41۔ 1 یعنی جس طرح اہل ایمان کی علامت ہوگی کہ ان کے اعضائے وضو چمکتے ہونگے، اسی طرح گنہگاروں کے چہرے سیاہ، آنکھیں نیلگوں اور وہ دہشت زدہ ہونگے۔ 41۔ 2 فرشتے ان کی پیشانیاں اور ان کے قدموں کے ساتھ ملا کر پکڑیں گے اور جہنم میں ڈال دیں گے، یا کبھی پیشانیوں سے اور کبھی قدموں سے انہیں پکڑیں گے۔
[٢٩] ان کی خوف زدہ آنکھیں، گبھرائے ہوئے اور اترے ہوئے چہرے، دبی ہوئی آوازیں اور انہیں چھوٹتے ہوئے پسینے اس بات کی پہچان کے لیے کافی ہوں گے کہ یہ مجرم ہیں خواہ وہ جن ہوں یا انسان۔ ہر شخص ان کے چہرے پر مایوسی کے آثار اور چھائی ہوئی مردنی سے انہیں شناخت کرلے گا فرشتے ان کی پیشانی کے بالوں اور پاؤں سے پکڑ کر انہیں گھسیٹتے ہوئے جہنم میں جا پھینکیں گے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فرشتے ان کی پیشانی اور قدموں کو اس طرح چلا دیں گے کہ ان کی ہڈی پسلی چور چور ہوجائے گی۔
١۔ یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْمٰہُمْ ۔۔۔ (٥٦) یعنی ان کے چہرے سیاہ ہوں گے ، جیسا کہ فرمایا (یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ ج) (آل عمران : ١٠٦) ” جس دن کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے “۔ آنکھیں نیلی ہوں گی ، جیسا کہ فرمایا :(وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَئِذٍ زُرْقًا ) طہٰ : ١٠٢) ” اور ہم مجرموں کو ان دن اس حال میں اکٹھا کریں گے کہ نیلی آنکھوں والے ہوں گے “۔ اور اعمال نامے پیٹھ کے پیچھے بائیں ہاتھ میں پکڑ رکھے ہوں گے ۔ دیکھئے سورة ٔ انشقاق (١٠) اور سورة ٔ حاقہ (٢٥) ۔- ٢۔ فَیُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِیْ وَالْاَقْدَامِ : یعنی ہر مجرم کو پیشانی کے بالوں اور قدموں سے پکڑ کر جہنم میں پھنک دیا جائے گا ۔
يُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِيْمٰهُمْ فَيُؤْخَذُ بالنَّوَاصِيْ وَالْاَقْدَامِ ، سیماء کے معنی علامت کے ہیں، حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ اس روز مجرمین جن کو جہنم میں ڈالنے کا فیصلہ ہوگا ان کی علامت یہ ہوگی کہ چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلگوں ہوں گی، رنج و غم سے چہرے فق ہوں گے، فرشتے اسی علامت کے ذریعہ ان کو پکڑیں گے۔- نواصی ناصیتہ کی جمع ہے پیشانی کے بالوں کو کہا جاتا ہے نواصی اور اقدام سے پکڑنے کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ کسی کو سر کے بال پکڑ کر گھسیٹا جائے گا، کسی کا ٹانگیں پکڑ کر یا کبھی اس طرح کبھی اس طرح گھسیٹا جائے گا اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ پیشانی کے بالوں اور ٹانگوں کو ایک جگہ جکڑ دیا جائے گا (کذا قالہ الضحاک، روح) واللہ اعلم
يُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِيْمٰہُمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِيْ وَالْاَقْدَامِ ٤١ ۚ- عرف - المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، - قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ- [يوسف 58] - ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان - کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛- فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔- جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة :- ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، - قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ، - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ - وسم - الوَسْمُ : التأثير، والسِّمَةُ : الأثرُ. يقال : وَسَمْتُ الشیءَ وَسْماً : إذا أثّرت فيه بِسِمَةٍ ، قال تعالی: سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ [ الفتح 29] ، وقال : تَعْرِفُهُمْ بِسِيماهُمْ [ البقرة 273] ، وقوله : إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ [ الحجر 75] ، أي : للمعتبرین العارفین المتّعظین، وهذا التَّوَسُّمُ هو الذي سمّاه قوم الزَّكانةَ ، وقوم الفراسة، وقوم الفطنة . قال عليه الصلاة والسلام : «اتّقوا فراسة المؤمن فإنّه ينظر بنور الله» وقال تعالی: سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ [ القلم 16] ، أي : نعلّمه بعلامة يعرف بها کقوله : تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ [ المطففین 24] ، والوَسْمِيُّ : ما يَسِمُ من المطر الأوّل بالنّبات .- ( وس م )- الوسم ( ض ) کے معنی نشان اور داغ لگانے کے ہیں اور سمۃ علامت اور نشان کو کہتے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ وسمت الشئی وسما میں نے اس پر نشان لگایا ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ [ القلم 16] ہم عنقریب اس کی ناک پر داغ لگائیں گے ؛ یعنی اس کی ناک پر ایسا نشان لگائیں گے جس سے اس کی پہچان ہو سکے گی ۔ جیسا کہ مو منین کے متعلق فرمایا : ۔ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ [ المطففین 24] تم ان کے چہروں ہی سے راحت کی تازگی معلوم کر لوگے ۔ سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ [ الفتح 29] کثرت سجود گے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ۔ تَعْرِفُهُمْ بِسِيماهُمْ [ البقرة 273] اور تم قیافے سے ان کو صاف پہچان لوگے ۔ التوسم کے معنی آثار وقرائن سے کسی چیز کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کر نا کے ہیں اور اسے علم ذکانت فراصت اور فطانت بھی کہا جاتا ہے حدیث میں یعنی مومن کی فراست سے ڈرتے رہو وہ خدا تعالیٰ کے عطا کئے ہوئے نور توفیق سے دیکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ [ الحجر 75] بیشک اس ( قصے ) میں اہل فراست کے لئے نشانیاں ہیں ۔ یعنی ان کے قصہ میں عبرت اور نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے بہت سے نشا نات ہیں الوسمی ۔ موسم بہار کی ابتدائی بارش کو کہتے ہیں - أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- نوص - ناص إلى كذا : التجأ إليه، وناص عنه : ارتدّ ، يَنُوصُ نَوْصاً ، والمناص : الملجأ . قال تعالی:- وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] .- ( ن وص ) ناص الیٰ کذا کے معنی کسي کے پاس پناہ لینے کے ہیں اور ناص عنہ ینوص نوصا کے معنی کسی کام سے پیچھے ہٹ جانا اور اس سے پھرجانا کے ہیں ۔ اور مناص جائے پناہ کو کہتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3]- نواصی - جمع ہے اس کا واحد ناصیۃ ہے۔ پیشانیاں، پیشانیوں کے بال - قدم ( پاؤں)- القَدَمُ : قَدَمُ الرّجل، وجمعه أَقْدَامٌ ، قال تعالی: وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدامَ [ الأنفال 11] ، وبه اعتبر التّقدم والتّأخّر، - ( ق د م ) القدم - انسان کا پاؤں جمع اقدام ۔ قرآن میں ہے : وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدامَ [ الأنفال 11]- اس سے تمہارے پاؤں جمائے رکھے ۔ اسی سے تقدم کا لفظ لیا گیا ہے جو کہ تاخر کی ضد ہے
(٤١۔ ٤٢) اور مجرم اپنے حلیہ سے پہچانے جائیں گے کیونکہ مشرکین کی سیاہ صورتیں اور نیکی آنکھیں ہوں گی سو ان کے سر کے بال اور پاؤں پکڑ لیے جائیں گے اور ان کو گھسیٹ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ سو اے جن و انس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔
آیت ٤١ یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْمٰہُمْ فَیُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِیْ وَالْاَقْدَامِ ۔ ” پہچان لیے جائیں گے مجرم اپنے چہروں سے ‘ پھر ان کو پکڑ اجائے گا پیشانی (کے بالوں) سے اور پائوں سے۔ “- اس دن مجرمین کے اترے ہوئے چہرے ہی ان کی پہچان ہوں گے۔ چناچہ فرشتے انہیں ٹانگوں اور پیشانی کے بالوں سے پکڑ پکڑ کر جہنم کی طرف اچھالتے جائیں گے۔