51۔ 1 یعنی گذشتہ امتوں کے کافروں کو، جو کفر میں تمہارے ہی جیسے تھے۔
[٣٦] اشیاع کا لغوی مفہوم :۔ اشیاع شیعہ کی جمع ہے اور شیعہ کے معنی پارٹی، دھڑا، سیاسی فرقہ ہے یعنی وہ لوگ جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے اور وہ اس کے ارد گرد پھیلے رہتے ہیں۔ یعنی کسی شخص کے پیروکار اور مددگار۔ ایسی پارٹی یا دھڑے کی بنیاد عموماً عقیدہ کا اختلاف ہوتا ہے۔ اور شیعہ کی جمع شیعا بھی آتی ہے اور وہ انہی معنوں میں آتی ہے اور اشیاع بھی آتی ہے اور اس سے مراد ایک ہی جیسی عادات واطوار رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ خواہ وہ پہلے گزر چکے ہوں یا موجود ہوں۔ ہم جنس لوگ۔ اس آیت میں یہ لفظ انہیں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
وَلَقَدْ اَہْلَکْنَـآ اَشْیَاعَکُمْ ۔۔۔۔۔: قیامت پر قادر ہونے کا ایک نمونہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ قسم ہے کہ ہم نے تمہارے جیسی کئی جماعتوں مثلاً عاد وثمود وغیرہ کو ہلاک کر ڈالا ۔ وہ بھی یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ ان پر عذاب آسکتا ہے ، مگر جب عذاب آیا تو اچانک آیا ۔ ایسے ہی قیامت بھی اچانک آئے گی ، تو کیا ہے کوئی جو اپنے جیسے ان گروہوں سے عبرت حاصل کرے اور قیامت کی ت تیاری کرے ؟ یہاں پھر التفاف ہے ، یعنی مشرکین کو مخاطب فرما لیا ہے ، کیونکہ مقصود ڈانٹنا ہے ۔ ” اشیاع “ ” شیعۃ “ کی جمع ہے ، ایک جیسا عقیدہ رکھنے والی جماعت کے لوگ جو ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوں ۔ یہاں ” اشیاعکم “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ بھی کفر و شرک میں تمہارے جیسے تھے۔
وَلَقَدْ اَہْلَكْنَآ اَشْـيَاعَكُمْ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ ٥١- هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار :- وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- شيع - الشِّيَاعُ : الانتشار والتّقوية . يقال : شاع الخبر، أي : كثر وقوي، وشَاعَ القوم : انتشروا وکثروا، وشَيَّعْتُ النّار بالحطب : قوّيتها، والشِّيعَةُ : من يتقوّى بهم الإنسان وينتشرون عنه، ومنه قيل للشّجاع : مَشِيعٌ ، يقال : شِيعَةٌ وشِيَعٌ وأَشْيَاعٌ ، قال تعالی: وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ- [ الصافات 83] ، هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] ، وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص 4] ، فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر 10] ، وقال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر 51] .- ( ش ی ع ) الشیاع - کے معنی منتشر ہونے اور تقویت دینا کے ہیں کہا جاتا ہے شاع الخبر خبر پھیل گئی اور قوت پکڑ گئی ۔ شاع القوم : قوم منتشر اور زیادہ ہوگئی شیعت النار بالحطب : ایندھن ڈال کر آگ تیز کرنا الشیعۃ وہ لوگ جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے اور وہ اس کے ارد گرد پھیلے رہتے ہیں اسی سے بہادر کو مشیع کہا جاتا ہے ۔ شیعۃ کی جمع شیع واشیاع آتی ہے قرآن میں ہے وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ [ الصافات 83] اور ان ہی یعنی نوح (علیہ السلام) کے پیرؤں میں ابراہیم تھے هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] ایک تو موسیٰ کی قوم کا ہے اور دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص 4] وہاں کے باشندوں کو گروہ در گروہ کر رکھا تھا ۔ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر 10] پہلے لوگوں میں ( بھی ) وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر 51] اور ہم تمہارے ہم مذہبوں کو ہلاک کرچکے ہیں ۔
اور مکہ والو ہم تمہارے ہم مسلک لوگوں کو ہلاک کرچکے ہیں سو ان لوگوں کے ساتھ جو برتاؤ ہوا تو کیا اس سے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے کہ نصیحت حاصل کر کے گناہوں کو چھوڑ دے۔
آیت ٥١ وَلَقَدْ اَہْلَکْنَآ اَشْیَاعَکُمْ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ ۔ ” تو (اے قریش ِمکہ) ہم نے تم جیسے بہت سے لوگوں کو ہلاک کیا ہے ‘ تو کوئی ہے اس سے سبق حاصل کرنے والا ؟ “- تمہاری تذکیر اور یاد دہانی کے لیے قرآن حکیم میں سابقہ اقوام کے انجام کی عبرت انگیز تفاصیل بار بار بیان کی گئی ہیں۔ تاریخی حوالوں سے بھی ان اقوام کے حالات سے تم لوگ اچھی طرح واقف ہو۔ اب تم لوگ چاہو تو ان کے انجام سے سبق حاصل کرسکتے ہو۔ اس کے علاوہ بیشمار آیات آفاقی و انفسی بھی تمہارے سامنے ہیں۔ اگر تم لوگ کبھی ان آیات کا مشاہدہ دل کی آنکھ سے کرو تو وہ بھی تمہاری ہدایت کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔
سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :27 یعنی اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ کسی خدائے حکیم و عادل کی خدائی نہیں بلکہ کسی اندھے راجہ کی چوپٹ نگری ہے جس میں آدمی جو کچھ چاہے کرتا پھرے ، کوئی اس سے باز پرس کرنے والا نہیں ہے ، تو تمہاری آنکھیں کھولنے کے لیے انسانی تاریخ موجود ہے جس میں اسی روش پر چلنے والی قومیں پے در پے تباہ کی جاتی رہی ہیں ۔