Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

48۔ 1 یہ اشارہ ہے اس طرف کہ اس میں سایہ گنجان اور گہرا ہوگا، نیز پھلوں کی کثرت ہوگی، کیونکہ کہتے ہیں ہر شاخ ٹہنی پھلوں سے لدی ہوگی (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٢] افنان۔ فن کی جمع ہے یعنی بہت بڑا اور لمبا ٹہنا یعنی ان دو باغوں کے جتنے درخت ہوں گے ان سب کے دو بڑے بڑے ٹہنے ہوں گے۔ پھر ان ٹہنوں کی چھوٹی چھوٹی ٹہنیاں نکلیں گی۔ اس آیت میں اللہ کی اس قدرت کا اظہار ہے کہ ان باغوں کے درختوں کی نشوونما میں ایک دوسرے سے پوری طرح یکسانیت اور ہم آہنگی ہوگی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ذَوَاتَآ اَفْنَانٍ ” افنان “ ” فنن “ کی جمع ہے ، سیدھی لمبی شاخ اور ” فن “ کی جمع بھی ہے جس کا معنی نوع ہے ۔ بہت شاخوں والے سے مراد شاخوں ، پتوں اور پھلوں کی کثرت ہے ، ورنہ باغوں کی ٹہنیاں تو ہوتی ہی ہیں اور اگر ” افنک “ ’ فن “ کی جمع ہو تو مطلب یہ ہے کہ وہ دونوں باغ بہت سی قسموں کے پودوں اور درختوں والے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ذَوَاتَآ اَفْنَانٍ ، یہ پہلے دو باغوں کی صف ہے کہ بہت شاخوں والے ہوں گے، جس کا یہ اثر لازمی ہے کہ ان کا سایہ بھی گھنا ہوگا اور پھل بھی زیادہ ہوگا، دوسرے دو باغ جن کا ذکر آ گے آتا ہے ان میں یہ صفت مذکور نہیں، جس سے اس معاملہ میں ان کی کمی کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ذَوَاتَآ اَفْنَانٍ۝ ٤٨ ۚ- ذواتا افنان : ذواتا ذات کا تثنیہ بحالت رفع ہے۔ والیاں ۔ صاحب - ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ ذَوَاتَآ اَفْنَانٍ ۔ ” دونوں بہت سی شاخوں والی ہوں گی۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani