Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 یہ انسانوں اور جنوں دونوں سے خطاب ہے اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں گنوا کر ان سے پوچھ رہا ہے یہ تکرار اس شخص کی طرح ہے جو کسی پر مسلسل احسان کرے لیکن وہ اس کے احسان کا منکر ہو، جیسے کہے، میں نے تیرا فلاں کام کیا، کیا تو انکار کرتا ہے ؟ فلاں چیز تجھے دی، کیا تجھے یاد نہیں ؟ تجھ پر فلاں احسان کیا، کیا تجھے ہمارا ذرا خیال نہیں ؟ (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١] آلاء کا لغوی مفہوم :۔ آلاَءِ (اِلٰی کی جمع بمعنی نعمت بھی اور قدرت یا نشان عظمت بھی) اور آلاء سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو انسان کی ضرورت مہیا کرتی ہیں اور پے در پے آتی رہتی ہیں اور اسے زندگی بسر کرنے کے لیے کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ (فقہ اللغۃ) اور یہ لفظ بالعموم جمع ہی استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ ایسی نعمت ایک تو ہے نہیں لہذا ہمیشہ آلاء آتا ہے۔ اور یہ آیت اس سورة میں اکتیس مرتبہ دہرائی گئی ہے۔ کہیں آلاء کا لفظ عظیم الشان نعمتوں کے معنوں میں اور کہیں قدرت کی نشانیوں کے معنوں میں اور کہیں بیک وقت دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔- حدیث میں ہے کہ آپ نے ایک دفعہ صحابہ سے فرمایا کہ تم سے تو جن ہی اچھے ہوئے کہ جب میں (فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ 13 ؀) 55 ۔ الرحمن :13) پڑھتا تو وہ اس کے جواب میں یوں کہتے ہیں (لاَ بِشَیْئٍ مِنْ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ ) (اے ہمارے پروردگار ہم تیری کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے۔ سب حمد و ثنا تیرے ہی لیے ہے) لہذا جب کوئی شخص یہ آیت پڑھے تو اس کا یہی جواب دینا چاہئے۔ علاوہ ازیں اس آیت اور اس کے بعد کی آیات میں دونوں طرح کی مکلف مخلوق یعنی جنوں اور انسانوں کو مشترکہ طور پر خطاب کیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ :” الائ “” الی “ کی جمع ہے جو اصل میں ” الی “ ہے ، جیسے ” معی “ ( انتڑی) کی جمع ” امعائ “ ہے۔ اس کا ایک معنی نعمت ہے۔ طبریٰ نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) کی تفسیر نقل فرمائی ہے :” فبای نعمۃ اللہ تکذبان “ تم دونوں اللہ تعالیٰ کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ “ اور ایک معنی قدرت ہے ، چناچہ طبریٰ ہی نے ابن زید کی تفسیر نقل فرمائی ہے ، انہوں نے فرمایا :” الا لا القدرۃ ، فبای قدرۃ اللہ تکذبان “ یعنی ” تم دونوں اللہ کی کس کس قدرت کو جھٹلاؤ گے “۔- ٢۔ مفسر سلیمان الجمل نے فرمایا، نعمتوں کے بیان اور ان کی یاد دہانی کے لیے یہ آیت یہاں اکتیس (٣١) مرتبہ دہرائی گئی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی آدمی نے کسی پر احسان کیے ہوں اور وہ ان احسانوں کو نہ مانتا ہو تو اسے کہتا ہے ، کیا تو فقیر نہیں تھا ؟ میں نے تجھے مال دیا ، کیا تو اس کا انکار کرتا ہے ؟ کیا تو ننگا نہیں تھا ؟ میں نے تمہیں لباس پہنچایا ، کیا تو اس کا انکار کرتا ہے۔۔۔۔ ؟ اللہ تعالیٰ نے آٹھ مرتبہ یہ آیت ان آیات کے بعد دہرائی جن میں اس کی مخلوق کے عجائب اور ان کی ابتداء و انتہاء کا ذکر ہے ، پھر جہنم کے دروازوں کی تعداد کے مطابق سات مرتبہ ان آیات کے بعد دہرائی ہے جن میں آگ اور اس کی ہولناکیوں کا بیان ہے۔ پھر جنت کے دروازوں کی تعداد کے مطابق آٹھ مرتبہ دو جنتوں کے وصف میں اسے دہرایا ہے۔ پھر ان دو جنتوں کے علاوہ دوسری دو جنتوں کے وصف میں آٹھ مرتبہ دہرایا ہے۔ تو جو شخص پہلی آٹھ چیزوں کا عقیدہ یقین رکھے گا اور ان کے تقاضے پر عمل کرے گا وہ اللہ کی طرف سے ان آٹھ نعمتوں کا مستحق ہوگا اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کے ساتھ اسے پہلی ساتوں سے محفوظ رکھیں گے۔ ( ملخصا ً )- ٣۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اس سورت کی کئی آیات میں جہنم اور عذاب کا بھی ذکر ہے ، تو ان کے بعد ” فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ “ کہنے میں کون سی نعمت یاد دلائی جا رہی ہے ؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ ” الائ “ کا معنی قدرت بھی ہے ، جیسا کہ اوپر گزرا ۔ تو اللہ تعالیٰ کی صفات اور جہنم و عذاب کے بیان کے بعد کہا جا رہا ہے کہ تم دونوں اللہ تعالیٰ کی کون کون سی قدرت کو جھٹلاؤ گے ؟ اور ایک جواب یہ ہے کہ عذاب آنے سے پہلے اس کے متعلق خبردار کردینا بہت بڑی نعمت ہے ، کیونکہ اس سے بندہ اس سے بچنے کی جدوجہد کرسکتا ہے ، اس لیے فرمایا کہ تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ ، لفظ آلاء جمع ہے نعمتوں کے معنے میں اور مخاطب اس کا انسان اور جن ہیں، جس کا قرینہ سورة رحمن کی متعدد آیتوں میں جنات کا ذکر ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝ ١٣- أيا - أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص 28]- ( ا ی ی ) ای ۔- جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔- آلاء ( نعمت)- فَاذْكُرُوا آلاءَ اللَّهِ [ الأعراف 69] أي : نعمه، الواحد : ألًا وإِلًى، نحو أناً وإنًى لواحد الآناء . وقال بعضهم في قوله تعالی: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ إِلى رَبِّها ناظِرَةٌ [ القیامة 22- 23] :- إنّ معناه : إلى نعمة ربها منتظرة، وفي هذا تعسف من حيث البلاغة- اور آیت کریمہ :۔ فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللهِ ( سورة الأَعراف 69 - 74) پس خدا کی نعمتوں کو یا دکر و ۔ میں الاء کا واحد الی والی ہے جس طرح کہ اناء کا واحد اناو انی آتا ہے بعض نے آیت کریمہ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ (22) إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (23) ( سورة القیامة 22 - 23) کے معنی الی نعمۃ ربھا منتظرۃ کئے ہیں یعنی اپنے پروردگار کی نعمت کے منتظر ہونگے لیکن بلاغت قرآن کی رد سے یہ سراسرتعسف ہے - آلائ - جمع ہے اس کا واحد الی ہے اس کا معنی ہے النعم نعمتیں ( لسان العرب) ۔- امام راغب لکھتے ہیں :۔ الاء کا واحد الی والی ہے جس طرح اناء کا واحد انا وانی ؤتا ہے ( مفردات) نیز راغب نے بھی الاء کا ترجمہ نعمتیں کیا ہے۔ آیت واذکروا الاء اللہ (7:74) کا ترجمہ کیا ہے : پس خدا کی نعمتوں کو یاد کرو۔ - المنجد میں الا لی الالی الالی ( جمع الائ) بمعنی نعمت، مہربانی، فضل لکھا ہے۔ - اصل میں لفظ الاء استعمال ہوا ہے جسے آگے کی آیتوں میں بار بار دہرایا گیا ہے اور ہم نے مختلف مقامات پر اس کا مفہوم مختلف الفاظ سے ادا کیا ہے۔ اس لئے آغاز میں ہی یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس لفظ میں کتنی وسعت ہے اور اس میں کیا کیا مفہومات شامل ہیں۔ الاء کے معنی اہل لغت اور اہل تفسیر نے بالعموم نعمتوں کے بیان کئے ہیں تمام مترجمین نے بھی یہی اس کا ترجمہ کیا ہے اور یہی معنی حضرت ابن عباس (رض) حضرت قتادہ اور حضرت حسن بصری (رح) سے منقول ہیں۔ سب سے بڑی دلیل اس معنی کے صحیح ہونے کی یہ ہے کہ خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنوں کے اس قول کو نقل فرمایا ہے کہ وہ اس آیت کو سن کر بار بار لابشی من نعمک ربنا نکذب کہتے تھے۔ - لہٰذا زمانہ حال کے محققین کی اس رائے سے ہمیں اتفاق نہیں ہے کہ الاء نعمتوں کے معنی میں سے ہوتا ہی نہیں۔- دوسرے معنی - اس لفظ کے قدرت اور عجائب قدرت یا کمالات قدرت ہیں ابن جریر طبری نے ابن زید کا قول نقل کیا ہے کہ : فبای الاء ربکما کے معنی ہیں فبای قدرۃ اللہ۔ ابن جریر نے خود بھی آیات 37، 38 کی تفسیر میں الاء کو قدرت کے معنی میں لیا ہے امام رازی نے بھی آیات 14، 15، 16 کی تفسیر میں لکھا ہے : یہ آیات بیان نعمت کے لئے نہیں بلکہ بیان قدرت کے لئے ہیں۔ اور آیات 22 ۔ 23 کی تفسیر میں وہ فرماتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے عجائب قدرت کے بیان میں ہے نہ کہ نعمتوں کے بیان میں ۔- اس کے تیسرے معنی - ہیں : خوبیاں۔ اوصاف حمیدہ اور کمالات و فضائل ۔ اس معنی کو اہل لغت اور اہل تفسیر نے بیان نہیں کیا ہے مگر اشعار عرب میں یہ لفظ کثرت سے اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ نابغہ کہتا ہے :۔ ہم الملوک وابناء الملوک لہم ۔ فضل علی الناس فی الا الاء النعم۔ ( وہ بادشاہ اور شہزادے ہیں۔ ان کو لوگوں پر اپنی خوبیوں اور نعمتوں میں فضیلت حاصل ہے) ۔- مہلہل اپنے بھائی کلیب کے مرثیہ میں کہتا ہے :۔- الحزم والعزم کان من طبائعہ : ما کل الائہ یاقوم احصیہا حزم اور عزم اس کے اوصاف میں سے تھے ۔ لوگو میں اس کی ساری خوبیاں بیان نہیں کر رہا ہوں۔ فضالہ بن زید العدوانی غریبی کی برائیاں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :۔ غریب اچھا کام بھی کرے تو برا بنتا ہے اور وتحمد الاء البخیل المدرہم مالدار بخیل کے کمالات کی تعریف کی جاتی ہے۔ اجدع ھمدانی اپنے گھوڑے کمیت کی تعریف میں کہتا ہے کہ : ورضیت الاء الکمیت فمن یبع۔ فرسا فلیس جو ادنا بمباع ( مجھے کمیت کے عمدہ اوصاف پسند ہیں اگر کوئی شخص کسی گھوڑے کو بیچتا ہے تو بیچے ہمارا گھوڑا بکنے والا نہیں ہے۔ ( بحوالہ انوار البیان)- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ۔ ” تو تم دونوں (گروہ) اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟ “- عام طور پر اٰلَآئِ کا ترجمہ ” نعمتیں “ کیا جاتا ہے ‘ لیکن اس لفظ میں نعمتوں کے ساتھ ساتھ قدرتوں کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ چناچہ اس سورت میں بھی اس لفظ سے کہیں اللہ کی نعمتیں مراد ہیں اور کہیں اس کی قدرتیں۔ تُکَذِّبٰنِ تثنیہ کا صیغہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سورت میں جنوں اور انسانوں سے مسلسل ایک ساتھ خطاب ہو رہا ہے ۔ آگے چل کر آیت ٣٣ میں یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ کے خطاب سے یہ بات مزید واضح ہوجائے گی۔ (١)

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :12 اصل میں لفظ آلاء استعمال ہوا ہے جسے آگے کی آیتوں میں بار بار دہرایا گیا ہے اور ہم نے مختلف مقامات پر اس کا مفہوم مختلف الفاظ میں ادا کیا ہے ۔ اس لیے آغاز ہی میں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس لفظ میں معنی کی کتنی وسعت ہے اور اس میں کیا کیا مفہومات شامل ہیں ۔ آلاء کے معنی اہل لغت اور اہل تفسیر نے بالعموم نعمتوں کے بیان کیے ہیں ۔ تمام مترجمین نے بھی یہی اس لفظ کا ترجمہ کیا ہے ۔ اور یہی معنی ابن عباس ، قتادہ اور حسن بصری سے منقول ہیں ۔ سب سے بڑی دلیل اس معنی کے صحیح ہونے کی یہ ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں کے اس قول کو نقل فرمایا ہے کہ وہ اس آیت کو سن کر بار بار لا بشیء من نعمک ربنا نکذب کہتے تھے ۔ لہذا زمانۂ حال کے بعض محققین کی اس رائے سے ہمیں اتفاق نہیں ہے کہ آلاء نعمتوں کے معنی میں سرے سے استعمال ہی نہیں ہوتا ۔ دوسرے معنی اس لفظ کے قدرت اور عجائب قدرت یا کمالات قدرت ہیں ۔ ابن جریر طبری نے ابن زید کا قول نقل کیا ہے کہ فبای الاء ربکما کے معنی ہیں فبای قدرۃ اللہ ۔ ابن جریر نے خود بھی آیات 37 ۔ 38 کی تفسیر میں آلاء کو قدرت کے معنی میں لیا ہے ۔ امام رازی نے بھی آیات 14 ۔ 15 ۔ 16 کی تفسیر میں لکھا ہے ۔ ان آیات بیان نعمت کے لیے نہیں بلکہ بیان قدرت کے لیے ہیں ۔ اور آیات 22 ۔ 23 کی تفسیر میں وہ فرماتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے عجائب قدرت کے بیان میں ہے نہ کہ نعمتوں کے بیان میں ۔ اس کے تیسرے معنی ہیں خوبیاں ، اوصاف حمیدہ اور کمالات و فضائل ۔ اس معنی کو اہل لغت اور تفسیر نے بیان نہیں کیا ہے ، مگر اشعار عرب میں یہ لفظ کثرت سے اس معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ نابغہ کہتا ہے : ھم الملوک وابناء الملوک لھم فضل علی الناس فی الالاء والنعم وہ بادشاہ اور شاہزادے ہیں ان کو لوگوں پر اپنی خوبیوں ور نعمتوں میں فضیلت حاصل ہے ۔ مہلہل اپنے بھائی کلیب کے مرثیہ میں کہتا ہے : الحزم والعزم کانا من طبائعہ ما کل اٰلائہ یا قوم احصیھا حزم اور عزم اس کے اوصاف میں سے تھے ۔ لوگوں میں اس کی ساری خوبیاں شمار نہیں کر رہا ہوں ۔ فضالہ بن زید المعدوانی غریبی کی برائیاں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غریب اچھا کام بھی کرے تو برا بنتا ہے اور: وتحمد اٰلاء البخیل المدرھم مالدار بخیل کے کمالات کی تعریف کی جاتی ہے اجدع ہمدانی اپنے گھوڑے کمیت کی تعریف میں کہتا ہے : ورضیت اٰلاء الکمیت فمن یبع فرسا فلیس جوادنا بمباع مجھے کُمیت کے عمدہ اوصاف پسند ہیں ۔ اگر کوئی شخص کسی گھوڑے کو بیچتا ہے بیچے ، ہمارا گھوڑا بکنے والا نہیں ہے ۔ حماسہ کا ایک شاعر جس کا نام ابو تمام نے نہیں لیا ہے ، اپنے ممدوح ولید بن ادھم کے اقتدار کا مرثیہ کہتا ہے : اذا ما امرؤ اثنی بالاء میت فلا یبعد اللہ الولید بن ادھما جب بھی کوئی شخص کسی مرنے والے کی خوبیاں بیان کرے تو خدا نہ کرے کہ ولید بن ادھم اس موقع پر فراموش ہو ۔ فما کان مفراحا اذا الخیر مسہ ولا کان منانا اذا ھوا نعما اس پر اچھے حالات آتے تو پھولتا نہ تھا اور کسی پر احسان کرتا تو جتاتا نہ تھا طرفہ ایک شخص کی تعریف میں کہتا ہے : کامل یجمع اٰلاء الفتیٰ نبہ سید سادات خضم ”وہ کامل اور جوانمردی کے اوصاف کا جامع ہے ۔ شریف ہے ، سرداروں کا سردار ، دریا دل “ ان شواہد و نظائر کو نگاہ میں رکھ کر ہم نے لفظ آلاء کو اس کے وسیع معنی میں لیا ہے اور ہر جگہ موقع و محل کے لحاظ سے اسکے جو معنی مناسب تر نظر آئے ہیں وہی ترجمے میں درج کر دیے ہیں ۔ لیکن بعض مقامات پر ایک ہی جگہ آلاء کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں ، اور ترجمے کی مجبوریوں سے ہم کو اس کے ایک ہی معنی اختیار کرنے پڑے ہیں ، کیونکہ اردو زبان میں کوئی لفظ اتنا جامع نہیں ہے کہ ان سارے مفہومات کو بیک وقت ادا کر سکے ۔ مثلاً اس آیت میں زمین کی تخلیق اور اس میں مخلوقات کی رزق رسانی کے بہترین انتظامات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے رب کے کن کن آلاء کو جھٹلاؤ گے ۔ اس موقع پر آلاء صرف نعمتوں کے معنی ہی میں نہیں ہے ، بلکہ اللہ جل شانہ کی قدرت کے کمالات اور اس کی صفات حمیدہ کے معنی میں بھی ہے ۔ یہ اس کی قدرت کا کمال ہے کہ اس نے اس کرۂ خاکی کو اس عجیب طریقے سے بنایا کہ اس میں بے شمار اقسام کی زندہ مخلوقات رہتی ہیں اور طرح طرح کے پھل اور غلے اس کے اندر پیدا ہوتے ہیں ۔ اور یہ اس کی صفات حمیدہ ہی ہیں کہ اس نے ان مخلوقات کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں ان کی پرورش اور رزق رسانی کا بھی انتظام کیا ، اور انتظام بھی اس شان کا کہ ان کی خوراک میں نری غذائیت ہی نہیں ہے بلکہ لذت کام و دہن اور ذوق فطرت کی بھی ان گنت رعایتیں ہیں ۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی کاریگری کے صرف ایک کمال کی طرف بطور نمونہ اشارہ کیا گیا ہے کہ کھجور کے درختوں میں پھل کس طرح غلافوں میں لپیٹ کر پیدا کیا جاتا ہے ۔ اس ایک مال کو نگاہ میں رکھ کر ذرا دیکھیے کہ کیلے ، انار ، سنترے ، ناریل اور دوسرے پھلوں کے پیکنگ میں آرٹ کے کیسے کیسے کمالات دکھائے گیے ہیں ، اور یہ طرح طرح کے غلے اور دالیں اور جوب ، جو ہم بے فکر کے ساتھ پکا پکا کر کھاتے ہیں ، ان میں سے ہر ایک کو کیسی کیسی نفیس بالوں اور خوشوں کی شکل میں پیک کر کے اور نازک چھلکوں میں لپیٹ کر پیدا کیا جاتا ہے ۔ سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :13 جھٹلانے سے مراد وہ متعدد رویے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی قدرت کے کرشموں اور اس کی صفات حمیدہ کے معاملہ میں لوگ اختیار کرتے ہیں ، مثلاً : بعض لوگ سرے سے یہی نہیں مانتے کہ ان ساری چیزوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ محض مادے کے اتفاقی ہیجان کا نتیجہ ہے ، یا ایک حادثہ ہے جس میں کسی حکمت اور صناعی کا کوئی دخل نہیں ۔ یہ کھلی کھلی تکذیب ہے ۔ بعض دوسرے لوگ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ ان چیزوں کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے مگر اس کے ساتھ دوسروں کو خدائی میں شریک ٹھہراتے ہیں ، اس کی نعمتوں کا شکریہ دوسروں کو ادا کرتے ہیں ، اور اس کا رزق کھا کر دوسروں کے گن گاتے ہیں ۔ یہ تکذیب کی ایک اور شکل ہے ۔ ایک آدمی جب تسلیم کرے کہ آپ نے اس پر فلاں احسان کیا ہے اور پھر اسی وقت آپ کے سامنے کسی ایسے شخص کا شکریہ ادا کرنے لگے جس نے در حقیقت اس پر وہ احسان نہیں کیا ہے تو آپ خود کہہ دیں گے کہ اس نے بدترین احسان فراموشی کا ارتکاب کیا ہے ، کیونکہ اس کی یہ حرکت اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ وہ آپ کو نہیں بلکہ اس شخص کو اپنا محسن مان رہا ہے جس کا وہ شکریہ ادا کر رہا ہے ۔ کچھ اور لوگ ہیں جو ساری چیزوں کا خالق اور تمام نعمتوں کا دینے والا اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے ہیں ، مگر اس بات کو نہیں مانتے کہ انہیں اپنے خالق و پروردگار کے احکام کی اطاعت اور اس کی ہدایات کی پیروی کرنی چاہئے ۔ یہ احسان فراموشی اور انکار نعمت کی ایک اور صورت ہے ، کیونکہ جو شخص یہ حرکت کرتا ہے وہ نعمت کو ماننے کے باوجود نعمت دینے والے کے حق کو جھٹلاتا ہے ۔ کچھ اور لوگ زبان سے نہ نعمت کا انکار کرتے ہیں نہ نعمت دینے والے کے حق کو جھٹلاتے ہیں ، مگر عملاً ان کی زندگی اور ایک منکر و مکذب کی زندگی میں کوئی قابل ذکر فرق نہیں ہوتا ۔ یہ تکذیب بالقول نہیں بلکہ تکذیب بالفعل ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani