فکر آخرت اور انسان ابن شوذب اور عطا خراسانی فرماتے ہیں آیت ( وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ 46ۚ ) 55- الرحمن:46 ) حضرت صدیق اکبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، حضرت عطیہ بن قیس فرماتے ہیں یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس نے کہا تھا مجھے آگ میں جلا دینا تاکہ میں اللہ تعالیٰ کو ڈھونڈانے پر نہ ملوں یہ کلمہ کہنے کے بعد ایک رات ایک دن توبہ کی اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لی اور اسے جنت میں لے گیا ۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت عام ہے حضرت ابن عباس وغیرہ کا قول بھی یہی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے کا ڈر اپنے دل میں رکھتا ہے اور اپنے آپ کو نفس کی خواہشوں سے بچاتا ہے اور سرکشی نہیں کرتا زندگانی دنیا کے پیچھے پڑ کر آخرت سے غفلت نہیں کرتا بلکہ آخرت کی فکر زیادہ کرتا ہے اور اسے بہتر اور پائدار سمجھتا ہے فرائض بجا لاتا ہے محرمات سے رکتا ہے قیامت کے دن اسے ایک چھوڑ دو دو جنتیں ملیں گی ۔ صحیح بخاری میں ہے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ دو جنتیں چاندی کی ہوں گی اور ان کا تمام سامان بھی چاندی کا ہی ہو گا اور دو جنتیں سونے کی ہوں گی ان کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے سب سونے کا ہوگا ان جنتیوں میں اور دیدار باری میں کوئی چیز حائل نہ ہو گی سوائے اس کبریائی کے پردے کے جو اللہ عزوجل کے چہرے پر ہے یہ جنت عدن میں ہوں گے یہ حدیث صحاح کی اور کتابوں میں بھی ہے بجز ابو داؤد کے راوی حدیث حضرت حماد فرماتے ہیں میرے خیال میں تو یہ حدیث مرفوع ہے ۔ تفسیر ہے اللہ تعالیٰ کے فرمان آیت ( وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ 46ۚ ) 55- الرحمن:46 ) اور آیت ( وَمِنْ دُوْنِهِمَا جَنَّتٰنِ 62ۚ ) 55- الرحمن:62 ) کی ۔ سونے کی دو جنتیں مقربین کے لئے اور چاندی کی دو جنتیں یمین کے لئے ۔ حضرت ابو الدرداء فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اس آیت کی تلاوت کی تو میں نے کہا اگرچہ زنا اور چوری بھی اس سے ہو گئی ہو آپ نے پھر اسی آیت کی تلاوت کی میں نے پھر یہی کہا آپ نے پھر یہی آیت پڑھی میں نے پھر یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا اگرچہ ابو الدرداء کی ناک خاک آلود ہو جائے ۔ نسائی بعض سند سے یہ روایت موقوف بھی مروی ہے اور حضرت ابو الدرداء سے یہ بھی مروی ہے کہ جس دل میں اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف ہو گا ناممکن ہے کہ اس سے زنا ہو یا وہ چوری کرے یہ آیت عام ہے انسانوں اور جنات دونوں کو شامل ہے اور اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ جنوں میں بھی جو ایمان لائیں اور تقویٰ کریں وہ جنت میں جائیں گے اسی لئے جن وانس کو اس کے بعد خطاب کر کے فرماتا ہے کہ اب تم اپنے رب کی کس کس نعمت کی تکذیب کرو گے ؟ پھر ان دونوں جنتوں کے اوصاف بیان فرماتا ہے کہ یہ نہایت ہی سرسبز و شاداب ہیں بہترین اعلیٰ خوش ذائقہ عمدہ اور تیار پھل ہر قسم کے ان میں موجود ہیں ۔ تمہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ تم اپنے پروردگار کی کسی نعمت کا انکار کرو ۔ ( افنان ) شاخوں اور ڈالیوں کو کہتے ہیں یہ اپنی کثرت سے ایک دوسری سے ملی جلی ہوئی ہوں گی اور سایہ دار ہوں گی جن کا سایہ دیواروں پر بھی چڑھا ہوا ہو گا ، عکرمہ یہی معنی بیان کرتے ہیں اور عربی کے شعر کو اس پر دلیل میں وارد کرتے ہیں یہ شاخیں سیدھی اور پھیلی ہوئی رنگ برنگ کی ہوں گی ۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ ان میں طرح طرح کے میوے ہوں گے کشادہ اور گھنے سایہ والی ہوں گی ۔ یہ تمام اقوال صحیح ہیں اور ان میں کوئی منافاۃ نہیں یہ تمام اوصاف ان شاخوں میں ہوں گے حضرت اسماء سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سدرۃ المنتہی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا اس کی شاخوں کا سایہ اس قدر دراز ہے کہ سوار سو سال تک اس میں چلا جائے ۔ یا فرمایا کہ سو سوار اس کے تلے سایہ حاصل کرلیں ۔ سونے کی ٹڈیاں اس پر چھائی ہوئی تھیں اس کے پھل بڑے بڑے منکوں اور بڑی گول جتنے تھے ( ترمذی ) پھر ان میں نہریں بہہ رہی ہیں تاکہ ان درختوں اور شاخوں کو سیراب کرتی رہیں اور بکثرت اور عمدہ پھل لائیں ۔ اب تو تمہیں اپنے رب کی نعمتوں کی قدر کرنی چاہیے ایک کا نام تسنیم ہے دوسری کا سلسبیل ہے یہ دونوں نہریں پوری روانی کے ساتھ بہہ رہی ہیں ۔ ایک ستھرے پانی کی دوسری لذت والے بےنشے کے شراب کی ان میں ہر قسم کے پھلوں کے جوڑے بھی موجود ہیں اور پھل بھی وہ جن سے تم صورت شناس تو ہو لیکن لذت شناس نہیں ہو کیونکہ وہاں کی نعمتیں کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں نہ کسی دماغ میں آسکتی ہیں تمہیں رب کی نعمتوں کی ناشکری سے رک جانا چاہیے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں دنیا میں جتنے بھی کڑوے میٹھے پھل ہیں وہ سب جنت میں ہوں گے یہاں تک کہ حنظل یعنی اندرائن بھی ۔ ہاں دنیا کی ان چیزوں اور جنت کی ان چیزوں کے نام تو ملتے جلتے ہیں حقیقت اور لذت بالکل ہی جدا گانہ ہے یہاں تو صرف نام ہیں اصلیت تو جنت میں ہے اس فضیلت کا فرق وہاں جانے کے بعد ہی معلوم ہو سکتا ہے ۔
46۔ 1 جیسے حدیث میں آتا ہے دو باغ چاندی کے ہیں، جن میں برتن اور جو کچھ ان میں ہے، سب چاندی کے ہونگے۔ دو باغ سونے کے ہیں اور ان کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے سونے کے ہی ہونگے ( صحیح بخاری تفسیر رحمن) بعض آثار میں ہے کہ سونے کے باغ خواص مومنین مقربین اور چاندی کے باغ عام مومنین اصحاب الیمین کے لیے ہوں گے۔ (ابن کثیر)
[٣١] اس سورة کی اکثر آیات میں دو دو چیزوں کا ذکر آرہا ہے لہذا یہاں بھی دو باغات کا ذکر فرمایا : حالانکہ ہر جنتی کو کئی باغات ملیں گے۔ جیسا کہ بعض دوسری آیات سے واضح ہے۔ پھر تمام اہل جنت کے سارے باغوں کے مجموعہ کا نام بھی الجنۃ ہے۔ یعنی باغات کا مخصوص مقام۔ بہشت۔
١۔ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّـتٰنِ :” مقام “” قام یقوم قیاماً “ ( ن) سے ظرف بھی ہوسکتا ہے ،” کھڑا ہونے کی جگہ یا وقت “ اور مصدر میمی بھی ہوسکتا ہے ۔ ” کھڑا ہونا “ ۔ جہنم اور اہل جہنم کے تذکرے کے بعد اہل جنت کا ذکر فرمایا۔ ” مقام ربہ “ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں اور دونوں قرآن مجید کی آیات میں ملتے ہیں ، ایک یہ کہ جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس کے لیے دو باغ ہیں ۔ اس صورت میں ” مقام ربہ “ سے مراد بندے کا اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔ اس کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے ، فرمایا :( یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰـلَمِیْنَ ) ( المطففین : ٦)” جس دن لوگ رب العالمین کے لیے کھڑے ہوں گے “۔ دوسرا یہ کہ جو شخص اپنے رب کے ( اپنے اوپر ہر وقت ) قائم ( نگران ) ہونے سے ڈر گیا ۔ اس معنی کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے ، فرمایا :(اَفَمَنْ ہُوَ قَآئِمٌ عَلٰی کُلِّ نَفْسٍم بِمَا کَسَبَتْ ج ) ( الرعد : ٣٣)” تو کیا وہ جو ہر جان پر اس کا نگران ہے جو اس نے کمایا ( کوئی دوسرا اس کے برابر ہوسکتا ہے) ؟ “ آیت سے دونوں معنی بیک وقت مراد ہوسکتے ہیں اور یہ بھی قرآن مجید کا ایک کمال ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ متعدد معانی کا حامل ہے۔ یعنی جو شخص اس بات سے ڈر گیا کہ اس نے قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور اس بات سے بھی ڈرتا رہا کہ اس کا رب اس کی ہر چھوٹی بڑی حرکت کو دیکھ رہا ہے ، تو اس کے لیے دو باغ ہیں ۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ جنت کی وارثت کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے ، کیونکہ یہی وہ جوہر ہے جو انسان کو صراط مستقیم پر قائم رکھتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچاتا ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو موقع میسر ہونے پر انسان کو کوئی بھی چیز کسی بھی جرم کے ارتکاب سے نہیں روک سکتی اور جب یہ موجود ہو تو آدمی کے قدم مشکل سے مشکل مقام پر نہیں ڈگمگاتے۔ صحیح بخاری ( ٦٦٠) میں قیامت کے دن جن سات آدمیوں کو عرش کا سایہ ملنے کی بشارت دی گئی ہے ان سب کے اعمال میں اصل اللہ تعالیٰ کا ڈر ہی ہے اور اس کفن چور کی مغفرت کا باعث بھی اللہ کا ڈر تھا جس نے وصیت کی تھی کہ مجھے جلا کر میری کچھ راکھ کو ہوا میں اڑا دیا جائے اور کچھ کو پانی میں بہا دیا جائے۔ ( دیکھئے بخاری : ٣٤٥٢)” مقام ربہ “ کے لفظ میں خوف کے ساتھ محبت کا پہلو بھی نمایاں ہے کہ وہ کسی اجنبی یا ظالم سے نہیں ڈر رہا ، بلکہ اپنے مالک سے ڈر رہا ہے جس نے اسے پیدا کیا ، پھر ہر لمحے اس کی پرورش کر رہا ہے اور اس کی ہر ضرورت پوری کر رہا ہے۔- ٢۔ جنتن :” جنۃ “ کا اصل معنی باغ ہے۔ قرآن مجید میں کہیں یہ لفظ مفرد آیا ہے اور تمام اہل ایمان کے ایک ہی جنت میں داخلے کا ذکر ہے ، جیسا کہ فرمایا :(مَنْ عَمِلَ سَیِّئَۃً فَـلَا یُجْزٰٓی اِلَّا مِثْلَہَاج وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰـٓئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ یُرْزَقُوْنَ فِیْہَا بِغَیْرِ حِسَابٍ ) ( المومن : ٤٠)” اور جس نے کوئی نیک عمل کیا ، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہوا تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے ، اس میں بےحساب رزق دیئے جائیں گے “۔ اور کہیں جمع آیا ہے ، جیسا کہ فرمایا :(وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰـرُ ط) ( البقرہ : ٢٥)” اور ان لوگوں کو خوش خبری دے دے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے کہ ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے تلے نہریں بہتی ہیں ۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ اس بڑے باغ میں بیشمار باغات ہیں ، جن میں سے ہر مومن کو دو دو باغ عطاء کیے جائیں گے ، جن کا وہ مالک ہوگا ( لام تملیک کے لیے ہے) اور جن میں وہ سب کچھ ہوگا جس کا آگے ذکر ہو رہا ہے۔- ٣۔ ان آیات میں ہر اس شخص کو دو دو باغ ملنے کا ذکر ہے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا ۔ چند آیات کے بعد اور دو باغوں کا ذکر ہے ، فرمایا :(ومن دونھما جنتن) جس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان دونوں کے علاوہ بھی دو باغ ہیں اور یہ بھی کہ ان دونوں سے کم درجے والے بھی دو باغ ہیں ۔ دونوں آیات کو ملائیں تو مطلب یہ ہے کہ ان دونوں کے علاوہ دو اور باغ ہیں جو پہلے باغوں سے کم درجے کے ہیں ۔ تحقیق یہی ہے کہ پہلے دو باغ اعلیٰ ہیں جو مقربین کے لیے ہیں اور دوسرے دو باغ ان سے کم درجے والے ہیں جو اصحاب الیمین کے لیے ہیں ۔ سورة ٔ واقعہ میں بھی سابقین کو مقربین قرار دے کر انہیں ملنے والی نعمتوں کا پہلے الگ ذکر فرمایا ہے ، اس کے بعد اصحاب الیمین کا ذکر کر کے انہیں ملنے والی نعمتوں کا الگ ذکر فرمایا ، یہاں بھی ایسے ہی ہے ، تقریباً ہر نعمت میں دونوں کا فرق نمایاں ہے ، تفسیر میں اس فرق کی طرف اشارہ آرہا ہے۔ امام بخاری (رح) تعالیٰ نے صحیح بخاری میں یہ حدیث ذکر فرمائی ہے کہ عبد اللہ بن قیس ( ابو موسیٰ اشعری (رض) ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(جنتان من فضۃ ، انیتھما وما فیھما ، وجنتان من ذھب انیتھما وما فیھما وما بین القوم و بین ان ینظروا الی ربھم الا رداء الکبر علی وجھہ فی جنۃ عدن) (بخاری التفسیر ، باب قولہ، ( ومن دونھما جنتان): ٤٨٧٨) ” دو باغ ایسے ہیں جن کے برتن اور جو کچھ ان دونوں میں ہے چاندی کا ہے اور دو باغ ایسے ہیں جن کے برتن اور جو کچھ ان میں سے ہے سونے کا ہے۔ اور جنت عدن میں جنتیوں کے درمیان اور ان کے اپنے رب کو دیکھنے کے درمیان کبریائی کی چادر کے سوا کوئی رکاوٹ نہیں جو اس کے چہرے پر ہے “۔ صحیح بخاری میں اس کی سند اس طرح ہے :” حدثنا عبد اللہ بن ابی الاسود ، حدثنا عبد العزیز بن عبد الصمد العمی ، حدثنا ابو عمران الحونی عن ابی بکر بن عبد اللہ بن قیس عن ابیہ ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال ۔۔۔۔ “ فتح الباری (٨ ٦٢٤) میں ہے کہ اسی حدیث کو ابن مردویہ نے ( عبد العزیز کے بجائے) ” حماد عن ابی عمران “ بیان کیا ہے ، اس میں یہ لفظ ہیں (من ذھب للسابقین و من فضۃ للنابعین) یعنی سابقین کے لیے سونے والے اور تابعین کے لیے چاندی والے باغ ہوں گے۔ اور ابوبکر سے ثابت کی روایت میں یہ الفاظ ہیں :(من ذھب للمقربین ومن فتۃ لاصحاب الیمین) یعنی سونے والے باغ مقربین کے لیے اور چاندی والے اصحاب الیمین کے لیے ہیں ۔ اس حدیث کے طرق سے واضح ہے کہ پہلے دو باغ مقربین کے لیے ہیں اور دوسرے دو باغ اصحاب الیمین کے لیے ہیں۔
خلاصہ تفسیر - (ان آیتوں میں دو باغوں کا ذکر وَلِمَنْ خَافَ سے شروع ہوا ہے اور دو باغوں کا ذکر وَمِنْ دُوْنِهِمَا سے پہلے دو باغ خواص مقربین کے ہیں اور پچھلے دو باغ عامہ مومنین کے لئے، دلائل اس تعیین و تقسیم کے آگے لکھ دیئے جاویں گے، یہاں صرف تفسیر لکھی جاتی ہے، پچھلی آیات میں مجرمین کی سزاؤں کا ذکر تھا، یہاں سے مومنین صالحین کی جزا کا ذکر شروع ہوتا ہے) اور (اہل جنت کا حال یہ ہے کہ ان میں دو قسم ہیں، خواص اور عوام پس) جو شخص (خواص میں سے ہو اور) اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے (ہر وقت) ڈرتا رہتا ہو (اور ڈر کر شہوات و معاصی سے مجتنب رہتا ہو اور یہ شان خواص ہی کی ہے، کیونکہ عوام پر تو گاہ گاہ خوف طاری ہوجاتا ہے اور کبھی ان سے معاصی بھی سر زد ہوجاتے ہیں گو توبہ کرلیں، غرض جو شخص ایسا متقی ہو) اس کے لئے (جنت میں) دو باغ ہوں گے (یعنی ہر متقی کے لئے دو باغ اور غالباً اس تعدد میں حکمت ان کے تکرم اور تنعم کا اظہار ہوگا جس طرح دنیا میں اہل تنعم کے پاس اکثر چیزیں منقولات و غیر منقولات میں سے متعدد ہوتی ہیں) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (اور وہ) دونوں باغ کثیر شاخوں والے ہوں گے (اس میں سایہ کی گنجانی اور ثمرات کی کثرت کی طرف اشارہ ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (اور) ان دونوں باغوں میں دو چشمے ہوں گے کہ (دور تک) بہتے چلے جاویں گے سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (اور) ان دو باغوں میں ہر میوہ کی دو قسمیں ہوں گی (کہ اس میں زیادہ تلذذ ہے، کبھی ایک قسم کا مزہ لے لیا کبھی دوسری قسم کا) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (اور) وہ لوگ تکیہ لگائے ایسے فرشوں پر بیٹھے ہوں گے جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے (اور قاعدہ ہے کہ اوپر کا کپڑا بہ نسبت استر کے زیادہ نفیس ہوتا ہے، پس جب استر استبرق ہوگا تو اوپر کا کیسا کچھ ہوگا) اور ان دونوں باغوں کا پھل بہت نزدیک ہوگا (کہ کھڑے، بیٹھے، لیٹے ہر طرح بلا مشقت ہاتھ آسکتا ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (اور) ان (باغوں کے مکانات اور محلات) میں نیچی نگاہ والیاں (یعنی حوریں) ہوں گی کہ ان (جنتی) لوگوں سے پہلے ان پر نہ تو کسی آدمی نے تصرف کیا ہوگا اور نہ کسی جن نے (یعنی بالکل محفوظ و غیر مستعمل ہوں گی) سو اے جن وانس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (اور رنگت اس قدر صاف و شفاف ہوگی کہ) گویا وہ یا قوت اور مرجان ہیں (اور ممکن ہے کہ تشبیہ سرخی میں بھی ہو اور تعدد مشبہ بہ کا غالباً اہتمام کیلئے ہے) سو اے جن وانس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (آگے مضمون مذکور کی تقریر و تاکید ہے کہ) بھلا غایت اطاعت کا بدلہ بجز غایت عنایت کے کچھ اور بھی ہوسکتا ہے (انہوں نے غایت اطاعت کی، اس لئے صلہ میں غایت عنایت کے مورد ہوئے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (یہ تو خواص کے باغوں کی صفت مذکور ہوئی) اور (آگے عامہ مؤمنین کے باغوں کا ذکر ہے یعنی) ان (مذکورہ) دونوں باغوں سے کم درجہ میں دو باغ اور ہیں (جو عامہ مؤمنین کے لئے ہیں اور ہر ایک کو دو دو ملیں گے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (اور آگے ان باغوں کی صفت ہے کہ) وہ دونوں باغ گہرے سبز ہوں گے سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے، ان دونوں باغوں میں دو چشمے ہوں گے کہ جوش مارتے ہوں گے سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (جوش مارنا بوجہ اس کے کہ چشمہ کے لوازم میں سے ہے اوپر کے چشموں میں بھی یہ صفت مشترک ہے اور وہاں تجرین بھی ہے اور یہاں نہیں پس یہ قرینہ ہے اس کا کہ یہ چشمے صفت جریان میں پہلے دو چشموں سے کم ہیں اور یہ باغ ان باغوں سے کم ہیں اور) ان دونوں باغوں میں میوے اور کجھوریں اور انار ہوں گے سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (یہاں مطلق فاکہہ اور پھر تفصیل میں نخل ورمان پر اکتفا فرمانا اور وہاں لفظ کل سے ہر قسم کے فواکہ کی تصریح اور پھر لفظ زوجان سے ان کے متعدد ہونے کا ذکر جس سے فواکہ کی کثرت معلوم ہوتی ہے، یہ سب قرائن اس کے ہیں کہ جنتین اولین ان اخریین سے افضل و اعلے ہیں اور) ان (باغوں کے مکانات) میں خوب سیرت خوب صورت عورتیں ہوں گی (یعنی حوریں) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے، وہ عورتیں گوری رنگت والی ہوں گی (اور) خیموں میں محفوظ ہوں گی سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (اور) ان (جنتی) لوگوں سے پہلے ان پر نہ تو کسی آدمی نے تصرف کیا ہوگا اور نہ کسی جن نے (یعنی غیر مستعمل ہوں گی) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (وہاں یا قوت و مرجان سے تشبیہ دینا جو کہ مفید مبالغہ ہے اور یہاں صرف حسان پر اکتفا فرمانا نیز قرینہ ہے کہ پہلے دو باغ دوسرے دو باغوں سے افضل ہیں اور یہاں کے سب صفات وہاں صراحۃً یا اشارةً مذکور ہیں مثلاً خوش سیرت ہونا، قصرت الطرف سے مفہوم ہوتا ہے، حور ہونا قرینہ مقام سے معلوم ہوتا ہے مقصورات سے زیادہ عصمت و عفت پر لفظ قصرت الطرف دلالت کرتا ہے، کہ جو ایسی ہوں گی وہ ضرور ہی گھر میں رہیں گی اور) وہ لوگ سبز مشجر اور عجیب خوبصورت کپڑوں (کے فرشوں) پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے، سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دو باغوں کے فرش بہ نسبت پہلے دو باغوں کے کم درجہ کے ہوں گے، کیونکہ وہاں تصریح ہے ریشمی ہونے کی، پھر دوہرے ہونے کی اور یہاں نہیں ہے آگے خاتمہ میں حق تعالیٰ کی ثنا و صفت ہے جس میں ان تمام مضامین کی جو سورة رحمن میں مفصل بیان ہوئے ہیں تائید و تاکید ہے کہ) بڑا بابرکت نام ہے آپ کے رب کا جو عظمت والا اور احسان والا ہے (نام سے مراد صفات ہیں جو کہ ذات کے غیر نہیں، پس حاصل جملہ کا ثنا ہوئی کمال ذات وصفات کے ساتھ اور شاید لفظ اسم بڑھانے سے مقصود مبالغہ ہو کہ مسمی تو کیسا کامل اور بابرکت ہوگا اس کا تو اسم بھی مبارک اور کامل ہے )- معارف و مسائل - جس طرح سابقہ آیات میں مجرمین کی سخت سزاؤں کا ذکر تھا ان آیات میں ان کے بالمقابل مؤمنین صالحین کی عمدہ جزاؤں اور نعمتوں کا بیان ہے جن میں اہل جنت کے پہلے دو باغوں کا ذکر اور ان میں جو نعمتیں ہیں ان کا بیان ہے، اس کے بعد دوسرے دو باغوں کا اور ان میں مہیا کی ہوئی نعمتوں کا ذکر ہے۔- پہلے دو باغ جن حضرات کے لئے مخصوص ہیں ان کو تو متعین کر کے بتلا دیا ہے (وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ ) یعنی ان دو باغوں کے مستحق وہ لوگ ہیں جو ہر وقت ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے سامنے قیامت کے روز کی پیشی اور حساب و کتاب سے ڈرتے رہتے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ کسی گناہ کے پاس نہیں جاتے، ظاہر ہے کہ ایسے لوگ سابقین اور مقربین خاص ہی ہو سکتے ہیں۔- دوسرے دو باغوں کے مستحق کون ہوں گے اس کی تصریح آیات مذکورہ میں نہیں کی گئی، مگر یہ بتلا دیا گیا ہے کہ یہ دونوں باغ پہلے دو باغوں کی نسبت کم درجہ کے ہوں گے (وَمِنْ دُوْنِهِمَا جَنَّتٰنِ ) یعنی پہلے دو باغوں سے کمتر اور دو باغ ہیں، اس سے بقرینہ مقام معلوم ہوگیا کہ ان دو باغوں کے مستحق عام مؤمنین ہوں گے جو مقربین خاص سے درجہ میں کم ہیں۔- پہلے اور دوسرے دو باغوں کی تفسیر میں حضرات مفسرین نے اور بھی توجیہات بیان فرمائی ہیں، یہاں جو تفسیر اختیار کی گئی ہے کہ پہلے دو باغ سابقین اولین اور مقربین خاص کے لئے ہیں اور دوسرے دو باغ عامہ مؤمنین کے لئے اور یہ کہ یہ دوسرے دو باغ پہلے دو باغوں سے درجہ میں کم ہیں، روایات حدیث سے یہی تفسیر راجح معلوم ہوتی ہے جیسا کہ بیان القرآن میں بحوالہ در منثور یہ حدیث مرفوع نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ اور وَمِنْ دُوْنِهِمَا جَنَّتٰنِ کی تفسیر میں فرمایا جنتان من ذھب للمقربین و جنتان من ورق لاصحب الیمین " یعنی دو باغ سونے کے بنے ہوئے ہیں مقربین کے لئے اور دو باغ چاندی کے اصحاب الیمین یعنی عام مؤمنین صالحین کے لئے " نیز در منثور میں حضرت براء بن عازب سے موقوفاً یہ روایت کیا ہے العینان التی تجریان خیر من النضاختن، یعنی پہلے دو باغوں کے دو چشمے جن کے بارے میں تجریان فرمایا ہے وہ بہتر ہیں دوسرے دو باغوں کے چشموں سے جن کے متعلق نضاختان فرمایا ہے، کیونکہ نضاختان کے معنی ہیں ابلنے والے دو چشمے، تو یہ صفت ہر چشمہ میں ہوتی ہے لیکن جن کو تجریان کے عنوان سے بیان کیا ہے، ان میں ابلنے کے علاوہ دور تک سطح زمین پر جاری رہنے کی صفت مزید ہے۔- یہ اجمالی بیان تھا ان چار چشموں کا جو اہل جنت کو ملیں گے، اب الفاظ آیات کے ساتھ ان کے معانی کو دیکھئے۔ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ ، مقام رب سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک قیامت کے روز حق تعالیٰ کے سامنے حساب کے لئے پیشی ہے اور اس سے خوف کے معنی یہ ہیں کہ جلوت و خلوت میں اور ظاہر و باطن کے تمام احوال میں اس کو یہ مراقبہ دائمی رہتا ہو کہ مجھے ایک روز حق تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا اور اعمال کا حساب دینا ہے اور ظاہر ہے جس کو ایسا مراقبہ ہمیشہ رہتا ہو وہ گناہ کے پاس نہیں جائے گا۔- اور قرطبی وغیرہ بعض حضرات مفسرین نے مقام ربہ کی یہ تفسیر بھی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ہر قول و فعل اور خفیہ و علانیہ عمل پر نگراں اور قائم ہے، ہماری ہر حرکت اس کے سامنے ہے، حاصل اس کا بھی وہی ہوگا کہ حق تعالیٰ کا یہ مراقبہ اس کو گناہوں سے بچا دے گا۔
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ ٤٦ - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - مَقامُ- والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] ، ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم 14] ، وَلِمَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ [ الرحمن 46] ، وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهِيمَ مُصَلًّى [ البقرة 125] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ مَقامُ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 97] ، وقوله : وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] ، إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ [ الدخان 51] ، خَيْرٌ مَقاماً وَأَحْسَنُ نَدِيًّا [ مریم 73] ، وقال : وَما مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقامٌ مَعْلُومٌ [ الصافات 164] ، وقال : أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل 39] قال الأخفش : في قوله قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل 39] : إنّ المَقَامَ المقعد، فهذا إن أراد أنّ المقام والمقعد بالذّات شيء واحد، وإنما يختلفان بنسبته إلى الفاعل کالصّعود والحدور فصحیح، وإن أراد أنّ معنی المقام معنی المقعد فذلک بعید، فإنه يسمی المکان الواحد مرّة مقاما إذا اعتبر بقیامه، ومقعدا إذا اعتبر بقعوده، وقیل : المَقَامَةُ : الجماعة، قال الشاعر : 379-- وفيهم مَقَامَاتٌ حسان وجوههم - «1» وإنما ذلک في الحقیقة اسم للمکان وإن جعل اسما لأصحابه . نحو قول الشاعر :- 380-- واستبّ بعدک يا كليب المجلس فسمّى المستبّين المجلس .- المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم 14] اس شخص کے لئے ہے جو قیامت کے روز میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے ۔ وَلِمَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ [ الرحمن 46] اور جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا ۔ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهِيمَ مُصَلًّى [ البقرة 125] کی جگہ بنا لو ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ مَقامُ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراھیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ [ الدخان 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ خَيْرٌ مَقاماً وَأَحْسَنُ نَدِيًّا [ مریم 73] مکان کس کے اچھے اور مجلس کس کی بہتر ہیں ۔ وَما مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقامٌ مَعْلُومٌ [ الصافات 164] ہم میں سے ہر ایک کا ایک مقرر مقام ہے اور آیت کریمہ : ۔ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل 39] قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں میں اس کو آپ کے پاس حاضر کرتا ہوں ۔ کی تفسیر میں اخفش نے کہا ہے کہ یہاں مقام بمعنی مقعد یعنی نشستگاہ کے ہیں اگر اخفش کا مقصد اس سے یہ ہے کہ مقام اور مقصد بالزات ایک ہی چیز کے دو نام ہیں صرف نسبت ( لی ) الفاعل کے لحاظ سے دونوں میں فرق پایا جاتا ( یعنی ایک ہی جگہ کو کسی شخص کے ہاں اور بیٹھنے کے اعتبار سے مقعد کہا جاتا ہے جس طرح کہ صعود اور حدور کے الفاظ ہیں ( کہ ایک ہی جگہ کو اوپر چڑھنے کے لحاظ سے صعود اور اس سے نیچے اترنے کے لحاظ سے حدود کہا جاتا ہے ) تو بجا ہے اور اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ لغت میں مقام بمعنی نے المقامتہ کے معنی جماعت بھی کئے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 322 ) ونیھم مقامات حسان وجوھم اور ان میں خوڈ لوگوں کی جماعتیں ہیں مگر یہ بھی دراصل ظرف مکان ہے اگرچہ ( مجازا ) اصھاب مقام مراد ہیں جس طرح کہ ا ( الکامل ) ؎( 327 ) واستب بعدک یاکلیب المجلس اے کلیب تیرے بعد لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگے ہیں ۔ میں مجلس سے اہل مجلس مراد ہیں ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔
اور جو شخص ہر وقت اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا رہتا ہو اور نافرمانیوں اور گناہوں سے اجتناب کرتا ہو اس کے لیے جنت میں دو باغ ہوں گے ایک جنت العدن اور دوسری جنت الفردوس۔- شان نزول : وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ (الخ)- ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے کتاب العظہ میں عطاء سے روایت کیا ہے کہ ایک روز حضرت ابوبکر صدیق نے قیامت، میزان، عمل اور جنت و دوزخ کا ذکر کیا پھر فرمایا کہ میری تمنا اور خواہش تو یہ ہے کہ میں ان سبزیوں میں سے کوئی سبزی ہوتا۔ جانور آتا اور مجھے کھا جاتا تو پیدا ہی نہ کیا گیا ہوتا اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔
آیت ٤٦ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ ۔ ” اور جو کوئی اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔ “- اہل جنت کی صفت یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ دنیا میں اپنے رب کے حضور پیشی سے لرزاں و ترساں رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا جادئہ مستقیم پر قائم رکھنے والی واحد چیز یہی اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی کا خوف ہے۔- دو جنتوں کے بارے میں مفسرین نے مختلف آراء نقل کی ہیں ‘ تاہم دو جنتوں کی توجیہہ جو میری سمجھ میں آئی ہے اور مجھے اپنی اس رائے پر اطمینان اور انشراح ہے کہ یہ انسانوں اور جنوں کے لیے الگ الگ جنتوں کا بیان ہے۔ چونکہ اس سورت میں خطاب بھی مسلسل ان دونوں سے ہے اور جہنم کی وعید بھی دونوں گروہوں کو دی گئی ہے ‘ اس لیے جنت کی نوید بھی دونوں کے لیے ہونی چاہیے تھی۔ اب چونکہ انسانوں اور جنوں کا مادئہ تخلیق اور ان کی فطرتیں الگ الگ ہونے کی وجہ سے ان کی ضرورتیں ‘ پسند و ناپسند ‘ رنج و غم کے معیار ‘ راحت و سکون کے پیمانے اور کیف و سرور کے انداز ‘ سب کچھ ہی ایک دوسرے سے مختلف اور جدا ہیں ‘ اس لیے ظاہر ہے جنت میں بھی ان کے لیے الگ الگ ماحول کی ضرورت تھی۔ چناچہ میرے خیال میں یہی وجہ ہے کہ یہاں ان دونوں گروہوں کے لیے الگ الگ جنتوں کا ذکر ہوا ہے۔ اس حوالے سے یہ نکتہ بھی مدنظر رہے کہ آیت زیر مطالعہ میں جن دو جنتوں کا ذکر ہوا ہے وہ نچلے درجے کی جنتیں ہیں ‘ جبکہ آگے چل کر آیت ٦٢ میں جن دو جنتوں کا ذکر ہوا ہے وہ اونچے درجے کی جنتیں ہیں۔ گویا اس سورت میں کل چار جنتوں کا ذکر ہوا ہے ۔ ہر گروہ کے لیے دو جنتیں ہوں گی ‘ ان میں سے ایک جنت نچلے درجے میں ہوگی اور دوسری نسبتاً برتر درجے میں۔
سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :40 یعنی جس نے دنیا میں خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کی ہو ، جسے ہمیشہ یہ احساس رہا ہو کہ میں دنیا میں شتر بے مہار بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہوں ، بلکہ ایک روز مجھے اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ۔ یہ عقیدہ جس شخص کا ہو وہ لامحالہ خواہشات نفس کی بندگی سے بچے گا اندھا دھند ہر راستے پر نہ چل کھڑا ہو گا ۔ حق و باطل ، ظلم و انصاف ، پاک و ناپاک اور حلال و حرام میں تمیز کرے گا ۔ اور جان بوجھ کر خدا کے احکام کی پیروی سے منہ نہ موڑے گا ۔ یہی اس جزا کی اصل علّت ہے جو آگے بیان کی جا رہی ہے ۔ سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :41 جنت کے اصل معنی باغ کے ہیں ۔ قرآن مجید میں کہیں تو اس پورے عالم کو جس میں نیک لوگ رکھے جائیں گے جنت کہا گیا ہے ، گویا کہ وہ پورا کا پورا ایک باغ ہے ۔ اور کہیں فرمایا گیا ہے کہ ان کے لیے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس بڑے باغ میں بے شمار باغات ہوں گے ۔ اور یہاں تعین کے ساتھ ارشاد ہوا ہے کہ ہر نیک شخص کو اس بڑی جنت میں دو دو جنتیں دی جائیں گی جو اسی کے لیے مخصوص ہوں گی ، جن میں اس کے اپنے قصر ہوں گے ، جن میں وہ اپنے متعلقین اور خدام کے ساتھ شاہانہ ٹھاٹھ کے ساتھ رہے گا ، جن میں اس کے لیے وہ کچھ سرو سامان فراہم ہوگا جس کا ذکر آگے آ رہا ہے ۔