Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 مَرْجَان سے چھوٹے موتی یا پھر مونگے مراد ہیں کہتے ہیں آسمان سے بارش ہوتی ہے تو سیپیاں اپنے منہ کھول دیتی ہیں، جو قطرہ ان کے منہ کے اندر پڑجاتا ہے، وہ موتی بن جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦] مرجان برزخی مخلوق :۔ مرجان دراصل جمادات اور نباتات کے درمیان برزخی پیدائش ہے جس طرح سب موتی پتھروں ہی کی قسم ہوتے ہیں۔ مرجان بھی پتھر ہی کی قسم ہے لیکن یہ نباتات کی طرح بڑھتا ہے جمادات کی طرح جامد نہیں۔ مرجان کا ایک چھوٹا سا پودا ہوتا ہے جس کی شاخیں بھی ہوتی ہیں۔ موتی اور مرجان عموماً کھاری پانی کی پیداوار ہیں۔ مگر اسی کھاری پانی کے نیچے اللہ کی قدرت سے میٹھے پانی کے چشمے بھی ابل رہے ہوتے ہیں۔ یا ساتھ ساتھ دریا رواں ہوتے ہیں۔ اسی لیے منھما کا لفظ ارشاد فرمایا یعنی یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کے حیرت انگیز تخلیقی کارناموں کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں جن سے انسان فائدہ اٹھا رہا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ : مفسر کیلانی لکھتے ہیں :” مرجان دراصل جمادات اور نباتات کے درمیان برزخی پیدائش ہے، جس طرح سب موتی پتھروں ہی کی قسم ہوتے۔ ہیں ، مرجان بھی پتھر ہی کی قسم ہے ، لیکن یہ نباتات کی طرح بڑھتا ہے ، جمادات کی طرح جامد نہیں ۔ مرجان کا ایک چھوٹا سا پودا ہوتا ہے جس کی شاخیں بھی ہوتی ہیں ۔ موتی اور مرجان عموماً کھاری پانی کی پیداوار ہیں مگر اسی کھاری پانی کے نیچے اللہ کی قدرت سے میٹھے پانی کے چشمے بھی ابل رہے ہوتے ہیں ، یا ساتھ ساتھ رواں دواں ہوتے ہیں ، اس لیے ” منھما “ کا لفظ ارشاد فرمایا، یعنی یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کے حیرت انگیز تخلیقی کارناموں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں جن سے انسان فائدہ اٹھا رہا ہے “۔ (تیسیر القرآن) مزید دیکھئے سورة ٔ نحل (١٤)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ ، لولو کے معنی موتی اور مر جان کے معنی مونگا، یہ بھی قیمتی جواہرات سے ہے، اس میں درخت کے مشابہ شاخیں ہوتی ہے، یہ دونوں چیزیں دریا سے نکلتی ہیں مگر معروف یہ ہے کہ موتی اور جواہرات دریائے شور سے نکلتے ہیں، شیریں دریا سے نہیں، اس آیت میں دونوں سے نکلنا بیان فرمایا ہے، اس کی توجیہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ موتی دونوں ہی دریاؤں میں پیدا ہوتے مگر شیریں دریا سب جاری ہوتے ہیں ان سے موتی کا نکالنا آسان نہیں اور شیریں دریا سب جا کر دیائے شور میں گر جاتے ہیں، وہیں سے موتی نکالے جاتے ہیں، اس لئے موتیوں کا منبع دریائے شور کو کہا جاتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ۝ ٢٢ ۚ- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - لؤلؤ - قال تعالی: يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ [ الرحمن 22] ، وقال : كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور 24] جمعه : لَآلِئٌ ، وتَلَأْلَأَ الشیء : لَمَعَ لَمَعان اللّؤلؤ، وقیل : لا أفعل ذلک ما لَأْلَأَتِ الظِّبَاءُ بأذنابها «1» .- ( ل ء ل ء ) اللؤ لوء ۔ جمع لاتی ۔ قرآن میں ہے : يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ [ الرحمن 22] دونوں دریاؤں سے ہوتی ۔۔۔ نکلتے ہیں ۔ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور 24] جیسے چھپائے ہوئے ہوتی ۔ اور تلالالشئی کے معنی کسی چیز کے موتی کی طرح چمکنے کے ہیں مشہور محاورہ ہے ۔ لاافعل ذلک مالالات الظباء باذنابھا جب تک کہ آہو اپنے دم ہلاتے رہیں گے میں یہ کام نہیں کرونگا ۔ یعنی کبھی بھی یہ کام نہیں کروں گا ۔- لبس - لَبِسَ الثّوب : استتر به، وأَلْبَسَهُ غيره، ومنه :- يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف 31] واللِّبَاسُ واللَّبُوسُ واللَّبْسُ ما يلبس . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] وجعل اللّباس لكلّ ما يغطّي من الإنسان عن قبیح، فجعل الزّوج لزوجه لباسا من حيث إنه يمنعها ويصدّها عن تعاطي قبیح . قال تعالی:- هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة 187] فسمّاهنّ لباسا کما سمّاها الشاعر إزارا في قوله :- 402-- فدی لک من أخي ثقة إزاري«1» وجعل التّقوی لِبَاساً علی طریق التّمثیل والتّشبيه، قال تعالی: وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف 26] وقوله : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء 80] يعني به : الدِّرْعَ ، وقوله : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل 112] ، وجعل الجوع والخوف لباسا علی التّجسیم والتشبيه تصویرا له، وذلک بحسب ما يقولون : تدرّع فلان الفقر، ولَبِسَ الجوعَ ،- ( ل ب س ) لبس الثوب - ۔ کے معنی کپڑا پہننے کے ہیں اور البسہ کے معنی دوسرے کو پہنانا کے ۔ قرآن میں ہے : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف 31] اور وہ سبز کپڑے پہنا کریں گے ۔ اللباس واللبوس واللبس وہ چیز جو پہنی جائے ۔ قرآن میں ہے : قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈاھانپے ۔ اور لباس کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے ۔ جو انسان کے برے کاموں پر پردہ ڈال سکے ۔ چناچہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو قبائح کے ارتکاب سے روکتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة 187] وہ تمہاری پوشاک اور تم ان کی پوشاک ہو ۔ چناچہ اسی معنی میں شاعرنے اپنی بیوی کو ازار کہا ہے ۔ اے میرے قابل اعتماد بھائی پر میری ازار یعنی بیوی قربان ہو ۔ اور تمثیل و تشبیہ کے طور پر تقوی کو بھی لباس قرار دیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف 26] اور جو پر ہیزگاری کا لباس ہے ۔ اور آیت کریمہ : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء 80] اور ہم نے تمہارے لئے ان کو ایک طرح کا لباس بنانا ۔۔۔۔۔ میں لبوس سے زر ہیں مراد ہیں اور آیت کریمہ : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل 112] تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزہ چکھا دیا ۔ میں جوں یعنی بھوک اور خوف کی تصویر کھینچے کے لئے اس لباس کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔- مرج - أصل المَرْج : الخلط، والمرج الاختلاط، يقال : مَرِجَ أمرُهم «2» : اختلط، ومَرِجَ الخاتَمُ في أصبعي، فهو مارجٌ ، ويقال : أمرٌ مَرِيجٌ. أي : مختلط، ومنه غصنٌ مَرِيجٌ: مختلط، قال تعالی: فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَرِيجٍ [ ق 5] والمَرْجان : صغار اللّؤلؤ . قال : كَأَنَّهُنَّ الْياقُوتُ وَالْمَرْجانُ [ الرحمن 19] من قولهم : مَرَجَ.- ويقال للأرض التي يكثر فيها النّبات فتمرح فيه الدّواب : مَرْجٌ ، وقوله : مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ- [ الرحمن 15] أي : لهيب مختلط، وأمرجت الدّابّةَ في المرعی: أرسلتها فيه فَمَرَجَتْ.- ( م ر ج ) اصل میں المرج کے معنی خلط ملط کرنے اور ملا دینے کے ہیں اور المروج کے معنی اختلاط اور مل جانے کے ۔ مرج امرھم ۔ ان کا معاملہ ملتبس ہوگیا ۔ مرج الخاتم فی اصبعی ۔ انگوٹھی انگلی میں ڈھیلی ہوگئی مارج ( صفت فاعلی ) ڈھیلی انگوٹھی ۔ امر مریج گذمڈا اور پیچیدہ معاملہ ۔ غضن مریج : باہم گتھی ہوئی ٹہنی ۔ قرآن پاک میں ہے : فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَرِيجٍ [ ق 5] سو یہ ایک غیرواضح معاملہ میں ہیں ۔ المرجان ۔ مونگا چھوٹا موتی ۔ قرآن پاک میں ہے : كَأَنَّهُنَّ الْياقُوتُ وَالْمَرْجانُ [ الرحمن 19] اور آٰیت کریمہ ؛مَرَجَاس نے دودریا ر واں کے جو آپس میں ملتے ہیں ۔ میں مرج کا لفظ مرج کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور جس زمین میں گھاس بکثرت ہو اور جانور اس میں مگن ہوکر چرتے رہیں اسے مرج کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] آگ کے شعلے ہے ۔ میں مارج کے معنی آگ کے ( دھوئیں سے ) مخلوط شعلے کے ہیں ۔ امرجت الدابۃ فی المرعیٰ : میں نے جانور کو چراگاہ میں کھلا چھوڑ دیا چناچہ آزادی سے چرتا رہا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

