29۔ 1 یعنی جس کو انہوں نے اونٹنی کو قتل کرنے کے لئے آمادہ کیا تھا، جس کا نام قدار بن سالف بتلایا جاتا ہے، اس کو پکارا کہ وہ اپنا کام کرے۔ 29۔ 2 یا تلوار یا اونٹنی کو پکڑا اور اس کی ٹانگیں کاٹ دیں اور پھر اسے ذبح کردیا۔ بعض نے فَتَعَاطَیٰ کے معنی فَجَسَرَ کئے ہیں، پس اس نے جسارت کی۔
[٢٣] قوم کا ناقۃ اللہ کو زخمی کردینا :۔ اس اونٹنی کا احترام قوم کے لیے وبال جان بن گیا کیونکہ ان کے اپنے جانوروں کو ایک دن چھوڑ کر کھانے کو چارہ اور پینے کو پانی ملتا تھا۔ مگر وہ اسے ہاتھ لگانے سے ڈرتے تھے۔ انہیں خوب معلوم تھا کہ صالح (علیہ السلام) اگرچہ اکیلے ہیں اور صرف چند کمزور سے آدمی ان کے ساتھ ہیں تاہم کوئی غیبی طاقت ان کی پشت پر موجود ہے لیکن وہ زیادہ دیر صبر نہ کرسکے اور اندر ہی اندر اس اونٹنی کو مار دینے کے مشورے ہوتے رہے۔ با لآخر ایک بدکار عورت نے اپنے آشنا کو اس بات پر آمادہ کر ہی لیا کہ وہ اس اونٹنی کو ہلاک کردے۔ یہ قوم کا ایک کڑیل مضبوط نوجوان مگر اخلاقی لحاظ سے سب سے زیادہ بدکردار اور بدبخت انسان تھا۔ اس نے اونٹنی کے پاؤں کی رگوں کو کاٹ ڈالا۔ اونٹنی نے ایک چیخ ماری اور دوڑ کر اسی پہاڑ میں غائب ہوگئی جس سے نکلی تھی۔
” فتاطعی “ ” عطا یطعو عطوا “ (ن) ” الشی “ کسی چیز کو پکڑنا ۔ ” تعاطی الشی “ کسی چیز کو پکڑنا اور ” تغاطی الامر “ کسی کام کا ذمہ اٹھانا۔ ایک مدت تک یہ ایک دن کی باری کا سلسلہ جاری رہا ۔ صالح (علیہ السلام) نے انہیں تنبیہ کی تھی کہ اسے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچانا ، ورنہ تم پر عذاب آجائے گا ۔ ایمان نہ لانے کے باوجود دل سے وہ انہیں سچا جانتے تھے ، اس لیے وہ اونٹنی کو نقصان پہنچانے سے خالف تھے ، لیکن آخر کار صبر نہ کرسکے اور انہوں نے اس کا قصہ تمام کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ اس کے لیے انہوں نے اپنے ایک سردار کو ابھارا جسے اللہ تعالیٰ نے اس قوم کا سب سے شقی آدمی قرار دیا ہے ، فرمایا ( اِذِ انْبَعَثَ اَشْقٰـہَا ) ( الشمس : ٢١)” جب اس کا سب سے بڑا بدبخت اٹھا “۔ چناچہ سب نے مل کر اسے مدد کے لیے پکارا تو بڑا بہادر اور جری ہے۔ اس نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ کر اسے مار ڈالا ۔ مزید دیکھئے سورة ٔ شمس (١١، ١٢) کی تفسیر۔ ” فتعاطی “ کا مفعول محذوف ہے : ” ای تعاطی السیف “ ( اس نے تلوار پکڑی) ” او تعاطی الامر “ ( یا اس نے اس کام کا ذمہ اٹھایا) ۔
فَنَادَوْا صَاحِبَہُمْ فَتَعَاطٰى فَعَقَرَ ٢٩- ندا - النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ- [ الجمعة 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ- [ آل عمران 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر :- 435-- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ- «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ- [ العلق 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال :- فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف .- ( ن د ی ) الندآ ء - کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔- صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، - ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40]- ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - عقر - عُقْرُ الحوض والدّار وغیرهما : أصلها ويقال :- له : عَقْرٌ ، وقیل : ( ما غزي قوم في عقر دارهم قطّ إلّا ذلّوا) «4» ، وقیل للقصر : عُقْرَة . وعَقَرْتُهُ أصبت : عُقْرَهُ ، أي : أصله، نحو، رأسته، ومنه :- عَقَرْتُ النّخل : قطعته من أصله، وعَقَرْتُ البعیر : نحرته، وعقرت ظهر البعیر فانعقر، قال :- فَعَقَرُوها فَقالَ تَمَتَّعُوا فِي دارِكُمْ [هود 65] ، وقال تعالی: فَتَعاطی فَعَقَرَ [ القمر 29] ، ومنه استعیر : سرج مُعْقَر، وکلب عَقُور، ورجل عاقِرٌ ، وامرأة عاقر : لا تلد، كأنّها تعقر ماء الفحل . قال : وَكانَتِ امْرَأَتِي عاقِراً [ مریم 5] ، وَامْرَأَتِي عاقِرٌ [ آل عمران 40] ، وقد عَقِرَتْ ، والعُقْرُ : آخر الولد . وبیضة العقر کذلک، والعُقَار : الخمر لکونه کالعاقر للعقل، والمُعَاقَرَةُ : إدمان شربه، وقولهم للقطعة من الغنم : عُقْرٌ فتشبيه بالقصر، فقولهم : رفع فلان عقیرته، أي : صوته فذلک لما روي أنّ رجلا عُقِرَ رِجْلُهُ فرفع صوته «5» ، فصار ذلک مستعارا للصّوت، والعقاقیر : أخلاط الأدوية، الواحد : عَقَّار - . ( ع ق ر ) العقر - کے معنی حوض یا مکان کے اصل اور وسط کے ہیں اور اسے عقر بھی کہتے ہیں حدیث میں ہے (42) ماغزی قوم فی عقر دارھم قط الا ذلو ا کہ کسی قوم پر ان کے گھروں کے وسط میں حملہ نہیں کیا جاتا مگر وہ ذلیل ہوجاتی ہیں اور تصر یعنی محل کو عقرۃ کہاجاتا ہے ۔ عقرتہ اس کی عقر یعنی جڑپر مارا ۔ جیسا کہ راستہ کے معنی ہیں میں نے اس کے سر پر مارا اسی سے عقرت النخل ہے جس کے معنی ہیں میں نے کھجور کے درخت کو جڑ سے کاٹ دیا ۔ عقرت البعیر اونٹ کی کو نچیں کاٹ دیں اسے ہلاک کردیا عقرت ظھر البعیر اونٹ کی پشت کو رخمی کردیا انعقر ظھرہ اس کی پیٹھ زخمی ہوگئی قرآن میں ہے : فَعَقَرُوها فَقالَ تَمَتَّعُوا فِي دارِكُمْ [هود 65] مگر انہوں نے اس کی کو نچیں کاٹ ڈالیں تو صالح نے کہا کہ اپنے گھروں میں فائدہ اٹھالو ۔- ۔ فَتَعاطی فَعَقَرَ [ القمر 29] تو اس نے جسارت کرکے اونٹنی کو پکڑا اور اس کی کو نچیں کاٹ ڈالیں اور اسی سے بطور استعارہ کہاجاتا ہے ۔ سرج شعقر زخمی کردینے والی زین ۔ کلب عقور کاٹ کھانے والا کتا ، درندہ جانور رجل عاقر بانجھ مرد ۔ امرءۃ عاقر بانچھ عورت گو یا وہ مرد کے نطفہ کو قطع کردیتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانَتِ امْرَأَتِي عاقِراً [ مریم 5] اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ قد عقرت وہ بانجھ ہوگئی ۔ العقر آخری بچہ بیضۃ العقر آخری انڈا عقار ( پرانی ) شراب کیونکہ وہ عقل کو قطع کردیتی ہے ۔ المعاقرۃ کے معنی ہیں شراب نوشی کا عادی ہونا اور قصر کے ساتھ تشبیہ دے کر بکریوں کی ٹکڑی کو بھی عقر کہاجاتا ہے ۔ رفع فلان عقیرتہ فلاں نے آواز بلند کی مروی ہے کہ ایک آدمی کی ٹانگ کٹ گئی وہ چلایا تو اس وقت سے بطور استعارہ عقر کا لفظ بلند آواز کے معنی میں ہونے لگا ہے ۔ عقاقیر جڑی بوٹیاں ۔ اس کا واحد عقار ہے ۔
آیت ٢٩ فَنَادَوْا صَاحِبَہُمْ فَتَعَاطٰی فَعَقَرَ ۔ ” تو انہوں نے پکارا اپنے ایک ساتھی کو ‘ پس اس نے ہاتھ بڑھایا اور اس کی کونچیں کاٹ دیں۔ “- انہوں نے اس اونٹنی سے جان چھڑانے کے لیے اپنی قوم کے ایک ایسے شخص کو تیار کیا جو ان میں سب سے زیادہ سخت دل تھا۔ اس بدبخت نے ناقۃ اللہ پر حملہ کر کے اسے مار ڈالا۔
سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :20 ان الفاظ سے خود بخود یہ صورت حال مترشح ہوتی ہے کہ وہ اونٹنی ایک مدت تک ان کی بستیوں میں دندناتی پھری ۔ اس کی باری کے دن کسی کو پانی پر آنے کی ہمت نہ ہوتی تھی ۔ آخر کار اپنی قوم کے ایک من چلے سردار کو انہوں پکارا کہ تو بڑا جری اور بے باک آدمی ہے ۔ بات بات پر آستینیں چڑھا کر مارنے اور مرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے ، ذرا ہمت کر کے اس اونٹنی کا قصہ بھی پاک کر دکھا ۔ ان کے بڑھاوے چڑھاوے دینے پر اس نے یہ مہم سر کرنے کا بیڑا اٹھا لیا اور اونٹنی کو مار ڈالا ۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ اس اونٹنی سے سخت مرعوب تھے ، ان کا یہ احساس تھا کہ اس کی پشت پر کوئی غیر معمولی طاقت ہے ، اس پر ہاتھ ڈالتے ہوئے وہ ڈرتے تھے ، اور اسی بنا پر محض ایک اونٹنی کا مار ڈالنا ، ایسی حالت میں بھی جبکہ اس کے پیش کرنے والے پیغمبر کے پاس کوئی فوج نہ تھی جس کا انہیں ڈر ہوتا ، ان کے لیے ایک بڑی مہم سر کرنے کا ہم معنی تھا ۔ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف حاشیہ 58 ۔ جلد سوم ، الشعراء ، حاشیہ 104 ۔ 105 ) ۔
8: اس آدمی کا نام روایتوں میں قدار آیا ہے۔ اس نے اونٹنی کو قتل کیا۔