Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 یہ تہدید بھی نعمت ہے کہ اس سے بدکار، بدیوں کے ارتکاب سے باز آجائے اور محسن زیادہ نیکیاں کمائے۔ (2) یعنی اگر اللہ کی تقدیر اور قضا سے تم بھاگ کر کہیں جاسکتے ہو تو چلے جاؤ لیکن یہ طاقت کس میں ہے ؟ اور بھاگ کر آخر کہاں جائے گا کون سی جگہ ایسی ہے، جو اللہ کے اختیار سے باہر ہو، بعض نے کہا کہ یہ میدان محشر میں کہا جائے گا، جبکہ فرشتے ہر طرف سے لوگوں کو گھیر رکھے ہونگے۔ دونوں ہی مفہوم اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٢] نفذ کا لغوی مفہوم :۔ نفذ بمعنی آر پار نکل جانا۔ جیسے لوہے کی سلاخ کے ایک سرے کو آگ پر گرم کیا جائے تو تھوڑی دیر بعد حرارت دوسرے سرے تک از خود جا پہنچتی ہے۔ اور نفاذ بمعنی قوت سے کسی چیز کا اجراء ہونا، جیسے کہتے ہیں کہ اس ملک میں کل سے فلاں فلاں قانون نافذ ہوچکا ہے اور بمعنی چیز کا بسرعت داخل ہونا اور آر پار ہوجانا۔ جیسے برقی رو آر پار نکل جاتی ہے۔- [٢٣] سُلْطٰنٍ بمعنی غلبہ اور شدید قوت بھی اور اتھارٹی لیٹر یا پروانہ ئراہداری بھی۔ اب اگر اس آیت کا اطلاق اس مادی دنیا پر کیا جائے، تو مطلب یہ ہوگا کہ زمین و آسمان کے کناروں تک پہنچنے کے لیے انتہائی قوت کی ضرورت ہے، جیسے انسان چاند پر، جو زمین کا سب سے قریبی سیارچہ ہے، پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے اور اس کے لیے انتہائی قوت اور بل بوتے کی ضرورت ہے۔ اور اتنا بل بوتا تم میں کبھی نہیں آسکتا کہ تم (مِنْ اَقْـطَار السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ 33۝ۚ ) 55 ۔ الرحمن :33) کو پھاند سکو۔ اور اگر تم چاہو تو زور لگا کے دیکھ سکتے ہو۔ اور اگر اس آیت کا ربط سابقہ آیت یعنی حساب کتاب سے ملایا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ حساب کتاب اور اللہ کی گرفت سے تم میں سے کوئی شخص بھی ادھر ادھر بھاگ کر بچ نہیں سکتا الا یہ کہ کسی کو جنت کا پروانہ مل جائے۔ اس صورت میں اسے بھاگنے کی ضرورت ہی نہ رہے گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یٰـمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ ۔۔۔۔۔:” معشر “” عشر “ سے ’ ’ مفعل “ کے وزن پر ہے ، کثیر التعداد جماعت کو کہتے ہیں ، کیونکہ اس میں بہت سے عشرات پائے جاتے ہیں ، جن کا شمار یکے بعد دیگرے دہائیوں میں ہوتا ہے۔ ’ ’ افطار “ ” فطر “ کی جمع ہے، کنارا ۔ ” سلطان “ قدرت اور غلبہ ۔ یعنی اے جنوں اور انسانوں کی جماعت دنیا میں اگر تم موت سے بچنے کے لیے آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ جاؤ ، مگر تم اللہ تعالیٰ پر غالب آکر ہی نکل سکو گے : جس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، جیسا کہ فرمایا (اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ط ) النسائ : ٧٨)” تم جہاں کہیں بھی ہوگے موت تمہیں پالے گی ، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔ “ اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے محاسبے اور اس کی گرفت سے بچنے کے لیے اگر تم آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ جاؤ۔۔۔۔۔ اس سے ملتا جلتا مفہوم اس آیت کا ہے ، فرمایا :(فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ وَ خَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ یَوْمَئِذٍ اَیْنَ الْمَفَرُّ کَلَّا لَا وَزَرَ اِلٰی رَبِّکَ یَوْمَئِذِنِ الْمُسْتَقَرُّ ) (القیامہ : ٧ تا ١٢) ” پھر جب آنکھ پتھرا جائے گی ۔ اور چاند گہنا جائے گا ، اور سورج چاند اکٹھے کردیئے جائیں گے ۔ انسان اس دن کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے ؟ ہرگز نہیں ، پناہ کی جگہ کوئی نہیں ۔ اس دن تیرے رب ہی کی طرف جا ٹھہرنا ہے۔ “ آج کل راکٹ یا خلائی گاڑی کے ذریعے سے چاند پر یا کسی اور کرے پر جانے کے تجربات ہو رہے ہیں ، بعض لوگ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ ” لا تنفذو ن الا بسلطن “ ( تم غلبے کے بغیر نہیں نکل سکو گے) سے مراد یہ ہے کہ ان مشینوں کے ذریعے سے ” افطار السموات والارض “ سے نکلنا ممکن ہے ، حالانکہ ان کوششوں کی آیت کے مفہوم کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ یہ بےچارے تو زمین و آسمان کے درمیان خلاء میں پھر رہے ہیں ، آسمان و زمین کے کناروں تک رسائی تو بہت دور ہے ، پھر وہ ذرۂ بےمقدار ، جس کا ایک سانس بھی اس کے اپنے اختیار میں نہیں ، وہ اپنی قوت کے ساتھ ” اقطار السموات والارض “ سے نکلنے کی بات کرے تو یہی کہا جاسکتا ہے ؎- بت کریں آرزو خدائی کی شان ہے تیری کبریائی کی

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْـطَار السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ ، پچھلی آیت میں جن وانس کو بلفظ ثقلین مخاطب کر کے بتلایا گیا تھا کہ قیامت کے روز ایک ہی کام ہوگا کہ سب جن و انس کے اعمال کا جائزہ لیا جائے گا اور اس کے ذرہ ذرہ پر جزاء و سزا ہوگی، اس آیت میں یہ بتلانا منظور ہے کہ روز جزاء کی حاضری اور حساب اعمال سے کوئی شخص راہ فرار اختیار نہیں کرسکتا، کسی کی مجال نہیں جو موت سے یا روز قیامت کے حساب سے کہیں بھاگ کر بچ نکلے، اس آیت میں ثقلین کے بجائے يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ کے صریح نام ذکر فرمائے اور جن کو انس پر مقدم کیا، شاید اس میں اشارہ اس طرف ہو کہ آسمان و زمین کے اقطار سے پار نکل جانا بڑی قوت وقدرت چاہتا ہے، جنات کو حق تعالیٰ نے ایسے امور کی قوت انسان سے زیادہ بخشی ہے، اس لئے جن کے ذکر کو مقدم کیا گیا، مطلب آیت کا یہ ہے کہ اے جنات اور انسانو اگر تمہیں یہ گمان ہو کہ ہم کہیں بھاگ جائیں گے اور اس طرح ملک الموت کے تصرف سے بچ جائیں یا میدان حشر سے بھاگ کر نکل جائیں گے اور حساب کتاب سے بچ جائیں گے تو لو اپنی قوت آزما دیکھو، اگر تمہیں اس پر قدرت ہے کہ آسمان و زمین کے دائروں سے باہر نکل جاؤ تو نکل کر دکھلاؤ، یہ کوئی آسان کام نہیں، اس کے لئے تو بہت بڑی قوت وقدرت درکار ہے، جو جن و انس کی دونوں قوموں کو حاصل نہیں، اس کا حاصل ان کا اقطار سماء و ارض سے باہر نکلنے کا امکان و احتمال بتلانا نہیں، بلکہ بطور فرض محال ان کا عاجز ہونا دکھلانا ہے۔- آیت میں مراد اگر موت سے فرار ہے تو یہی دنیا اس کا مصداق ہے کہ کسی کے امکان میں نہیں کہ زمین سے آسمانوں تک کی حدود کو پھلانگ کر باہر نکل جائے اور موت سے بچ جائے، ان حدود کو پار کرنے کا ذکر بھی انسانی خیال کے مطابق کیا گیا ہے، ورنہ بالفرض کوئی آسمانوں کی حدود سے باہر نکل جائے تو اللہ تعالیٰ کے احاطہ قدرت سے بھی باہر نہیں اور اگر مراد محشر کے حساب و کتاب اور جواب دہی سے فرار کا ناممکن ہونا بتلانا ہے، تو اس کی عملی صورت قرآن کریم کی دوسری آیات اور روایات حدیث میں یہ ہے کہ قیامت کے روز آسمان شق ہو کر سب فرشتے زمین کے کناروں پر آجائیں گے اور ہر طرف سے محاصرہ ہوگا جن و انس قیامت کی ہولناک چیزوں کو دیکھ کر مختلف سمتوں میں بھاگیں گے، ہر سمت میں فرشتوں کا محاصرہ دیکھ کر پھر اپنی جگہ لوٹ آئیں گے (روح)- فضائی سفر جو آج کل مصنوعی سیاروں اور راکٹوں سے ہو رہے ہیں ان کا اس آیت سے کوئی جوڑ نہیں :- اس زمانہ جو زمین کی کشش سے باہر نکلنے اور خلا میں سیارات پر پہنچنے کے تجربات ہو رہے ہیں وہ سب ظاہر ہے کہ آسمان کے حدود سے باہر نہیں، بلکہ سطح آسمان سے بہت نیچے ہو رہے ہیں، اقطار السمٰوات سے باہر نکل جانے کا اس سے کوئی تعلق نہیں، یہ تو اقطار السمٰوات کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے باہر نکلنا تو کجا، اس لئے اس آیت کے مفہوم سے ان خلائی سفروں اور سیارات پر پہنچنے کے واقعات کا کوئی تعلق نہیں، بعض سادہ لوح لوگ اس آیت ہی کو خلائی سفروں کے امکان و جواز کے لئے پیش کرنے لگے، جو معانی قرآن سے بالکل ناواقفیت کی دلیل ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا۝ ٠ ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ۝ ٣٣ ۚ- یمعشر الجن والانس - : یا حرف نداء ہے معشر الجن والانس منادی۔ معشر الجن مضاف مضاف الیہ ۔ الانس کا عطف الجن پر ہے۔ ای و معشر الانس، مشعر اسم مفرد ہے۔ بڑا گروہ ۔ اس کی جمع معاشر ہے۔ اے گروہ جن و انس - جِنّ ( شیطان)- والجِنّ يقال علی وجهين : أحدهما للروحانيين المستترة عن الحواس کلها بإزاء الإنس، فعلی هذا تدخل فيه الملائكة والشیاطین، فكلّ ملائكة جنّ ، ولیس کلّ جنّ ملائكة، وعلی هذا قال أبو صالح «4» : الملائكة كلها جنّ ، وقیل : بل الجن بعض الروحانيين، وذلک أنّ الروحانيين ثلاثة :- أخيار : وهم الملائكة .- وأشرار : وهم الشیاطین .- وأوساط فيهم أخيار وأشرار : وهم الجن، ويدلّ علی ذلک قوله تعالی: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن 1- 14] .- والجِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] ، وقال تعالی:- وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] .- الجن - جن ( اس کی جمع جنتہ آتی ہے اور ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ۔ (1) انسان کے مقابلہ میں ان تمام روحانیوں کو جن کہا جاتا ہے جو حواس سے مستور ہیں ۔ اس صورت میں جن کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہوتا ہے لھذا تمام فرشتے جن ہیں لیکن تمام جن فرشتے نہیں ہیں ۔ اسی بناء پر ابو صالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں ۔ ( 2) بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ جن روحانیوں کی ایک قسم ہیں کیونکہ وحانیات تین قسم ہیں ۔ (1) اخیار ( نیک ) اور یہ فرشتے ہیں ( 2) اشرا ( بد ) اور یہ شیاطین ہیں ۔ ( 3) اوساط جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں اور یہ جن ہیں چناچہ صورت جن کی ابتدائی آیات ۔ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن 1- 14] اور یہ کہ ہم بعض فرمانبردار ہیں بعض ( نافرماں ) گنہگار ہیں ۔ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جنوں میں بعض نیک اور بعض بد ہیں ۔ الجنۃ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔- إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی:- وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل :- فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ - نفذ - نَفَذَ السَّهْمُ في الرَّمِيَّة نُفُوذاً ونَفَاذاً ، والمِثْقَبُ في الخَشَبِ : إذا خَرِقَ إلى الجهة الأُخری، ونَفَذَ فلانٌ في الأمرِ نَفَاذاً وأَنْفَذْتُهُ. قال تعالی: إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطارِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا لا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطانٍ [ الرحمن 33] ونَفَّذْتُ الأمرَ تَنْفِيذاً ، والجیش في غَزْوِهِ ، وفي الحدیث : «نَفِّذُوا جَيْشَ أُسَامَةَ» . والمَنْفَذُ المَمَرُّ النَّافِذُ.- ( ن ف ذ) نفد السھم فی الرمیۃ نفوذا ونفاذا کے معنی تیر کے نشانہ سے پار ہوجانے کے ہیں اور نفد فلان فی لارض نفاذا کے معنی پار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطارِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا لا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطانٍ [ الرحمن 33] اگر تمہیں قدرت ہو کہ آسمان و زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ اور زور کے سوا تو تم نکل سکتے ہی نہیں ۔ حکم نافذ کرنا ۔ غزوہ میں لشکر بھیجنا ۔۔۔ حدیث میں ہے نفذا جیش اسامۃ کہ جیش اسامہ کو روانہ کردینا ۔ المنفذ باہر نکلنے کا راستہ ۔- قطر - القُطْرُ : الجانب، وجمعه : أَقْطَارٌ. قال تعالی: إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطارِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الرحمن 33] ، وقال : وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمْ مِنْ أَقْطارِها [ الأحزاب 14] وقَطَرْتُهُ : ألقیته علی قُطْرِهِ ، وتَقَطَّرَ : وقع علی قُطْره، ومنه : قَطَرَ المطر، أي : سقط، وسمّي لذلک قَطْراً ، وتَقَاطَرَ القوم : جاؤوا أرسالا کالقطْر، ومنه قِطَارُ الإبل، وقیل : الإنفاض يُقَطِّرُ الجلب .. أي : إذا أنفض القوم فقلّ زادهم قطروا الإبل وجلبوها للبیع، - والقَطِرَانُ :- ما يَتَقَطَّرُ من الهناء . قال تعالی: سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم 50] ، وقرئ : ( من قِطْرٍ آنٍ ) أي : من نحاس مذاب قد أني حرّها، وقال : آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْراً [ الكهف 96] أي : نحاسا مذابا، وقال : وَمِنْ أَهْلِ الْكِتابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِقِنْطارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ [ آل عمران 75] وقوله : وَآتَيْتُمْ إِحْداهُنَّ قِنْطاراً [ النساء 20] والْقَنَاطِيرُ جمع القَنْطَرَةِ ، والقَنْطَرَةُ من المال : ما فيه عبور الحیاة تشبيها بالقنطرة، وذلک غير محدود القدر في نفسه، وإنما هو بحسب الإضافة کا لغنی، فربّ إنسان يستغني بالقلیل، وآخر لا يستغني بالکثير، ولما قلنا اختلفوا في حدّه فقیل : أربعون أوقيّة . وقال الحسن : ألف ومائتا دينار، وقیل : ملء مسک ثور ذهبا إلى غير ذلك، وذلک کا ختلافهم في حدّ الغنی، وقوله : وَالْقَناطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ [ آل عمران 14] أي : المجموعة قنطارا قنطارا، کقولک : دراهم مدرهمة، ودنانیر مدنّرة .- ( ق ط ر ) القطر کے معنی جانب اور طرف کے ہیں اس کی جمع ا اقطار ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطارِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الرحمن 33] اگر تمہیں قدرت ہو کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمْ مِنْ أَقْطارِها [ الأحزاب 14] اور اگر فوجیں اطراف مدینہ سے ان پر آ دخل ہوں ۔ قطرتہ کسی کو پہلو پر گر ادینا ۔ اسی سے قطر المطر کا محاورہ ہے جس کے معنی بارشبر سنے کے ہیں اور اسی وجہ سے بارش کو قطر کہا جاتا ہے ۔ تقا طر القوم لوگ بارش کے قطروں کی طرح پیہم آئے اسی سے اونٹوں کی قطار کہا جاتا ہے مثل مشہور ہے ۔ النقاض یقطر الجلب یعنی توشہ ختم ہوجائے تو عمدہ اونٹ بھی فروخت کے لئے منڈی میں لے جاتے ہیں ۔- القطران - کے معنی پگهلی ہوئی رال یا گیند ھک کے ہیں قرآن پاک میں ہے سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم 50] ان کے کرتے گند ھک کے ہوں گے ۔ ایک قراءت میں قطرآ ن ہے جس کے معنی پگھلے ہوئے گرم تانبے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْراً [ الكهف 96]( اب ) میرے پاس تانبا لاؤ کہ اس پر پگھلا کر ڈال دوں یہاں قطرا کے معنی پگھلا ہوا تا نبا کے ہیں ۔- سلط - السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] ،- ( س ل ط ) السلاطۃ - اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٣۔ ٣٤) اے گروہ جن و انس کے اگر تمہیں یہ قدرت ہے کہ آسمانوں اور زمین کی حدود اور فرشتوں کی صفوں سے کہیں باہر نکل جاؤ تو نکلو بھاگو مگر بغیر طاقت اور زور کے نہیں نکل سکتے اور طاقت و زور ہے نہیں سو اے جن و انس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْاط ” اے گروہ جن و انس اگر تم طاقت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل بھاگوتو نکل بھاگو۔ “- لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ ۔ ” تم نکل نہیں سکو گے مگر (اللہ کی) سند کے ساتھ۔ “- یہ آیت مشکلات القرآن میں سے ہے۔ جب تک کائنات ( ) کی وسعتوں کے بارے میں انسان کا علم مزید ترقی نہیں کرجاتا ‘ اس آیت کا مفہوم شاید ہم پوری طرح سمجھ نہ پائیں۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اپنی تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود ابھی تک انسان زمین کی ” حدود “ سے نکل کر نظام شمسی کے کسی ایک سیارے تک بھی رسائی حاصل نہیں کرسکا۔ اس کی اس رفتار سے تو یہی لگتا ہے کہ نظام شمسی کی وسعتوں تک بھی اس کی رسائی کا خواب کبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ جہاں تک اس معاملے میں جنوں کی ” استطاعت “ کا تعلق ہے اس کے بارے میں قبل ازیں سورة الحجر کی آیت ١٧ کے ضمن میں وضاحت کی جا چکی ہے کہ وہ نظام شمسی کی حدود کے اندر آسانی سے گھوم پھر سکتے ہیں ‘ لیکن نظام شمسی کی حدود کو پھلانگنے کی استطاعت وہ بھی نہیں رکھتے۔ دوسری طرف اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کی وسعتوں کا عالم یہ ہے کہ ان وسعتوں کے اندر خو دنظامِ شمسی کی حیثیت ایک نقطے کی سی ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں گروہ جن و انس کی اس بےبسی اور بےبضاعتی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس کی طرف آیت زیر مطالعہ میں اشارہ کیا گیا ہے۔- قرآن حکیم میں جب آسمانوں اور زمین کا ذکر آتا ہے تو اس سے پوری کائنات مراد ہوتی ہے۔ میرا گمان یہ ہے کہ یہاں پوری کائنات کے کناروں سے نکل بھاگنے کے معنی معدوم ہونے کے ہیں۔ جیسا کہ قیامت کے دن عذاب کے مستحق لوگ خواہش کریں گے : یَوْمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰی بِہِمُ الْاَرْضُط وَلاَ یَکْتُمُوْنَ اللّٰہَ حَدِیْثًا ۔ (النسائ) ” اس دن تمنا کریں گے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی تھی کہ کاش ان کے سمیت زمین برابرکردی جائے۔ اور وہ اللہ سے کوئی بات بھی چھپا نہیں سکیں گے “۔ لیکن ہمارا یہ وجود چونکہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر یہ معدوم بھی نہیں ہوسکتا ۔ چناچہ اس آیت کا مفہوم میرے خیال میں یہ ہے کہ تم لوگ اگر معدوم بھی ہونا چاہو تو اللہ کی مرضی اور اجازت کے بغیر ( اِلَّا بِسُلْطٰنٍ ) ایسا نہیں کرسکو گے۔ واللہ اعلم

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :32 زمین اور آسمانوں سے مراد ہے کائنات ، یا بالفاظ دیگر خدا کی خدائی ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی گرفت سے بچ نکلنا تمہارے بس میں نہیں ہے ۔ جس باز پرس کی تمہیں خبر دی جا رہی ہے اس کا وقت آنے پر تم خواہ کسی جگہ بھی ہو ، بہرحال پکڑ لائے جاؤ گے ۔ اس سے بچنے کے لیے تمہیں خدا کی خدائی سے بھاگ نکلنا ہو گا اور اس کا بل بوتا تم میں نہیں ہے ۔ اگر ایسا گھمنڈ تم اپنے دل میں رکھتے ہو تو اپنا زور لگا کر دیکھ لو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: مطلب یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ طاقت نہیں ہے جس کے ذریعے تم اللہ تعالیٰ کی باز پرس اور عذاب سے بھاگ کر کہیں اور چلے جاؤ۔