Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩] پھلوں کے ساتھ کھجور کا الگ بھی ذکر فرمایا ہے اس لیے کہ کھجور میں دوسرے پھلوں کی نسبت زیادہ غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں۔ اور کھجور اور پانی دو چیزیں مل کر مکمل غذا بن جاتی ہے جیسا کہ سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ بعض دفعہ ہمارے گھر میں دو دو ماہ تک چولہا نہیں جلتا تھا اور ہمارا گزارا صرف دو کالی چیزوں (کھجور اور مٹکے کا پانی) پر ہوتا تھا (بخاری۔ کتاب الہبۃ و فضلہا)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فِیْہَا فَاکِہَۃٌ وَّالنَّخْلُ ذَاتُ الْاَکْمَامِ :” فاکھۃ “ ان پھلوں اور چیزوں کا نام ہے جو بطور خوراک نہیں بلکہ لذت اور خوشی کے لیے کھائی جاتی ہیں ۔ یہ ” فکہ یف کہ “ (فرح یفرح) سے مشتق ہے ، جس کا معنی باتوں اور ہنسی وغیرہ کے ساتھ خوش وقت ہوتا ہے۔ ’ ’ فاکھۃ “ پر تنوین تکثیر و تعظیم کے اظہار کے لیے ہے۔ ” النحل “ کھجور کے درخت ، یہ اسم جنس ہے ، ایک درخت کہنا ہو تو ” نخلۃ “ کہتے ہیں ۔ ” الاکمام “ ” کم “ ( کاف پر کسرہ) کی جمع ہے، کھجور کے خوشے کے اوپر والا غلاف ۔ یہ غفال کھایا نہیں جاتا ، اس لیے مراد خوشوں کے حسن کا بیان ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے درختوں کے اوپر اور درختوں سے اترنے کے بعد بھی پھلوں کی جس طرح پیکنگ کی ہے ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ اللہ تعالیٰ کی عظیم صناعی کا نمونہ ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فِيْهَا فَاكِهَةٌ، فاکہہ ہر ایسے میوے اور پھل کو کہا جاتا ہے جو عادةً غذا کے بعد تفریحاً کھایا جاتا ہے۔ وَّالنَّخْلُ ذَاتُ الْاَكْمَامِ ، اکمام، کم بالکسر کی جمع ہے جس کے معنی اس غلاف کے ہیں جو کھجور وغیرہ کے پھلوں پر ابتداء میں چڑھا ہوتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فِيْہَا فَاكِہَۃٌ۝ ٠ ۠ ۙ وَّالنَّخْلُ ذَاتُ الْاَكْمَامِ۝ ١١ ۖ- فكه - الفَاكِهَةُ قيل : هي الثّمار کلها، وقیل : بل هي الثّمار ما عدا العنب والرّمّان . وقائل هذا كأنه نظر إلى اختصاصهما بالذّكر، وعطفهما علی الفاکهة . قال تعالی: وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ- [ الواقعة 20] ، وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة 32] ، وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس 31] ، فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات 42] ، وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات 42] ، والفُكَاهَةُ :- حدیث ذوي الأنس، وقوله : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1» قيل : تتعاطون الفُكَاهَةَ ، وقیل :- تتناولون الْفَاكِهَةَ. وکذلک قوله : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور 18] .- ( ف ک ہ ) الفاکھۃ ۔ بعض نے کہا ہے کہ فاکھۃ کا لفظ ہر قسم کے میوہ جات پر بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ انگور اور انار کے علاوہ باقی میوہ جات کو فاکھۃ کہاجاتا ہے ۔ اور انہوں نے ان دونوں کو اس لئے مستثنی ٰ کیا ہے کہ ( قرآن پاک میں ) ان دونوں کی فاکہیہ پر عطف کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فاکہہ کے غیر ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة 20] اور میوے جس طرح کے ان کو پسند ہوں ۔ وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة اور میوہ ہائے کثیر ( کے باغوں ) میں ۔ وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس 31] اور میوے اور چارہ ۔ فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات 42] ( یعنی میوے اور ان اعزاز کیا جائیگا ۔ وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات 42] اور میووں میں جوان کو مرغوب ہوں ۔ الفکاھۃ خوش طبعی کی باتیں خوش گئی ۔ اور آیت کریمہ : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1»اور تم باتیں بناتے رہ جاؤ گے ۔ میں بعض نے تفکھونکے معنی خوش طبعی کی باتیں بنانا لکھے ہیں اور بعض نے فروٹ تناول کرنا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور 18] جو کچھ ان کے پروردگار نے ان کو بخشا اس کی وجہ سے خوش حال ۔۔۔ میں فاکھین کی تفسیر میں بھی دونوں قول منقول ہیں ۔- نخل - النَّخْلُ معروف، وقد يُستعمَل في الواحد والجمع . قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ- [ القمر 20] وقال : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة 7] ، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ- [ الشعراء 148] ، وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] وجمعه : نَخِيلٌ ، قال : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل 67] والنَّخْلُ نَخْل الدّقيق بِالْمُنْخُل، وانْتَخَلْتُ الشیءَ : انتقیتُه فأخذْتُ خِيارَهُ.- ( ن خ ل ) النخل - ۔ کھجور کا درخت ۔ یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة 7] جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر 20] اور کھجوریں جن کے خوشے لطیف اور نازک ہوتے ہیں ۔ وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] اور لمبی لمبی کھجوریں جن کا گا بھاتہ بہ تہ ہوتا ہے اس کی جمع نخیل آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل 67] اور کھجور کے میووں سے بھی ۔ النخل ( مصدر کے معنی چھلنی سے آٹا چھاننے کے ہیں اور انتخلت الشئی کے معنی عمدہ چیز منتخب کرلینے کے ؛- كم - كَمْ : عبارة عن العدد، ويستعمل في باب الاستفهام، وينصب بعده الاسم الذي يميّز به نحو : كَمْ رجلا ضربت ؟ ويستعمل في باب الخبر، ويجرّ بعده الاسم الذي يميّز به . نحو :- كَمْ رجلٍ. ويقتضي معنی الکثرة، وقد يدخل «من» في الاسم الذي يميّز بعده . نحو : وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف 4] ، وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء 11] ، والکُمُّ : ما يغطّي الید من القمیص، والْكِمُّ ما يغطّي الثّمرةَ ، وجمعه : أَكْمَامٌ. قال :- وَالنَّخْلُ ذاتُ الْأَكْمامِ [ الرحمن 11] . والْكُمَّةُ : ما يغطّي الرأس کالقلنسوة .- کم یہ عدد سے کنایہ کے لئے آتا ہے اور یہ دو قسم پر ہے ۔ استفہامیہ اور خبریہ ۔ استفہامیہ ہوتا اس کا مابعد اسم تمیزبن کر منصوب ہوتا ( اور اس کے معنی کتنی تعداد یا مقدار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے کم رجلا ضربت اور جب خبریہ ہو تو اپنی تمیز کی طرف مضاف ہوکر اسے مجرور کردیتا ہے اور کثرت کے معنی دیتا ہے یعنی کتنے ہی جیسے کم رجل ضربت میں نے کتنے ہی مردوں کو پیٹا اور اس صورت میں کبھی اس کی تمیز پر من جارہ داخل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف 4] اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ کروالیں ۔ وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء 11] اور ہم نے بہت سے بستیوں کو جو ستم گار تھیں ہلاک کر ڈالا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١۔ ١٣) کہ اس زمین میں مختلف اقسام کے میوے ہیں اور کھجور کے درخت ہیں جن کے پھل پر غلاب چڑھا ہوتا ہے اور اس میں مختلف قسم کے بھوسا اور پتے والے غلے ہیں اور اس میں غذا کی چیز اور پھل بھی ہیں۔ سو رسول اکرم کی ذات اقدس کے علاوہ اے جن و انس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ ١ فِیْہَا فَاکِہَۃٌ لا وَّالنَّخْلُ ذَاتُ الْاَکْمَامِ ۔ ” اس میں میوے ہیں اور کھجوریں ہیں ‘ جن پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani