Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

56۔ 1 جن کی نگاہیں اپنے خاوندوں کے علاوہ کسی پر نہیں پڑیں گی اور ان کے اپنے خاوند ہی سب سے زیادہ حسین اور اچھے معلوم ہونگے۔ 56۔ 2 یعنی باکرہ اور نئی نویلی ہوں گی۔ اس سے قبل وہ کسی کے نکاح میں نہیں رہی ہونگی۔ یہ آیت اور اس سے ماقبل کی بعض آیات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جو جن مومن ہونگے وہ بھی مومن انسانوں کی طرح جنت میں جائیں گے اور ان کے لیے بھی وہی کچھ ہوگا جو دیگر اہل ایمان کے لیے ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٦] ان جنت کی عورتوں کی اولین اور اہم صفت یہ ہوگی کہ وہ شرمیلی اور حیادار ہوں گی اپنے شوہروں کے سوا کسی دوسرے کو دیکھنے کی کوشش نہ کریں گی۔ انتہائی خوبصورت ہونے کے باوجود دنیا کی عورتوں کی طرح اپنے چاہنے والوں سے آنکھیں ہی آنکھوں میں اشارے کرنے والے نہیں ہوں گی۔ اور ان کی دوسری صفت یہ ہوگی کہ وہ باکرہ یا کنواری ہوں گی۔ اہل جنت کو حوروں کے علاوہ جو عورتیں ملیں گی وہ وہی ہوں گی جو اس دنیا میں ان کی بیویاں تھیں۔ اگر وہ اس دنیا میں صاحب اولاد تھیں یا بوڑھی ہوچکی تھیں۔ تب بھی انہیں نوخیز اور کنواری بنا کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنوں میں بھی توالد و تناسل کا سلسلہ موجود ہے۔ اور مومن جن جو جنت میں داخل ہوں گے ان کو بھی نوخیز اور کنواری بنا کر ہی ان کی دنیا کی بیویاں عطا کی جائیں گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ فِیْہِنَّ قٰـصِرٰتُ الطَّرْفِ :” فیھن “ کی ضمیر ” فرش “ کی طرف جا رہی ہے۔” قصرت “ قصر قیصرقصرا “ (روکنا ) سے اسم فاعل ہے ، آنکھوں کو خاوند پر روک کر رکھنے والیاں ۔ جنت کے محلوں ، چشموں اور باغوں میں بچھے ہوئے بستروں میں جنتیوں کے دل لگانے والی عورتوں کے ظاہری و باطنی اوصاف اور ان کے کمال و جمال کا بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کا معنوی حسن بیان فرمایا کہ ان کی آنکھیں خاوندوں کے سوا کسی اور کی طرف نہیں اٹھیں گے اور نہ ہی ان کی نگاہ میں ان کی خاوندوں سے بڑھ کر کوئی ہوگا ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک وصف ہی ہزاروں اوصاف پر بھاری ہے ، کوئی عورت کتنی ہی حسین و جمیل ہو، اس وصف سے عاری ہو تو مرد غیور کی نگاہ میں اس کی کچھ قدر و قیمت نہیں رہتی ۔ عرب کا ایک شاعر کہتا ہے ؎- واترک حبھا من غیر بغض وذاک لکثۃ الشرکاء فیہ - اذا وفع الذباب علی طعام رفعت یدی و نفسی تشتھیہ - وتجتنب الاسود ورود ما اذا کان الکلاب ولغن فیہ - ” میں اس کی محبت کسی بغض کے بغیر ترک کر رہا ہوں ، کیونکہ اس محبت میں اور بھی کئی شریک ہیں ۔ جب مکھی کھانے پر آگرے تو میں اپنا ہاتھ اٹھا لیتا ہوں ، حالانکہ میرا دل اسے چاہ رہا ہوتا ہے۔ اور شیر پانی پر آنے سے اجتناب کرتے ہیں ، جب کتوں نے اس میں منہ ڈال دیا ہو “۔- ٢۔ لَمْ یَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَآنٌّ :” طمث یطمث طمثاً “ (ض) چھونا۔ یعنی وہ عورتیں کنواری ہوں گی ، اگر دنیا میں خاوندوں کے پاس رہی ہوں گی تب بھی جنت میں آکر نئے سرے سے کنواری ہوجائیں گی اور جنت میں ملنے والے خاوندوں سے پہلے کسی نے انہیں چھوا تک نہ ہوگا ۔ اصحاب الیمین کو ملنے والی عورتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(اِنَّـآ اَنْشَاْنٰـہُنَّ اِنْشَآئً فَجَعَلْنٰـہُنَّ اَبْکَارًا عُرُبًا اَتْرَابًا لِّاَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ ) (الواقعہ : ٣٥ تا ٣٨)” بلا شبہ ہم نے ان (بستروں والی عورتوں) کو پیدا کیا ، نئے سرے سے پیدا کرنا ۔ پس ہم نے انہیں کنواریاں بنادیا ۔ جو خاوندوں کی محبوب ، ان کی ہم عمر ہیں ۔ دائیں ہاتھ والوں کے لیے ۔ “ پھر مقربین کو ملنے والی بیویوں کا معاملہ تو ان سے کہیں بڑھ کر ہوگا ۔- ٣۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ انسانوں کی طرح جن بھی جنت میں جائیں گے ، وہاں انسانوں کو ان کی جنس سے بیویاں ملیں گی اور جنوں کو ان کی جنس سے ، کیونکہ دوسری جنس سے نہ موافقت ہوتی ہے نہ انس ، پھر ” اتراباً “ ( مٹی میں کھیلنے والے ہم جولی) ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

لَمْ يَطْمِثْهُنَّ اِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَاۗنٌّ، لفظ طمث کئی معنی کے لئے استعمال ہوتا ہے، حیض کے خون کو طمث کہتے ہیں اور حائضہ عورت کو طامث کہا جاتا ہے اور کنواری لڑکی سے مباشرت کو بھی طمث کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس جگہ یہی معنی مراد ہیں اور اس میں جو اس کی نفی کی گئی ہے کہ جن اہل جنت کے لئے یہ حوریں مقرر ہیں ان سے پہلے ان کو کسی انسان یا جن نے مس نہیں کیا ہوگا، اس کا مفہوم وہ بھی ہوسکتا ہے جو خلاصہ تفسیر میں بیان ہوا ہے کہ جو حوریں انسانوں کے لئے مقرر ہیں ان کو کسی انسان نے اور جو مومنین جنات کے لئے مقرر ہیں ان کو کسی جن نے ان سے پہلے مس نہیں کیا ہوگا اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ جیسے دنیا میں انسانی عورتوں پر کبھی جنات بھی مسلط ہوجاتے ہیں وہاں اس کا بھی کوئی امکان نہیں ہوگا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فِيْہِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ۝ ٠ ۙ لَمْ يَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَاۗنٌّ۝ ٥٦ ۚ- قصر - القِصَرُ : خلاف الطّول، وهما من الأسماء المتضایفة التي تعتبر بغیرها، وقَصَرْتُ كذا :- جعلته قَصِيراً ، والتَّقْصِيرُ : اسم للتّضجیع، وقَصَرْتُ كذا : ضممت بعضه إلى بعض، ومنه سمّي الْقَصْرُ ، وجمعه : قُصُورٌ. قال تعالی: وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج 45] ، وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان 10] ، إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات 32] ، وقیل : الْقَصْرُ أصول الشّجر، الواحدة قَصْرَةٌ ، مثل : جمرة وجمر، وتشبيهها بالقصر کتشبيه ذلک في قوله : كأنّه جمالات صفر [ المرسلات 33] ، وقَصَرْتُه جعلته : في قصر، ومنه قوله تعالی:- حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن 72] ، وقَصَرَ الصلاةَ : جعلها قَصِيرَةً بترک بعض أركانها ترخیصا . قال : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء 101] وقَصَرْتُ اللّقحة علی فرسي : حبست درّها عليه، وقَصَرَ السّهمِ عن الهدف، أي : لم يبلغه، وامرأة قاصِرَةُ الطَّرْفِ : لا تمدّ طرفها إلى ما لا يجوز . قال تعالی: فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن 56] . وقَصَّرَ شعره : جزّ بعضه، قال : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح 27] ، وقَصَّرَ في كذا، أي : توانی، وقَصَّرَ عنه لم : ينله، وأَقْصَرَ عنه : كفّ مع القدرة عليه، واقْتَصَرَ علی كذا : اکتفی بالشیء الْقَصِيرِ منه، أي : القلیل، وأَقْصَرَتِ الشاة : أسنّت حتی قَصَرَ أطراف أسنانها، وأَقْصَرَتِ المرأة : ولدت أولادا قِصَاراً ، والتِّقْصَارُ : قلادة قَصِيرَةٌ ، والْقَوْصَرَةُ معروفة «1» .- ( ق ص ر ) القصر یہ طول کی ضد ہے اور یہ دونوں اسمائے نسبتی سے ہیں جو ایک دوسرے پر قیاس کے ذریعہ سمجھے جاتے ہیں ۔ قصرت کذا کے معنی کسی چیز کو کوتاہ کرنے کے ۔ ہیں اور تقصیر کے معنی اور سستی کے ہیں اور قصرت کذا کے معنی سکیٹر نے اور کسی چیز کے بعض اجزاء کو بعض کے ساتھ ملانا کے بھی آتے ہیں ۔ اسی سے قصر بمعنی محل ہے اس کی جمع قصور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج 45] اور بہت سے محل : ۔ وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان 10] نیز تمہارے لئے محل بنادے گا ۔ إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات 32] اس سے آگ کی اتنی ( بڑی بڑی ) چنگاریاں اٹھتی ہیں ۔ جیسے محل ۔ بعض نے کہا ہے کہ قصر جمع ہے اور اس کے معنی درخت کی جڑوں کے ہیں ۔ اس کا واحد قصرۃ ہے جیسے جمرۃ وجمر اور ان شراروں کو قصر کے ساتھ تشبیہ دینا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ان کا ۔ كأنّه جمالات صفر [ المرسلات 33] گویا زور درنگ کے اونٹ ہیں ۔ کہا ہے کہ اور قصرتہ کے معنی محل میں داخل کرنے کے ہیں اور اسی سے ارشاد الہٰی ہے ۔ حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن 72] وہ حوریں ہیں جو خیموں میں ستور ہیں ۔- قصرالصلٰوۃ - بموجب رخصت شرعی کے نماز کے بعض ارکان کو ترک کرکے اسے کم کرکے پڑھنا ۔ قرآن پاک میں ہے : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء 101] تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کے پڑھو ۔ قصرت اللقحتہ علٰی فرسی اونٹنی کا دودھ اپنی گھوڑی کے لئے مخصوص کردیا قصرالسھم عن الھدف ۔ تیر کا نشانے تک نہ پہنچنا ۔ امراءۃ قاصرۃ الطرف وہ عورت ناجائز نظر اٹھا کے نہ دیکھے ۔ قرآن پاک میں ہے : فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن 56] ان میں نیچی نگاہ والی عورتیں ۔ قصری شعرہ بال کتروانا قرآن پاک میں ہے : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح 27] اپنے سر منڈاوا کر اور بال کتروا کر ۔ قصرفی کذا : کسی کام میں سستی کرنا قصر عنہ کسی کام کے کرنے سے عاجز ہونا ۔ اقصرت عنہ ۔ باوجود قدرت کے کسی کام کرنے سے باز رہنا ۔ اقتصر علیٰ کذا تھوڑی چپز پر صبر کرنا ۔ اقتصرت الشاۃ بوڑھا ہونے کی وجہ سے بکری کے دانتوں کا کوتاہ ہوجانا ۔ اقصرت المرءۃ چھوٹی قد اولاد جننا تقصار چھوٹا سا رہا ۔ القوصرہ کھجور ڈالنے زنبیل جو کھجور پتوں یا نرکل کی بنئی ہوئی ہوتی ہے ۔- طرف - طَرَفُ الشیءِ : جانبُهُ ، ويستعمل في الأجسام والأوقات وغیرهما . قال تعالی: فَسَبِّحْ وَأَطْرافَ النَّهارِ [ طه 130] ، أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهارِ- [هود 114] - ( ط رف ) الطرف - کے معنی کسی چیز کا کنارہ اور سرا کے ہیں اور یہ اجسام اور اوقات دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَسَبِّحْ وَأَطْرافَ النَّهارِ [ طه 130] اور اس کی بیان کرو اور دن کے اطراف میں ۔ أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهارِ [هود 114] اور دن ۔ کے دونوں سروں ( یعنی صبح اور شام کے اوقات میں ) نماز پڑھا کرو ۔ - طمث - الطَّمْثُ : دم الحیض والافتضاض، والطَّامِثُ : الحائض، وطَمِثَ المرأةَ : إذا افتضَّها . قال تعالی: لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلا جَانٌ [ الرحمن 56] ، ومنه استعیر : ما طَمِثَ هذه الرّوضةَ أحدٌ قبلنا أي : ما افتضَّها، وما طَمِثَ الناقةَ جَمَلٌ- ( ط م ث ) الطمث ( ن س ) کے معنی ( 1 ) دم حیض اور ( 2 ) کسی عورت کی بکارت کو زائل کرنا کے ہیں اور طامت کے معنی حیض والی عورت کے ہیں طمث المرءۃ اس نے عورت کی بکارت زائل کردی قرآن میں ہے : ۔ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلا جَانٌ [ الرحمن 56] جس کو اہل جنت سے پہلے نہ کسی انسان نے ہاتھ لگایا اور نہ جن نے ۔ اور اسی سے استعارہ کے طور پر کہا جاتا ہے ماطمث ھذہ الروضۃ احد قبلنا یعنی ہم سے قبل اس سبز زار میں کوئی اور وارد نہیں ہؤا ماطمث الناقۃ جمل اس اونٹنی کو کسی اونٹ نے بھی نہیں چھوڑا۔ - إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی:- وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل :- فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- جان - وقوله تعالی: وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر 27] فنوع من الجنّ ، وقوله تعالی: كَأَنَّها جَانٌّ [ النمل 10] ، قيل : ضرب من الحيّات .- اور آیت کریمہ ؛۔ وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر 27] اور جان کو اس سے بھی پہلے بےہوئیں کی آگ سے پیدا کیا تھا ۔ میں جان سے بھی جنوں کی ایک قسم مراد ہے ۔ لیکن آیت کریمۃ ؛ كَأَنَّها جَانٌّ [ النمل 10] میں جان سے ایک قسم سانپ مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٦۔ ٥٧) اور ان تمام باغوں میں نیچی نگاہ والیاں حوریں ہوں گی جو صرف اپنے شوہروں پر قانع ہوں گی غیر کی جانب اصلا نگاہ اٹھا کر بھی دیکھنے والی نہ ہوں گے اور ان جنتی لوگوں سے پہلے ان پر نہ تو کسی آدمی نے تصرف کیا ہوگا اور نہ کسی جن نے یعنی انسانوں کے لیے جو حوریں ہیں ان کے خاوندوں سے پہلے کسی انسان نے ان کے ساتھ تصرف نہیں کیا ہوگا سو اے جن و انس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ فِیْہِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ لا ” ان میں ایسی عورتیں ہوں گی جن کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی۔ “- عورت کی جھکی ہوئی نگاہیں شرم و حیا کی علامت ہیں اور شرم و حیا نسوانیت کا خاص زیور بھی ہے اور اس کے اخلاق کا سب سے بڑا محافظ بھی ۔ جنتی عورتوں کی جھکی ہوئی نظروں کا ذکر گویا ان کے حسن ظاہری و باطنی کا بیان ہے۔- لَمْ یَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَآنٌّ ۔ ” ان کو چھوا نہیں ہوگا ان سے پہلے نہ کسی انسان نے اور نہ کسی جن نے۔ “- جنتی جنوں کی بیویاں ظاہر ہے انہی کی جنس سے ہوں گی جنہیں پہلے کسی جن نے نہیں چھوا ہوگا ‘ جبکہ انسانوں کی بیویاں انسان ہوں گی اور انہیں بھی پہلے کسی انسان نے نہیں چھوا ہوگا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :45 یہ عورت کی اصل خوبی ہے کہ وہ بے شرم اور بیباک نہ ہو بلکہ نظر میں حیا رکھتی ہو ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کے درمیان عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے سب سے پہلے ان کے حسن و جمال کی نہیں بلکہ ان کی حیا داری اور عفت مآبی کی تعریف فرمائی ہے ۔ حسین عورتیں تو مخلوط کلبوں اور فلمی نگار خانوں میں بھی جمع ہو جاتی ہیں ، اور حسن کے مقابلوں میں تو چھانٹ چھانٹ کر ایک سے ایک حسین عورت لائی جاتی ہے ، مگر صرف ایک بد ذوق اور بد قوارہ آدمی ہی ان سے دلچسپی لے سکتا ہے ۔ کسی شریف آدمی کو وہ حسن اپیل نہیں کر سکتا جو ہر بد نظر کو دعوت نظارہ دے اور ہر آغوش کی زینت بننے لیے تیار ہو ۔ سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :46 اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں خواہ کوئی عورت کنواری مر گئی ہو یا کسی کی بیوی رہ چکی ہو ، جوان مری ہو یا بوڑھی ہو کر دنیا سے رخصت ہوئی ہو ، آخرت میں جب یہ سب نیک خواتین جنت میں داخل ہوں گی تو جوان اور کنواری بنا دی جائیں گی ، اور وہاں ان میں سے جس خاتون کو بھی کسی نیک مرد کی رفیقہ حیات بنایا جائے گا وہ جنت میں اپنے اس شوہر سے پہلے کسی کے تصرف میں آئی ہوئی نہ ہوگی ۔ اس آیت سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ جنت میں نیک انسانوں کی طرح نیک جن بھی داخل ہوں گے ، اور وہاں جس طرح انسان مردوں کے لیے انسان عورتیں ہونگی اسی طرح جن مردوں کے لیے جن عورتیں ہونگی ۔ دونوں کی رفاقت کے لیے انہی کے ہم جنس جوڑے ہونگے ۔ ایسا نہ ہو گا کہ ان کا جوڑ کسی ناجنس مخلوق سے لگا دیا جائے جس سے وہ فطرتاً مانوس نہیں ہو سکتے ۔ آیت کے یہ الفاظ کہ ان سے پہلے کسی انسان یا جن نے ان کو نہ چھوا ہوگا ، اس معنی میں نہیں ہیں کہ وہاں عورتیں صرف انسان ہوں گی اور ان کو ان کے شوہروں سے پہلے کسی انسان یا جن نے نہ چھوا ہوگا ، بلکہ ان کا اصل مطلب یہ ہے کہ وہاں جن اور انسان ، دونوں جنسوں کی عورتیں ہوں گی ، سب حیا دار اور اچھوتی ہوں گی ، نہ کسی جن عورت کو اس کے جنتی شوہر سے پہلے کسی جن مرد نے ہاتھ لگایا ہوگا اور نہ کسی انسان عورت کو اس کے جنتی شوہر سے پہلے کسی انسان مرد نے ملوث کیا ہو گا

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani