[٨] انام کا لغوی مفہوم :۔ انام سے مراد ہر وہ جاندار مخلوق ہے جو روئے زمین پر پائی جاتی ہے۔ خواہ وہ چرند ہوں، یا پرند، مویشی ہوں یا درندے، انسان ہوں یا جن، اور انام سے مراد انسان اور جن لینا اس لحاظ سے زیادہ مناسب ہے کہ آگے انہیں دو انواع کا ذکر آرہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ زمین پر بسنے والی تمام مخلوق کا رزق ہم نے زمین سے ہی وابستہ کردیا ہے۔ یہی ان کی جائے پیدائش، یہی ان کا مسکن اور یہی ان کا مدفن ہے۔ - خ اشتراکی نظریہ کا رد :۔ اس آیت سے اشتراکیت پسند حضرات نے اپنا نظریہ کشید کرنے کی کوشش فرمائی ہے کہ زمین حکومت کو اپنی تحویل میں لے لینی چاہئے۔ پھر وہ تمام افراد کو رزق مہیا کرے۔ اس کے نظریے کے ابطال کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ انام کے معنی صرف انسان نہیں بلکہ سب جاندار مخلوق ہے۔ پھر اس پر کئی اعتراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ کیا زمین کی تمام پیداوار تقسیم ہوگی یا مصنوعات ؟ اور کیا ہر فرد ریاست میں برابر تقسیم ممکن بھی ہے۔ یا نہیں ؟ اور آج تو ان لوگوں کا نظریہ عملاً بھی باطل قرار پاچکا ہے۔
وَالْاَرْضَ وَضَعَہَا لِلْاَ نَامِ :” الانام “ کا معنی ہر جان دار مخلوق ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس طرح بنایا اور بچھایا ہے کہ مخلوق کی تمام ضروریات اس سے پوری ہوتی ہے ، ان کا پیدا ہونا ، کھانا پینا ، پہننا ، رہنا سہنا ، چلنا پھرنا ، زندہ رہنا اور دفن ہونا غرض ہر ضرورت اور ہر سہولت اسی سے وابستہ ہے۔ ” الانام “ کے لفظ میں اگرچہ تمام مخلوق شامل ہے ، مگر یہاں اس سے مراد جن و انس ہیں ، کیونکہ محاسبہ انہی دو کا ہونا ہے اور آگے انہی پر احسانات کا ذکر ہے۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے زمین کی ہر چیز انسانوں کی خاطر بنائی ہے ، فرمایا :(ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ) (البقرہ : ٢٩) ” وہی ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے سب تمہارے لیے پیدا کیا ۔ “ اور فرمایا (وَ سَخَّرَلَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ) (الجاثیہ : ١٣)” اور اس نے تمہاری خاطر ان تمام چیزوں کو مسخر کردیا جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں “۔ زمین کو انسان کے لیے بنانے اور بچھانے کے متعلق دیکھئے سورة ٔ رعد ( ٣) ، نمل (٦٠، ٦١) یٰسین (٣٣ تا ٣٥) حم السجدہ (٩، ١٠) زخرف (٩، ١٠) جاثیہ (٣، ٤) ق (٧، ٨) ملک (١٥) مرسلات (٢٥، ٢٦) ، نبائ (٦) اور سورة ٔ نازعات ( ٣٠ تا ٣) ۔
وَالْاَرْضَ وَضَعَهَا لِلْاَنَامِ ، انام بالفتح بروزن سحاب، ہر جاندار کو کہا جاتا ہے جو زمین پر رہتا چلتا ہے، (قاموس) بیضاوی نے ہر ذی روح اس کا ترجمہ کیا ہے اور ظاہر یہ ہے کہ اس آیت میں انام سے مراد انسان اور جنات ہیں، کیونکہ کل ذی روح ارواح میں سے یہی دونوں احکام شرعیہ کے مکلف اور مامور ہیں اور اس سورت میں بار بار انہی دونوں کو خطاب بھی کیا گیا ہے، جیسا کہ فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ میں یہی دونوں جن وانس مخاطب ہیں۔
وَالْاَرْضَ وَضَعَہَا لِلْاَنَامِ ١٠ ۙ- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - الانام - ۔ بمعنی الحیوان کلہ ( ابن عباس) تمام جاندار بمعنی الانس والجن ( حسن) انسان اور جن ۔ بہتوں نے اسی کو ترجیح دی ہے کیونکہ بظاہر اس جگہ ( آیت ہذا) جن اور انس ہی مراد ہیں کیونکہ خطاب انہی دونوں کو کیا گیا ہے اور آگے چل کر فبای الاء ربکما تکذبن میں یہی دونوں نوعین مخاطب ہیں۔
آیت ١٠ وَالْاَرْضَ وَضَعَہَا لِلْاَنَامِ ۔ ” اور زمین کو اس نے بچھا دیا مخلوق کے لیے۔ “- ظاہر ہے مخلوق میں انسان بھی شامل ہیں اور جنات بھی ۔ نوٹ کیجیے کہ پہلے آسمان ‘ سورج اور چاند کا ذکر ہوا ہے اور اب زمین کا ۔ گویا ترتیب تدریجاً اوپر سے نیچے کی طرف آرہی ہے۔
سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :9 اب یہاں سے آیت 25 تک اللہ تعالیٰ ان نعمتوں اور اس کے ان احسانات اور اس کی قدرت کے ان کرشموں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن سے انسان اور جن دونوں متمتع ہو رہے ہیں اور جن کا فطری اور اخلاقی تقاضا یہ ہے کہ وہ کفر و ایمان کا اختیار رکھنے کے باوجود خود اپنی مرضی سے بَطوعَ و رغبت اپنے رب کی بندگی اور اطاعت کا راستہ اختیار کریں ۔ سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :10 اصل الفاظ ہیں زمین کو اَنام کے لیے وضع کیا ۔ وضع کرنے سے مراد ہے تالیف کرنا ، بنانا ، تیار کرنا ، رکھنا ، ثبت کرنا ۔ اور اَنام عربی زبان میں خلق کے لیے استعمال ہوتا ہے جس میں انسان اور دوسری سب زندہ مخلوقات شامل ہیں ۔ ابن عباس کہتے ہیں کل شیء فیہ الروح ، اَنام میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کے اندر روح ہے ۔ مجاہد اس کے معنی بیان کرتے ہیں خلائق ۔ قتادہ ، ابن زید اور شعبی کہتے ہیں کہ سب جاندار انام ہیں ۔ حسن بصری کہتے ہیں کہ اِنس و جن دونوں اس کے مفہوم میں داخل ہیں ۔ یہ معنی تمام اہل لغت نے بیان کیے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اس آیت سے زمین کو ریاست کی ملکیت بنانے کا حکم نکالتے ہیں وہ ایک فضول بات کہتے ہیں ۔ یہ باہر کے نظریات لا کر قرآن میں زبردست ٹھونسنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے جس کا ساتھ نہ آیت کے الفاظ دیتے ہیں نہ سیاق و سباق ۔ اَنام صرف انسانی معاشرے کو نہیں کہتے بلکہ زمین کی دوسری مخلوقات بھی اس میں شامل ہیں ۔ اور زمین کو اَنام کے لیے وضع کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ سب کی مشترک ملکیت ہو ۔ اور سیاق عبارت بھی یہ نہیں بتا رہا ہے کہ کلام کا مدعا اس جگہ کوئی معاشی ضابطہ بیان کرنا ہے ۔ یہاں تو مقصود دراصل یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو اس طرح بنایا اور تیار کر دیا کہ یہ قسم قسم کی زندہ مخلوقات کے لیے رہنے بسنے اور زندگی بسر کرنے کے قابل ہو گئی ۔ یہ آپ سے آپ ایسی نہیں ہو گئی ہے ۔ خالق کے بنانے سے ایسی بنی ہے ۔ اس نے اپنی حکمت سے اس کو ایسی جگہ رکھا اور ایسے حالات اس میں پیدا کیے جن سے یہاں زندہ انواع کا رہنا ممکن ہوا ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم النمل حواشی 73 ۔ 74 جلد چہارم ، یٰسٓ ، حواشی 29 ۔ 32 ۔ المومن حواشی 90 ۔ 91 ، حم السجدہ ، حواشی 11 تا 13 ۔ الزخرف ، حواشی 7 تا 10 الجاثیہ ، حاشیہ 7 )