Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دو دریاؤں سے مراد بعض کے نزدیک ان کے الگ الگ وجود ہیں، جیسے میٹھے پانی کے دریا ہیں، جن سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں اور انسان ان کا پانی اپنی دیگر ضروریات میں بھی استعمال کرتا ہے۔ دوسری قسم سمندروں کا پانی جو کھارا ہے جس کے کچھ اور فوائد ہیں۔ یہ دونوں آپس میں نہیں ملتے۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ کھارے سمندروں میں ہی میٹھے پانی کی لہریں چلتی ہیں اور یہ دونوں لہریں آپس میں نہیں ملتیں، بلکہ ایک دوسرے سے جدا اور ممتاز ہی رہتی ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھارے سمندروں میں ہی کئی مقامات پر میٹھے پانی کی لہریں بھی جاری کی ہوئی ہیں اور وہ کھارے پانی سے الگ ہی رہتی ہیں۔ دوسری صورت یہ بھی ہے کہ اوپر کھارا پانی ہو اور اس کی تہ میں نیچے چشمہ آب شیریں۔ جیسا کہ واقعتا بعض مقامات پر ایسا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ جن مقامات پر میٹھے پانی کے دریا کا پانی سمندر میں جاکر گرتا ہے، وہاں کئی لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ دونوں پانی میلوں دور تک اس طرح ساتھ ساتھ چلتے ہیں کہ ایک طرف میٹھا دریائی پانی اور دوسری طرف وسیع و عریض سمندر کا کھارا پانی، ان کے درمیان اگرچہ کوئی آڑ نہیں۔ لیکن یہ باہم نہیں ملتے۔ دونوں کے درمیان یہ وہ برزخ (آڑ) ہے جو اللہ نے رکھ دی ہے، دونوں اس سے تجاوز نہیں کرتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٥] اس کی تشریح کے لیے سورة فرقان کی آیت نمبر ٥٣ کا حاشیہ ملاحظہ فرمایئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

بَيْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيٰنِ۝ ٢٠ ۚ- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - برزخ - البَرْزَخ : الحاجز والحدّ بين الشيئين، وقیل : أصله برزه فعرّب، وقوله تعالی: بَيْنَهُما بَرْزَخٌ لا يَبْغِيانِ [ الرحمن 20] ، والبرزخ في القیامة : الحائل بين الإنسان وبین بلوغ المنازل الرفیعة في الآخرة، وذلک إشارة إلى العقبة المذکورة في قوله عزّ وجل : فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ [ البلد 11] ، قال تعالی: وَمِنْ وَرائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [ المؤمنون 100] ، وتلک العقبة موانع من أحوال لا يصل إليها إلا الصالحون . وقیل : البرزخ ما بين الموت إلى القیامة .- ( ب ر ز خ ) البرزخ کے معنی دو چیزوں کے درمیان حد فاصل اور روک کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ دراصل یہ برزۃ ( پردہ ) سے معرب ہے قرآن میں ہے بَيْنَهُما بَرْزَخٌ لا يَبْغِيانِ [ الرحمن 20] دونوں میں ایک آڑ ہے کہ اس سے تجاوز نہیں کہہ سکتے ۔ اور برزخ اس کا وٹ کو بھی کہا گیا ہے جو آخرت میں انسان اور اس کے منازل رفیقہ تک پہنچنے کے درمیان حائل ہوگی جسے قرآن نے آیت : فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ [ البلد 11] مگر وہ گھاٹی پر سے ہوکر نہ گزرا ۔ میں عقبۃ کہا ہے چناچہ فرمایا وَمِنْ وَرائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [ المؤمنون 100] اور ان کے پیچھے برزخ ہے ( جہاں وہ ) اس دن تک کہ ( دوبارہ ) اٹھائے جائیں گے ( رہنیگے ) 23 ۔۔۔۔ ا ) لہذا عقبۃ سے مراد وہ موانع ہیں جو بلند درجات تک پہنچنے سے روک لیتے ہیں جن تک کہ نیک لوگ ہی پہنچ سکتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں برزخ سے موت اور حشر کے مابین کی مدت مراد ہے ۔- بغي - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى،- والبَغْيُ علی ضربین :- أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع .- والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری 42] - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ - بغی دو قسم پر ہے ۔- ( ١) محمود - یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔- ( 2 ) مذموم - ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شبہات میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰنِ ۔ ” لیکن ان کے مابین ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔ “- دونوں دریا باہم مل کر چلتے ہیں لیکن ایک دوسرے میں گھستے نہیں ‘ اپنی اپنی حد میں رہتے ہیں۔ جیسے ٹھنڈے پانی کے سمندروں میں گرم پانی کی روئیں بہتی ہیں اور کھاری سمندروں میں میٹھے پانی کی روئیں بہتی ہیں۔ اسی طرح کئی دریا باہم ملتے ہیں لیکن دور تک الگ الگ نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں دریائے کابل کا پانی جب دریائے سندھ میں ملتا ہے تو بہت دور تک دونوں پانی اپنے رنگ کی وجہ سے الگ الگ نظر آتے ہیں۔ اٹک کے پل پر کھڑے ہو کر دونوں پانیوں کا الگ الگ رہتے ہوئے ایک ساتھ چلنے کا یہ منظر دیکھا جاسکتا ہے۔ ایسا ہی منظر مظفر آباد کے قریب ” دومیل “ کے مقام پر نظر آتا ہے جہاں دریائے نیلم دریائے جہلم میں ملتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :19 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، سورہ فرقان حاشیہ 68 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ نظارہ دو دریاؤں یا دوسمندروں کے سنگم پر ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ دونوں دریاؤں یا سمندروں کے پانی ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں، پھر بھی دونوں کے درمیان ایک لکیر جیسی ہوتی ہے جس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ دونوں الگ الگ دریا یا سمندر ہیں۔