Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 یعنی قریش نے، ایمان لانے کی بجائے، اسے جادو قرار دے کر اپنے اعراض کی روش جاری رکھی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] یعنی پہلے انبیاء بھی ایسے جادو کے کرشمے دکھاتے رہے ان کا جادو بھی چل بسا اور وہ خود بھی چل بسے۔ اسی طرح یہ نبی اور اس کے کرشمے بھی عنقریب ختم ہوجائیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَ اِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا ۔۔۔” مر “ اور ” استمر “ گزرنا ۔ ” مستمر “ گزر جانے والا ۔ یعنی کفار کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو ایمان لانے کے بجائے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک جادو ہے ، جس طرح اور جادوگر گزر گئے ہیں یہ بھی گزر جانے والا ہے ، یہ چاند بھی ہمیشہ پھٹا ہوا نہیں رہے گا ، چناچہ انہوں نے چاند پھٹنے کے عظیم الشان واقعہ کو بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جادو قرا ر دے کر ایمان لانے سے اعراض اختیار کیا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ، مستمر کے مشہور معنی جو فارسی اردو میں بھی معروف ہیں، وہ دیر تک اور دائم رہنے کے ہیں، مگر عربی زبان میں یہ لفظ مَرَّ اور استَمَرَّ کبھی گزر جانے اور ختم ہوجانے کے معنی میں بھی آتا ہے، ائمہ تفسیر میں سے مجاہد اور قتادہ نے اس جگہ یہی معنی بیان کئے ہیں، اس پر مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ یہ جادو کا اثر ہے جو دیر تک نہیں چلا کرتا خود ہی گزر جائے گا اور ختم ہوجائے گا اور ایک معنی مستمر کے قوی و شدید کے بھی آتے ہیں، ابوالعالیہ اور ضحاک نے اس آیت میں مستمر کی یہی تفسیر کی ہے اور مراد یہ ہوگی کہ یہ بڑا قوی جادو ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَۃً يُّعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ۝ ٢- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ - سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔- مستمر - اسم فاعل واحد مذکر۔ استمرار ( استفعال) مصدر سے۔ اس کے متعدد معانی لئے جاسکتے ہیں :۔- (1) یہ مرۃ سے ماخوذ ہے جس کا معنی قوت ہے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ان کا جادو بڑا زور والا ہے۔ زمین پر ہی نہیں آسمانی چیزوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔- (2) یہ بمعنی ذاھب ہے جب کوئی خبر آئے اور گزر جائے تو اہل عرب کہتے ہیں مر الشی واستمر چیز آئی اور کئی۔ یعنی بےبنیاد۔ بےحقیقت اور آنی جانی۔- (3) یہ استمرار سے ہے بمعنی مستقل، پیہم۔- (4) بعض کے نزدیک مستمر کا لفظ مرارت ( تلخی) سے مشتق ہے۔ یعنی تلخ جادو۔ بدمزہ جادو۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

مگر یہ لوگ جب انشقاق قمر وغیرہ کا کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو اس کو جھٹلانے لگتے ہیں اور کہتے ہیں یہ ایک قسم کا جادو ہے جو ابھی ختم ہوجاتا ہے۔- شان نزول : وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا (الخ)- اور امام ترمذی نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ مکہ والوں نے رسول اکرم سے معجزہ دکھانے کی درخواست کی تو دو مرتبہ مکہ مکرمہ میں چاند شق ہوا اسی کے بارے میں سحر مستمر تک یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢ وَاِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا وَیَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ” اور اگر وہ دیکھیں گے کوئی نشانی تب بھی وہ اعراض ہی کریں گے اور کہیں گے یہ تو جادو ہے جو پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :2 اصل الفاظ ہیں سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ۔ اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ معاذاللہ ، شب و روز کی جادوگری کا جو سلسلہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چلا رکھا ہے ، یہ جادو بھی اسی میں سے ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہ پکا جادو ہے ، بڑی مہارت سے دکھا یا گیا ہے ۔ تیسرے یہ کہ جس طرح اور جادو گزر گئے ہیں ، یہ بھی گزر جائے گا ، اس کا کوئی دیر پا اثر رہنے والا نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اسی قسم کے جادو مدت سے چلے آ رہے ہیں، اور یہ بھی کہ یہ ایسا جادو ہے جس کا اثر جلدی ہی ختم ہوجائے گا۔