فارغ ہونے کے یہ معنی نہیں کہ اب وہ کسی مشغولیت میں ہے بلکہ یہ بہ طور تنبیہہ کے فرمایا گیا ہے کہ صرف تمہاری طرف پوری توجہ فرمانے کا زمانہ قریب آگیا ہے اب کھرے کھرے فیصلے ہو جائیں گے اسے کوئی اور چیز مشغول نہ کرے گی بلکہ صرف تمہارا حساب ہی ہو گا ، محاورہ عرب کے مطابق یہ کلام کیا گیا ہے جیسے غصہ کے وقت کوئی کسی سے کہتا ہے اچھا فرصت میں تجھ سے نپٹ لوں گا ، تو یہ معنی نہیں کہ اس وقت مشغول ہوں بلکہ یہ مطلب ہے کہ ایک خاص وقت تجھ سے نمٹنے کا نکالوں گا اور تیری غفلت میں تجھے پکڑ لوں گا ۔ ( ثقلین ) سے مراد انسان اور جن ہیں جیسے ایک حدیث میں ہے اسے سوائے ثقلین کے ہر چیز سنتی ہے اور دوسری حدیث میں ہے سوائے انسانوں اور جنوں کے اور حدیث صور میں صاف ہے کہ ثقلین یعنی جن و انس پھر تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کر سکتے ہو ؟ اے جنو اور انسانو تم اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مقرر کردہ تقدیر سے بھاگ کر بچ نہیں سکتے بلکہ وہ تم سب کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے اس کا ہر ہر حکم تم پر بےروک جاری ہے جہاں جاؤ اسی کی سلطنت ہے حقیقتاً یہ میدان محشر میں واقع ہو گا کہ مخلوقات کو ہر طرف سے فرشتے احاطہ کئے ہوئے ہوں گے چاروں جانب ان کی سات سات صفیں ہوں گی کوئی شخص بغیر دلیل کے ادھر سے ادھر نہ ہو سکے گا اور دلیل سوائے امر الہٰی یعنی حکم اللہ کے اور کچھ نہیں انسان اس دن کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کدھر ہے ؟ لیکن جواب ملے گا کہ آج تو رب کے سامنے ہی کھڑا ہونے کی جگہ ہے اور آیت میں ہے ( وَالَّذِيْنَ كَسَبُوا السَّيِّاٰتِ جَزَاۗءُ سَـيِّئَةٍۢ بِمِثْلِهَا ۙ وَتَرْهَقُھُمْ ذِلَّةٌ 27 ) 10- یونس:27 ) ، یعنی بدیاں کرنے والوں کو ان کی برائیوں کے مانند سزا ملے گی ان پر ذلت سوار ہو گی اور اللہ کی پکڑ سے پناہ دینے والا کوئی نہ ہو گا ان کے منہ مثل اندھیری رات کے ٹکڑوں کے ہوں گے یہ جہنمی گروہ ہے جو ہمیشہ جہنم میں ہی رہے گا ۔ ( شواظ ) کے معنی آگ کے شعلے جو دھواں ملے ہوئے سبز رنگ کے جھلسا دینے والے ہوں ۔ بعض کہتے ہیں بےدھویں کا آگ کا اوپر کا شعلہ جو اس طرح لپکتا ہے کہ گویا پانی کی موج ہے ( نحاس ) کہتے ہیں دھویں کو ، یہ لفظ نون کے زبر سے بھی آتا ہے لیکن یہاں قرأت نون کے پیش سے ہی ہے ۔ نابغہ کے شعر میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں ہے ہاں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ شواظ سے مراد وہ شعلہ ہے جس میں دھواں نہ ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سند میں امیہ بن صلت کا شعر پڑھ کر سنایا ۔ اور نحاس کے معنی آپ نے کئے ہیں محض دھواں جس میں شعلہ نہ ہو اور اس کی شہادت میں بھی ایک عربی شعر نابغہ کا پڑھ کر سنایا ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں نحاس سے مراد پیتل ہے جو پگھلایا جائے گا اور ان کے سروں پر بہایا جائے گا ۔ بہر صورت مطلب یہ ہے کہ اگر تم قیامت کے دن میدان محشر سے بھاگنا چاہو تو میرے فرشتے اور جہنم کے داروغے تم پر آگ برسا کر دھواں چھوڑ کر تمہارے سر پر پگھلا ہوا پیتل بہا کر تمہیں واپس لوٹا لائیں گے تم نہ ان کا مقابلہ کر سکتے ہو نہ انہیں دفع کر سکتے ہو نہ ان سے انتقام لے سکتے ہو ۔ پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت سے انکار کرو گے ۔
31۔ 1 اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کو فراغت نہیں ہے بلکہ یہ محاورۃً بولا گیا ہے جس کا مقصد وعید و تہید ہے (جن و انس کو) اسلئے کہا گیا کہ ان کو تکلیف شرعیہ کا پابند کیا گیا ہے، اس پابندی یا بوجھ سے دوسری مخلوق مستشنٰی ہے
[٢٠] ثَقَلاَنِ : ثقل بمعنی بوجھ، وزن، گرانباری اور ثقیل اور ثقال بمعنی بوجھل اور وزنی چیز اور ثقلان بمعنی زمین پر آباد جاندار مخلوق میں سے دو بھاری اور کثیر التعداد جماعتیں۔ دو بڑی انواع جن اور انسان جو مکلف ہیں۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جنوں اور انسانوں کی اکثریت چونکہ مجرم، اللہ کی نافرمان اور اللہ کی زمین پر بوجھ ہی بنی رہی ہے اس لیے ان جماعتوں کو ثَقَلاَنِ کہا گیا ہے۔- [٢١] اللہ تعالیٰ کا لوگوں سے حساب لینا بھی نعمت ہے :۔ یعنی تمہارا حساب لینے کے لیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس وقت ہم اتنے مشغول ہیں کہ تمہارا حساب کتاب لینے کی ہمیں فرصت نہیں۔ بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ ابھی تمہارے حساب کتاب کا وقت نہیں آیا۔ تاہم وہ وقت بھی قریب آرہا ہے جب اس کائنات کا دوسرا دور شروع ہوگا اور وہ دور بھی بس آیا ہی چاہتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ جیسے کسی شخص نے اپنا نظام الاوقات یا ٹائم ٹیبل پہلے سے بنا رکھا ہو اور وہ کہہ دے کہ ابھی فلاں کام کے لیے ہمارے پاس فراغت نہیں اس کی باری ایک گھنٹہ بعد آنے والی ہے اور ان جماعتوں سے حساب لینا پھر انہیں اس کے موافق جزا و سزا دینا بھی اللہ کی بہت بڑی نعمت اور اس کے عدل کا تقاضا ہے۔
سَنَفْرُغُ لَکُمْ اَیُّہَا الثَّقَـلٰـنِ :” الثقلین “ ” ثقل “ کی جمع ہے ، بھاری اور وزنی چیز ، مراد زمین پر آباد جاندار مخلوق میں سے دو بھاری اور کثیر التعداد جماعتیں جن و انس ہیں۔ مخلوقات میں سے شرعی احکام کی تکالیف ان دونوں ہی کو دی گئی ہے ، اس لیے انہی کو مخاطب فرمایا ۔ طبری نے کہا علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ” سھفرع لکم ایۃ الثقلین “ کے بارے میں ابن عباس (رض) کی تفسیر نقل کی ہے :” وعید من اللہ للعباد ولیس باللہ شغل وھو فارغ ‘ ‘ یعنی ” یہ الفظا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لیے وعید ہیں ، ورنہ اللہ تعالیٰ کو دوسرے کسی کام سے روکنے والی کوئی مشغولیت نہیں اور وہ فارغ ہے “۔ امام بخاری نے فرمایا :” سنفرع لکم سنحاسبکم لا یشغلۃ شی عن شی وھو معروف فی کلام العرب یقال لا تفرعن لک وما بہ شغل یقول لا خذنک علی غرتک “ ( بخاری ، التفسیر ، سورة الرحمن ، قبل الحدیث : ٤٨٧٨) یعنی ” سنقرع لکم “ ( ہم جلد ہی تمہارے لیے فارغ ہوں گے) کا مطلب یہ ہے کہ ہم جلد ہی تمہارا حساب لیں گے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیز دوسری چیز سے رکاوٹ نہیں بنتی اور یہ کلام عرب میں معروف ہے ۔ کہا جاتا ہے، میں تمہارے لیے فارغ ہوں گا ، حالانکہ اسے کوئی مشغولیت نہیں ہوتی ۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں تمہاری غفلت میں تمہیں پکڑوں گا “۔” سنفرغ لکم “ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اے جنو اور انسانو ہم نے تمہارے لیے ایک نظام الاوقات طے کردیا ہے ، دنیا میں تمہارے پاس عمل کی مہلت ہے ، یہاں ہم ہر لمحے تمہاری ضرورتیں پوری کررہے ہیں ، جو مانگتے ہودے رہے ہیں، بہت جلد ہم اس مرحلے سے فارغ ہوں گے ، پھر قیامت قائم ہوگی اور تمہارے محاسبے کا مرحلہ شروع ہوجائے گا ۔
سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَيُّهَا الثَّقَلٰنِ ، ثقلان ثقل کا تثنیہ ہے جس کے معنی وزن اور بوجھ کے ہیں، ثقلان دو بوجھ، مراد اس سے انسان اور جنات ہیں، لفظ ثقل عربی زبان میں ہر ایسی چیز کے لئے بولا جاتا ہے جس کا وزن اور قدر و قیمت معروف ہو، اسی لئے حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے، انی تارک فیکم الثقلین الخ یعنی میں اپنے بعد دو وزن دار قابل قدر چیزیں چھوڑتا ہوں، جو تمہاری ہدایت و اصلاح کا کام دیتی رہیں گی، ان دونوں چیزوں کا بیان بعض روایات میں کتاب اللہ و عترتی آیا ہے، بعض میں کتاب اللہ و سنتی اور حاصل دونوں کا ایک ہی ہے کیونکہ عترت سے مراد اپنی اولاد ہے جس میں نسبی اور روحانی دونوں قسم کی اولاد شامل ہے، اس لئے مراد سب صحابہ کرام ہوئے اور معنی حدیث کے یہ ہوئے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد دو چیزیں مسلمانوں کی ہدایت و اصلاح کا ذریعہ ہوں گی، ایک اللہ کی کتاب دوسرے آپ کے صحابہ کرام اور معاملات و احکام میں ان کا تعامل اور جس روایت میں عترت کی جگہ سنت آیا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات جو صحابہ کرام کے واسطے سے مسلمانوں کو پہنچی ہیں۔- بہر حال اس حدیث میں ثقلین سے مراد دو وزن دار قابل قدر چیزیں ہیں، آیت مذکورہ میں جن وانس کی دونوں نوعوں کو ثقلین اسی مفہوم کے اعتبار سے کہا گیا ہے کہ زمین پر بسنے رہنے والی سب ذی روح چیزوں میں جن وانس سب سے زیادہ وزن دار اور قابل قدر ہیں اور سنفرغ، فراغ سے مشتق ہے، جس کے معنی کسی شغل سے فارغ اور خالی ہونے کے ہیں، فراغ کا مقابل لغت میں شغل ہے اور لفظ فراغ دو چیزوں کی خبر دیتا ہے اول یہ کہ کسی شغل میں مشغول تھا، دوسرے یہ کہ اب اس شغل کو ختم کر کے فارغ ہوگیا، یہ دونوں باتیں مخلوقات میں تو معروف و مشہور ہیں، انسان کبھی ایک شغل میں لگا ہوا ہوتا ہے پھر اس سے فارغ ہوجاتا ہے مگر حق تعالیٰ جل شانہ ان دونوں سے بری ہیں، نہ ان کو ایک شغل دوسرے شغل سے مانع ہوتا ہے نہ وہ کبھی اس طرح فارغ ہوتے ہیں جس طرح انسان فارغ ہوا کرتا ہے۔- اس لئے آیت مذکورہ میں سنفرغ کا لفظ ایک تشبیہ و استعارہ کے طور پر لایا گیا ہے جو عام انسانوں میں رائج ہے کہ کسی کام کی اہمیت بتلانے کے لئے کہا جاتا ہے کہ ہم اس کام کے لئے فارغ ہوگئے یعنی اب پوری توجہ اسی کام پر ہے اور جو آدمی کسی کام پر اپنی پوری توجہ خرچ کرتا ہے اس کے لئے محاورہ میں کہا جاتا ہے کہ اس کو تو اس کے سوا کوئی کام نہیں۔- اس سے پہلی آیت میں جو یہ مذکور تھا کہ آسمان و زمین کی ساری مخلوقات اور ان کا ایک ایک فرد حق تعالیٰ سے اپنی حاجات مانگتا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر وقت ہر حال میں ان کی درخواست پورا کرنے کے لحاظ سے ایک خاص شان میں ہوتے ہیں، آیت سنفرغ لکم الخ میں یہ بتلایا گیا ہے کہ قیامت کے روز درخواستوں اور ان کے قبول اور ان پر عمل کا سب سلسلہ بند ہوجائے گا اس وقت کام صرف ایک رہ جائے گا اور شیون مختلفہ میں سے صرف ایک شان ہوگی، یعنی حساب و کتاب اور عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ (روح)
سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَيُّہَ الثَّقَلٰنِ ٣١ ۚ- فرغ - الفَرَاغُ : خلاف الشّغل، وقد فَرَغَ فَرَاغاً وفُرُوغاً ، وهو فَارِغٌ. قال تعالی: سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلانِ [ الرحمن 31] ، وقوله تعالی: وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] ، أي : كأنّما فَرَغَ من لبّها لما تداخلها من الخوف وذلک کما قال الشاعر : كأنّ جؤجؤه هواء - «1» وقیل : فَارِغاً من ذكره، أي أنسیناها ذكره حتی سکنت واحتملت أن تلقيه في الیمّ ، وقیل : فَارِغاً ، أي : خالیا إلّا من ذكره، لأنه قال : إِنْ كادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلا أَنْ رَبَطْنا عَلى قَلْبِها [ القصص 10] ، ومنه قوله تعالی: فَإِذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ [ الشرح 7] ، وأَفْرَغْتُ الدّلو :- صببت ما فيه، ومنه استعیر : أَفْرِغْ عَلَيْنا صَبْراً [ الأعراف 126] ، وذهب دمه فِرْغاً «2» ، أي : مصبوبا . ومعناه : باطلا لم يطلب به، وفرس فَرِيغٌ: واسع العدو كأنّما يُفْرِغُ العدو إِفْرَاغاً ، وضربة فَرِيغَةٌ: واسعة ينصبّ منها الدّم .- ( ف ر غ ) الفراغ - یہ شغل کی ضد ہے ۔ اور فرغ ( ن ) فروغا خالی ہونا فارغ خالی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] اور موسٰی کی ماں کا دل بےصبر ہوگیا ۔ یعنی خوف کی وجہ سے گویا عقل سے خالی ہوچکا تھا جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کان جو جو ہ ھواء گویا اس کا سینہ ہوا ہو رہا تھا ۔ اور بعض نے فارغا کے معنی موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال سے خالی ہونا کئے ہیں یعنی ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کا خیال ان کے دل سے بھلا دیا حتی کہ وہ مطمئن ہوگئیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کو دریامیں ڈال دینا انہوں نے گوارا کرلیا بعض نے فارغا کا معنی اس کی یاد کے سوا باقی چیزوں سے خالی ہونا بھی کئے ہیں ۔ جیسا کہ اس کے بعد کی آیت : ۔ إِنْ كادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلا أَنْ رَبَطْنا عَلى قَلْبِها [ القصص 10] اگر ہم ان کے دل کو مضبوط نہ کرتے تو قریب تھا کہ وہ اس قصے کو ظاہر کردیں سے معلوم ہوتا ہے اور اسی سے فرمایا : ۔ فَإِذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ [ الشرح 7] تو جب فارغ ہوا کرو عبادت میں محنت کیا کروں سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلانِ [ الرحمن 31] اے دونوں جماعتوں ہم عنقریب تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ اور افرغت الدلو کے معنی ڈول سے پانی بہا کر اسے خالی کردینا کے ہیں چناچہ آیت کریمہ : ۔ أَفْرِغْ عَلَيْنا صَبْراً [ الأعراف 126] ہم پر صبر کے دہانے کھول دے بھی اسی سے مستعار ہے ذھب دمہ فرغا اس کا خون رائیگاں گیا ۔ فرس فریغ وسیع قدم اور تیز رفتار گھوڑا گویا وہ دوڑ کر پانی کی طرح بہہ ر ہا ہے ۔ ضربۃ فریغۃ وسیع زخم جس سے خون زور سے بہہ رہا ہو ۔- أيا - أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص 28]- ( ا ی ی ) ای ۔- جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔- الثقلان :- مادہ ثقل سے مشتق ہے ثقل کے معنی بوجھ کے ہیں۔ اور ثقل اس بوجھ کو کہتے ہیں جو سواری پر لدا ہوا ہو۔ سو ثقلان کا لفظی ترجمہ ہوگا : دو لدے ہوئے بوجھ ۔ دو بھاری چیزیں ۔ دو بوجھل خلقیتں ( مراد جن و انسان) جن اور انسان کو ثقلان اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ زمین پر بھاری بوجھ ہیں۔ (2) یا اس لئے کہ گراں قدر وگراں منزلت ہیں (3) یا اس لئے کہ یہی خود تکلیف ترعیہ سے گراں بار ہیں - ثقل - الثِّقْل والخفّة متقابلان، فکل ما يترجح علی - ما يوزن به أو يقدّر به يقال : هو ثَقِيل، وأصله في الأجسام ثم يقال في المعاني، نحو : أَثْقَلَه الغرم والوزر . قال اللہ تعالی: أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور 40] ، والثقیل في الإنسان يستعمل تارة في الذم، وهو أكثر في التعارف، وتارة في المدح - ( ث ق ل ) الثقل - یہ خفۃ کی ضد ہے اور اس کے معنی بھاری اور انبار ہونا کے ہیں اور ہر وہ چیز جو وزن یا اندازہ میں دوسری پر بھاری ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اصل ( وضع ) کے اعتبار سے تو یہ اجسام کے بھاری ہونے پر بولا جاتا ہے لیکن ( مجاز ) معانی کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے : ۔ اسے تادان یا گناہ کے بوجھ نے دبالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور 40] اے پیغمبر ) کیا تم ان سے صلہ مانگتے ہو کہ ان پر تادان کا بوجھ پڑرہا ہے ، - اور عرف میں انسان کے متعلق ثقیل کا لفظ عام طور تو بطور مذمت کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مدح بھی آجاتا ہے
(٣١۔ ٣٢) سو اے جن و انس ہم تمہارے دنیاوی کاموں کو محفوظ کرا لیتے ہیں اور عنقریب قیامت میں تم سے ان اعمال پر حساب و کتاب لیں گے سو اے جن و انس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔
آیت ٣١ سَنَفْرُغُ لَـکُمْ اَیُّـہَ الثَّقَلٰنِ ۔ ” ہم جلد ہی فارغ ہوجائیں گے تمہارے لیے ‘ اے دو بھاری قافلو “- اس آیت میں اشارۃً اور آگے آیت ٣٣ میں باقاعدہ نام لے کر تثنیہ (تُکَذِّبٰن) کے صیغے کی وضاحت کردی گئی کہ اے جن وانس کے قافلوں کے افراد ہم تم سے مخاطب ہیں۔ یاد رکھو تم دونوں گروہ اپنے اعمال کے لیے ہمارے سامنے جواب دہ ہو ۔ یاد رکھو ہم اس کائنات کو ” مہلت “ کے اصول پر چلا رہے ہیں۔ اس کے لیے ہم نے کائنات کی ایک عمر اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی مقرر کر رکھی ہے ‘ اسی اصول کے تحت ہر قوم کو بھی ہم ایک وقت معین تک مہلت دیتے ہیں : لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌج (الاعراف : ٣٤) اور ہر فرد کو بھی ۔ چناچہ ہماری عطا کردہ مہلت سے تم یہ مت سمجھو کہ تمہارا احتساب نہیں ہوگا ‘ بلکہ ہم عنقریب تم سب لوگوں کو اپنے حضور حاضر کرنے والے ہیں ‘ جہاں تمہیں اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہوگا۔
سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :29 اصل میں لفظ ثَقَلَان استعمال ہوا ہے جس کا مادہ ثقل ہے ۔ ثقل کے معنی بوجھ کے ہیں ، اور ثَقَل اس بار کو کہتے ہیں جو سواری پر لدا ہوا ہو ۔ ثَقَلین کا لفظی ترجمہ ہو گا دو لدے ہوئے بوجھ ۔ اس جگہ یہ لفظ جن و انس کے لیے استعمال کیا گیا ہے کیونکہ یہ دونوں زمین پر لدے ہوئے ہیں ، اور چونکہ اوپر سے خطاب ان انسانوں اور جنوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے جو اپنے رب کی طاعت و بندگی سے منحرف ہیں ، اور آگے بھی آیت 45 تک وہی مخاطب ہیں ، اس لیے ان کو اَیُّھَا الثَّقَلَانِ کہہ کر خطاب فرمایا گیا ہے ، گویا خالق اپنی مخلوق کے ان دونوں نالائق گروہوں سے فرما رہا ہے کہ اے وہ لوگو جو میری زمین پر بار بنے ہوئے ہو ، عنقریب میں تمہاری خبر لینے کے لیے فارغ ہوا جاتا ہوں ۔ سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :30 اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس وقت اللہ تعالیٰ ایسا مشغول ہے کہ اسے ان نافرمانوں سے باز پرس کرنے کی فرصت نہیں ملتی ۔ بلکہ اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص اوقات نامہ مقرر کر رکھا ہے جس کے مطابق پہلے وہ ایک معین مدت تک اس دنیا میں انسانوں اور جنوں کی نسلوں پر نسلیں پیدا کرتا رہے گا اور انہیں دنیا کی اس امتحان گاہ میں لا کر کام کرنے کا موقع دے گا ۔ پھر ایک مخصوص ساعت میں امتحان کا یہ سلسلہ یک لخت بند کر دیا جائے گا اور تمام جن و انس جو اس وقت موجود ہوں گے بیک وقت ہلاک کر دیے جائیں گے پھر ایک اور ساعت نوع انسانی اور نوع جِن ، دونوں سے باز پرس کرنے کے لیے اس کے ہاں طے شدہ ہے جب ان کے اولین و آخرین کو از سر نو زندہ کر کے بیک وقت جمع کیا جائے گا ۔ اس اوقات نامہ کے لحاظ سے فرمایا گیا ہے کہ ابھی ہم پہلے دور کا کام کر رہے ہیں اور دوسرے دور کا وقت بھی نہیں آیا ہے ، کجا کہ تیسرے دور کا کام اس وقت شروع کر دیا جائے مگر تم گھبراؤ نہیں ، عنقریب وہ وقت آیا چاہتا ہے جب ہم تمہاری خبر لینے کے لیے فارغ ہو جائیں گے ۔ یہ عدم فراغت اس معنی میں نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایک کام نے ایسا مشغول کر رکھا ہے کہ دوسرے کام کی فرصت وہ نہیں پا رہا ہے ۔ بلکہ اس کی نوعیت ایسی ہے جیسے ایک شخص نے مختلف کاموں کے لیے ایک ٹائم ٹیبل بنا رکھا ہو اور اس کی رو سے جس کام کا وقت ابھی نہیں آیا ہے اس کے بارے میں وہ کہے کہ میں سر دست اس کے لیے فارغ نہیں ہوں ۔
6: اصل عربی لفظ ثقلان ہے جس کے معنی ہیں دو بھاری چیزیں، اور اس سے مراد جنات اور انسان ہیں، کیونکہ یہی دو مخلوقات ہیں جنہیں اس کائنات میں عقل وشعور کے علاوہ مکلف بننے کی صلاحیت بخشی گئی ہے۔ 7: یہاں فارغ ہونا مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی تو اللہ تعالیٰ کائنات کے دوسرے امور انجام دے رہے ہیں اور ابھی حساب لینے کی طرف متوجہ نہیں ہوئے، لیکن وہ وقت عنقریب آنے والا ہے جب اللہ تعالیٰ حساب کی طرف متوجہ ہوں گے۔ واضح رہے کہ آگے آیت نمبر ٤٤ تک دوزخیوں کے عذاب کا تذکرہ ہے، اور اس کے ساتھ بھی یہ فقرہ ہر جگہ فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤگے ؟ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس ہولناک انجام کی جو پہلے سے خبر دے رہا ہے وہ بذات خود ایک نعمت ہے اس کو مت جھٹلاؤ، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو جھٹلانے کا یہ انجام ہونے والا ہے، کیا اس انجام سے باخبر ہونے کے بعد بھی تم نعمتوں کو جھٹلانے کا رویہ جاری رکھوگے۔