئے گا۔ 1۔ 2 یہ وہ معجزہ ہے جو اہل مکہ کے مطالبے پر دکھایا گیا، چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے حتی کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو اس کے درمیان دیکھا۔ یعنی اس کا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اس طرف اور ایک ٹکڑا اس طرف ہوگیا۔ جمہور سلف و خلف کا یہی مسلک ہے (فتح القدیر) امام ابن کثیر لکھتے ہیں علماء کے درمیان یہ بات متفق علیہ ہے کہ انشقاق قمر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ہوا اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واضح معجزات میں سے ہے، صحیح سند سے ثابت احادیث متواترہ اس پر دلالت کرتی ہیں۔
[١] ایک دفعہ رسول للہ منیٰ میں تشریف فرما تھے کفار مکہ بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے آپ سے کسی نشانی کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا : آسمان کی طرف دیکھو، اچانک چاند پھٹ کردو ٹکڑے ہوگیا جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے :- ١۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ نبی اکرم کے زمانہ میں چاند پھٹ کردو ٹکڑے ہوگیا۔ ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر رہا اور دوسرا نیچے آگیا۔ آپ نے (ان لوگوں سے جو اس وقت موجود تھے) فرمایا : دیکھو گواہ رہنا (بخاری۔ کتاب التفسیر)- ٢۔ سیدنا ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ نبی اکرم کے زمانہ میں چاند پھٹا تھا۔ (حوالہ ایضاً )- ٣۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ مکہ کے کافروں نے آپ سے کہا کہ کوئی نشانی دکھاؤ۔ تو آپ نے انہیں چاند کا پھٹنا دکھادیا۔ (حوالہ ایضاً )- آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت اور انشقاق قمر کا باہمی تعلق یہ ہے کہ انشقاق قمر قرب قیامت کی ایک نشانی ہے جو واقع ہوچکی لہذا اسے بس اب قریب ہی سمجھو۔ جب کفار نے اپنی آنکھوں سے یہ معجزہ دیکھ لیا تو کہنے لگے کہ یا تو چاند پر جادو کردیا گیا ہے یا ہماری نظروں پر جو ہمیں ایسا نظر آنے لگا ہے۔ اس حیرانی میں ایک شخص نے کہا کہ اگر ہماری نظر بندی کردی گئی ہے تو آس پاس کے لوگوں سے پوچھ لو۔ چناچہ آس پاس کے لوگوں نے اس کی تصدیق کردی مگر یہ کافر اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے۔- اس آیت پر منکرین معجزات کئی طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔ پہلا اعتراض معنی کی تاویل سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں صیغہ ماضی کا معنی استقبال میں لیا جائے گا اور معنی یہ ہوگا کہ جب قیامت قریب آجائے گی اور چاند پھٹ جائے گا جیسا کہ (اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ۽) 81 ۔ التکوير :1) اور اس جیسی دوسری آیات کا ترجمہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ تاویل اور دلیل اس لیے غلط ہے کہ جہاں قیامت کے حوادث کا ذکر آیا ہے۔ مثلاً آسمان پھٹ جائے گا۔ ستارے بےنور ہوجائیں گے اور جھڑنے لگیں گے۔ زمین پر سخت زلزلے آئیں گے۔ پہاڑ اڑتے پھریں گے وغیرہ کا ذکر ہے وہاں ان باتوں کو کفار کے سحر کہنے کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی قرآن میں ایسی آیات کے ساتھ سحر کا ذکر آیا ہے۔ کافروں کا چاند کے پھٹنے کو جادو کہنا اور اس پر کفار کی تکرار ہی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ ایک حسی معجزہ تھا جو وقوع پذیر ہوچکا ہے۔- دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر یہ واقعہ فی الواقع ظہور میں آچکا ہے تو لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو اس کا علم ہونا چاہئے تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ رات کا ہے دن کا نہیں جب کہ اکثر لوگ سوئے ہوئے ہوتے ہیں۔ پھر اس وقت آدھی دنیا میں تو ویسے سورج نکلا ہوا تھا۔ جہاں یہ واقعہ نظر نہ آسکتا تھا اور باقی آدھی دنیا میں سے بھی صرف ان مقامات پر نظر آسکتا تھا جو منیٰ کے مشرق میں واقع تھے۔ پھر اس واقعہ کا کوئی اعلان بھی نہیں ہوا تھا جیسے آج کل جنتریوں اور اخباروں سے معلوم ہوجاتا ہے یا رصدگاہوں کی طرف سے اعلان کیا جاتا ہے لہذا لوگ کوئی اس بات کے منتظر بھی نہیں بیٹھے تھے کہ چاند پھٹے تو ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں کہ چاند گرہن کئی گھنٹوں تک لگا رہتا ہے۔ لوگوں کو پہلے خبر بھی دی جاچکی ہوتی ہے لیکن لوگوں کی اکثریت چاند گرہن لگنے سے غافل ہوتی ہے اور یہ انشقاق قمر تو صرف ایک لمحہ کے لیے واقع ہوا تھا۔ اسے کون دیکھتا ؟ اور آس پاس کے لوگوں نے شہادت دے ہی دی تھی۔- تیسرا اعتراض یہ ہے کہ ایسے اہم واقعہ کا تاریخ میں بھی ذکر ہونا چاہئے تھا۔ اس اعتراض کے کئی جواب ہیں۔ پہلا یہ کہ سب سے زیادہ مستند تاریخ حدیث کی کتابوں سے ہی دستیاب ہوسکتی ہے اور ان میں یہ واقعہ موجود ہے۔ دوسرا یہ کہ اس دور میں جیسی اور جتنی توجہ تاریخ نویسی پر دی جاتی تھی وہ سب کو معلوم ہے۔ تیسرا یہ کہ جب دنیا کے لوگوں کی اکثریت اور ایسے ہی تاریخ نویسوں نے اسے دیکھا ہی نہ تو ہو لکھیں کیا ؟ اور چوتھا یہ کہ تاریخ بھی اس واقعہ کے اندراج سے یکسر خالی نہیں۔ تاریخ فرشتہ میں مذکور ہے کہ مالی بار کے مہاراجہ نے یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور بالآخر یہ واقعہ اس کے اسلام لانے کا سبب بنا تھا۔- خ چاند کے پھٹنے پر اعتراضات اور ان کے جواب :۔ چوتھا اعتراض یہ ہے کہ ہیئت دانوں اور منجمین نے بھی اس واقعہ کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر چاند پھٹنے سے اس کی رفتار میں فرق آتا، یا وہ اپنا مدار بدل لیتا یا مدار سے ہٹ کر چلنے لگتا تو یہ باتیں اس قابل تھیں کہ ہیئت دان ان کا ذکر کرتے۔ لیکن جب ان میں سے کوئی چیز بھی واقع نہ ہوئی تو وہ کیا ذکر کریں ؟- اور پانچواں اعتراض یہ ہے کہ یہ واقعہ خرق عادت ہے اور ان کا دراصل سب سے اہم یہی اعتراض ہے جو انہیں تسلیم کرنے سے روکتا ہے اور وہ ادھر ادھر ہاتھ مارتے اور مختلف قسم کے اعتراض اور شکوک پیدا کرتے ہیں اور حقیقتاً ان کا یہ انکار اللہ کی قدرت کاملہ کا انکار ہے۔ بہرحال یہ بات بھی آج بعید از عقل نہیں رہی۔ ہر سیارے کے پیٹ میں آتشیں مادے یا پگھلتی اور کھولتی ہوئی دھاتیں موجود ہیں جن کا درجہ حرارت ہزارہا درجہ سنٹی گریڈ ہوتا ہے۔ یہ مہیب لاوے ان عظیم الجثہ کروں کو کسی وقت بھی دو لخت کرسکتے ہیں۔ پھر ان کے مرکز کی مقناطیسی قوت جسے آج کی زبان میں قوت ثقل کہتے ہیں اور ان جدا شدہ ٹکڑوں کو ملا کر جوڑ بھی دیتی ہے اور ایسا عمل فضائے بسیط میں ہوتا رہتا ہے۔ یہ کہکشائیں اسی طرح وجود میں آئی ہیں اور آج بھی یہ عمل بند نہیں بلکہ بدستور جاری ہے۔ علاوہ ازیں شہاب ثاقب کسی سیارے کے اس طرح سے جدا شدہ ٹکڑے کا نام ہے۔ جو کبھی علیحدہ ہو کر پھر جڑ جاتا ہے۔ کبھی فضا میں ہی گر کر گم ہوجاتا ہے اور کبھی کبھار زمین پر بھی آگرتا ہے۔ فضائے بسیط میں جو کچھ ہو رہا ہے اگر انسان کو اس کا صحیح طور پر علم ہوجائے تو وہ ان انشقاق قمر کے واقعہ پر کبھی تعجب نہ کرے۔ انسان کو کیا معلوم کہ اللہ کی قدرتوں کا دائرہ کتنا وسیع ہے اور وہ کس قدر حکمت بالغہ سے اس نظام کائنات کو چلا رہا ہے۔
١۔ اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ :” اقتربت “ ” قرب یقرب “ (ک ، ع) میں سے باب افتعال کا ماضی معلوم ہے۔ حروف میں اضافے سے معنی میں مبالغہ پیدا ہوتا ہے ، جیسے ” قدر “ اور ” اقتدر “ ہے ، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” قیامت بہت قریب آگئی ہے “۔ ویسے تو ہر آنے والی چیز قریب ہی ہے ، مگر قیامت کو بہت قریب اس لیے فرمایا کہ دنیا پر گزرے ہوئے وقت کے مقابلے میں باقی رہنے والا وقت بہت کم رہ گیا ہے ۔ اب اس کے فنا اور قیامت کے قیام کا وقت بہت ہی قریب ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری نبی ہیں ، آپ کے بعد کوئی اور نبی نہیں ، بلکہ قیامت ہی آئے گی۔ سہل بن سعد (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :(بعثت انا والساعۃ کھاتین) ( مسلم ، الفتن ، باب قرب الساعۃ : ٢٩٥٠۔ بخاری : ٦٥٠٣)” مجھے اور قیامت کو ان دو (انگلیوں) کی طرح بھیجا گیا ہے “۔- ٢۔ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ : یعنی چاند کا پھٹنا اس بات کی علامت ہے کہ قیامت ، جس کی تمہیں خبر دی جاتی رہی ہے ، بہت قریب آگئی ہے ، کیونکہ جب چاند جیسا عظیم کرہ پھٹ سکتا ہے تو زمین و آسمان ، سورج اور ستارے بھی پھٹ کر دوسری صورت اختیارکر سکتے ہیں ، جیسا کہ فرمایا :(یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا ِﷲِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ ) (ابراہیم : ٤٨)” جس دن یہ زمین اور زمین سے بدل دی جائے گی اور سب آسمان بھی اور لوگ اللہ کے سامنے پیش ہوں گے ، جو اکیلا ہے ، بڑا زبردست ہے “۔- ٣۔ قرآن مجید میں ماضی کے صغیے مستقبل کے معنی بھی آتے ہیں ۔ مقصد یہ بتانا ہوتا ہے کہ ان کا واقع ہونا یقینی ہے ، جیسا کہ فرمایا :(وَقَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللہ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ ط ) ( ابراہیم : ٢٢)” اور شیطان کہے گا ، جب سارے کام کا فیصلہ کردیا جائے گا کہ بیشک اللہ نے تم سے وعدہ کیا ، سچا وعدہ اور میں نے تم سے وعدہ کیا تو میں نے تم سے خلاف ورزی کی “۔ اس مقام پر بھی بعض حضرات کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ چاند پھٹ جائے گا ، مگر حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث دونوں سے ثابت ہے کہ یہاں ماضی کا معنی ہی مراد ہے اور آیت کا مطلب یہی ہے کہ چاند پھٹ گیا ۔ ایک ہی آیت میں ایک فعل ماضی کا ترجمہ ماضی اور دوسرے فعل ماضی کا ترجمہ مستقبل کرنا ویسے ہی بےجوڑ لگتا ہے کہا جائے ” قیامت بہت قریب آگئی اور چاند پھٹ جائے گا “۔ پھر اگر مراد مستقبل میں چاند کا پھٹنا ہوتا تو الفاظ یہ ہونے چاہئیں تھے :” اتی الساعۃ وانشق القمر ‘ ‘ قیامت آگئی اور چاند پھٹ گیا “۔ پھر دونوں جگہ ماضی کا معنی مستقبل کرنا درست ہوتا ۔ اس آیت سے بعد والی آیات سے بھی ظاہر ہے کہ یہ واقعہ ہوچکا ہے ، تفصیل آگے آئے گی۔- صحیح احادیث سے بھی چاند کا پھٹنا ثابت ہے اور یہ واقعہ اتنی کثیر سندوں کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ اکثر محدثین و مفسرین اسے متواتر قرار دیتے ہیں ۔ ابن کثیر (رح) تعالیٰ نے فرمایا :” چاند پھٹنے کے واقعہ پر علماء کا اتفاق ہے کہ یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ہوچکا ہے اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حیران کن معجزات میں سے ایک تھا۔ “ ابن کثیر نے اس مقام پر بہت سی احادیث نقل فرمائی ہیں ، یہاں چند احادیث نقل کی جاتی ہیں : ١۔ عبد اللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں :(انشق القمر علی عھد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرقتین فرقۃ فوق الجبل و فرقۃ دونہٗ فقال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اشھدوا) ( بخاری ، التفسیر ، باب : وانشق القمر۔۔۔۔۔: ٤٨٦٤)” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں چاند دو ٹکڑوں میں پھٹ گیا ، ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر تھا اور ایک ٹکڑا اس کی دوسری جانب ۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” گویا ہوجاؤ “۔ ٢ ؎۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا :(انشق القمر فی زمان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ( بخاری ، التفسیر ، باب : وانشق القمر۔۔۔۔ ٤٨٦٦) ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں چاند پھٹ گیا “۔ ٣ ؎۔ انس (رض) فرماتے ہیں :( سال اھل مکۃ ان یریھم آیۃ فاراھم انشقاق القمر) (بخاری ، التفسیر ، باب : ( وانشق القمر۔۔۔: ٤٨٦٧)” اہل مکہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی معجزہ دکھانے کا سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں چاند کا پھٹنا دکھایا “۔ ٤۔ عبد اللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں :(انشق القمر بملکۃ حتی صار فرقین ، فقال کفار قریش اھل مکۃ ھذا سحر ، یسحرکم بہ ان ابی کبشۃ ، انظروا السفار ، فان کانوا راواما وایتم فقد صدق وان کانوا لم یروا مثل ما رایتم فھو سحر سحر کم بہ ۔ قال فسئل السفار قال و قدموا من کل وجہ فقالوا رایناہ) ( دلائل النبوۃ للبیھقی : ٢، ٢٦٦، ٢٦٧، وسندہ صحیح)” مکہ میں چاند پھٹ گیا ، یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہوگیا تو مکہ والے کفار قریش کہنے لگے :” یہ جادو ہے جو ابن ابی کبشہ نے تم پر کردیا ہے ، جو لوگ سفر میں گئے ہوئے ہیں ان کا انتظارکرو ، اگر انہوں نے وہ دیکھا ہے جو تم نے دیکھا ہے تو اس نے واقعی سچ کہا ہے اور اگر انہوں نے وہ نہیں دیکھا جو تم نے دیکھا ہے تو یہ جادو ہے جو اس نے تم پر کردیا ہے “۔ فرمایا : ” تو سفر سے آنے والوں سے پوچھا گیا جو ہر جانب سے آرہے تھے تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے اسے دیکھا ہے “ ۔ تفسیر ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے اس پر لکھا ہے کہ ابن کثیر نے فرمایا :” اسے ابن جریر نے بھی روایت کیا ہے اور یہ الفاظ زائد بیان کیے ہیں :(فانزل اللہ عزوجل) (اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ )” یعنی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں “۔- ٤۔ بعض واعظ حضرات بیان کرتے ہیں کہ چاند رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگلی کے اشارے سے دو ٹکڑے ہوا ، انگلی کے اشارے کا کوئی ثبوت نہیں۔ اسی طرح بعض کا کہنا ہے کہ چاند کا ایک ٹکڑا آپ کے گریبان سے ہو کر نکل گیا ، بالکل ہی لغوبات ہے۔- ٥۔ انشقاق قمر پر کیے جانے والے شبہات اور اعتراضات کے متعلق مفسر عبد الرحمن کیلانی کا کلام بہت عمدہ ہے وہ یہاں نقل کیا جاتا ہے :” آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت اور انشقاق قمر کا باہمی تعلق یہ ہے کہ انشقاق قمر قرب قیامت کا ایک نشانی ہے جو واقع ہوچکی ہے ، لہنذا اسے بس اب قریب ہی سمجھو ۔ جب کفار نے اپنی آنکھوں سے یہ معجزہ دیکھ لیا تو کہنے لگے کہ یا تو چاند پر جادو کردیا گیا ہے یا ہماری نظروں پر جو ہمیں ایسا نظر آنے لگا ہے۔ اس حیرانی میں ایک شخص نے کہا کہ اگر ہماری نظر بند کردی گئی ہے تو آس پاس کے لوگوں سے پوچھ لو ۔ چناچہ آس پاس کے لوگوں نے اس کی تصدیق کردی ، مگر یہ کافر اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے ۔ اس آیت پر منکرین معجزات کئی طرح کے اعتراضات کرتے ہیں ۔ پہلا اعتراض معنی کی تاویل سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں صیغہ ٔ ماضی کا معنی استقبال میں لیا جائے گا اور معنی یہ ہوگا کہ ” جب قیامت قریب آجائے گی اور چاند پھٹ جائے گا “۔ جیسا کہ ” اذا الشمس کورت “ اور اس جیسی دوسری آیات کا ترجمہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ تاویل اور دلیل اس لیے غلط ہے کہ جہاں قیامت کے حوادث کا ذکر آیا ہے ، مثلاً آسمان پھٹ جائے گا ، ستارے بےنور ہوجائیں گے اور جھڑنے لگیں گے ، زمین پر سخت زلزلے آئیں گے ، پہاڑ اڑتے پھیریں گے وغیرہ ، وہاں ان باتوں کو کفار کے سحر کہنے کا کوئی تعلق نہیں اور نہ قرآن میں ایسی آیات کے ساتھ سحر کا ذکر آیا ہے۔ کافروں کا چاند کے پھٹنے کو جادو کہنا اور اس پر کفار کی تکرار ہی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ ایک حسی معجزہ تھا جو وقوع پذیر ہوچکا ہے۔- دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر یہ واقعہ فی الواقع ظہور میں آچکا ہے تو لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو اس علم ہونا چاہیے تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ رات کا ہے ، دن کا نہیں ، جب اکثر لوگ سوئے ہوئے ہوتے ہیں ۔ پھر اس وقت آدھی دنیا میں تو ویسے ہی سورج نکلا ہوا تھا جہاں یہ واقعہ نظر نہیں آسکتا تھا اور باقی آدھی دنیا میں بھی صرف ان مقامات پر نظر آسکتا تھا جو منیٰ کے مشرق میں واقع تھے۔ پھر اس واقعہ کا کوئی اعلان بھی نہیں ہوا تھا ، جیسے آج کل جنتریوں اور اخباروں سے معلوم ہوجاتا ہے ، یا ر صدگاہوں کی طرف سے اعلان کیا جاتا ہے ، لہٰذا لوگ کوئی اس بات کے منتظر بھی نہیں بیٹھے تھے کہ چاند پھٹے تو ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ۔ علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں کہ چاند گرہن کئی گھنٹوں تک لگا رہتا ہے، لوگوں کو پہلے خبر بھی دی جا چکی ہوتی ہے لیکن لوگوں کی اکثریت چاند گرہن لگنے سے غافل ہوتی ہے اور یہ انشقاق قمر تو صرف ایک لمحہ کے لیے واقع ہوا تھا ، اسے کون دیکھتا ؟ اور آس پاس کے لوگوں نے شہادت دے ہی دی تھی۔- تیسرا اعتراض یہ ہے کہ ایسے اہم واقعہ کا تاریخ میں بھی ذکر ہونا چاہیے تھا۔ اس اعتراض کے کئی جواب ہیں ، پہلا یہ کہ سب سے زیادہ مستند تاریخ حدیث کی کتابوں سے ہی دستیاب ہوسکتی ہے اور ان میں یہ واقعہ موجود ہے۔ دوسرا یہ کہ اس دور میں جیسی اور جتنی توجہ تاریخ نویسی پر دی جاتی تھی وہ سب کو معلوم ہے۔ تیسرا یہ کہ جب دنیا کے لوگوں کی اکثریت اور ایسے ہی تاریخ نویسوں نے اسے دیکھا ہی نہ ہو تو لکھیں کیا ؟ اور چوتھا یہ کہ تاریخ بھی اس واقعہ کے اندراج سے یکسر خالی نہیں ۔ تاریخ فرشتہ میں مذکور ہے مالی بدر کے مہاراجہ نے یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور بالآخر یہ واقعہ اس کے اسلام لانے کا سبب بنا تھا۔- چوتھا اعتراض یہ ہے کہ ہیئت دانوں اور منجمین نے بھی اس واقعہ کا کہیں ذکر نہیں کیا ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر چاند پھٹنے سے اس کی رفتار میں فرق آتا یا وہ اپنا مدار بدل لیتا یا مدار سے ہٹ کر چلنے لگتا تو یہ باتیں اس قابل تھیں کہ ہیئت دان اس کا ذکر کرتے ، لیکن جب ان میں سے کوئی چیز بھی واقع نہ ہوئی تو وہ کیا ذکر کریں ؟- اور پانچواں اعتراض یہ ہے کہ یہ واقعہ خرق عادت ہے اور ان کا دراصل سب سے اہم یہ اعتراض ہے جو انہیں تسلیم کرنے سے روکتا ہے اور وہ ادھر ادھر ہاتھ مارتے اور مختلف قسم کے اعتراض اور شکوک پیدا کرتے ہیں اور حقیقتاً ان کا یہ انکار اللہ کی قدرت کا ملہ کا انکار ہے ۔ بہ حال یہ بات بھی آج بعید از عقل نہیں رہی ۔ ہر سیارے کے پیٹ میں آتشیں مادے یا پگھلتی اور کھولتی ہوئی دھاتیں موجود ہیں جن کا درجہ حرارت ہزارہا درجہ سنٹی گریڈ ہوتا ہے۔ یہ مہیب لاوے ان عظیم الجثہ کروں کو کسی وقت بھی دولخت کرسکتے ہیں ۔ پھر ان کی مرکزی مقناطیسی قوت ، جیسے آج کی زبان میں قوت ِ ثقل کہتے ہیں وہ ان جدا شدہ ٹکڑوں کو ملا کر جوڑ بھی دیتی ہے اور ایسا عمل فضائے بسیط میں ہوتا رہتا ہے ۔ یہ کہکشائیں اسی طرح وجود میں آئی ہیں اور آج بھی یہ عمل بند نہیں ہوا بلکہ بدستور جاری ہے۔ علاوہ ازیں شہاب ِ ثاقب کسی سیارے کے اس طرح جدا شدہ ٹکڑے کا نام ہے جو کبھی علیحدہ ہو کر پھر جڑ جاتا ہے ، کبھی فضاء میں ہی گرکر گم ہوجاتا ہے اور کبھی کبھار زمین پر بھی آگرتا ہے۔ فضائے بسیط میں جو کچھ ہو رہا ہے اگر انسان کو اس کا صحیح طور پر علم ہوجائے تو وہ انشقاق قمر کے واقعہ پر کبھی تعجب نہ کرے۔ انسان کو کیا معلوم کہ اللہ کی قدرتوں کا دائرہ کتنا وسیع ہے اور وہ کس قدر حکمت بالغہ سے اس نظام ِ کائنات کو چلا رہا ہے۔ “ (تیسیر القرآن)- ٦۔ ایک اہم سوال یہاں یہ ہے کہ کفارِ مکہ جب اپنے سوال کے جواب میں اتنا بڑا معجزہ دیکھ کر ایمان نہیں لائے تو ان پر پہلی قوموں کی طرح عذاب آجانا چاہیے تھا جو نبیوں کے معجزے دیکھ کر ایمان نہیں لائی تھیں ۔ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ پہلی امتوں کو دکھائے جانے والے معجزات ان کے ایمان لانے کی شرط کے ساتھ مشروط مطالبے پر دکھائے گئے تھے ، جبکہ ہماری امت میں ایمان لانے کی شرط کے ساتھ بطور ِ عناد جس معجزے کا بھی مطالبہ کیا گیا ان میں سے ایک بھی پورا نہیں کیا گیا ، بلکہ یہی کہنے کا حکم ہوا :(قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ہَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا ) (بنی اسرائیل : ٩٣) ” تو کہہ میرا رب پاک ہے ، میں تو ایک بشر کے سوا کچھ نہیں جو رسول ہے “۔ مزید دیکھئے سورة ٔ بنی اسرائیل (٩٠ تا ٩٣) کی تفسیر ۔ اس مقصد کے لیے آپ کو ایک ہی معجزہ پیش کرنے کا حکم تھا اور وہ ہے قرآن مجید کی ہمت ہے تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا کرلے آؤ ۔ اور یہ اس امت پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس معجزے پر یا کسی بھی معجزے پر ایمان نہ لانے والوں پر عذاب استیصال یعنی ایسا عذاب نہیں آیا اور نہ آئے گا جو ان کا نام و نشان ہی مٹا دے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ عنکبوت (٥٠، ٥١) کی تفسیر ۔ البتہ اس شرط کے بغیر لوگوں کی درخواست پر بہت سے معجزے صادر ہوئے ہیں ، مثلا ً سورة ٔ بنی اسرائیل (٩٠ تا ٩٣) میں جن معجزوں کا کفار نے بطور شرط مطالبہ کیا اور ان کا مطالبہ پورا نہیں کیا گیا ، ان میں سے ایک یہ تھا کہ آپ ہمارے لیے زمین سے کوئی چشمہ جاری کردیں ، لیکن ایسی شرط کے بغیر یہ معجزہ متعدد بار واقع ہوا ہے ، جن میں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگلیوں سے پانی جاری ہونے اور حدیبیہ کے موق پر کنویں میں تیر ڈالنے سے پانی جاری ہونے کے واقعات جو سب جانتے ہیں ۔ عبد اللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا :(انکم تعدون الایات عذابا وانا کنا نعدھا علی عھد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برکۃ لقد کنا تا کل الطعام مع النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ونحن نسمع تسبیح الطعام قال واتی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یاناء فوضع یدہ فیہ فجعل الماء ینبع من بین اصابعہ فقال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حتی علی الوصوہ المبارک والبرکۃ من السماء حتی توضانا کلنا) ( ترمذی ، المناقب ، باب فی قول علی فی استقبال کلی حبل و شعر النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالتسلیم : ٣٦٣٣، وقال حسن صحیح ، وقال الالبانی صحیح)” تم نشانیوں کو عذاب شمار کرتے ہو جبکہ ہم انہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں برکت شما ر کرتے تھے ، چناچہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھانا کھاتے تھے اور ہم کھانے کی تسبیح سن رہے ہوتے تھے۔ “ عبد اللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا :’ ’ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک برتن لایا گیا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ اس میں رکھا تو پانی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگلیوں سے پھوٹنے لگا ، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اس با برکت وضو کے پانی پر آجاؤ اور برکت آسمان سے ہے۔ “ یہاں تک کہ ہم سب نے وضو کرلیا ۔ “ انشقاق قمر کا معجزہ بیشک اہل مکہ کے اس سوال کے جواب میں صادر ہوا کہ میں کوئی نشانی دکھائیں ، مگر یہ ان کے اس مطالبے کے جواب میں نہیں ہوا کہ آپ ہمیں چاند کو دو ٹکڑے کر کے دکھائیں ( جن روایتوں میں یہ بات ذکر ہوئی ہے وہ سب ضعیف ہیں) بلکہ انہیں ایک نشانی کے طور پر دکھا گیا جیسے انہوں نے جادو کہہ کر ماننے سے انکار کردیا ، فرمایا (وَ اِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا وَیَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ) ( القمر : ٢) ” اور اگر وہ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ (یہ) ایک جادو ہے جو گزر جانے والا ہے “۔- دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ اس امت میں بھی معجزات دیکھ کر ایمان نہ لانے والوں پر عذاب آیا ، مگر اس کا طریقہ تبدیل کردیا گیا اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اب ایسے لوگوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں عذاب دینے کا فیصلہ فرمایا اور فی الواقع ایسے تمام منکروں کو بدر اور دوسرے مقامات پر ذلت آمیز عذاب سے دو چار ہونا پڑا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(قَاتِلُوْہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللہ ُ بِاَیْدِیْکُمْ وَیُخْزِہِمْ وَیَنْصُرْکُمْ عَلَیْہِمْ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ وَیُذْہِبْ غَیْظَ قُلُوْبِھِمْط وَیَتُوْبُ اللہ ُ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُط وَ اللہ ُ عَلِیْمٌ حَکَیْمٌ ) التوبۃ : ١٤۔ ١٥)” ان سے لڑو ، اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انہیں رسوال کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا ۔ اور ان کے دلوں کا غصہ دور کرے گا اور اللہ کی توفیق دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا ، کمال حکمت والا ہے “۔
خلاصہ تفسیر - (ان کفار کے لئے زاجر یعنی غلطی پر متنبہ کرنے والا امر تو اعلیٰ درجہ کا متحقق ہے، چنانچہ) قیامت نزدیک آپہنچی (جس میں تکذیب پر بڑی مصیبت آوے گی اور اس اخبار قرب ساعت کا مصداق بھی واقع ہوگیا چنانچہ) چاند شق ہوگیا (اور اس سے قرب قیامت کی تصدیق اس طرح ہوتی ہے کہ شق قمر معجزہ ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا، جس سے آپ کی نبوت ثابت ہوتی ہے اور نبی کا ہر قول صادق ہے، اس لئے ضروری ہے کہ قیامت کے قریب آنے کی خبر جو آپ نے دی ہے وہ بھی صادق ہے اس سے تحقق زاجر کا متعین ہوگیا) اور (اس کا مقتضا یہ تھا کہ) یہ لوگ (اس سے منزجر اور متاثر ہوتے لیکن ان کی یہ حالت ہے کہ) اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو ٹال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جادو ہے جو ابھی ختم ہوا جاتا ہے (یہ کہنا یہ ہے اس کے باطل ہونے سے کہ باطل کا اثر دیر تک قائم نہیں رہا کرتا، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيْدُ ، مطلب یہ کہ قرب قیامت سے نصیحت حاصل کرنا تو نبوت محمدیہ کے اعتقاد پر موقوف ہے، یہ لوگ خود اس کی دلیل ہی کو نظر تامل سے نہیں دیکھتے اور اس کو باطل سمجھتے ہیں تو پھر اس سے ان پر کیا اثر ہوتا) اور (اس اعراض اور بطلان دعویٰ معجزہ میں خود) ان لوگوں نے (باطل پر مصر ہو کر حق کو) جھٹلایا اور اپنی نفسانی خواہشوں کی پیروی کی (یعنی ان کا اعراض کسی دلیل صحیح کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ سبب اس اعراض کا ہوائے نفسانی کا اتباع اور از روئے عناد تکذیب حق ہے) اور (یہ معجزات کو جادو کہتے ہیں جس کا اثر جلد زائل ہوجایا کرتا ہے سو قاعدہ ہے کہ) ہر بات کو (بعد چندے اپنی اصلی حالت پر آ کر) قرار آجاتا ہے (یعنی حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا، اسباب و آثار سے عام طور پر متعین ہوجاتا ہے مطلب یہ کہ گو واقع میں تو فی الحال بھی حق متعین اور واضح ہے، اگر کم فہموں کی سمجھ میں اگر اب نہیں آتا تو بعد چندے تو ان کو بھی ظاہر ہوسکتا ہے، بشرطیکہ غور سے کام لیں تو چند روز کے بعد تم کو معلوم ہوجاوے گا کہ یہ سحر فانی ہے یا حق باقی ہے) اور (اس زاجر مذکور کے علاوہ) ان لوگوں کے پاس (تو امم ماضیہ کی بھی) خبریں اتنی پہنچ چکی ہیں کہ ان میں (کافی) عبرت یعنی اعلیٰ درجہ کی دانشمندی (حاصل ہو سکتی) ہے سو (ان کی یہ کیفیت ہے کہ) خوف دلانے والی چیزیں ان کو کچھ فائدہ ہی نہیں دیتیں (اور جب یہ حال ہے) تو آپ ان کی طرف سے کچھ خیال نہ کیجئے (جب وہ وقت قیامت اور عذاب کا جس سے ان کو ڈرا یا جاتا ہے آ جاوے گا تو خود معلوم ہوجاوے گا آگے اس روز کا بیان ہے، یعنی) جس روز ایک بلانے والا فرشتہ (ان کو) ایک ناگوار چیز کی طرف بلاوے گا ان کی آنکھیں (مارے ذلت اور ہیبت کے) جھکی ہوئی ہوں گی (اور) قبروں سے اس طرح نکل رہے ہوں گے جیسے ٹڈی پھیل جاتی ہے ، (اور پھر نکل کر) بلانے والے کی طرف (یعنی موقف حساب کی طرف جہاں جمع ہونے کے لئے بلانے والے نے پکارا ہے) دوڑے چلے جا رہے ہوں گے (اور وہاں کی سختیاں دیکھ کر کافر کہتے ہوں گے کہ یہ دن بڑا سخت ہے )- معارف و مسائل - پچھلی سورت (النجم) اَزِفَتِ الْاٰزِفَةُ الخ پر ختم ہوئی ہے جس میں قیامت کے قریب آجانے کا ذکر ہے، اس سورت کو شروع اسی مضمون سے کیا گیا ہے اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ ، آگے قرب قیامت کی ایک دلیل معجزہ انشقاق قمر کا ذکر فرمایا گیا ہے، کیونکہ علامات قیامت جن کی بڑی تفصیل ہے ان میں سے ایک بڑی علامت تو خود حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت و نبوت ہے، جیسا کہ حدیث میں آپ کا ارشاد ہے کہ میرا آنا اور قیامت اس طرح ملے ہوئے ہیں جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں، اور بھی چند روایات حدیث میں آپ کا قیامت کے قریب ہونا بیان فرمایا گیا ہے، اسی طرح ایک بڑی علامت قیامت کی یہ بھی ہے کہ آپ کے معجزہ کے طور پر چاند کے دو ٹکڑے ہو کر الگ الگ ہوجاویں گے پھر باہم جڑ جاویں گے، نیز معجزہ شق القمر اس حیثیت سے بھی قیامت کی علامت ہے کہ جس طرح اس وقت چاند کے دو ٹکڑے اللہ کی قدرت سے ہوگئے قیامت میں سارے ہی سیاروں اور ستاروں کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا کوئی امر مستبعد نہیں۔- معجزہ شق القمر :- کفار مکہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کی نبوت و رسالت کے لئے کوئی نشانی معجزہ کی طلب کی، حق تعالیٰ نے آپ کی حقانیت کے ثبوت کے لئے یہ معجزہ شق القمر ظاہر فرمایا، اس معجزہ کا ثبوت قرآن کریم کی اس آیت میں بھی موجود ہے وانْشَقَّ الْقَمَرُ ، اور احادیث صحیحہ جو صحابہ کرام کی ایک جماعت کی روایت سے آئی ہیں جن میں حضرت عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عمر، جبیر بن مطعم، ابن عباس، انس بن مالک (رضی اللہ عنہم اجمعین) وغیرہ شامل ہیں، اور حضرت عبداللہ بن مسعود خود اپنا اس وقت میں موجود ہونا اور معجزہ کا مشاہدہ کرنا بھی بیان فرماتے ہیں، امام طحادی اور ابن کثیر نے واقعہ شق القمر کی روایات کو متواتر قرار دیا ہے، اس لئے اس معجزہ نبوی کا وقوع دلائل سے ثابت ہے۔- واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ کے مقام منیٰ میں تشریف رکھتے تھے، مشرکین مکہ نے آپ سے نبوت کی نشانی طلب کی، یہ واقعہ ایک چاندنی رات کا ہے، حق تعالیٰ نے یہ کھلا ہوا معجزہ دکھلا دیا کہ چاند کے دو ٹکڑے ہو کر ایک مشرق کی طرف دوسرا مغرب کی طرف چلا گیا اور دونوں ٹکڑوں کے درمیان میں پہاڑ حائل نظر آنے لگا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب حاضرین سے فرمایا کہ دیکھو اور شہادت دو ، جب سب لوگوں نے صاف طور پر یہ معجزہ دیکھ لیا تو یہ دونوں ٹکڑے پھر آپس میں مل گئے، اس کھلے ہوئے معجزہ کا انکار تو کسی آنکھوں والے سے ممکن نہ ہوسکتا تھا، مگر مشرکین کہنے لگے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سارے جہان پر جادو نہیں کرسکتے، اطراف ملک سے آنے والے لوگوں کا انتظار کرو وہ کیا کہتے ہیں، بیہقی اور ابو داؤد طیالسی کی روایت حضرت عبداللہ بن مسعود سے ہے کہ بعد میں تمام اطراف سے آنے والے مسافروں سے ان لوگوں نے تحقیق کی تو سب نے ایسا ہی چاند کے دو ٹکڑے دیکھنے کا اعتراف کیا۔- بعض روایات میں ہے کہ یہ معجزہ شق القمر مکہ مکرمہ میں دو مرتبہ پیش آیا مگر روایات صحیحہ سے ایک ہی مرتبہ کا ثبوت ملتا ہے (بیان القرآن) اس معاملہ سے متعلق چند روایات حدیث یہ ہیں (جو تفسیر ابن کثیر سے لی گئی ہیں )- (1) صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک کی روایت سے نقل کیا ہے کہ - ان اھل مکۃ سالوا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان یریھم ایۃ فاراھم القمر شقین حتی راوا حراء بینھما (بخاری و مسلم )- " یعنی اہل مکہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ اپنی نبوت کے لئے کوئی نشانی (معجزہ) دکھلائیں، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھلا دیا، یہاں تک کہ انہوں نے جبل حراء کو دونوں ٹکڑوں کے درمیان دیکھا "- (2) صحیح بخاری و مسلم اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے :- انشق القمر علے ٰ عھد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شقین حتی نظروا الیہ فقال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اشھدوا۔- " رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ مبارک میں چاند شق ہوا اور دو ٹکڑے ہوگئے جس کو سب نے صاف طور سے دیکھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے فرمایا کہ دیکھو اور شہادت دو "۔- اور ابن جر پر نے بھی اپنی سند سے اس حدیث کو نقل کیا ہے، اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ کنا مع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بمنی فانشق القمر فاخذت فرقة خلف الجبل فقال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اشھدوا اشھدوا (عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ہم منیٰ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے، اچانک چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے، اور ایک ٹکڑا پہاڑ کے پیچھے چلا گیا، تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ گواہی دو ، گواہی دو )- (3) حضرت عبداللہ بن مسعود ہی کی روایت سے ابو داؤد طیالسی نے اور بیہقی نے یہ بھی نقل کیا ہے :- انشق القمر بمکة حتی صار فرقتین فقال کفار قریش اھل مکة ھذا سحر سحرکم بہ ابن ابی کبشتة انظروا السفار فان کانوا راوا ما رایتم فقد صدق و ان کانوا لم یروا مثل ما رایتم فھو سحر سحرکم بہ فسئل السفار قال وقدموا من کل جھة فقالو راینا (ابن کثیر)- " مکہ مکرمہ (کے قیام کے زمانہ) میں چاند شق ہو کردو ٹکڑے ہوگیا، کفار قریش کہنے لگے کہ یہ جادو ہے ابن ابی کبشہ (یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم پر جادو کردیا ہے، اس لئے تم انتظار کرو باہر سے آنے والے مسافروں کا، اگر انہوں نے بھی یہ دو ٹکڑے چاند کے دیکھے ہیں تو انہوں نے سچ کہا ہے اور اگر باہر کے لوگوں نے ایسا نہیں دیکھا تو پھر یہ بیشک جادو ہی ہوگا، پھر باہر سے آنے والے مسافروں سے تحقیق کی جو ہر طرف سے آئے تھے، سب نے اعتراف کیا کہ ہم نے بھی یہ دو ٹکڑے دیکھے ہیں "۔- شق القمر کے واقعہ پر کچھ شبہات اور جواب :- اس پر ایک شبہ تو یونانی فلسفہ کے اصول کی بنا پر کیا گیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آسمان اور سیارات میں فرق اور التیام (یعنی شق ہونا اور جڑنا) ممکن نہیں، مگر یہ محض ان کا دعویٰ ہے اس پر جتنے دلائل پیش کئے گئے ہیں وہ سب لچر اور بےبنیاد ہیں، ان کا لغو و باطل ہونا متکلمین اسلام نے بہت واضح کردیا ہے، اور آج تک کسی عقلی دلیل سے شق قمر کا محال اور ناممکن ہونا ثابت نہیں ہوسکا، ہاں ناواقف عوام ہر مستبعد چیز کو ناممکن کہنے لگتے ہیں، مگر یہ ظاہر ہے کہ معجزہ تو نام ہی اس فعل کا ہے جو عام عادت کے خلاف اور عام لوگوں کی قدرت سے خارج حیرت انگیز و مستبعد ہو، ورنہ معمولی کام جو ہر وقت ہو سکے اسے کون معجزہ کہے گا ؟- دوسرا عامیانہ شبہ یہ کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا عظیم الشان واقعہ پیش آیا ہوتا تو پوری دنیا کی تاریخوں میں اس کا ذکر ہوتا، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ واقعہ مکہ معظمہ میں رات کے وقت پیش آیا ہے، اس وقت بہت سے ممالک میں تو دن ہوگا وہاں اس واقعہ کے نمایاں اور ظاہر ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا اور بعض ممالک میں نصف شب اور آخر شب میں ہوگا، جس وقت عام دنیا سوتی ہے اور جاگنے والے بھی تو ہر وقت چاند کو نہیں تکتے رہتے، زمین پر پھیلی ہوئی چاندنی میں اس کے دو ٹکڑے ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا جس کی وجہ سے کسی کو اس طرف توجہ ہوتی، پھر یہ تھوڑی دیر کا قصہ تھا، روز مرہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی ملک میں چاند گرہن ہوتا ہے، اور آج کل تو پہلے سے اس کے اعلانات بھی ہوجاتے ہیں، اس کے باوجود ہزاروں لاکھوں آدمی اس سے بالکل بیخبر رہتے ہیں، ان کو کچھ پتہ نہیں چلتا، تو کیا اس کی یہ دلیل بنائی جاسکتی ہے کہ چاند گرہن ہوا ہی نہیں، اس لئے دنیا کی عام تاریخوں میں مذکور نہ ہونے سے اس واقعہ کی تکذیب نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی مشہور و مستند " تاریخ فرشتہ " میں اس کا ذکر بھی موجود ہے کہ ہندوستان میں مہاراجہ مالیبار نے یہ واقعہ بچشم خود دیکھا اور اپنے روزنامچہ میں لکھوایا اور یہی واقعہ ان کے مسلمان ہونے کا سبب بنا، اور اوپر ابوداؤ و طیالسی اور بیہقی کی روایات سے بھی یہ ثابت ہوچکا ہے کہ خود مشرکین مکہ نے بھی باہر کے لوگوں سے اس کی تحقیق کی تھی اور مختلف اطراف کے آنے والوں نے یہ واقعہ دیکھنے کی تصدیق کی تھی، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔
اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ١- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] ، وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] ، وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] .- وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، - ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔- ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- شق - الشَّقُّ : الخرم الواقع في الشیء . يقال : شَقَقْتُهُ بنصفین . قال تعالی: ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس 26] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] ، وَانْشَقَّتِ السَّماءُ [ الحاقة 16] ، إِذَا السَّماءُ انْشَقَّتْ [ الانشقاق 1] ، وَانْشَقَّ الْقَمَرُ [ القمر 1] ، وقیل : انْشِقَاقُهُ في زمن النّبيّ عليه الصلاة والسلام، وقیل : هو انْشِقَاقٌ يعرض فيه حين تقرب القیامة وقیل معناه : وضح الأمروالشِّقَّةُ : القطعة الْمُنْشَقَّةُ کالنّصف، ومنه قيل : طار فلان من الغضب شِقَاقًا، وطارت منهم شِقَّةٌ ، کقولک : قطع غضبا والشِّقُّ : الْمَشَقَّةُ والانکسار الذي يلحق النّفس والبدن، وذلک کاستعارة الانکسار لها . قال عزّ وجلّ : لَمْ تَكُونُوا بالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ- [ النحل 7] ، والشُّقَّةُ : النّاحية التي تلحقک المشقّة في الوصول إليها، وقال : بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة 42] ، - ( ش ق ق ) الشق - الشق ۔ شگاف کو کہتے ہیں ۔ شققتہ بنصفین میں نے اسے برابر دو ٹکڑوں میں کاٹ ڈالا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس 26] پھر ہم نے زمین کو چیرا پھاڑا ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ( ان سے ) پھٹ جائے گی ۔ وَانْشَقَّتِ السَّماءُ [ الحاقة 16] اور آسمان پھٹ جائے گا ۔ إِذَا السَّماءُ انْشَقَّتْ [ الانشقاق 1] جب آسمان پھٹ جائیگا ۔ اور آیت کریمہ : وَانْشَقَّ الْقَمَرُ [ القمر 1] اور چاند شق ہوگیا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ انشقاق قمر آنحضرت کے زمانہ میں ہوچکا ہے ۔ اور بعض کا قول ہے کہ یہ قیامت کے قریب ظاہر ہوگا اور بعض نے انشق القمر کے معنی وضح الاسر کئے ہیں یعنی معاملہ واضح ہوگیا ۔ الشقۃ پھاڑا ہوا ٹکڑا ۔ اسی سے محاورہ ہے ۔ طار فلان من الغضب شقاقا فلاں غصہ سے پھٹ گیا ۔ جیسا کہ قطع غضبا کا محاورہ ہے ۔ طارت منھم شقۃ ۔ ان کا ایک حصہ اڑ گیا ۔ یعنی غضب ناک ہوئے ۔ الشق اس مشقت کو کہتے ہیں جو تگ و دو سے بدن یا نفس کو ناحق ہوتی ہے جیسا کہ الانکسار کا لفظ بطور استعارہ نفس کی درماندگی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ [ النحل 7] زحمت شاقہ کے بغیر الشقۃ وہ منزل مقصود جس تک بہ مشقت پہنچا جائے ۔ قرآن میں ہے َبَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة 42] لیکن مسافت ان کو دور ( دراز ) نظر آئی ۔- قمر - القَمَرُ : قَمَرُ السّماء . يقال عند الامتلاء وذلک بعد الثالثة، قيل : وسمّي بذلک لأنه يَقْمُرُ ضوء الکواکب ويفوز به . قال : هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] - ( ق م ر ) القمر - ۔ چاند جب پورا ہورہا ہو تو اسے قمر کہا جاتا ہے اور یہ حالت تیسری رات کے بعد ہوتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ چاندکو قمر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ستاروں کی روشنی کو خیاہ کردیتا ہے اور ان پر غالب آجا تا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا ۔
شق القمر کا معجزہ دلیل نبوت ہے - قول باری ہے (اقتربت الساعۃ وانشق القمر قیامت نزدیک آپہنچی اور چاندشق ہوگیا) چاند کا شق ہوناحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت پر دلالت کے طور پر تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ عادات یعنی قوانین تکوینی میں اس جیسی تبدیلی صرف اس لئے کرتا ہے کہ یہ اس کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت کی دلیل بن جائے۔- چاند کے دو ٹکڑے ہونے کی روایت دس صحابہ کرام سے مروی ہے جن میں حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) ، حضرت انس (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت حذیفہ (رض) ، حضرت جبیر بن مطعم (رض) اور دوسرے صحابہ کرام شامل ہیں۔ میں نے ان کی روایات کی اسانید کو طوالت کے خوف سے بیان کرنا پسند نہیں کیا۔- اگر یہ کہا جائے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ چاند قیامت کے وقت دو ٹکڑے ہوگا کیونکہ اگر یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں شق ہوگیا ہوتا تو یہ بات دنیا والوں کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہتی اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ بات دو وجوہ سے غلطے اول یہ کہ یہ مفہوم آیت کے الفاظ اور ان کے حقیقی معنی کے خلاف ہے۔- دوسری وجہ یہ ہے کہ شق قمر کی یہ روایت صحابہ کرام سے تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور ان میں سے کسی نے بھی اس کی تردید نہیں کی ہے۔ رہ گئی یہ بات کہ اگر یہ واقعہ پیش آیا ہوتا تو دنیا والوں کی نظروں کی نظروں سے یہ پوشیدہ نہ رہتاتو اس کا جواب یہ ہے کہ عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا والوں کی نظروں سے اسے یوں پوشیدہ رکھا ہو کہ اس وقت اس پر بادل آگئے ہوں یا لوگ اپنے کام دھندوں میں مصروفیت کی بنا پر اس طرف متوجہ نہ ہوئے ہوں اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کی تدبیر کے طور پر یہ صورت پیدا کردی ہوتا کہ دنیا کے کسی حصے میں نبوت کا کوئی جھوٹا مدعی اس واقعہ کو اپنے جھوٹے دعوے کی دلیل نہ بناسکے۔- اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے سامنے اسے ظاہر کیا تھا جو اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس موجود تھے اور آپ انہیں اسلام کی دعوت دے رہے تھے اور ان پر حجت تام کررہے تھے۔
رسو الرم کی بعثت اور نزول دخان کی وجہ سے قیامت نزدیک آپہنچی ہے اور چاند پھٹ گیا کہ اس کے دو ٹکڑے ہوگئے یہ بھی علامت قیامت میں سے ہے۔- شان نزول : اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ (الخ)- امام بخاری و مسلم اور حاکم نے حضرت ابن مسعود سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ میں نے مکہ مکرمہ سے رسول اکرم کی ہجرت سے پہلے چاند کے دو ٹکڑے ہوتے دیکھے اس پر کفار کہنے لگے کہ آپ نے چاند پر جادو کردیا ہے تب یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت ١ اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ۔ ” قیامت کی گھڑی قریب آچکی اور چاند شق ہوگیا۔ “- جیسا کہ قبل ازیں بھی کئی بار ذکر ہوچکا ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سب سے قطعی اور یقینی نشانی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہے۔ اس حوالے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتَـیْنِ ) (١) ” مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح (جڑا ہوا) بھیجا گیا ہے “۔ اس لحاظ سے اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ کا مفہوم یہ ہے کہ اب جبکہ آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی دنیا میں آ چکے ہیں تو سمجھ لو کہ قیامت کا وقت بہت قریب آ لگا ہے۔ سورة السجدۃ کی آیت ٥ میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک دن ہمارے ہزار برس کے برابر ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کو ابھی صرف ڈیڑھ دن ہی ہوا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد اب قیامت بالکل سامنے ہے۔ حضرت اسرافیل (علیہ السلام) اپنے منہ کے ساتھ صور لگائے بالکل تیار کھڑے ہیں۔ بس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اشارے کی دیر ہے۔ جونہی اشارہ ہوگا وہ صور میں پھونک مار دیں گے۔ قربِ قیامت کے اس مفہوم کو سورة المعارج میں یوں بیان کیا گیا ہے : اِنَّہُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا ۔ وَّنَرٰٹہُ قَرِیْبًا ۔ ” یہ لوگ تو قیامت کو بہت دور سمجھ رہے ہیں ‘ جبکہ ہم اسے بہت قریب دیکھ رہے ہیں۔ “- آیت میں چاند کے پھٹنے کا ذکر ایک خرق عادت واقعہ کے طور پر ہوا ہے۔ روایات کے مطابق اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منیٰ میں تشریف فرما تھے۔ چاند کی چودھویں رات تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارد گرد ہر طرح کے لوگ تھے۔ کسی نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے کوئی نشانی ہونی چاہیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : چاند کی طرف دیکھو۔ لوگوں کو متوجہ کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انگلی کا اشارہ کیا اور چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ ایک ٹکڑا سامنے کی پہاڑی کے ایک طرف اور دوسرا دوسری طرف چلا گیا اور پھر اگلے ہی لمحے دونوں ٹکڑے قریب آکر دوبارہ جڑ گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے فرمایا : دیکھو اور گواہ رہو کفار نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم پر جادو کردیا تھا ‘ اس لیے ہماری آنکھوں نے دھوکہ کھایا۔ بعد میں باہر سے آنے والے لوگوں نے بھی اس کی شہادت دی۔ میرے نزدیک یہ معجزہ نہیں تھا بلکہ ایک ” خرقِ عادت “ واقعہ تھا۔ اس نکتے کی وضاحت اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ کی جا چکی ہے کہ ہر رسول کو ایک معجزہ دیا گیا جو باقاعدہ دعوے کے ساتھ دکھایا گیا۔ اس لحاظ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ قرآن ہے۔ البتہ خرق عادت واقعات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیشمار نقل ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے اگر اولیاء اللہ سے کرامات کا ظہور ہوتا ہے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کرامات تو ہزار گنا بڑی ہوں گی۔- اس واقعہ پر بہت سے اعتراضات بھی ہوئے ہیں ۔ اس بنیاد پر بھی کہ اس سے متعلق دنیا میں کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں ۔ اسی لیے سرسید احمد خان مرحوم اور ان کے مکتبہ فکر کے لوگوں نے آیت کے متعلقہ الفاظ کی مختلف تاویلات کی ہیں۔ بہرحال جہاں تک تاریخی ثبوت نہ ہونے کا تعلق ہے اس بارے میں یہ حقیقت بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ یہ واقعہ رونما ہونے کے وقت آدھی دنیا میں تو دن کی روشنی ہوگی ۔ لیکن جن علاقوں میں چاند دیکھا جاسکتا تھا ان علاقوں کے لوگ بھی تو ظاہر ہے اس وقت ٹکٹکی باندھے چاند کو نہیں دیکھ رہے تھے کہ ان میں سے اکثر اس واقعے کے عینی شاہد بن جاتے۔ پھر یہ منظر بھی صرف لمحے بھر کا تھا اور اس دوران چاند کی روشنی میں بھی کوئی فرق نہیں آیا تھا کہ لوگ چونک کر دیکھتے۔ البتہ ایک تاریخی روایت کے مطابق برصغیر میں مالابار کے ساحلی علاقے کے ایک ہندو راجہ نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ بعد میں جب عرب تاجروں کے ذریعے اس تک اسلام کی دعوت اور قرآنی تعلیمات پہنچیں تو اس نے نہ صرف ایک چشم دید گواہ کے طور پر اس واقعہ کی تصدیق کی بلکہ وہ ایمان بھی لے آیا۔ واللہ اعلم
سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :1 یعنی چاند کا پھٹ جانا اس بات کی علامت ہے کہ وہ قیامت کی گھڑی ، جس کے آنے کی تم لوگوں کو خبر دی جاتی رہی ہے ، قریب آ لگی ہے اور نظام عالم کے درہم برہم ہونے کا آغاز ہو گیا ہے ۔ نیز یہ واقعہ کہ چاند جیسا ایک عظیم کرہ شق ہو کر دو ٹکڑے ہو گیا ، اس امر کا کھلا ثبوت ہے کہ جس قیامت کا تم سے ذکر کیا جا رہا ہے وہ برپا ہو سکتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب چاند پھٹ سکتا ہے تو زمین بھی پھٹ سکتی ہے ، تاروں اور سیاروں کے مدار بھی بدل سکتے ہیں اور افلاک کا یہ سارا نظام درہم برہم ہو سکتا ہے ۔ اس میں کوئی چیز ازلی و ابدی اور دائم و مستقل نہیں ہے کہ قیامت برپا نہ ہو سکے ۔ بعض لوگوں نے اس فقرے کا مطلب یہ لیا ہے کہ چاند پھٹ جائے گا ۔ لیکن عربی زبان کے لحاظ سے چاہے یہ مطلب لینا ممکن ہو ، عبارت کا سیاق و سباق اس معنی کو قبول کرنے سے صاف انکار کرتا ہے ۔ اول تو یہ مطلب لینے سے پہلا فقرہ ہی بے معنی ہو جاتا ہے ۔ چاند اگر اس کلام کے نزول کے وقت پھٹا نہیں تھا ، بلکہ وہ آئندہ کبھی پھٹنے والا ہے تو اس کی بنا پر یہ کہنا بالکل مہمل بات ہے کہ قیامت کی گھڑی قریب آ گئی ہے ۔ آخر مستقبل میں پیش آنے والا کوئی واقعہ اس کے قرب کی علامت کیسے قرار پا سکتا ہے کہ اسے شہادت کے طور پر پیش کرنا ایک معقول طرز استدلال ہو ۔ دوسرے یہ مطلب لینے کے بعد جب ہم آگے کی عبارت پڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتی ۔ آگے کی عبارت صاف بتا رہی ہے کہ لوگوں نے اس وقت کوئی نشانی دیکھی تھی جو امکان قیامت کی صریح علامت تھی مگر انہوں نے اسے جادو کا کرشمہ قرار دے کر جھٹلا دیا اور اپنے اس خیال پر جمے رہے کہ قیامت کا آنا ممکن نہیں ہے ۔ اس سیاق و سباق میں اِنْشَقَّ الْقَمَرُ کے الفاظ اسی صورت میں ٹھیک بیٹھ سکتے ہیں جبکہ ان کا مطلب چاند پھٹ گیا ہو ۔ پھٹ جائے گا کے معنی میں ان کو لے لیا جائے تو بعد کی ساری بات بے جوڑ ہو جاتی ہے ۔ سلسلہ کلام میں اس فقرے کو رکھ کر دیکھ لیجیے ، آپ کو خود محسوس ہو جائے گا کہ اس کی وجہ سے ساری عبارت بے معنی ہو گئی ہے : قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ جائے گا ۔ ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں ، منہ موڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے ۔ انہوں نے جھٹلا دیا اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی کی ۔ پس حقیقت یہ ہے کہ شق القمر کا واقعہ قرآن کے صریح الفاظ سے ثابت ہے اور حدیث کی روایات پر اس کا انحصار نہیں ہے ۔ البتہ روایات سے اس کی تفصیلات معلوم ہوتی ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ یہ کب اور کیسے پیش آیا تھا ۔ یہ روایات بخاری ، مسلم ، ترمذی ، احمد ، ابو عوانہ ، ابو داؤد طیالسی ، عبدالرزاق ، ابن جریر ، بیہقی ، طبرانی ، ابن مردویہ اور ابو نعیم اصفہانی نے بکثرت سندوں کے ساتھ حضرت علی ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت حذیفہ ، حضرت انس بن مالک اور حضرت جبیر بن مطعم سے نقل کی ہیں ۔ ان میں سے تین بزرگ ، یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت حذیفہ اور حضرت جبیر بن مطعم تصریح کرتے ہیں کہ وہ اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں ۔ اور دو بزرگ ایسے ہیں جو اس کے عینی شاہد نہیں ہو سکتے ، کیونکہ یہ ان میں سے ایک ( یعنی عبداللہ بن عباس ) کی پیدائش سے پہلے کا واقعہ ہے ، اور دوسرے ( یعنی انس بن مالک ) اس وقت بچے تھے ۔ لیکن چونکہ یہ دونوں حضرات صحابی ہیں اس لیے ظاہر ہے کہ انہوں نے ایسے سن رسیدہ صحابیوں سے سن کر ہی اسے روایت کیا ہو گا جو اس واقعہ کا براہ راست علم رکھتے تھے ۔ تمام روایات کو جمع کرنے سے اس کی جو تفصیلات معلوم ہوتی ہیں وہ یہ ہیں کہ یہ ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے کا واقعہ ہے ۔ قمری مہینے کی چودھویں شب تھی ۔ چاند ابھی ابھی طلوع ہوا تھا ۔ یکایک وہ پھٹا اور اس کا ایک ٹکڑا سامنے کی پہاڑی کے ایک طرف اور دوسرا ٹکڑا دوسری طرف نظر آیا ۔ یہ کیفیت بس ایک ہی لحظہ رہی اور پھر دونوں ٹکڑے باہم جڑ گئے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت منیٰ میں تشریف فرما تھے ۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا دیکھو اور گواہ رہو ۔ کفار نے کہا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ( نے ہم پر جادو کر دیا تھا اس لیے ہماری آنکھوں نے دھوکا کھایا ۔ دوسرے لوگ بولے کہ محمد ہم پر جادو کر سکتے تھے ، تمام لوگوں پر تو نہیں کر سکتے تھے ۔ باہر کے لوگوں کو آنے دو ۔ ان سے پوچھیں گے کہ یہ واقعہ انہوں نے بھی دیکھا ہے یا نہیں ۔ باہر سے جب کچھ لوگ آئے تو انہوں نے شہادت دی کہ وہ بھی یہ منظر دیکھ چکے ہیں ۔ بعض روایات جو حضرت انس سے مروی ہیں ان کی بنا پر یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ شق القمر کا واقعہ ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ پیش آیا تھا ۔ لیکن اول تو صحابہ میں سے کسی اور نے یہ بات بیان نہیں کی ہے ۔ دوسرے خود حضرت انس کی بھی بعض روایات میں مرتین ( دو مرتبہ ) کے الفاظ ہیں اور بعض میں فِرقتین اور شقتین ( دو ٹکڑے ) کے الفاظ ۔ تیسرے یہ کہ قرآن مجید صرف ایک ہی انشقاق کا ذکر کرتا ہے ۔ اس بنا پر صحیح بات یہی ہے کہ یہ واقعہ صرف ایک مرتبہ پیش آیا تھا ۔ رہے وہ قصے جو عوام میں مشہور ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی سے چاند کی طرف اشارہ کیا اور وہ دو ٹکڑے ہو گیا اور یہ کہ چاند کا ایک ٹکڑا حضور کے گریبان میں داخل ہو کر آپ کی آستین سے نکل گیا ، تو یہ بالکل ہی بے اصل ہیں ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس واقعہ کی حقیقی نوعیت کیا تھی؟ کیا یہ ایک معجزہ تھا جو کفار مکہ کے مطالبہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رسالت کے ثبوت میں دکھایا تھا ؟ یا یہ ایک حادثہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے چاند میں پیش آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس کی طرف توجہ صرف اس غرض کے لیے دلائی کہ یہ امکان قیامت اور قرب قیامت کی ایک نشانی ہے ؟علماء اسلام کا ایک بڑا گروہ اسے حضور کے معجزات میں شمار کرتا ہے اور ان کا خیال یہ ہے کہ کفار کے مطالبہ پر یہ معجزہ دکھایا گیا تھا ۔ لیکن اس رائے کا مدار صر ف بعض ان روایات پر ہے جو حضرت انس سے مروی ہیں ۔ ان کے سوا کسی صحابی نے بھی یہ بات بیان نہیں کی ہے ۔ فتح الباری میں ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ قصہ جتنے طریقوں سے منقول ہوا ہے ان میں سے کسی میں بھی حضرت انس کی حدیث کے سوا یہ مضمون میری نگاہ سے نہیں گزرا کہ شق القمر کا واقعہ مشرکین کے مطالبہ پر ہوا تھا ۔ ( باب انشقاق القمر ) ۔ ایک روایت ابو نعیم اصفہانی نے دلائل لنبوۃ میں حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی اس مضمون کی نقل کی ہے ، مگر اس کی سند ضعیف ہے ، اور قوی سندوں سے جتنی روایات کتب حدیث میں ابن عباس سے منقول ہوئی ہیں ان میں سے کسی میں بھی اس کا ذکر نہیں ہے ۔ علاوہ بریں حضرت انس اور حضرت عبداللہ بن عباس ، دونوں اس واقعہ کے ہم عصر نہیں ہیں ۔ بخلاف اس کے جو صحابہ اس زمانے میں موجود تھے ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت حذیفہ ، حضرت جبیر بن مطعم ، حضرت علی ، حضرت عبداللہ بن عمر ( رضی اللہ عنہم ) ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا ہے کہ مشرکین مکہ نے حضور کی صداقت کے ثبوت میں کسی نشانی کا مطالبہ کیا تھا اور اس پر شق القمر کا یہ معجزہ ان کو دکھایا گیا ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قرآن مجید خود بھی اس واقعہ کو رسالت محمدی کی نہیں بلکہ قرب قیامت کی نشانی کے طور پر پیش کر رہا ہے ۔ البتہ یہ اس لحاظ سے حضور کی صداقت کا ایک نمایاں ثبوت ضرور تھا کہ آپ نے قیامت کے آنے کی جو خبریں لوگوں کو دی تھیں ، یہ واقعہ ان کی تصدیق کر رہا تھا ۔ معترضین اس پر دو طرح کے اعتراضات کرتے ہیں ۔ اول تو ان کے نزدیک ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ہے کہ چاند جیسے عظیم کرے کے دو ٹکڑے پھٹ کر الگ ہو جائیں اور سینکڑوں میل کے فاصلے تک ایک دوسرے سے دور جانے کے بعد پھر باہم جڑ جائیں ۔ دوسرے وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا ہوتا تو یہ واقعہ دنیا بھر میں مشہور ہو جاتا ، تاریخوں میں اس کا ذکر آتا ، اور علم نجوم کی کتابوں میں اسے بیان کیا جاتا ۔ لیکن در حقیقت یہ دونوں اعتراضات بے وزن ہیں ۔ جہاں تک اس کے امکان کی بحث ہے ، قدیم زمانے میں تو شاید وہ چل بھی سکتی تھی ، لیکن موجودہ دور میں سیاروں کی ساخت کے متعلق انسان کو جو معلومات حاصل ہوئی ہیں ان کی بنا پر یہ بات بالکل ممکن ہے کہ ایک کرہ اپنے اندر کی آتش فشانی کے باعث پھٹ جائے اور اس زبردست انفجار سے اس کے دو ٹکڑے دور تک چلے جائیں ، اور پھر اپنے مرکز کی مقناطیسی وقت کے سبب سے وہ ایک دوسرے کے ساتھ آ ملیں ۔ رہا دوسرا اعتراض تو وہ اس لیے بے وزن ہے کہ یہ واقعہ اچانک بس ایک لحظہ کے لیے پیش آیا تھا ۔ ضروری نہیں تھا کہ اس خاص لمحے میں دنیا بھر کی نگاہیں چاند کی طرف لگی ہوئی ہوں ۔ اس سے کوئی دھماکا نہیں ہوا تھا کہ لوگوں کی توجہ اس کی طرف منعطف ہوتی ۔ پہلے سے کوئی اطلاع اس کی نہ تھی کہ لوگ اس کے منتظر ہو کر آسمان کی طرف دیکھ رہے ہوتے ۔ پوری روئے زمین پر اسے دیکھا بھی نہیں جا سکتا تھا ، بلکہ صرف عرب اور اس کے مشرقی جانب کے ممالک ہی میں اس وقت چاند نکلا ہوا تھا ۔ تاریخ نگاری کا ذوق اور فن بھی اس وقت تک اتنا ترقی یافتہ نہ تھا کہ مشرقی ممالک میں جن لوگوں نے اسے دیکھا ہوتا وہ اسے ثبت کر لیتے اور کسی مؤرخ کے پاس یہ شہادتیں جمع ہوتیں اور وہ تاریخ کی کسی کتاب میں ان کو درج کر لیتا ۔ تاہم مالابار کی تاریخوں میں یہ ذکر آیا ہے کہ اس رات وہاں کے ایک راجہ نے یہ منظر دیکھا تھا ۔ رہیں علم نجوم کی کتابیں اور جنتریاں ، تو ان میں اس کا ذکر آنا صرف اس حالت میں ضروری تھا جبکہ چاند کی رفتار ، اور اس کی گردش کے راستے ، اور اس کے طلوع و غروب کے اوقات میں اس سے کوئی فرق واقع ہوا ہوتا ۔ یہ صورت چونکہ پیش نہیں آئی اس لیے قدیم زمانے کے اہل تنجیم کی توجہ اس کی طرف منعطف نہیں ہوئی ۔ اس زمانے میں رصد گاہیں اس حد تک ترقی یافتہ نہ تھیں کہ افلاک میں پیش آنے والے ہر واقعہ کا نوٹس لیتیں اور اس کو ریکارڈ پر محفوظ کر لیتیں ۔
1: قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت چاند کے دوٹکڑے ہونے کا معجزہ بھی ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں ظاہر ہوا، اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک چاندنی رات میں مکہ مکرمہ کے کافروں نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ کھلا معجزہ دکھایا کہ چاند کے دو ٹکڑے ہوئے، جن میں سے ایک ٹکڑا پہاڑ کی مشرقی جانب چلا گیا اور دوسرا مغربی جانب، اور پہاڑ ان کے درمیان آگیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے فرمایا کہ لو دیکھ لو جب سارے لوگوں نے جو وہاں موجود تھے یہ حیرت انگیز نظارہ کرلیا تو یہ دونوں ٹکڑے دوبارہ آپس میں مل گئے، جو کافر لوگ اس وقت موجود تھے وہ اس مشاہدے کا تو انکار نہیں کرسکتے تھے، لیکن انہوں نے یہ کہا کہ یہ کوئی جادو ہے، بعد میں مکہ مکرمہ کے باہر سے آنے والے قافلوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ انہوں نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھا تھا، ہندوستان کی تاریخ فرشتہ میں بھی مذکور ہے کہ گوالیار کے راجہ نے یہ واقعہ دیکھا تھا۔