Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

45۔ 1 جماعت سے مراد کفار مکہ ہیں۔ چناچہ بدر میں انہیں شکست ہوئی اور یہ پیٹھ دے کر بھاگے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣١] ہجرت حبشہ :۔ قیاس یہ ہے کہ یہ سورت سورة نجم سے ڈیڑھ دو سال بعد نازل ہوئی۔ نزولی ترتیب کے لحاظ سے سورة نجم کا نمبر ٢٣ ہے اور اس کا نمبر ٣٧ ہے۔ اور سورة نجم رجب ٥ نبوی اور شوال ٥ نبوی کے درمیانی عرصہ میں نازل ہوئی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورة ٧ نبوی میں نازل ہوئی ہوگی۔ اس وقت صورت حال یہ تھی کہ کافروں کے ظلم و ستم سے مجبور ہو کر ٨٣ مسلمان مرد اور عورتیں حبشہ کی طرف چلے گئے تھے۔ باقی شعب ابی طالب میں محصور ہوگئے تھے۔ ان کا معاشرتی بائیکاٹ بھی کردیا گیا تھا اور معاشی بھی۔ باہر سے ان محصورین تک سخت پابندی بھی لگا دی گئی تھی اور مسلمان بھوک اور افلاس کا شکار ہو رہے تھے۔ بعض دفعہ درختوں کے پتے کھانے تک نوبت آجاتی اور یہ سب ظلم و ستم ڈھانے والے یہی سرداران قریش تھے جنہیں اپنی جمعیت پر ناز تھا کہ اسلام لانے کے جرم کا مسلمانوں سے پوری طرح انتقام لے سکتے ہیں۔ اس سورة کی آیت نمبر ٤٤ میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔ اور آیت نمبر ٤٥ میں ایسی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ جس کا اس دور میں تصور بھی ناممکن نظر آتا تھا۔ لیکن اللہ کی تدبیر کے مقابلہ میں دوسروں کی تدبیریں کیسے کارگر ہوسکتی ہیں۔ اس سورة کے نزول کے سات ہی سال بعد حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ وہ پیشینگوئی جو ناممکن نظر آرہی تھی جنگ بدر میں ایک ٹھوس حقیقت بن کر سامنے آگئی۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہے۔- خ یہ پیش گوئی اس وقت کی گئی جب مسلمان شعب ابی طالب میں محصور تھے اور بدر کے دن پوری ہوئی :۔ سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ بدر کے دن آپ ایک خیمہ میں مقیم تھے۔ آپ نے یوں دعا فرمائی : یا اللہ میں تجھے تیرے عہد اور وعدہ کی قسم دیتا ہوں، یا اللہ اگر تو چاہے تو (ان تھوڑے سے مسلمانوں کو ہلاک کردے) تو پھر آج کے بعد کوئی تیری پرستش کرنے والا نہ رہے گا ۔ پھر سیدنا ابوبکر نے آپ کا ہاتھ تھام لیا اور کہا : یارسول اللہ اب بس کیجئے، آپ نے اپنے پروردگار سے التجا کرنے میں حد کردی۔ آپ اس دن زرہ پہنے ہوئے چل پھر رہے تھے۔ آپ خیمہ سے باہر نکلے تو یہ آیت پڑھ رہے تھے۔ ( سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ 45؀) 54 ۔ القمر :45) (بخاری، کتاب التفسیر)- اس جنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ انتقام لینے والے خود اللہ کے انتقام کا شکار ہوگئے۔ ستر بڑے بڑے کافر موت کے گھاٹ اترے اور اتنے ہی بھاگتے بھاگتے گرفتار ہوگئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ :” الجمع “ پر الف لام عہد خارجی کا ہے ، یعنی و ہ جماعت جس کا پچھلی آیت کے لفظ ” جمیع “ میں ذکر ہے ۔ اس لیے ترجمہ ” یہ جماعت “ کیا گیا ہے۔ یعنی اگر ان کا یہ کہنا ہے تو یاد رکھیں کہ یہ جماعت اپنے خیال میں جتنی بھی زبردست ہو بہت جلد شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے ۔” الدبر “ کا لفظ واحد ہے ، مراد جنس ہے : ” ای یولی کل واحد منھم دبرہ “ یعنی ان میں سے ہر ایک پیٹھ پھیرکر بھاگے گا۔ “ یہ آیات کے آخری حروف کی موافقت کے لیے ہے۔ یہ آیات مکہ میں نازل ہوئیں ، جب مسلمان مظلوم و مقہور تھے، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ قریش مکہ جیسے قوت و شوکت والے لوگ بھی کسی وقت ان کمزور اور بےبس مسلمانوں سے شکست کھائیں گے اور پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ جن مسلمانوں میں سے کچھ جان بچا کر حبش میں پناہ لے چکے تھے ، کچھ شعب ابی طالب میں محصو تھے اور قریش کے مقاطع اور محاصرے کی وجہ سے بھوکوں مر رہے تھے ۔ مگر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق وہ وقت آیا اور فی الواقع تھوڑے ہی عرصے میں بدر و احزاب اور دوسری جنگوں کے موقع پر یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔ بدر کے موقع پر معرکہ برپا ہونے سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی ، تب صحابہ کو معلوم ہوا کہ یہ وہ ہزیمت تھی جس کی وعید اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کو سنائی تھی ۔ عبد اللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ بدر کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے خیمے میں تھے ، اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اللھم انی انشدک عھدک ووعدک ، اللھم ان تشاء لا تعبد بعد الیوم ) ” اے اللہ میں تجھے تیرے عہد اور تیرے وعدے کا واسطہ دیتا ہوں۔ اے اللہ اگر تو چاہتا ہے کہ آج کے بعد تیری عبادت نہ کی جائے ( تو اس تھوڑی سی جمعیت کو مٹ جانے کے لیے بےیارو مدد گار چھوڑ دے ، ورنہ اس کی ضرور مدد فرما)” تو ابوبکر (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگے :” اے اللہ کے رسول بس کیجیے ، آپ نے اپنے رب سے نہایت اصرار کے ساتھ دعا کی ہے۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زرہ پہنے ہوئے اچھلتے ہوئے نکلے اور آیت یہ آیت پڑھ رہے تھے (سیھزم الجمع ویولون الدبر) ” عنقریب یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے “۔ ( بخاری ، التفسیر ، باب قولہ :(سیھزم الجمع) : ٤٨٧٥)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

سَيُہْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۝ ٤٥- هزم - أصل الهَزْمِ : غمز الشیء الیابس حتی ينحطم، كَهَزْمِ الشّنّ ، وهَزْمِ القثّاء والبطّيخ، ومنه : الهَزِيمَةُ لأنه كما يعبّر عنه بذلک يعبّر عنه بالحطم والکسر . قال تعالی: فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللَّهِ- [ البقرة 251] ، جُنْدٌ ما هُنالِكَ مَهْزُومٌ مِنَ الْأَحْزابِ- [ ص 11] وأصابته هَازِمَةُ الدّهر . أي : کا سرة کقولهم : فاقرة، وهَزَمَ الرّعد : تكسّر صوته، والْمِهْزَامُ : عود يجعل الصّبيان في رأسه نارا فيلعبون به، كأنّهم يَهْزِمُونَ به الصّبيان . ويقولون للرّجل الطّبع : هَزَمَ واهْتَزَمَ.- ( ھ ز م ) الھزم کے اصل معنی کسی خشک چیز کو دبا کر توڑ دینے کے ہیں ۔ خشک اور پرانے مشکیزے کو دبا کر توڑڈالنے یا تربوز ککڑی وغیرہ کے توڑنے پر ھزم کا لفظ بولاجاتا ہے اور اسی سے ہزیمت ( بمعنی شکست ) ہے جس طرح حطم ماکسر کا لفظ مجازا شکست کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اسی طرح ھزم کا لفظ بھی اس معنی میں بو لاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللَّهِ [ البقرة 251] تو طالوت کی فوج نے خدا کے حکم سے ان کو ہزیمت دی جُنْدٌ ما هُنالِكَ مَهْزُومٌ مِنَ الْأَحْزابِ [ ص 11] یہاں شکست کھائے ہوئے گروہوں میں سے بھی ایک لشکر ہے ۔ اور فاقرۃ کی طرح ھازمتہ بھی بڑی مصیبت کو کہتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ اصابتہ ھازمتہ الدمرات بڑی مصیبت پہنچی ۔ ھزمالرعد گرج کی آواز کا شکستہ ہونا المھزام ایک لکڑی جس کے سرے پر آگ لگا کر بچے کھیلتے ہیں ۔ گویا وہ اس سے دوسرے لڑکوں کو ہزیمیت دیتے ہیں اور کمینے ( وفی ) شخص کے متعلق ھزم واھتزم کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- دبر ( پيٹھ)- دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ ( وأَدْبَار النّجوم) فإدبار مصدر مجعول ظرفا،- ( د ب ر ) دبر ۔- بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٥ سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُـوَلُّــوْنَ الدُّبُرَ ۔ ” عنقریب ان کی جمعیت شکست کھاجائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ “- یہ پیشین گوئی جو ہجرت سے پانچ سال پہلے کردی گئی تھی ‘ میدانِ بدر میں حرف بحرف پوری ہوئی۔ روایات میں آتا ہے کہ غزوئہ بدر سے پہلی رات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سجدے کی حالت میں رو رو کر دعا کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ سجدہ بہت طویل تھا اور دعا بھی بہت طویل تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس دعا کا لب لباب یہ تھا کہ اے اللہ میں نے اپنی پندرہ سال کی کمائی لا کر اس میدان میں ڈال دی ہے۔ میں آخری رسول ہوں ‘ میرے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ اے اللہ اس معرکے میں اگر یہ لوگ ہلاک ہوگئے تو پھر قیامت تک اس زمین پر تیری بندگی کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اس رات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عریشے پر پہرے کے لیے حضرت ابوبکر (رض) مامور تھے ‘ وہ سجدے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کیفیت کا مشاہدہ کر رہے تھے اور دعا کے رقت آمیز الفاظ سن رہے تھے۔ اس دوران ایک موقع ایسا بھی آیا جب حضرت ابوبکر (رض) سے رہا نہ گیا اور وہ پکار اٹھے : حَسْبُکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ … کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب بس کردیجیے ۔ پھر جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سجدے سے سر مبارک اٹھایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک پر یہی الفاظ تھے : سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُـوَلُّــوْنَ الدُّبُرَ ۔ کہ یہ لوگ اپنی طرف سے بہت بڑا لشکر لے کر آئے ہیں۔ ان کا یہ لشکر یہاں شکست سے دوچار ہوگا اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔ (١)

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :24 یہ صریح پیش گوئی ہے جو ہجرت سے پانچ سال پہلے کر دی گئی تھی کہ قریش کی جمعیت ، جس کی طاقت کا انہیں بڑا زعم تھا ، عنقریب مسلمانوں سے شکست کھا جائے گی ۔ اس وقت کوئی شخص یہ تصور تک نہ کر سکتا تھا کہ مستقبل قریب میں یہ انقلاب کیسے ہو گا ۔ مسلمانوں کی بے بسی کا حال یہ تھا کہ ان میں سے ایک گروہ ملک چھوڑ کر حبش میں پناہ گزیں ہو چکا تھا ، اور باقی ماندہ اہل ایمان شعب ابی طالب میں محصور تھے جنہیں قریش کے مقاطعہ اور محاصرہ نے بھوکوں مار دیا تھا ۔ اس حالت میں کون یہ سمجھ سکتا تھا کہ سات ہی برس کے اندر نقشہ بدل جانے والا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس کے شاگرد عکرمہ کی روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے ، جب سورہ قمر کی یہ آیت نازل ہوئی تو میں حیران تھا کہ آخر یہ کونسی جمعیت ہے جو شکست کھائے گی ؟ مگر جب جنگ بدر میں کفار شکست کھا کر بھاگ رہے تھے اس وقت میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زرہ پہنے ہوئے آگے کی طرف جھپٹ رہے ہیں اور آپ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری ہیں کہ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْناَ الدُّبُرَ ، تب میری سمجھ میں آیا کہ یہ تھی وہ ہزیمت جس کی خبر دی گئی تھی ( ابن جریر ۔ ابن ابی حاتم ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

13: یہ پیشین گوئی اس وقت کی جا رہی تھی جب مسلمان ان کافروں کے مقابلے میں بہت کمزور تھے اور خود اپنا بچاؤ بھی نہیں کر پاتے تھے۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ یہ خدائی پیشین گوئی جنگ بدر میں حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ مکہ مکرمہ میں کافروں کے جو بڑے بڑے سردار تھے، سب بدر میں مارے گئے، ستر افراد گرفتار ہوئے اور باقی بھاگ گئے۔