[١٣] کشتی نوح اور قوم کا تمسخر :۔ طوفان سے پیشتر نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق لکڑی کے تختوں اور لوہے کے کیلوں کی مدد سے ایک بہت بڑی کشتی تیار کی تھی جسے دیکھ کر آپ کی قوم یوں مذاق اڑاتی تھی کہ ہم تو پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں تم اس جہاز کو چلاؤ گے کہاں ؟ یہاں نہ تو نزدیک کوئی دریا ہے اور نہ سمندر ہے ؟
وَ حَمَلْنٰـہُ عَلٰی ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ :” الواح “ ” لوح “ کی جمع ہے ، لکڑ ی وغیرہ کے تختے ۔ ’ دسر “ ”’ سار “ کی جمع ہے ، جیسے ” کتاب “ کی جمع ” کتب “ ہے ۔ کیل یا میخیں خواہ لکڑی کی ہوں یا لوہے وغیرہ کی ، جن کے ساتھ تختے جوڑے جاتے ہیں ۔ مراد کشتی ہے جو نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق طوفان آنے سے پہلے تیار کرلی تھی ۔ مزید دیکھئے سورة ٔ ہود (٣٧ تا ٤١) کی تفسیر۔
ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ ، الواح لوح کی جمع ہے بمعنی تختی، اور دسر، دسار کی جمع ہے، جس کے معنی میخ اور مسمار کے بھی آتے ہیں اور اس ڈورے یا تار کو بھی کہا جاتا ہے جس سے کشتی کے تختے جوڑے جاتے ہیں۔
وَحَمَلْنٰہُ عَلٰي ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ ١٣ ۙ- حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- لوح - اللَّوْحُ : واحد أَلْوَاحِ السّفينة . قال تعالی: وَحَمَلْناهُ عَلى ذاتِ أَلْواحٍ وَدُسُرٍ [ القمر 13] وما يكتب فيه من الخشب ونحوه، وقوله تعالی: فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ [ البروج 22] فكيفيّته تخفی علینا إلا بقدر ما روي لنا في الأخبار، وهو المعبّر عنه بالکتاب في قوله : إِنَّ ذلِكَ فِي كِتابٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج 70] واللُّوحُ : العَطَشُ ، ودابّة مِلْوَاحٌ: سریع العطش، واللُّوحُ أيضا، بضمّ اللام : الهواء بين السماء والأرض، والأکثرون علی فتح اللام إذا أريد به العطش، وبضمّه إذا کان بمعنی الهواء، ولا يجوز فيه غير الضّمّ. ولَوَّحَهُ الحرّ : غيّره، ولَاحَ الحرّ لَوْحاً : حصل في اللوح، وقیل : هو مثل لمح . ولَاحَ البرق، وأَلَاحَ : إذا أومض، وأَلَاحَ بسیفه : أشار به .- ( ل و ح ) اللوح ۔ تختہ ( کشتی وغیرہ کا ) اس کی جمع الواح ہے ۔ قرآن میں ہے : وَحَمَلْناهُ عَلى ذاتِ أَلْواحٍ وَدُسُرٍ [ القمر 13] اور ہم نے نوح کو ایک کشتی پر جو تختوں اور میخوں سے تیار کی گئی تھی سوار کرلیا ۔ اور لوح لکڑی وغیرہ کی اس تختی کو بھی کہتے ہیں جس پر کچھ لکھا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ [ البروج 22] لوح محفوظ میں ۔ میں لوح محفوظ کی اصل کیفیت کو ہم اسی قدر جان سکتے ہیں اور احادیث میں مروی ہے اسی کو دوسری آیت میں کتاب سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنَّ ذلِكَ فِي كِتابٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج 70] بیشک یہ کتاب میں لکھا ہوا ہے بیشک یہ کسب خدا کو آسان ہے ۔ اللوح کے معنی پیاس کے ہیں ۔ اور جس جو پایہ کو جلدی پیاس لگتی ہوا سے دابۃ ملواح کہا جاتا ہے ۔ اور لوح ( ضمہ لام کے ساتھ ) آسمان اور زمین کے درمیانی خلا کو بھی کہتے ہیں لیکن اکثر علمائے لغت کے نزدیک فتحہ لام کے ساتھ بمعنی پیاس کے ہے اور ضمہ لام کے ساتھ زمین وآسمان کے درمیانی خلا کے معنی میں آتا ہے گو اس میں فتحہ لام بھی جائز ہے ۔ لوحہ الحرا سے گرمی نے جھلس دیا ۔ لاح الحرلوحا گرمی فضا میں پھیل گئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ لمح کی طرح ہے اورا لاح بسیفہ کے معنی ہیں اس نے تلوار سے اشارہ کیا ۔- دسر - قال تعالی: وَحَمَلْناهُ عَلى ذاتِ أَلْواحٍ وَدُسُرٍ [ القمر 13] ، أي : مسامیر، الواحد دِسَار، وأصل الدَّسْرِ : الدّفع الشّديد بقهر، يقال : دَسَرَهُ بالرّمح، ورجل مِدْسَر، کقولک : مطعن، وروي : «ليس في العنبر زكاة، إنّما هو شيء دسره البحر» - ( د س ر ) الدسر میخیں اس کا واحد دسار ہے قرآن میں ہے : ۔ وَحَمَلْناهُ عَلى ذاتِ أَلْواحٍ وَدُسُرٍ [ القمر 13] اور ہم نے نوح کو ایک کشتی پر جو تختوں اور میخوں سے تیار کی گئی تھی سوار کرلیا ۔ اصل میں دسر کے معنی کسی چیز کو زور سے مار کر ہٹا دینے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے : دسرہ بالرمح اسے نیزہ مارکر پیچھے ہٹا دیا اور رجل مطعن کی طرح مد سر کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بہت بڑے نیزہ باز کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ عنبر میں زکوۃ نہیں ہے وہ ایک چیز ہے جسے سمندر کنارے پر پھینک دیتا ہے ۔
(١٣۔ ١٦) اور ہم نے نوح کو اور جو ان پر ایمان لائے تھے۔ تختوں اور میخوں والی کشتی پر جو کہ ہماری نگرانی میں چل رہی تھی سوار کیا اور ہم نے یہ سب نوح کا بدلہ لینے کے لیے کیا جن کی انہوں نے قدر نہ کی اور ہم نے نوح کے بعد ان کی کشتی کو لوگوں کی عبرت کے لیے رہنے دیا کہ اس کشتی کے واقعہ سے نصیحت حاصل کریں سو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے جو قوم نوح کے واقعہ سے نصیحت حاصل کر کے گناہوں کو چھوڑ دے۔- سو آپ غور تو فرمایے کہ میرا عذاب ان لوگوں پر اور میرا ان کو ڈرانا یعنی جبکہ نوح نے ان کو ڈرایا پھر بھی وہ ایمان نہیں لائے کیسا ہواْ
آیت ١٣ وَحَمَلْنٰـہُ عَلٰی ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ ۔ ” اور ہم نے اسے سوار کردیا اس (کشتی) پر جو تختوں اور کیلوں سے بنی تھی۔ “
سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :12 مراد ہے وہ کشتی جو طوفان کی آمد سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق حضرت نوح نے بنا لی تھی ۔