15۔ 1 اس سے مراد پہلا جن جو ابو الجن ہے، یا جن بطور جنس کے ہے جیسا کہ ترجمہ جنس کے اعتبار سے ہی کیا گیا مارِجٍ آگ کے بلند ہونے والے شعلے کو کہتے ہیں۔
[١٣] جنوں کی تخلیق اور نسل :۔ مَارِجٍ بمعنی شعلہ کا اوپر کا گرم ترین حصہ جو دھوئیں سے یکسر پاک ہوتا ہے۔ (فقہ اللغۃ) یعنی آگ کی لپٹ۔ جس سے مٹی کو کئی مراحل سے گزار کر اسے لطیف سے لطیف تر بنا کر اس سے انسان بنایا گیا۔ اسی طرح جنوں کو بھی لکڑی اور کوئلے سے پیدا ہونے والی عام آگ سے نہیں بلکہ اس گرم تر لطیف تر حصہ سے بنایا گیا۔ انسانوں سے پہلے یہی آتشیں مخلوق زمین پر آباد تھی۔ ان میں بھی نبوت کا سلسلہ جاری تھا۔ انسان کی تخلیق کے بعد نبوت کا سلسلہ انسانوں میں منتقل ہوگیا۔ کیونکہ اشرف المخلوقات انسان ہے نہ کہ جن۔ جو نبی انسانوں کی طرف مبعوث ہوتا وہی جنوں کے لیے بھی ہوتا تھا۔ نبی آخرالزمان جیسے ہمارے نبی ہیں ویسے ہی جنوں کے لیے بھی ہیں۔ جنوں میں کافر، مشرک، مومن، نیک اور بدغرض انسانوں کی طرح ہر طبقہ کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ان کی بھی اولاد ہوتی ہے اور توالد و تناسل کا سلسلہ جاری ہے۔
وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ : طبری نے فرمایا : ” مارج من نار “ ایک دوسرے سے ملی جلی سرخ ، زرد اور سبز رنگ کی آگ ۔ مراد آگ کا شعلہ اور اس کی نوک ہے۔ یہ ” مرج امر القوم “ سے ہے ، جس کا معنی ہے ” قوم کا معاملہ مل جل گیا “ ۔ اسی طرح یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان سے ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبد اللہ بن عمرو (رض) کو فرمایا :( یا عبد اللہ ابن عمرو کیف بک اذا بقیت فی حثالۃ من الناس و فی ابی داؤد : قد مرجت عھودھم واما ناتھم) (بخاری، الصلاۃ ، باب تشیک الاصبع۔۔۔۔۔ ٤٨٠ ، ابو داؤد : ٤٣٤٢)” اے عبد اللہ بن عمرو تمہارا کیا حال ہوگا جب تم چھان بورے جیسے لوگوں میں باقی رہ جاؤ گے ۔ “ ابوداؤد میں ہے :” جن کے عہد اور امانتیں مل جل گئے ہوں گے “۔ اور طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ” مارج من نار “ کا معنی ” خالص النار ‘ نقل فرمایا ہے۔
وَخَلَقَ الْجَاۗنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ ، جان، بتشدید نون، جنس جنات کو کہا جاتا ہے اور مارج آگ سے اٹھنے والا شعلہ ہے، جنات کی تخلیق کا بڑا عنصر آگ کا شعلہ ہے، جیسا کہ انسان کی تخلیق میں بڑا جز مٹی ہے۔
وَخَلَقَ الْجَاۗنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ ١٥ ۚ- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - جان - وقوله تعالی: وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر 27] فنوع من الجنّ ، وقوله تعالی: كَأَنَّها جَانٌّ [ النمل 10] ، قيل : ضرب من الحيّات .- اور آیت کریمہ ؛۔ وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر 27] اور جان کو اس سے بھی پہلے بےہوئیں کی آگ سے پیدا کیا تھا ۔ میں جان سے بھی جنوں کی ایک قسم مراد ہے ۔ لیکن آیت کریمۃ ؛ كَأَنَّها جَانٌّ [ النمل 10] میں جان سے ایک قسم سانپ مراد ہے ۔- مرج - أصل المَرْج : الخلط، والمرج الاختلاط، يقال : مَرِجَ أمرُهم «2» : اختلط، ومَرِجَ الخاتَمُ في أصبعي، فهو مارجٌ ، ويقال : أمرٌ مَرِيجٌ. أي : مختلط، ومنه غصنٌ مَرِيجٌ: مختلط، قال تعالی: فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَرِيجٍ [ ق 5] والمَرْجان : صغار اللّؤلؤ . قال : كَأَنَّهُنَّ الْياقُوتُ وَالْمَرْجانُ [ الرحمن 19] من قولهم : مَرَجَ.- ويقال للأرض التي يكثر فيها النّبات فتمرح فيه الدّواب : مَرْجٌ ، وقوله : مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ- [ الرحمن 15] أي : لهيب مختلط، وأمرجت الدّابّةَ في المرعی: أرسلتها فيه فَمَرَجَتْ.- ( م ر ج ) اصل میں المرج کے معنی خلط ملط کرنے اور ملا دینے کے ہیں اور المروج کے معنی اختلاط اور مل جانے کے ۔ مرج امرھم ۔ ان کا معاملہ ملتبس ہوگیا ۔ مرج الخاتم فی اصبعی ۔ انگوٹھی انگلی میں ڈھیلی ہوگئی مارج ( صفت فاعلی ) ڈھیلی انگوٹھی ۔ امر مریج گذمڈا اور پیچیدہ معاملہ ۔ غضن مریج : باہم گتھی ہوئی ٹہنی ۔ قرآن پاک میں ہے : فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَرِيجٍ [ ق 5] سو یہ ایک غیرواضح معاملہ میں ہیں ۔ المرجان ۔ مونگا چھوٹا موتی ۔ قرآن پاک میں ہے : كَأَنَّهُنَّ الْياقُوتُ وَالْمَرْجانُ [ الرحمن 19] اور آٰیت کریمہ ؛مَرَجَاس نے دودریا ر واں کے جو آپس میں ملتے ہیں ۔ میں مرج کا لفظ مرج کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور جس زمین میں گھاس بکثرت ہو اور جانور اس میں مگن ہوکر چرتے رہیں اسے مرج کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] آگ کے شعلے ہے ۔ میں مارج کے معنی آگ کے ( دھوئیں سے ) مخلوط شعلے کے ہیں ۔ امرجت الدابۃ فی المرعیٰ : میں نے جانور کو چراگاہ میں کھلا چھوڑ دیا چناچہ آزادی سے چرتا رہا ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔
آیت ١٥ وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ ۔ ” اور جنات کو اس نے پیدا کیا آگ کی لپٹ سے۔ “- مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍسے آگ کی لویا لپٹ مراد ہے۔ اس کا اطلاق آگ کے شعلے کے اس حصے پر ہوتا ہے جو نظر نہیں آتا لیکن انتہائی گرم ہوتا ہے۔ شعلے کے اندر سب سے زیادہ درجہ حرارت اسی نظر نہ آنے والے حصے میں ہوتا ہے۔ سورة الحجر کی آیت ٢٧ میں آگ کی اس لپٹ کو نَارِ السَّمُوْمِ کا نام دیا گیا ہے۔
سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :15 اصل الفاظ ہیں مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ ۔ نار سے مراد ایک خاص نوعیت کی آگ ہے نہ کہ وہ آگ جو لکڑی یا کوئلہ جلانے سے پیدا ہوتی ہے ۔ اس مارج کے معنی ہیں خالص شعلہ جس میں دھواں نہ ہو اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح پہلا انسان مٹی سے بنایا گیا ، پھر تخلیق کے مختلف مدارج سے گزرتے ہوئے اس کا لبد خاکی نے گوشت پوست کے زندہ بشر کی شکل اختیار کی اور آگے اس کی نسل نطفہ سے چلی ، اسی طرح پہلا جن خالص آگ کے شعلے ، یا آگ کی لَپَٹ سے پیدا کیا گیا ، اور بعد میں اس کی ذریت سے جِنوں کی نسل پیدا ہوئی ۔ اس پہلے جن کی حیثیت جِنوں کے معاملہ میں وہی ہے جو آدم علیہ السلام کی حیثیت انسانوں کے معاملہ میں ہے ۔ زندہ بشر بن جانے کے بعد حضرت آدم اور ان کی نسل سے پیدا ہونے والے انسانوں کے جسم کو اس مٹی سے کوئی مناسبت باقی نہ رہی جس سے ان کو پیدا کیا گیا تھا ۔ اگرچہ اب بھی ہمارا جسم پورا کا پورا زمین ہی کے اجزاء سے مرکب ہے ، لیکن ان اجزاء نے گوشت پوست اور خون کی شکل اختیار کر لی ہے اور جان پڑنے کے بعد وہ تودہ خاک کی بہ نسبت ایک بالکل ہی مختلف چیز بن گیا ہے ۔ ایسا ہی معاملہ جنوں کا بھی ہے ۔ ان کا وجود بھی اصلاً ایک آتشیں وجود ہی ہے ، لیکن جس طرح ہم محض تودہ خاک نہیں ہیں اسی طرح وہ بھی محض شعلہ آتش نہیں ہیں ۔ اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ۔ ایک یہ کہ جن مجّرد روح نہیں ہیں بلکہ ایک خاص نوعیت کے مادی اجسام ہی ہیں ، مگر چونکہ وہ خالص آتشیں اجزاء سے مرکب ہیں اس لیے وہ خاکی اجزاء سے بنے ہوئے انسانوں کو نظر نہیں آتے ۔ اسی چیز کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ اِنَّہ یَرٰکُمْ ھُوَ وَقَبِیْلُہ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَھُمْ ۔ شیطان اور اس کا قبیلہ تم کو ایسی جگہ سے دیکھ رہا ہے جہاں تم اس کو نہیں دیکھتے ۔ ( الاعراف ۔ 27 ) ۔ اسی طرح جِنوں کا سریع الحرکت ہو نا ، ان کا بہ آسانی مختلف شکلیں اختیار کر لینا ، اور ان مقامات پر غیر محسوس طریقے سے نفوذ کر جانا جہاں خاکی اجزاء سے بنی ہوئی چیزیں جہاں خاکی اجزاء سے بنی ہوئی چیزیں نفوذ نہیں کر سکتیں ، یا نفوذ کرتی ہیں تو ان کا نفوذ محسوس ہو جاتا ہے ، یہ سب امور بھی اسی وجہ سے ممکن اور قابل فہم ہیں کہ وہ فی الاصل آتشیں مخلوق ہیں ۔ دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ جن نہ صرف یہ کہ انسان سے بالکل الگ نوعیت کی مخلوق ہیں ، بلکہ ان کا مادہ تخلیق ہی انسان ، حیوان ، نباتات اور جمادات سے قطعی مختلف ہے یہ صریح الفاظ میں ان لوگوں کے خیال کی غلطی ثابت کر رہی ہے جو جنوں کو انسانوں ہی کی ایک قسم قرار دیتے ہیں ۔ وہ اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ مٹی سے انسان کو اور آگ سے جن کو پیدا کرنے کا مطلب دراصل دو قسم کے لوگوں کی مزاجی کیفیت کا فرق بیان کرنا ہے ، ایک قسم کے انسان منکسر المزاج ہوتے ہیں جنہیں آدمی کے بجائے شیطان کہنا زیادہ صحیح ہوتا ہے ۔ لیکن یہ قرآن کی تفسیر نہیں بلکہ تحریف ہے ۔ اوپر حاشیہ نمبر 14 میں ہم نے تفصیل کے ساتھ یہ دکھایا ہے کہ قرآن مجید مٹی سے انسان کے پیدا کیے جانے کا مطلب کتنی وضاحت کے ساتھ خود بیان کرتا ہے ۔ کیا ان ساری تفصیلات کو پڑھ کر کوئی معقول آدمی یہ معنی لے سکتا ہے کہ ان ساری باتوں کا مقصد محض اچھے انسانوں کے منکسر المزاج ہونے کی تعریف بیان کرنا ہے؟ پھر آخر یہ بات کسی صحیح العقل آدمی کے ذہن میں کیسے آسکتی ہے کہ انسان کی تخلیق سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے کرنے ، اور جن کی تخلیق خالص آگ کے شعلے سے کرنے کا مطلب ایک ہی نوع انسان کے دو مختلف المزاج افراد یا گرہوں کی جدا گانہ اخلاقی خصوصیات کا فرق ہے؟ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، تفسیر سورہ ذاریات ، حاشیہ 53 ) ۔