لئو لئو اور مرجان - قول باری ہے (یخرج منھما اللئو لئو والمرجان ان دونوں سے موتی اور مونگے برآمد ہوتے ہیں) یہاں مراد یہ ہے کہ ان دونوں میں سے ایک سے کیونکہ موتی اور مونگے سمندر کے کھارے پانی سے برآمد ہوتے ہیں۔ میٹھے پانی سے نہیں برآمد ہوتے۔- اس کی مثال یہ قول باری ہے (یا معشرالجن والانس الم یاتکم رسل منکم اے گروہ جن وانس کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے) جب کہ رسول صرف انسانوں میں سے بھیجے گئے۔ حضرت ابن عباس (رض) ، حسن، قتادہ اور ضحاک کا قول ہے کہ مرجان چھوٹے موتیوں کو کہتے ہیں۔- ایک قول کے مطابق مرجان مخلوط قسم کے جواہرات کو کہتے ہیں۔ یہ لفظ ” مرحت “ سے نکلا ہے جس کے معنی مخلوط ہوجانے کے ہیں۔ ایک قول ہے کہ مرجان جواہرات کی ایک قسم ہے جیسے قضبان جو سمندر سے نکالا جاتا ہے۔- ایک قول ہے کہ (یخرج منھما) کہا گیا اس لئے کہ نمکین اور میٹھے پانیوں کے دھارے ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں اور اس طرح میٹھے اور نمکین پانی کے ملاپ سے درج بالا چیزیں پیدا ہوتی ہیں جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ نر اور مادہ سے بچہ ظہور میں آتا ہے حالانکہ بچے کو مادہ جنم دیتی ہے۔ یہاں یہ بھی مفہوم ہے کہ نر اور مادہ کے ملاپ سے بچہ پیدا ہوتا ہے۔- حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ جب بارش کا قطرہ آسمان سے گرتا ہے تو سیپ اپنا منہ کھول کر اس قطرے کو سنبھال لیتی ہے اور پھر یہی قطرہ موتی بن جاتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٢۔ ٢٥) ان دونوں سے بالخصوص کھاری دریا سے موتی اور مونگا پیدا ہوتا ہے سو اے جن و انس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔ اور اسی کے اختیار اور ملکیت میں جہاز ہیں جو سمندر میں پہاڑو کی طرح اونچے کھڑے نظر آتے ہیں سو اے جن و انس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ ۔ ” ان دونوں سے نکلتے ہیں موتی بھی اور مونگے بھی۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :20 اصل میں لفظ مرجان استعمال ہوا ہے ۔ ابن عباس ، ابن زید اور ضحاک رحمہم اللہ کا قول ہے کہ اس سے مراد چھوٹے موتی ہیں ۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ یہ لفظ عربی میں مونگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :21 اصل الفاظ ہیں یَخْرُجُ مِنْھُمَا ، ان دونوں سمندروں سے نکلتے ہیں ۔ معترضین اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ موتی اور مونگے تو صرف کھاری پانی سے نکلتے ہیں ، پھر یہ کیسے کہا گیا کہ میٹھے اور کھاری دونوں پانیوں سے یہ چیزیں نکلتی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سمندروں میں میٹھا اور کھاری دونوں طرح کا پانی جمع ہو جاتا ہے ، اس لیے خواہ یہ کہا جائے کہ دونوں کے مجموعہ سے یہ چیزیں نکلتی ہیں ، یا یہ کہا جائے کہ وہ دونوں پانیوں سے نکلتی ہیں ، بات ایک ہی رہتی ہے اور کچھ عجب نہیں کہ مزید تحقیقات سے یہ ثابت ہو کہ ان چیزوں کی پیدائش سمندر میں اس جگہ ہوتی ہے جہاں اس کی تہہ سے میٹھے پانی کے چشمے پھوٹتے ہیں ، اور ان کی پیدائش و پرورش میں دونوں طرح پانیوں کے اجتماع کا کچھ دخل ہے ۔ بحرین میں جہاں قدیم ترین زمانے سے موتی نکالے جا رہے ہیں ، وہاں تو یہ بات ثابت ہے کہ خلیج کی تہہ میں میٹھے پانی کے چشمے موجود ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani