Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

آسمان پھٹ جائے گا وقت احتساب ہو گا آسمان کا پھٹ جانا اور آیتوں میں بھی بیان ہوا ہے ۔ ارشاد ہے آیت ( وَانْشَقَّتِ السَّمَاۗءُ فَھِيَ يَوْمَىِٕذٍ وَّاهِيَةٌ 16؀ۙ ) 69- الحاقة:16 ) ایک اور جگہ ہے آیت ( وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاۗءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلٰۗىِٕكَةُ تَنْزِيْلًا 25؀ ) 25- الفرقان:25 ) ، اور فرمان ہے آیت ( اِذَا السَّمَاۗءُ انْشَقَّتْ Ǻ۝ۙ ) 84- الانشقاق:1 ) ، وغیرہ ۔ جس طرح چاندی وغیرہ پگھلائی جاتی ہے یہی حالت آسمان کی ہو جائے گی رنگ پر رنگ بدلے گا کیونکہ قیامت کی ہولناکی اس کی شدت و دہشت ہے ہی ایسی ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے لوگ قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے اور آسمان ان پر ہلکی بارش کی طرح برستا ہو گا ابن عباس فرماتے ہیں سرخ چمڑے کی طرح ہو جائے گا ۔ ایک روایت میں گلابی رنگ گھوڑے کے رنگ جیسا آسمان کا رنگ ہو جائے گا ۔ ابو صالح فرماتے ہیں پہلے گلابی رنگ ہو گا پھر سرخ ہو جائے گا ۔ گلابی رنگ گھوڑے کا رنگ موسم بہار میں تو زردی مائل نظر آتا ہے اور جاڑے میں بدل کر سرخ جچتا ہے جوں جوں سردی بڑھتی ہے اس کا رنگ متغیر ہوتا جاتا ہے ۔ اسی طرح آسمان بھی رنگ پر رنگ بدلے گا پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو جائے گا ۔ جیسے روغن گلاب کا رنگ ہوتا ہے اس رنگ کا آسمان ہو جائے گا آج وہ سبز رنگ ہے لیکن اس دن اس کا رنگ سرخی لئے ہوئے ہو گا زیتون کی تلچھٹ جیسا ہو جائے گا ۔ جہنم کی آگ تپش اسے پگھلا کر تیل جیسا کر دے گی ۔ اس دن کسی مجرم سے اس کا جرم نہ پوچھا جائے گا جیسے ایک اور آیت میں ہے ( هٰذَا يَوْمُ لَا يَنْطِقُوْنَ 35؀ۙ ) 77- المرسلات:35 ) ، یہ وہ دن ہے کہ بات نہ کریں گے نہ انہیں اجازت دی جائے گی کہ وہ عذر معذرت کریں ۔ ہاں اور آیات میں ان کا بولنا عذر کرنا ان سے حساب لیا جانا وغیرہ بھی بیان ہوا ہے فرمان ہے آیت ( فَوَرَبِّكَ لَنَسْــَٔـلَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ 92۝ۙ ) 15- الحجر:92 ) تیرے رب کی قسم ہم سب سے سوال کریں گے اور ان کے تمام کاموں کی پرسش کریں گے ۔ تو مطلب یہ ہے کہ ایک موقعہ پر یہ ہے پرسش ہوئی حساب کتاب ہوا عذر معذرت ختم کر دی گئی اب منہ پر مہر لگ گئی ہاتھ پاؤں اور اعضاء جسم نے گواہی دی پھر پوچھ گچھ کی ضرورت نہ رہی عذر معذرت توڑ دی گئی ۔ اور یہ تطبیق بھی ہے کہ کسی سے نہ پوچھا جائے گا کہ فلاں عمل کیا ؟ یا نہیں کیا ؟ کیونکہ اللہ کو جو خوب معلوم ہے اس سے جو سوال ہو گا وہ یہ کہ ایسا کیوں کیا ؟ تیسرا قول یہ ہے کہ فرشتے پوچھیں گے نہیں وہ تو چہرہ دیکھتے ہی پہچان لیں گے اور جہنمی کو زنجیروں میں باندھ کر اوندھے گھسیٹ کر جہنم واصل کر دیں گے جیسے اس کے بعد ہی فرمایا کہ یہ گنہگار اپنے چہروں اور اپنی خاص علامتوں سے پہچان لئے جائیں گے چہرے سیاہ ہوں گے آنکھیں کیری ہوں گی ٹھیک اسی طرح مومنوں کے چہرے بھی الگ ممتاز ہوں گے ۔ ان کے اعضائے وضو چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے ۔ گنہگاروں کو پیشانیوں اور قدموں سے پکڑا جائے گا اور جہنم میں ڈال دیا جائے گا جس طرح بڑی لکڑی کو دو طرف سے پکڑ کر تنور میں جھونک دیا جاتا ہے پیٹھ کی طرف زنجیر لا کر گردن اور پاؤں ایک کر کے باندھ دیے جائیں گے ۔ کمر توڑ دی جائے گی اور قدم اور پیشانی ملا دیجائے گی اور جکڑ دیا جائے گا ۔ مسند احمد میں ہے قبیلہ بنو کندہ کا ایک شخص مائی عائشہ کے پاس گیا ۔ پردے کے پیچھے بیٹھا اور ام المومنین سے سوال کیا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی سنا ہے کہ کسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی شخص کی شفاعت کا اختیار نہ ہو گا ؟ ام المومنین نے جواب دیا ہاں ایک مرتبہ ایک ہی کپڑے میں ہم دونوں تھے میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا ہاں جب کہ پل صراط رکھا جائے گا اس وقت مجھے کسی کی شفاعت کا اختیار نہ ہو گا یہاں تک کہ میں جان لوں کہ خود مجھے کہاں لے جاتے ہیں ؟ اور جس وقت کہ چہرے سفید ہونے شروع ہوں گے یہاں تک کہ میں دیکھ لوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جاتا ہے ؟ یا فرمایا یہاں تک کہ میں دیکھ لوں کہ مجھ پر کیا وحی بھیجی جاتی ہے ؟ اور جب جہنم پر پل رکھا جائیگا اور اسے تیز اور گرم کیا جائے گا میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تیزی اور گرمی کی کیا حد ہے ؟ فرمایا تلوار کی دھار جیسا تیز ہو گا اور آگ کے انگارے جیسا گرم ہو گا مومن تو بےضرر گذر جائے گا اور منافق لٹک جائے گا جب بیچ میں پہنچے گا اس کے قدم پھسل جائیں گے یہ اپنے ہاتھ اپنے پیروں کی طرف جھکائے گا جس طرح کوئی ننگے پاؤں چل رہا ہو اور اسے کانٹا لگ جائے اور اس زور کا لگے کہ گویا کہ اس نے اس کا پاؤں چھید دیا تو کس طرح بےصبری اور جلدی سے وہ سر اور ہاتھ جھکا کر اس کی طرف جھک پڑتا ہے اسی طرح یہ جھکے گا ادھر یہ جھکا ادھر داروغہ جہنم کی آگ میں گرا دے گا جس میں تقریباً پچاس پچاس سال تک وہ گہرا اترتا جائے گا ، میں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ جہنمی کس قدر بوجھل ہو گا آپ نے فرمایا مثل دس گابھن اونٹنیوں کے وزن کے پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی یہ حدیث غریب ہے اور اس کے بعض فقروں کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے ہونا منکر ہے اور اس کی اسناد میں ایک شخص ہے جس کا نام بھی نیچے راوی نے نہیں لیا ۔ اس جیسی دلیلیں صحت کے قابل نہیں ہوتیں ، واللہ اعلم ۔ ان گنہگاروں سے کہا جائے گا کہ لو جس جہنم کا تم انکار کرتے تھے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لو یہ انہیں بطور رسوا اور ذلیل کرنے شرمندہ اور نادم کرنے ان کی خفت بڑھانے کے لئے کہا جائے گا پھر ان کی یہ حالت ہو گی کہ کبھی آگ کا عذاب ہو رہا ہے کبھی پانی کا ۔ کبھی جحیم میں جلائے جاتے ہیں اور کبھی حمیم پلائے جاتے ہیں ۔ جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح محض آگ ہے جو آنتوں کو کاٹ دیتی ہے اور جگہ ہے آیت ( اِذِ الْاَغْلٰلُ فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلٰسِلُ ۭ يُسْحَبُوْنَ 71؀ۙ ) 40-غافر:71 ) ، جب کہ ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور پاؤں میں بیڑیاں ہوں گی وہ حمیم سے جحیم میں گھسیٹے جائیں گے اور بار بار یہ جلائے جائیں گے ۔ یہ گرم پانی حد درجہ کا گرم ہو گا بس یوں کہنا ٹھیک ہے کہ وہ بھی جہنم کی آگ ہی ہے جو پانی کی صورت میں ہے ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں آسمان و زمین کی ابتدائی پیدائش کے وقت سے آج تک وہ گرم کیا جا رہا ہے ۔ محمد بن کعب فرماتے ہیں بدکار شخص کی پیشانی کے بال پکڑ کر اسے اس گرم پانی میں ایک غوطہ دیا جائے گا تمام گوشت گل جائے گا اور ہڈیوں کو چھوڑ دے گا ۔ بس دو آنکھیں اور ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ جائے گا اسی کو فرمایا آیت ( فِي الْحَمِيْمِ ڏ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُوْنَ 72؀ۚ ) 40-غافر:72 ) ان کے معنی حاضر کے بھی کئے گئے ہیں اور آیت میں ہے ( تُسْقٰى مِنْ عَيْنٍ اٰنِيَةٍ Ĉ۝ۭ ) 88- الغاشية:5 ) سخت گرم موجود پانی کی نہر سے انہیں پانی پلایا جائے گا جو ہرگز نہ پی سکیں گے کیونکہ وہ بے انتہا گرم بلکہ مثل آگ کے ہے ۔ قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت ( غَيْرَ نٰظِرِيْنَ اِنٰىهُ 53؀ ) 33- الأحزاب:53 ) وہاں مراد تیاری اور پک جانا ہے ۔ چونکہ بدکاروں کی سزا اور نیک کاروں کی جزا بھی اس کا فضل و رحمت اور عدل و لطف ہے اپنے ان عذابوں کا قبل از وقت بیان کر دینا تاکہ شرک و معاصی کے کرنے والے ہوشیار ہو جائیں یہ بھی اس کی نعمت ہے اس لئے فرمایا پھر تم اے جن و انس اپنے رب کی کون کون سی نعمت کا انکار کرو گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 قیامت والے دن آسمان پھٹ پڑے گا، فرشتے زمین پر اتر آئیں گے، اس دن یہ نار جہنم کی شدت حرارت سے پگھل کر سرخ چمڑے کی طرح ہوجائے گا۔ دِھَان سرخ چمڑا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٧] پہلے وردۃ کا لفظ استعمال فرمایا۔ ورد بمعنی گلاب کا پھول اور وَرْدَۃً بمعنی گلابی رنگ دِھَانٌ بمعنی تیل کی سرخی مائل تلچھٹ یعنی جس دن آسمان پھٹے گا اس دن تمام سیاروں کا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور جو شخص آسمان کی طرف نظر دوڑائے گا اسے یوں معلوم ہوگا کہ عالم بالا میں ہر طرف ایک آگ سی لگی ہوئی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآئُ ۔۔۔۔۔۔” وردۃ “ گلاب کے پھول کی طرح گلابی۔۔۔۔ ” الدھان “ میں علماء کے دو قول ہیں ، ایک سرخ چمڑا اور دوسرا ” تیل “ جو ملا جاتا ہے۔ اس معنی میں بعض کہتے ہیں : ” الدھان “ ”’ ھن “ کی جمع ہے اور بعض کہتے ہیں مفرد ہے ۔ تیل کو ” دھن “ بھی کہتے ہیں اور ” دھان “ بھی ۔ ” فاذا انشقت السمائ “ کی تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ حاقہ (١٦) ، فرقان (٢٥) اور سورة ٔ انشقاق (١، ٢)- اگر ” الدھان “ کا معنی سرخ چمڑا کریں تو اس وقت آیت میں آسمان کے ایک وصف کا بیان ہے کہ آسمان جو آج نیلگوں ہے اس وقت سرخ چمڑے کی طرح لال گلابی ہوجائے گا اور اگر ” الدھان “ کا معنی تیل کیا جائے تو آیت میں آسمان کے پھٹنے کے وقت اس کے دو صفوں کا بیان ہوگا ، ایک یہ کہ وہ حرارت کی شدت سے سرخ ہوگا اور دوسرا یہ کہ پگھل کر تیل کی طرح ہوجائے گا ، جیسا کہ فرمایا :(یَوْمَ تَکُوْنُ السَّمَآئُ کَالْمُھْلِ ) ( المعارج : ٨) ” جس دن آسمان پگھلے ہوئے تانبے ( یا تلچھٹ) کی طرح ہوجائے گا “۔ ( شنقیطی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاۗءُ فَكَانَتْ وَرْدَۃً كَالدِّہَانِ۝ ٣٧ ۚ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- شق - الشَّقُّ : الخرم الواقع في الشیء . يقال : شَقَقْتُهُ بنصفین . قال تعالی: ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس 26] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] ، وَانْشَقَّتِ السَّماءُ [ الحاقة 16] ، إِذَا السَّماءُ انْشَقَّتْ [ الانشقاق 1] ، وَانْشَقَّ الْقَمَرُ [ القمر 1] ، وقیل : انْشِقَاقُهُ في زمن النّبيّ عليه الصلاة والسلام، وقیل : هو انْشِقَاقٌ يعرض فيه حين تقرب القیامة وقیل معناه : وضح الأمروالشِّقَّةُ : القطعة الْمُنْشَقَّةُ کالنّصف، ومنه قيل : طار فلان من الغضب شِقَاقًا، وطارت منهم شِقَّةٌ ، کقولک : قطع غضبا والشِّقُّ : الْمَشَقَّةُ والانکسار الذي يلحق النّفس والبدن، وذلک کاستعارة الانکسار لها . قال عزّ وجلّ : لَمْ تَكُونُوا بالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ- [ النحل 7] ، والشُّقَّةُ : النّاحية التي تلحقک المشقّة في الوصول إليها، وقال : بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة 42] ، - ( ش ق ق ) الشق - الشق ۔ شگاف کو کہتے ہیں ۔ شققتہ بنصفین میں نے اسے برابر دو ٹکڑوں میں کاٹ ڈالا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس 26] پھر ہم نے زمین کو چیرا پھاڑا ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ( ان سے ) پھٹ جائے گی ۔ وَانْشَقَّتِ السَّماءُ [ الحاقة 16] اور آسمان پھٹ جائے گا ۔ إِذَا السَّماءُ انْشَقَّتْ [ الانشقاق 1] جب آسمان پھٹ جائیگا ۔ اور آیت کریمہ : وَانْشَقَّ الْقَمَرُ [ القمر 1] اور چاند شق ہوگیا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ انشقاق قمر آنحضرت کے زمانہ میں ہوچکا ہے ۔ اور بعض کا قول ہے کہ یہ قیامت کے قریب ظاہر ہوگا اور بعض نے انشق القمر کے معنی وضح الاسر کئے ہیں یعنی معاملہ واضح ہوگیا ۔ الشقۃ پھاڑا ہوا ٹکڑا ۔ اسی سے محاورہ ہے ۔ طار فلان من الغضب شقاقا فلاں غصہ سے پھٹ گیا ۔ جیسا کہ قطع غضبا کا محاورہ ہے ۔ طارت منھم شقۃ ۔ ان کا ایک حصہ اڑ گیا ۔ یعنی غضب ناک ہوئے ۔ الشق اس مشقت کو کہتے ہیں جو تگ و دو سے بدن یا نفس کو ناحق ہوتی ہے جیسا کہ الانکسار کا لفظ بطور استعارہ نفس کی درماندگی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ [ النحل 7] زحمت شاقہ کے بغیر الشقۃ وہ منزل مقصود جس تک بہ مشقت پہنچا جائے ۔ قرآن میں ہے َبَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة 42] لیکن مسافت ان کو دور ( دراز ) نظر آئی ۔- وَرْدُة- : قيل : هو من الوارِدِ ، وهو الذي يتقدم إلى الماء، وتسمیته بذلک لکونه أوّل ما يَرِدُ من ثمار السّنة، ويقال لنَوْرِ كلِّ شجرٍ : وَرْدٌ ، ويقال : وَرَّدَ الشّجرُ : خرج نَوْرُهُ ، وشبّه به لون الفرس، فقیل : فرسٌ وَرْدٌ ، وقیل في صفة السماء إذا احمرّت احمراراً کالوَرْدِ أمارةً للقیامة . قال تعالی: فَكانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهانِ [ الرحمن 37] .- الودر اصل میں گل سرخ کو کہتے ہیں اور یہ وارد سے ہے جس کے معنی قافلے سے پہلے پانی پر آنے والا کے ہیں مشہور ہے کہ گلاب کا پھول تمام پھولوں سے پہلے ظاہر ہوتا ہے اس لئے اسے قرد کہا جاتا ہے پھر ہر در خت کے پھول کو مجازا ورد کہہ دیتے ہیں چناچہ در خت کے پھولدار ہونے پر درد الشجرۃ بولا جاتا ہے پھر گھوڑے کے رنگ کو بھی گل سرخ کے ساتھ تشبیہ دے کر فرس ورد کہاجاتا ہے ۔ اور آثار قیامت کے طور پر جب آسمان سرخ ہوجائیگا تو اسے بھی قرآن نے وردۃ کہا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ فَكانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهانِ [ الرحمن 37] تلچھٹ کی طرح گلابی ہوجائے گا ( تو کیسا ہولناک دن ہوگا )- دهن - قال تعالی: تَنْبُتُ بِالدُّهْنِ [ المؤمنون 20] ، وجمع الدّهن أدهان . وقوله تعالی:- فَكانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهانِ [ الرحمن 37] ، قيل : هو درديّ الزّيت، والمُدْهُن : ما يجعل فيه الدّهن، وهو أحد ما جاء علی مفعل من الآلة وقیل للمکان الذي يستقرّ فيه ماء قلیل : مُدْهُن، تشبيها بذلک، ومن لفظ الدّهن استعیر الدَّهِين للناقة القلیلة اللّبن، وهي فعیل في معنی فاعل، أي : تعطي بقدر ما تدهن به . وقیل : بمعنی مفعول، كأنه مَدْهُون باللبن . أي : كأنها دُهِنَتْ باللبن لقلّته، والثاني أقرب من حيث لم يدخل فيه الهاء، ودَهَنَ المطر الأرض : بلّها بللا يسيرا، کالدّهن الذي يدهن به الرّأس، ودَهَنَهُ بالعصا : كناية عن الضّرب علی سبیل التّهكّم، کقولهم : مسحته بالسّيف، وحيّيته بالرّمح . والإِدْهَانُ في الأصل مثل التّدهين، لکن جعل عبارة عن المداراة والملاینة، وترک الجدّ ، كما جعل التّقرید وهو نزع القراد عن البعیر عبارة عن ذلك، قال : أَفَبِهذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ [ الواقعة 81] ، قال الشاعر : الحزم والقوّة خير من ال إدهان والفکّة والهاع وداهنت فلانا مداهنة، قال : وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ [ القلم 9] .- ( د ھ ن ) الدھن ۔ تیل ۔ چکنا ہٹ ج ادھان قرآن میں ہے : ۔ تَنْبُتُ بِالدُّهْنِ [ المؤمنون 20] جو روغن لئے ہوئے اگتا ہے : ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَكانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهانِ [ الرحمن 37] پھر ۔۔۔۔ تیل کی تلچھٹ کیطرح گلابی ہوجائیگا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہپ دھان کے معنی تلچھٹ کے ہیں المدھن ۔ ہر وہ برتن جس میں تیل ڈالا جائے ۔ یہ اسم آلہ کے منجملہ ان اوزان کے ہے جو ( بطور شواز ) مفعل کے وزن پر آتے ہیں اور بطور تشبیہ ( پہاڑ میں ) اس مقام ( چھوٹے سے گڑھے ) کو بھی مدھن کہا جاتا ہے جہاں تھوڑا سا پانی ٹھہر جاتا ہو اور دھن سے بطور استعارہ کم دودھ والی اونٹنی کو دھین کہا جاتا ہے اور یہ فعیل بمنعی فاعل کے وزن پر ہے یعنی وہ بقدر دہن کے دودھ دیتی ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ فعیل بمعنی مفعول ہے ۔ گویا اسے دودھ کا دھن لگایا گیا ہے ۔ یہ بھی دودھ کے کم ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ یہ دوسرا قول الی الصحت معلوم ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس کے آخر میں ہ تانیث نہیں آتی ۔ ( جو فعیل بمنعی مفعول ہونیکی دلیل ہی دھن المطر الارض ۔ بارش نے زمین کو ہلکا سنم کردیا جیسا کہ سر پر تیل ملا جاتا ہے ۔ دھنۃ بالعصا ر ( کنایۃ ) لاٹھی سے اس کی تواضع کی ۔ یہ بطور تہکم کے بولا جاتا ہے جیسا کہ مسحۃ ہ بالسیف وحیتہ بالروح کا محاورہ ہے ۔ الادھان ۔ یہ اصل میں تذھین کی طرح ہے ۔ لیکن یہ تصنع ، نرمی برتنے اور حقیقت کا دامن ترک کردینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ تقدیر کا لفظ جس کے اصل معنی اونٹ سے چیچڑ دور کر نا کے ہیں پھر تصنع اور نرمی برتنا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَبِهذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ [ الواقعة 81] کیا تم اسی کتاب سے انکار کرتے ہو ؟ شاعر نے کہا ہے : ۔ کہ حزم و احتیاط اور قوت چاپلوسی اور جزع فزع سے بہتر ہیں ۔ میں نے فلاں کے سامنے چاپلوسی کی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ [ القلم 9] کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ تم مداہنت سے کام لو یہ بھی نرم ہوجائیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

آسمان کا سرخ ہونا - قول باری ہے (فاذا انشقت السمآء فکانت وردۃ کالدھان، پس جب آسمان پھٹ جائے گا اور وہ لال چمڑے کی طرح سرخ ہوجائے گا) روایت ہے آسمان سرخ ہوکر روغن کی طرح پگھل جائے گا۔ ایک روایت کے مطابق آسمان دنیا لوہے کا ہے جب قیامت کا دن ہوگا تو اس کا نیلا رنگ جہنم کی آگ کی گرمی کی وجہ سے سرخ رنگ میں تبدیل ہوجائے گا جس طرح لوہے کو آگ پر تپانے کی صورت میں اس کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٧۔ ٣٨) جس روز فرشتوں کے کثرت نزول کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کی ہیبت و جلال سے آسمان پھٹ جائے گا اور ایسا سرخ ہوجائے گا جیسا کہ تیل ہوتا ہے یا یہ کہ جیسا کہ گلاب کا پھول ہوتا ہے یا ایسا سرخ ہوجائے گا جیسا کہ سرخ نری یعنی سیاہی مائل چمڑا۔ سو اے جن و انس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآئُ فَکَانَتْ وَرْدَۃً کَالدِّہَانِ ۔ ” پھر جب آسمان پھٹ جائے گا اور ہوجائے گا گلابی ‘ تیل کی تلچھٹ جیسا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :34 یہ روز قیامت کا ذکر ہے ۔ آسمان کے پھٹنے سے مراد ہے بندش افلاک کا کھل جانا ، اجرام سماوی کا منتشر ہو جانا ، عالم بالا کے نظم کا درہم برہم ہو جانا ۔ اور یہ جو فرمایا کہ آسمان اس لال چمڑے کی طرح سرخ ہو جائے گا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ہنگامہ عظیم کے وقت جو شخص زمین سے آسمان کی طرف دیکھے گا اسے یوں محسوس ہو گا کہ جیسے سارے عالم بالا پر ایک آگ سی لگی ہوئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani