Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 یعنی ایسی ہوا بھیجی جو ان کو کنکریاں مارتی تھی، یعنی ان کی بستیوں کو ان پر الٹا کردیا گیا، اس طرح کہ ان کا اوپر والا حصہ نیچے اور نیچے والا حصہ اوپر، اس کے بعد ان پر کھنگر پتھروں کی بارش ہوئی جیسا کہ سورة ہود وغیرہ میں تفصیل گزری۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٥] قوم لوط پر عذاب :۔ سیدنا لوط (علیہ السلام) کو پہلے مطلع کردیا گیا تھا کہ صبح کے وقت تمہاری قوم پر خوفناک عذاب آنے والا ہے۔ لہذا راتوں رات ہی تم اپنے پیروکاروں کو ساتھ لے کر اس بستی سے نکل جاؤ تمہاری بیوی تمہارے ساتھ نہیں جائے گی۔ پیچھے ہی رہے گی اور سزا پانے والوں میں شامل ہوگی۔ اور جب تم نکلو تو خود سب سے پیچھے رہنا۔ اور تم میں سے کوئی پلٹ کر نہ دیکھے۔ ایسا نہ ہو کہ کسی کے دل میں یہ خیال آجائے کہ دیکھوں تو سہی کہ اس قوم پر کیسا عذاب آتا ہے۔ ورنہ وہ بھی عذاب کی لپیٹ میں آجائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّـآ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ حَاصِبًا : قوم لوط کی بستیاں الٹانے کے بعد ان پر پتھروں کی جو بارش ہوئی وہ مراد ہے ۔ مزید دیکھئے سورة ٔ ہود (٨٣) ۔- ٢۔ ئاِلَّآ اٰلَ لُوْطٍ ط ۔ لوط (علیہ السلام) پر ان کی قوم میں سے ایک آدمی بھی ایمان نہیں لایا ، حتیٰ کہ ان کی بیوی بھی کافر ہی رہی ۔ ( دیکھئے ذاریات : ٣٦۔ ہود : ٨١) اس لیے یہاں ” آل لوط “ سے مراد صرف ان کی اولاد ہے ، جن کے ساتھ وہ خود بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے کافر کو پیغمبر کی آل اور اہل تسلیم نہیں کیا خواہ بیوی ہو ، جیسے لوط (علیہ السلام) کی بیوی ، یا بیٹا ہو ، جیسے نوح (علیہ السلام) کا بیٹا ، اس کے بارے میں فرمایا :(اِنَّـہٗ لَیْسَ مِنْ اَھْلِک َج ) (ھود : ٤٦)” بیشک وہ تیرے گھر والوں سے نہیں “۔- ٣۔ نَجَّیْنٰـہُمْ بِسَحَرٍ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ ہود (٨١) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَيْہِمْ حَاصِبًا اِلَّآ اٰلَ لُوْطٍ۝ ٠ ۭ نَجَّيْنٰہُمْ بِسَحَرٍ۝ ٣٤ ۙ- حاصبا - : بادسنگ بار۔ پتھروں کا مینہ۔ ، منصوب بوجہ مفعول ہونے کے ہے۔ حاصب اس ہوا کو کہتے ہیں جو چھوٹے سنگریزوں کا اٹھا کرلے جاتی ہے اور برساتی ہے ۔ حصباء چھوٹے سنگریزوں کو کہتے ہیں۔ حاصب پتھر پھینکنے والے کو بھی کہتے ہیں ۔- نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔- وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔- سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤ اِنَّـآ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ حَاصِبًا اِلَّآ اٰلَ لُوْطٍ ط نَجَّیْنٰـہُمْ بِسَحَرٍ ۔ ” ہم نے ان پر بھیج دی ایک ایسی تیز آندھی جس میں پتھر تھے ‘ سوائے لوط کے گھر والوں کے ۔ ان کو ہم نے نجات دے دی صبح کے وقت۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani