Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

انسان اور جنات کی پیدائش میں فرق یہاں بیان ہو رہا ہے کہ انسان کی پیدائش بجنے والی ٹھیکری جیسی مٹی سے ہوئی ہے اور جنات کی پیدائش آگ کے شعلے سے ہوئی ہے جو خالص اور احسن تھا مسند کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں فرشتے نور سے جنات نار سے اور انسان اس مٹی سے جس کا ذکر تمہارے سامنے ہو چکا ہے پیدا کئے گئے ہیں پھر اپنی کسی نعمت کے جھٹلانے کی ہدایت کر کے فرماتا ہے جاڑے اور گرمی کے دو سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کے مقامات کا رب اللہ ہی ہے دو سے مراد سورج نکلنے اور ڈوبنے کی دو مختلف جگہیں ہیں کہ وہاں سے سورج چڑھتا اترتا ہے اور موسم کے لحاظ سے یہ بدلتی جگہیں رہتی ہیں ہر دن انقلاب لاتا ہے جیسے دوسری آیت میں مشرق و مغرب کا رب وہی ہے تو اسی کو اپنا وکیل سمجھ تو یہاں مراد جنس مشرق و مغرب ہے اور دوسری مشرق مغرب سے مراد طلوع و غرب کی دو جگہ ہیں ، اور چونکہ طلوع و غروب کی جگہ کے جدا جدا ہونے میں انسانی منفعت اور اس کی مصلحت بینی تھی اس لئے پھر فرمایا کہ کیا اب بھی تم اپنے رب کی نعمتوں کے منکر ہی رہو گے ؟ اس کی قدرت کا مظاہرہ دیکھو کہ دو سمندر برابر چل رہے ہیں ایک کھاری پانی کا ہے دوسرا میٹھے پانی کا لیکن نہ اس کا پانی اس میں مل کر اسے کھاری کرتا ہے نہ اس کا میٹھا پانی اس میں مل کر اسے میٹھا کر سکتا ہے بلکہ دونوں اپنی رفتار سے چل رہے ہیں دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے نہ وہ اس میں مل سکے نہ وہ اس میں جا سکے یہ اپنی حد میں ہے وہ اپنی حد میں اور قدرتی فاصلہ انہیں الگ الگ کئے ہوئے ہے حالانکہ دونوں پانی ملے ہوئے ہیں ۔ سورہ فرقان کی آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ ۚ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا 53؀ ) 25- الفرقان:53 ) ، کی تفسیر میں اس کی پوری تشریح گذر چکی ہے امام ابن جریر یہ بھی فرماتے ہیں کہ آسمان میں جو پانی کا قطرہ ہے اور صدف جو زمین کے دریا میں ہے ان دونوں سے مل کر لؤلؤ پیدا ہوتا ہے واقعہ تو یہ ٹھیک ہے لیکن اس آیت کی تفسیر اس طرح کرنی کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتی اس لئے کہ آیت میں ان دونوں کے درمیان برزخ یعنی آڑ کا ہونا بیان فرمایا گیا ہے جو اس کو اس سے اور اس کو اس سے روکے ہوئے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں زمین میں ہی ہیں بلکہ ایک دوسرے سے لگے لگے چلتے ہیں مگر قدرت انہیں جدا رکھتی ہے آسمان و زمین کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ برزخ اور حجر نہیں کہا جاتا اس لئے صحیح قول یہی ہے کہ یہ زمین کے دو دریاؤں کا ذکر ہے نہ کہ آسمان اور زمین کے دریا کا ۔ ان دونوں میں سے یعنی دونوں میں سے ایک میں سے ۔ جیسے اور جگہ جن و انس کو خطاب کر کے سوال ہوا ہے کہ کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے رسول نہیں آئے تھے ؟ ظاہر ہے کہ رسول صرف انسان میں سے ہی ہوئے ہیں جنات میں کوئی جن رسول نہیں آیا تو جیسے یہاں اطلاع صحیح ہے حالانکہ وقوع ایک میں ہی ہے اسی طرح اس آیت میں بھی اطلاق دونوں دریا پر ہے اور وقوع ایک میں ہی ہے لؤلؤ یعنی موتی کو کہتے ہیں کہ اور کہا گیا ہے کہ بہترین اور عمدہ موتی کو مرجان کہتے ہیں بعض کہتے ہیں سرخ رنگ جواہر کو کہتے ہیں ، بعض کہتے ہیں سرخ مہرے کا نام ہے اور آیت میں ہے ( وَمِنْ كُلٍّ تَاْكُلُوْنَ لَحـْـمًا طَرِيًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْيَةً تَلْبَسُوْنَهَا ۚ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيْهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 12؀ ) 35- فاطر:12 ) یعنی تم ہر ایک میں سے نکلا ہوا گوشت کھاتے ہو جو تازہ ہوتا ہے اور پہننے کے زیور نکالتے ہو تو خیر مچھلی تو کھاری اور میٹھے دونوں پانی سے نکلتی ہے اور موتی مونگے صرف کھاری پانی میں سے نکلتے ہیں میٹھے میں سے نہیں نکلتے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ آسمان کا جو قطرہ سمندر کی سیپ کے منہ میں سیدھا جاتا ہے وہ لؤلؤ بن جاتا ہے اور جب صدف میں نہیں جاتا تو اس سے عنبر پیدا ہوتا ہے مینہ برستے وقت سیپ اپنا منہ کھول دیتی ہے پس اس نعمت کو بیان فرما کر پھر دریافت فرماتا ہے کہ ایسی ہی بیشمار نعمتیں جس رب کی ہیں تم بھلا کس کس نعمت کی تکذیب کرو گے ؟ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ سمندر میں چلنے والے بڑے بڑے بادبانوں والے جہاز جو دور سے نظر پڑتے ہیں اور پہاڑوں کی طرح کھڑے دکھائی دیتے ہیں جو ہزاروں من مال اور سینکڑوں انسانوں کو ادھر سے ادھر لے آتے ہیں یہ بھی تو اس اللہ کی ملکیت میں ہیں اس عالیشان نعمت کو یاد دلا کر پھر پوچھتا ہے کہ اب بتاؤ انکار کئے کیسے بن آئے گی ؟ حضرت عمیری بن سوید فرماتے ہیں میں اللہ کے شیر حضرت علی مرتضٰی کے ساتھ دریائے فرات کے کنارے پر تھا ایک بلند و بالا بڑا جہاز آ رہا تھا اسے دیکھ کر آپ نے اس کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے پہاڑوں جیسی ان کشتیوں کو امواج سمندر میں جاری کیا ہے نہ میں نے عثمان غنی کو قتل کیا نہ ان کے قتل کا ارادہ کیا نہ قاتلوں کے ساتھ شریک ہوا نہ ان سے خوش نہ ان پر نرم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 صَلصَالٍ خشک مٹی جس میں آواز ہو۔ فَخَّار آگ میں پکی ہوئی مٹی، جسے ٹھیکری کہتے ہیں۔ انسان سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں، جن کا پہلے مٹی کا پتلا بنایا گیا اور پھر اس میں اللہ نے روح پھونکی۔ پھر حضرت آدم (علیہ السلام) کی بائیں پسلی سے حوا کو پیدا فرمایا، اور پھر ان دونوں سے نسل انسانی چلی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢] سیدنا آدم کے پہلے کی تخلیق کے مراحل :۔ یہ سیدنا آدم کے پتلے کی تخلیق کا ساتواں اور آخری مرحلہ ہے اور ان سات مراحل کی ترتیب یوں ہے۔ (١) تراب بمعنی خشک مٹی سے، (المومن : ٦٧) (١) ارض بمعنی عام مٹی یا زمین، (نوح : ١٧) (٣) طین بمعنی گیلی مٹی یا گارا، (الانعام : ٢) (٤) طِیْنٍ لاَّزِبٍ بمعنی لیسدار اور چپکدار مٹی، (الصافات : ١١) (٥) حَمَإٍ مَّسْنُوْنٍ بمعنی بدبودار کیچڑ،۔ (الحجر : ٢٦) (٦) صَلَصَالٍ ٹھیکرا یا حرارت سے پکائی ہوئی مٹی، (ایضاً ) (٧) صَلْصََالٍ کَاْلفَخَّارٍ بمعنی ٹن سے بجنے والی ٹھیکری، (الرحمن : ١٤) - پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس میں اپنی روح سے پھونکا تو یہ بشر بن گیا۔ اس کو مسجود ملائک بنایا گیا۔ پھر اسی سے اس کا زوج پیدا کیا گیا (٤: ١) پھر اس کے بعد حقیر پانی کے ست سے اس کی نسل چلائی گئی جس کے لیے دوسرے مقامات پر نطفہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ :” صلصلۃ “ وہ آواز جو کسی چیز کو بجانے یا کھڑکانے سے پیدا ہوتی ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث (٢) میں ” صلصلۃ الجرس “ کا ذکر ہے۔” صلصال “ بجنے والی ، کھنکھنانے والی ( مٹی) بعض کہتے ہیں ۔ یہ ” صل اللحم “ سے مشتق ہے ، جس کا معنی گوشت کا بد بودار ہونا ہے۔ مراد بد بودار مٹی ہے ۔ آیت کی مزید تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ حجر (٢٦) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ ، انسان سے مراد اس جگہ باتفاق آدم (علیہ السلام) ہیں، جن کی تخلیق مٹی سے کی گئی ہے، صلصال پانی میں ملی ہوئی مٹی جبکہ وہ خشک ہوجائے اور فخار وہ پانی میں ملاتی ہوئی مٹی جس کو آگ پر پکا لیا جائے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ۝ ١٤ ۙ- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی:- وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل :- فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- صلل - أصل الصَّلْصَالِ : تردُّدُ الصّوتِ من الشیء الیابس، ومنه قيل : صَلَّ المسمارُ ، وسمّي الطّين الجافّ صَلْصَالًا . قال تعالی: مِنْ صَلْصالٍ كَالْفَخَّارِ [ الرحمن 14] ، مِنْ صَلْصالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر 26] ، والصُّلْصَلَةُ : بقيّةُ ماءٍ ، سمّيت بذلک لحکاية صوت تحرّكه في المزادة، وقیل : الصَّلْصَالُ : المنتن من الطین، من قولهم : صَلَّ اللحمُ ، قال : وکان أصله صَلَّالٌ ، فقلبت إحدی الّلامین، وقرئ : (أئذا صَلَلْنَا) أي : أنتنّا وتغيّرنا، من قولهم : صَلَّ اللّحمُ وأَصَلَّ.- ( ص ل ل ) اصل میں صلصان کے معنی کسی خشک چیز سے آواز آنا کے ہیں اسی سے صل المسار کا محاورہ ہے ۔ جس کے معنی میخ کو کسی چیز میں ٹھونکنے سے آواز پیدا ہونا کے ہیں اور ( کھنکنے والی ) خشک مٹی کو بھی صلصال کہاجاتا ہے قرآن پاک میں ہے : مِنْ صَلْصالٍ كَالْفَخَّارِ [ الرحمن 14] ٹھیکری کی طرح کھنکھناتی مٹی سے مِنْ صَلْصالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر 26] کھنکنے والی خشک مٹی یعنی سنے ہوئے گارے سے ۔ اور صلصلۃ کے معنی باقی ماندہ پانی کے میں کیونکہ مشکیزہ میں باقی ماندہ پانی کے ہلنے سے کھنکناہٹ کی آواز پیدا ہوتی ہے بعض نے کہا ہے کہ صلصان کے معنی سڑی ہوئی مٹی کے ہیں اور یہ صل اللحم سے مشتق ہے جس کے معنی گوشت کے بدبودار ہوجانے کے ہیں صلصان اصل میں صلال ہے ایک لام کو صاد سے بدل دیا گیا ہے اور آیت کریمہ :(أئذا صَلَلْنَا) کیا جب ہم زمین میں ملیامیٹ ہوجائیں گے ۔ میں ایک قرات صللنا بھی ہے یعنی جب ہم گل سٹر گئے اور یہ ) صل اللحم واصل کے محاورہ سے مشتق ہے ۔- فخر - الفَخْرُ : المباهاة في الأشياء الخارجة عن الإنسان کالمال والجاه، ويقال : له الفَخَرُ ، ورجل فَاخِرٌ ، وفُخُورٌ ، وفَخِيرٌ ، علی التّكثير . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتالٍ فَخُورٍ [ لقمان 18] ، ويقال : فَخَرْتُ فلانا علی صاحبه أَفْخَرُهُ فَخْراً : حکمت له بفضل عليه، ويعبّر عن کلّ نفیس بِالْفَاخِرِ. يقال : ثوب فَاخِرٌ ، وناقة فَخُورٌ: عظیمة الضّرع، كثيرة الدّر، والفَخَّارُ :- الجرار، وذلک لصوته إذا نقر كأنما تصوّر بصورة من يكثر التَّفَاخُرَ. قال تعالی: مِنْ صَلْصالٍ كَالْفَخَّارِ [ الرحمن 14] .- ( ف خ ر ) الفخر ( ن ) کے معنی ان چیزوں پر اترانے کے ہیں جو انسان کے ذاتی جوہر سے خارج ہوں مثلا مال وجاہ وغیرہ اور اسے فحر ( بفتح الخا ) بھی کہتے ہیں اوت فخر کرنے والے کو فاخر کہا جاتا ہے اور فخور وفخیر صیغہ مبالغہ ہیں یعنی بہت زیادہ اترانے والا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتالٍ فَخُورٍ [ لقمان 18] کہ خدا کسی اترانے والے کو خود پسند کو پسند نہیں کرتا ۔ فخرت فلان علٰی صاحبہ افخرہ فخرا ایک یکو دوسرے پر فضیلت دینا اور ہر نفیس چیز کو فاخر کہا جاتا ہے چوب فاخر قیمتی کپڑا اور جس اونٹنی کے تھن تو بڑے بڑے ہوں مگر دودھ بہت کم دے اسے فخور کہتے ہیں ۔ الفخار منکوں کو کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ٹھوکا لگانے سے اس طرح زور سے بولتے ہیں جیسے کوئی کوئی بہت زیادہ فخر کررہا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنْ صَلْصالٍ كَالْفَخَّارِ [ الرحمن 14] ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤۔ ١٦) اسی نے آدم کو ایسی مٹی سے جو ٹھیکری کی طرح بجتی ہے پیدا کیا، اور جنات و شیاطین کی اصل کو ایسی آگ سے جس میں دھواں نہ تھا پیدا کیا سو اے جن و انس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ ۔ ” اس نے پیدا کیا انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی ہوئی مٹی سے۔ “- حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے حوالے سے سورة الحجر کے تیسرے رکوع میں تین مرتبہ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ 4 کے الفاظ آئے ہیں۔ اس سے مراد ایسا گارا ہے جس میں سڑاند پیدا ہوچکی ہو ‘ یعنی سنا ہوا گارا۔ ایسا گارا خشک ہونے پر سخت ہوجاتا ہے اور ٹھوکر لگنے سے کھنکنے لگتا ہے۔ یہاں پر صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِسے ایسا ہی سوکھا ہوا گارا مراد ہے ‘ یعنی ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتا ہوا گارا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :14 تخلیق انسانی کے ابتدائی مراتب جو قرآن مجید میں بیان کیے گیے ہیں ان کی سلسلہ وار ترتیب مختلف مقامات کی تصریحات کو جمع کرنے سے یہ معلوم ہوتی ہے : ( 1 ) تراب ، یعنی مٹی یا خاک ( 2 ) طین ، یعنی گارا جو مٹی میں پانی ملا کر بنایا جاتا ہے ( 3 ) طینِ لازِب ، لیس دار گارا ، یعنی وہ گارا جس کے اندر کافی دیر تک پڑے رہنے کے باعث لیس پیدا ہو جائے ۔ ( 4 ) حَمَأٍ مَسْنون ، وہ گارا جس کے اندر بو پیدا ہو جائے ( 5 ) صلصال من حمأ مسنون کالفخار ، یعنی وہ سڑا ہوا گارا جو سوکھنے کے بعد پکی ہوئی مٹی کے ٹھیکرے جیسا ہو جائے ( 6 ) بشر جو مٹی کی اس آخری صورت سے بنایا گیا ، جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص روح پھونکی ، جس کو فرشتوں سے سجدہ کرایا گیا ، اور جس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا گیا ۔ ( 7 ) ٹُمَّ جَعَلَ نَسْلَہ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَآءٍ مَّھِیْنِ ۔ پھر آگے اس کی نسل ایک حقیر پانی جیسے ست سے چلائی گئی جس کے لیے دوسرے مقامات پر نطفہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ ان مدارج کے لیے قرآن مجید کی حسب ذیل آیات کو ترتیب وار ملاحظہ کیجیے : کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہ مِنْ تُرَابٍ ( آل عمران ۔ 59 ) ۔ بَدَأَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ ۔ ( السجدہ ۔ 7 ) ۔ اِنَّا خَلَقْنٰھُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ ( الصافّات ۔ 11 ) چوتھا اور پانچواں مرتبہ آیت زیر تفسیر میں بیان ہو چکا ہے ۔ اور اس کے بعد کے مراتب ان آیات زیر تفسیر میں بیان ہو چکا ہے ۔ اور اس کے بعد کے مراتب ان آیات میں بیان کیے گئے ہیں : اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَراً مِّنْ طِیْنٍ فَاِذَا سَوَّیْتُہ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہ سَاجِدِیْنَ ( ص ۔ 71 ۔ 72 ) خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْراً وَّ نِسَآءً ( النساء ۔ 1 ) ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِنْ مَآءٍ مَّھِیْنٍ ( السجدہ ۔ 8 ) ۔ فَاِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَۃٍ ( الحج ۔ 5 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani