17۔ 1 ایک گرمی کا مشرق اور ایک سردی کا مشرق اسی طرح مغرب ہے۔ اس لئے دونوں کو دوگنا ذکر کیا ہے، موسموں کے اعتبار سے مشرق و مغرب کا مختلف ہونا اس میں بھی انس و جن کی بہت سی مصلحتیں ہیں، اس لئے اسے بھی نعمت قرار دیا گیا ہے۔
[١٤] یہاں دو مشرقوں اور دو مغربوں کا ذکر فرمایا اس لیے کہ اس سورة میں مسلسل دو دو چیزوں کا ذکر چل رہا ہے جبکہ سورة معارج کی آیت نمبر ٤٠ میں فرمایا کہ وہ بہت سے مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے۔ دو مشرقوں سے مراد ایک تو وہ مقام ہے جب سورج موسم گرما کے سب سے بڑے دن طلوع ہوتا ہے۔ اور دوسرا وہ مقام ہے جہاں سے سورج، موسم کے سب سے چھوٹے دن طلوع ہوتا ہے۔ اور ان دونوں مقاموں کے درمیان سب مشرق ہی مشرق ہیں۔ ہر روز طلوع آفتاب کے مقام کا ایک نیا زاویہ ہوتا ہے اور یہی حال مغربوں کا ہے۔ اسی تبدیلی سے موسم پیدا ہوتے ہیں اور مختلف موسموں میں مختلف فصلیں اور پھل پیدا ہوتے ہیں اور ان مشرقوں اور مغربوں کے پیچھے ایک بڑا حیرت انگیز اور پیچیدہ نظام قائم ہے جس کی بنا پر یہ تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں اور ان کا ذکر پہلے کئی مقامات پر کیا جاچکا ہے۔
رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ : سورج ہمیشہ مشرقی سمت کے درمیان سے طلوع نہیں ہوتا ، بلکہ گرمیوں میں اس کا مشرق شمال کی طرف سر کیا جاتا ہے اور سردیوں میں جنوب کی طرف اور ہر روز سورج کے طلوع ہونے کی جگہ ایک ہوتی ہے۔ ایک لحاظ سے سال بھر میں سورج کے ٣٦٥ مشرق ہوتے ہیں ، یہی حال اسکے مغربوں کا ہے۔ اس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے سورة ٔ صافات (٥) میں اپنی صفت ” رب المشارق “ اور سورة ٔ معارج (٤٠) میں ” برب المشرق والمغرب “ بیان فرمائی ہے ۔ یہاں سردی اور گرمی کے آخری دو مقامات کے اعتبار سے ” رب المشرقین و رب المغربین ‘ ‘ فرمایا ہے۔ مزید دیکھئے سورة ٔ صفافات (٥)
رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ ، سردی اور گرمی میں آفتاب کا مطلع بدلتا ہے، اس لئے سردی کے زمانے میں مشرق یعنی آفتاب کے نکلنے کی جگہ اور ہوتی ہے اور گرمی کے زمانے میں دوسری، انہی دونوں جگہوں کو آیت میں مشرقین سے تعبیر فرمایا ہے، اسی طرح اس کے بالمقابل مغربین فرمایا کہ سردی میں غروب آفتاب کی جگہ اور ہوتی ہے اور گرمی میں دوسری۔
رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ ١٧ ۚ- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- شرق - شَرَقَتِ الشمس شُرُوقاً : طلعت، وقیل : لا أفعل ذلک ما ذرّ شَارِقٌ وأَشْرَقَتْ : أضاءت . قال اللہ : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص 18] أي : وقت الإشراق . والْمَشْرِقُ والمغرب إذا قيلا بالإفراد فإشارة إلى ناحیتي الشَّرْقِ والغرب، وإذا قيلا بلفظ التّثنية فإشارة إلى مطلعي ومغربي الشتاء والصّيف، وإذا قيلا بلفظ الجمع فاعتبار بمطلع کلّ يوم ومغربه، أو بمطلع کلّ فصل ومغربه، قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، وقوله تعالی: مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم 16] ، أي : من ناحية الشّرق . والْمِشْرَقَةُ : المکان الذي يظهر للشّرق، وشَرَّقْتُ اللّحم : ألقیته في الْمِشْرَقَةِ ، والْمُشَرَّقُ : مصلّى العید لقیام الصلاة فيه عند شُرُوقِ الشمس، وشَرَقَتِ الشمس : اصفرّت للغروب، ومنه : أحمر شَارِقٌ: شدید الحمرة، وأَشْرَقَ الثّوب بالصّبغ، ولحم شَرَقٌ: أحمر لا دسم فيه .- ( ش ر ق )- شرقت ( ن ) شروقا ۔ الشمس آفتاب طلوع ہوا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) الاافعل ذالک ماذر شارق واشرقت جب تک آفتاب طلوع ہوتا رہیگا میں یہ کام نہیں کروں گا ۔ یعنی کبھی بھی نہیں کروں گا ۔ قرآن میں ہے : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص 18] صبح اور شام یہاں اشراق سے مراد وقت اشراق ہے ۔ والْمَشْرِقُ والمغربجب مفرد ہوں تو ان سے شرقی اور غربی جہت مراد ہوتی ہے اور جب تثنیہ ہوں تو موسم سرما اور گرما کے دو مشرق اور دو مغرب مراد ہوتے ہیں اور جمع کا صیغہ ہو تو ہر روز کا مشرق اور مغرب مراد ہوتا ہے یا ہر موسم کا قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] وہی مشرق اور مغرب کا مالک ( ہے ) رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] اور مشرقوں کا رب ہے ۔ مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم 16] مشر ق کی طرف چلی گئی ِ ۔ المشرقۃ جاڑے کے زمانہ میں دھوپ میں بیٹھنے کی جگہ جہاں سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی دھوپ پڑتی ہو ۔ شرقت اللحم ۔ گوشت کے ٹکڑے کر کے دھوپ میں خشک کرنا ۔ المشرق عید گاہ کو کہتے ہیں کیونکہ وہاں طلوع شمس کے بعد نماز اد کی جاتی ہے ۔ شرقت الشمس آفتاب کا غروب کے وقت زردی مائل ہونا اسی سے احمر شارق کا محاورہ ہے جس کے معنی نہایت سرخ کے ہیں ۔ اشرق الثوب کپڑے کو خالص گہرے رنگ کے ساتھ رنگنا ۔ لحم شرق سرخ گوشت جس میں بالکل چربی نہ ہو ۔- غرب - الْغَرْبُ : غيبوبة الشّمس، يقال : غَرَبَتْ تَغْرُبُ غَرْباً وغُرُوباً ، ومَغْرِبُ الشّمس ومُغَيْرِبَانُهَا . قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، وقد تقدّم الکلام في ذكرهما مثنّيين ومجموعین «4» ، وقال : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] ، وقال : حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف 86] ، وقیل لكلّ متباعد :- غَرِيبٌ ، ولكلّ شيء فيما بين جنسه عدیم النّظير : غَرِيبٌ ، وعلی هذا قوله عليه الصلاة والسلام : «بدأ الإسلام غَرِيباً وسیعود کما بدأ» «5» وقیل : العلماء غُرَبَاءُ ، لقلّتهم فيما بين الجهّال، والغُرَابُ سمّي لکونه مبعدا في الذّهاب . قال تعالی: فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ- [ المائدة 31] ، وغَارِبُ السّنام لبعده عن المنال، وغَرْبُ السّيف لِغُرُوبِهِ في الضّريبة «6» ، وهو مصدر في معنی الفاعل، وشبّه به حدّ اللّسان کتشبيه اللّسان بالسّيف، فقیل : فلان غَرْبُ اللّسان، وسمّي الدّلو غَرْباً لتصوّر بعدها في البئر، وأَغْرَبَ الساقي : تناول الْغَرْبَ ، والْغَرْبُ : الذّهب «1» لکونه غَرِيباً فيما بين الجواهر الأرضيّة، ومنه : سهم غَرْبٌ: لا يدری من رماه . ومنه : نظر غَرْبٌ: ليس بقاصد، و، الْغَرَبُ : شجر لا يثمر لتباعده من الثّمرات، وعنقاء مُغْرِبٌ ، وصف بذلک لأنه يقال : کان طيرا تناول جارية فَأَغْرَبَ «2» بها . يقال عنقاء مُغْرِبٌ ، وعنقاء مُغْرِبٍ بالإضافة . والْغُرَابَانِ : نقرتان عند صلوي العجز تشبيها بِالْغُرَابِ في الهيئة، والْمُغْرِبُ : الأبيض الأشفار، كأنّما أَغْرَبَتْ عينُهُ في ذلک البیاض . وَغَرابِيبُ سُودٌ- [ فاطر 27] ، قيل : جَمْعُ غِرْبِيبٍ ، وهو المُشْبِهُ لِلْغُرَابِ في السّواد کقولک : أسود کحلک الْغُرَابِ.- ( غ رب ) الغرب - ( ن ) سورج کا غائب ہوجانا غربت نغرب غربا وغروبا سورج غروب ہوگیا اور مغرب الشمس ومغیر بانھا ( مصغر ) کے معنی آفتاب غروب ہونے کی جگہ یا وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] وہی ) مشرق اور مٖغرب کا مالک ہے ۔ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] وہی دونوں مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ ان کے تثنیہ اور جمع لانے کے بحث پہلے گذر چکی ہے ۔ نیز فرمایا : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] کہ نہ مشرق کی طرف سے اور نہ مغرب کی طرف ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف 86] یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے جگہ پہنچا ۔ اور ہر اجنبی کو غریب کہاجاتا ہے اور جو چیز اپنی ہم جنس چیزوں میں بےنظیر اور انوکھی ہوا سے بھی غریب کہہ دیتے ہیں ۔ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا (58) الاسلام بدء غریبا وسعود کمابدء کہ اسلام ابتداء میں غریب تھا اور آخر زمانہ میں پھر پہلے کی طرح ہوجائے گا اور جہلا کی کثرت اور اہل علم کی قلت کی وجہ سے علماء کو غرباء کہا گیا ہے ۔ اور کوے کو غراب اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ بھی دور تک چلا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ [ المائدة 31] اب خدا نے ایک کو ابھیجا جو زمین کریدٹے لگا ۔ اور غارب السنام کے معنی کو ہاں کو بلندی کے ہیں کیونکہ ( بلندی کی وجہ سے ) اس تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے اور غرب السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں کیونکہ تلوار بھی جسے ماری جائے اس میں چھپ جاتی ہے لہذا ی مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ پھر جس طرح زبان کو تلوار کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے اسی طرح زبان کی تیزی کو بھی تلوار کی تیزی کے ساتھ تشبیہ دے کر فلان غرب اللسان ( فلاں تیز زبان ہے ) کہاجاتا ہے اور کنوئیں میں بعد مسافت کے معنی کا تصور کرکے ڈول کو بھی غرب کہہ دیا جاتا ہے اور اغرب الساقی کے معنی ہیں پانی پلانے والے ڈول پکڑا اور غرب کے معنی سونا بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی دوسری معدنیات سے قیمتی ہوتا ہے اور اسی سے سھم غرب کا محاورہ ہے یعنی دہ تیر جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ کدھر سے آیا ہے ۔ اور بلا ارادہ کسی طرف دیکھنے کو نظر غرب کہاجاتا ہے اور غرب کا لفظ بےپھل درخت پر بھی بولا جاتا ہے گویا وہ ثمرات سے دور ہے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ عنقاء جانور ایک لڑکی کو اٹھا کر دوردروازلے گیا تھا ۔ اس وقت سے اس کا نام عنقاء مغرب اوعنقاء مغرب ( اضافت کے ساتھ ) پڑگیا ۔ الغرابان سرینوں کے اوپر دونوں جانب کے گڑھے جو ہیت میں کوے کی طرح معلوم ہوتے ہیں ۔ المغرب گھوڑا جس کا کر انہ ، چشم سفید ہو کیونکہ اس کی آنکھ اس سفیدی میں عجیب و غریب نظر آتی ہے ۔ اور آ یت کریمہ : وَغَرابِيبُ سُودٌ [ فاطر 27] کہ غرابیب کا واحد غربیب ہے اور اس کے معنی کوئے کی طرح بہت زیادہ سیاہ کے ہیں جس طرح کہ اسود کحلک العراب کا محاورہ ہے ۔ ( یعنی صفت تاکیدی ہے اور اس میں قلب پایا جاتا ہے اصل میں سود غرابیب ہے ۔
(١٧۔ ١٨) وہ گرمی اور سردی کے دونوں شمرق اور ایسے ہی دونوں مغرب کا مالک ہے۔- دونوں مشرق کی ایک سو اسی منزلیں ہیں اسی طرح دونوں مغرب کی اور اتنی ہی چاند کی منزلیں ہیں اور کہا گیا ہے کہ دونوں مشرق اور دونوں مغرب کی ایک سو ستتر منزلیں ہیں پورے سال میں سورج دو دن تک ایک منزل سے طلوع ہوتا ہے اور اسی طرح ایک منزل میں غروب ہوتا ہے، سو اے جن انس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔
آیت ١٧ رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ ۔ ” وہ ربّ ہے دونوں مشرقوں کا اور دونوں مغربوں کا۔ “- یہاں پر رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ اور رَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ تثنیہ کے اس صیغہ کی مناسبت سے آیا ہے جو پوری سورت میں بار بار آ رہا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن مجید میں رَبُّ الْمَشْرِقِِ وَ الْمَغْرِبِ (المُزَّمل : ٩) اور رَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ (المعارج : ٤٠) کی تراکیب بھی آئی ہیں۔ بہرحال واحد ‘ تثنیہ اور جمع کے یہ تینوں صیغے اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں۔ واحد کے صیغے میں مشرق اور مغرب تو معروف عام ہیں۔ دو مشرقوں اور دو مغربوں کے تصور کو یوں سمجھیں کہ ایک وقت میں سورج جہاں سے طلوع ہو رہا ہے گلوب کی دوسری طرف وہیں پر وہ غروب ہوتا بھی نظر آ رہا ہے۔ اسی طرح جس نقطے پر سورج غروب ہوتا نظر آتا ہے دوسری طرف اسی جگہ سے طلوع ہوتابھی دکھائی دیتا ہے۔ گویا سورج طلوع ہونے کا ہر نقطہ مقام غروب بھی ہے اور اسی طرح ہر مقام غروب گویا مقام طلوع بھی ہے۔ اس لحاظ سے گویا مشرق بھی دو ہیں اور مغرب بھی دو ۔ پھر کسی ایک مقام سے بظاہر نظر آنے والے مشرق و مغرب کے درمیان زمین پر ہر ہر نقطہ گلوب میں کسی کے لیے مقام طلوع ہے اور کسی کے لیے مقام غروب ۔ اس طرح گویا بہت سے مشرق ہیں اور بہت سے مغرب۔
سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :17 دو مشرقوں اور دو مغربوں سے مراد جاڑے کے چھوٹے سے چھوٹے دن اور گرمی کے بڑے سے بڑے دن کے مشرق و مغرب بھی ہو سکتے ہیں ، اور زمین کے دونوں نصف کروں کے مشرق و مغرب بھی ۔ جاڑے کے سب سے چھوٹے دن میں سورج ایک نہایت تنگ زاویہ بنا کر طلوع و غروب ہوتا ہے ، اور اس کے برعکس گرمی کے سب سے بڑے دن میں وہ انتہائی وسیع زاویہ بناتے ہوئے نکلتا اور ڈوبتا ہے ۔ ان دونوں کے درمیان ہر روز اس کا مطلع اور مغرب مختلف ہوتا رہتا ہے جس کے لیے ایک دوسرے مقام پر قرآن میں رَبُّ الْمشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ ( المعارج ۔ 40 ) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ اسی طرح زمین کے ایک نصف کرے میں جس وقت سورج طلوع ہوتا ہے اسی وقت دوسرے نصف کرے میں وہ غروب ہوتا ہے ۔ یوں بھی زمین کے دو مشرق اور دو مغرب بن جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو ان دونوں مشرقوں اور مغربوں کا رب کہنے کے کئی معنی ہیں ۔ ایک یہ کہ اسی کے حکم سے سورج کے طلوع و غروب اور سال کے دوران میں ان کے مسلسل بدلتے رہنے کا یہ نظام قائم ہے ۔ دوسرے یہ کہ زمین اور سورج کا مالک و فرمانروا وہی ہے ، ورنہ ان دونوں کے رب الگ الگ ہوتے تو زمین پر سورج کے طلوع و غروب کا یہ باقاعدہ نظام کیسے قائم ہو سکتا تھا اور دائماً کیسے قائم رہ سکتا تھا ۔ تیسرے یہ کہ ان دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک و پروردگار وہی ہے ، ان کے درمیان رہنے والی مخلوقات اسی کی ملک ہیں ، وہی ان کو پال رہا ہے ، اور اسی پرورش کے لیے اس نے زمین پر سورج کے ڈوبنے اور نکلنے کا یہ حکیمانہ نظام قائم کیا ہے ۔
3: مشرق در اصل افق کے اس حصے کا نام ہے جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے اور مغرب اس حصے کا جہاں سورج غروب ہوتا ہے، چونکہ سردی اور گرمی کے موسموں میں مشرق اور مغرب کے یہ حصے بدل جاتے ہیں، اس لیے ان کو دو مشرقوں اور دو مغربوں سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