58۔ 1 یعنی صفائی میں یاقوت اور سفیدی و سرخی میں موتی یا مونگے کی طرح ہونگی جس طرح صحیح حدیث میں بھی ان کے حسن و جمال کو ان الفاظ میں فرمایا گیا ہے ان کے حسن و جمال کی وجہ سے ان کی پنڈلی کا گودا، گوشت اور ہڈی کے باہر نظر آئے گا، ایک دوسری روایت میں فرمایا کہ جنتیوں کی بیویاں اتنی حسین و جمیل ہوں گی کہ اگر ان میں سے ایک عورت اہل ارض کی طرف جھانک لے تو آسمان و زمین کے درمیان کا سارا حصہ چمک اٹھے اور خوشبو سے بھر جائے۔ اور اس کے سر کا دوپٹہ اتنا قیمتی ہوگا کہ وہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد باب الحورالعین)
[٣٧] یہ ان عورتوں کی تیسری صفت ہے جو کئی صفات کا مجموعہ ہے مثلاً وہ اتنی خوبصورت اور دلکش ہوں گی جیسے یاقوت اور مرجان یا وہ اتنی آب و تاب والی اور صاف شفاف ہوں گی جیسے یاقوت اور مرجان یا وہ اتنی صاف ستھری ہوں گی کہ ہاتھ لگانے سے بھی میلی ہو رہی ہوں گی۔
کَاَنَّہُنَّ الْیَاقُوْتُ وَالْمَرْجَا :” الیاقوت “ سرخ رنگ کا پتھر جو اتنا صاف شفاف ہوتا ہے کہ اس کے درمیان سوراخ میں دھاگہ ڈالا جائے تو باہر سے نظر آتا ہے۔” المرجان “ مونگے ( چھوٹے موتی) کو کہتے ہیں ۔ جتنی عورتوں کی سرخ و سفید رنگت ، دلکشی ، صفائی اور شفاعت میں انہیں یاقوت اور مرجان سے تشبیہ دی ہے۔ محمد ( ابن سیرین ) کہتے ہیں :(امام تفاخروا واما تذاکروا الرجال فی الجنۃ اکثرام النسائ ؟ فقال ابوہریرہ او لم یقل ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان اول زمرۃ تدخل الجنۃ علی صورۃ القمر لیلۃ البلدر والتی تلیھا علی اضوا کوکب ذری فی السماء لکل امرء منھم زوجتاک اثنتان یری مخ سوقھما من وراء اللحم وما فی الجنۃ عزب) (مسلم الجنۃ وصفۃ نعیمھا ، باب اول زمرۃ تدخل الجنۃ، ٢٨٣٤) ” یا تو اس بات پر کہ لوگوں نے عورتوں اور مردوں کے مابین فخر کا ذکر کیا ، یا ویسے ہی گفتگو ہوئی کہ جنت میں مرد زیادہ ہوں گے یا عورتیں ؟ تو ابوہریرہ (رض) نے کہا : ” کیا ابو لقاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نہیں فرمایا کہ پہلی جماعت جو جنت میں داخل ہوگی چودھویں کے چاند کی طرح ہوگی اور اس کے بعد والی جماعت آسمان کے سب سے زیادہ روشن چمکدار ستارے کی طرح ہوگی ، ان میں سے ہر مرد کی دو بیویاں ہوں گی ، جن کی پنڈلیوں کا مغزگوشت کے پار سے نظر آرہا ہوگا اور جنت میں کوئی شخص بیوی کے بغیر نہیں ہوگا “۔ انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(لروحۃ فی سبیل اللہ او غدوۃ خیر من الدنیا وما فیھا ، ولقاب قوس احد کم من الجنۃ او موضع فید یعنی سوطہ خیر من الدنیا وما فیھا ولو ان امراۃ من اھل الجنۃ اطلعت الی اھل الالرض لا ضاعت ما ینھما ولملاتہ ریحا ، والنصیفھا علی راسھا خیر من الدنیا وما فیھا) ( بخاری ، الجھاد والسیر ، باب حور لعین وصفتھن : ٢٧٩٦) ” اللہ کے راستے میں ایک شام یا ایک صبح دنیا ومافیہا سے بہتر ہے اور جنت میں تمہارے کسی ایک کی ایک کمان یا ایک کوڑے کے برابر جگہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہے اور اگر اہل جنت کی کوئی عورت زمین والوں کی طرف جھانک لے تو زمین و آسمان کے درمیان کا سارا حصہ روشن ہوجائے اور یہ سارا خلاء خوشبو سے بھر جائے اور اس کے سرکا دوپٹا دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔ “
كَاَنَّہُنَّ الْيَاقُوْتُ وَالْمَرْجَانُ ٥٨ ۚ- مرج - أصل المَرْج : الخلط، والمرج الاختلاط، يقال : مَرِجَ أمرُهم «2» : اختلط، ومَرِجَ الخاتَمُ في أصبعي، فهو مارجٌ ، ويقال : أمرٌ مَرِيجٌ. أي : مختلط، ومنه غصنٌ مَرِيجٌ: مختلط، قال تعالی: فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَرِيجٍ [ ق 5] والمَرْجان : صغار اللّؤلؤ . قال : كَأَنَّهُنَّ الْياقُوتُ وَالْمَرْجانُ [ الرحمن 19] من قولهم : مَرَجَ.- ويقال للأرض التي يكثر فيها النّبات فتمرح فيه الدّواب : مَرْجٌ ، وقوله : مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ- [ الرحمن 15] أي : لهيب مختلط، وأمرجت الدّابّةَ في المرعی: أرسلتها فيه فَمَرَجَتْ.- ( م ر ج ) اصل میں المرج کے معنی خلط ملط کرنے اور ملا دینے کے ہیں اور المروج کے معنی اختلاط اور مل جانے کے ۔ مرج امرھم ۔ ان کا معاملہ ملتبس ہوگیا ۔ مرج الخاتم فی اصبعی ۔ انگوٹھی انگلی میں ڈھیلی ہوگئی مارج ( صفت فاعلی ) ڈھیلی انگوٹھی ۔ امر مریج گذمڈا اور پیچیدہ معاملہ ۔ غضن مریج : باہم گتھی ہوئی ٹہنی ۔ قرآن پاک میں ہے : فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَرِيجٍ [ ق 5] سو یہ ایک غیرواضح معاملہ میں ہیں ۔ المرجان ۔ مونگا چھوٹا موتی ۔ قرآن پاک میں ہے : كَأَنَّهُنَّ الْياقُوتُ وَالْمَرْجانُ [ الرحمن 19] اور آٰیت کریمہ ؛مَرَجَاس نے دودریا ر واں کے جو آپس میں ملتے ہیں ۔ میں مرج کا لفظ مرج کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور جس زمین میں گھاس بکثرت ہو اور جانور اس میں مگن ہوکر چرتے رہیں اسے مرج کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] آگ کے شعلے ہے ۔ میں مارج کے معنی آگ کے ( دھوئیں سے ) مخلوط شعلے کے ہیں ۔ امرجت الدابۃ فی المرعیٰ : میں نے جانور کو چراگاہ میں کھلا چھوڑ دیا چناچہ آزادی سے چرتا رہا ۔
(٥٨۔ ٥٩) اور رنگت ان کی اس قدر صاف و شفاف ہوگی گویا وہ یاقوت اور مرجان ہیں سو اے جن و انس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔
آیت ٥٨ کَاَنَّہُنَّ الْیَاقُوْتُ وَالْمَرْجَانُ ۔ ” وہ ایسی ہوں گی گویا لعل اور مونگے ہوں۔ “