Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

68۔ 1 جب کہ پہلی دو جنتوں (باغوں) کی صفت میں بتلایا گیا ہے کہ ہر پھل دو قسم کا ہوگا۔ ظاہر ہے اس میں شرف و فضل کی جو زیادتی ہے، وہ دوسری بات میں نہیں ہے

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٢] فَکِہَ بمعنی خوشی طبعی، خوش مزاجی اور ہنسنے ہنسانے والا ہونا اور فکہ کے معنی کسی کو میوہ کھلانا بھی اور اپنے شیریں کلام سے کسی کو خوش کرنا اور فواکہ سے مراد ایسے پھل ہیں جن کے کھانے کا اصل مقصد لذت و سرور اور لطف حاصل کرنا ہو نہ کہ غذائیت حاصل کرنا۔ پھر اس کے بعد کھجور کا ذکر فرمایا جو پانی کے ساتھ مل کر مکمل غذا بن جاتا ہے۔ پھر اگر پانی کے بجائے کھجور کے ساتھ انار کا پانی مل جائے تو سب مقصد حاصل ہوجاتے ہیں۔ کھانے کا بھی، پینے کا بھی اور لطف و سرور بھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فِیْہِمَا فَاکِہَۃٌ وَّنَخْلٌ وَّرُمَّانٌ :” فاکھۃ “ اسم جنس ہے ، اس میں ہر پھل آجاتا ہے۔ کھجور اور انار بھی ” فاکھۃ “ میں شامل ہیں ، مگر عرب میں ان کی کثرت اور ان کے پسندیدہ پھل ہونے کی وجہ سے انکا الگ ذکر فرمایا ہے۔ مقربین کیلئے ” من کل فاکھۃ زوجن “ اور اصحاب الیمین کے لیے ” فاکھۃ ونخل ورمان “ فرمایا۔ دونوں کا فرق واضح ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فِيْہِمَا فَاكِہَۃٌ وَّنَخْلٌ وَّرُمَّانٌ۝ ٦٨ ۚ- فكه - الفَاكِهَةُ قيل : هي الثّمار کلها، وقیل : بل هي الثّمار ما عدا العنب والرّمّان . وقائل هذا كأنه نظر إلى اختصاصهما بالذّكر، وعطفهما علی الفاکهة . قال تعالی: وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ- [ الواقعة 20] ، وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة 32] ، وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس 31] ، فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات 42] ، وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات 42] ، والفُكَاهَةُ :- حدیث ذوي الأنس، وقوله : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1» قيل : تتعاطون الفُكَاهَةَ ، وقیل :- تتناولون الْفَاكِهَةَ. وکذلک قوله : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور 18] .- ( ف ک ہ ) الفاکھۃ ۔ بعض نے کہا ہے کہ فاکھۃ کا لفظ ہر قسم کے میوہ جات پر بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ انگور اور انار کے علاوہ باقی میوہ جات کو فاکھۃ کہاجاتا ہے ۔ اور انہوں نے ان دونوں کو اس لئے مستثنی ٰ کیا ہے کہ ( قرآن پاک میں ) ان دونوں کی فاکہیہ پر عطف کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فاکہہ کے غیر ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة 20] اور میوے جس طرح کے ان کو پسند ہوں ۔ وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة اور میوہ ہائے کثیر ( کے باغوں ) میں ۔ وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس 31] اور میوے اور چارہ ۔ فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات 42] ( یعنی میوے اور ان اعزاز کیا جائیگا ۔ وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات 42] اور میووں میں جوان کو مرغوب ہوں ۔ الفکاھۃ خوش طبعی کی باتیں خوش گئی ۔ اور آیت کریمہ : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1»اور تم باتیں بناتے رہ جاؤ گے ۔ میں بعض نے تفکھونکے معنی خوش طبعی کی باتیں بنانا لکھے ہیں اور بعض نے فروٹ تناول کرنا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور 18] جو کچھ ان کے پروردگار نے ان کو بخشا اس کی وجہ سے خوش حال ۔۔۔ میں فاکھین کی تفسیر میں بھی دونوں قول منقول ہیں ۔- نخل - النَّخْلُ معروف، وقد يُستعمَل في الواحد والجمع . قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ- [ القمر 20] وقال : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة 7] ، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ- [ الشعراء 148] ، وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] وجمعه : نَخِيلٌ ، قال : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل 67] والنَّخْلُ نَخْل الدّقيق بِالْمُنْخُل، وانْتَخَلْتُ الشیءَ : انتقیتُه فأخذْتُ خِيارَهُ.- ( ن خ ل ) النخل - ۔ کھجور کا درخت ۔ یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة 7] جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر 20] اور کھجوریں جن کے خوشے لطیف اور نازک ہوتے ہیں ۔ وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] اور لمبی لمبی کھجوریں جن کا گا بھاتہ بہ تہ ہوتا ہے اس کی جمع نخیل آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل 67] اور کھجور کے میووں سے بھی ۔ النخل ( مصدر کے معنی چھلنی سے آٹا چھاننے کے ہیں اور انتخلت الشئی کے معنی عمدہ چیز منتخب کرلینے کے ؛- رَمِيمٌ- الرَّمُّ : إصلاح الشیء البالي، والرِّمَّةُ : تختصّ بالعظم البالي، قال تعالی: مَنْ يُحْيِ الْعِظامَ وَهِيَ رَمِيمٌ [يس 78] ، وقال : ما تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِ [ الذاریات 42] ، والرُّمَّةُ تختصّ بالحبل البالي، والرِّمُّ : الفُتات من الخشب والتّبن . ورَمَّمْتُ المنزل : رعیت رَمَّهُ ، کقولک : تفقّدت، وقولهم : ادفعه إليه بِرُمَّتِهِ «4» معروف، والْإِرْمَامُ : السّكوت، وأَرَمَّتْ عظامه : إذا سحقت حتی إذا نفخ فيها لم يسمع لها دويّ ، وتَرَمْرَمَ القوم : إذا حرّكوا أفواههم بالکلام ولم يصرّحوا، والرُّمَّانُ : فُعْلانُ ، وهو معروف .- ( ر م م ) الرم ( ن ) کے معنی پوشیدہ چیز کی اصلاح اور مرمت کرنے کے ہیں اور رمۃ خاص کر بوسیدہ ہڈی کو کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ مَنْ يُحْيِ الْعِظامَ وَهِيَ رَمِيمٌ [يس 78] ہڈیاں جب بوسیدہ ہوجائیں گی تو انہیں کون زندہ کرسکتا ہے ۔ ما تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِ [ الذاریات 42] جس چیز پر سے ہو کر وہ گزرتی ہے اسے پرانی ہڈی کی طرح ( چورہ ) کئے بغیر نہ چھوڑتی ۔ الرمۃ خاص طور پر بوسیدہ رسی کو کہا جاتا ہے اور الرم لکڑی بھوسہ وغیرہ کے چورہ کو کہتے ہیں رممت المنزل عمارت کی مرمت کرنا جیسے تفقدت ( کسی چیز کی دیکھ بھال کرنا ) مشہور محاورہ ہے ( مثل ) ادفعہ الیہ برمتہ اسے کلیۃ اس کے سپرد کر دیجئے الارمام اس کے معنی خاموش ہونے کے ہیں اور ارمت عظامہ کے معنی ہیں ہڈیوں کا اس قدر بوسیدہ ہو کر باریک ہوجانا کہ پھوکنے سے اڑ جائیں اور آواز نہ آئے ترمرم القوم کے معنی مہمل بڑ بڑانے یا گفتگو کے لئے ہونٹ ہلا کر رہ جانے کے ہیں الرمان ( فعلان ) انار کو کہتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

کھجور اور انار پھلوں میں شامل نہیں - قول باری ہے (فیھما فاکھۃ ونخل ورمان اور ان دونوں میں میوے ہوں گے اور خرمے اور انار) آیت سے امام ابوحنیفہ کے قول کے حق میں استدلال کیا جاتا ہے کہ کھجور اور انار میوئوں میں شامل نہیں ہیں کیونکہ ایک چیز کو اس کی ذات پر عطف نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے غیر پر عطف کیا جاتا ہے۔ ظاہر کلام اور اس کا مفہوم تو یہی ہے۔- البتہ اگر کوئی دلالت قائم ہوجائے جو اس بات کی نشاندہی کردے کہ معطوف اگرچہ معطوف علیہ کے جنس میں سے تھا لیکن اسے کسی خصوصیت یا عظمت وغیرہ کی بنا پر عطف کی صورت میں الگ سے بیان کیا ہے۔- اس کی مثال یہ قول باری ہے (من کان عدوا اللہ وملئکۃ ورسلہ وجبرئیل و میکالی فان اللہ عدو للکفرین۔ جو شخص اللہ، اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں نیز جبرئیل اور میکائیل کا دشمن ہے تو یقینا اللہ کافروں کا دشمن ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٨۔ ٦٩) اور ان دونوں باغوں میں مختلف قسم کے میوے کھجوریں اور قسم قسم کے انار ہوں گے سو اے جن و انس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٨ فِیْہِمَا فَاکِہَۃٌ وَّنَخْلٌ وَّرُمَّانٌ ۔ ” ان دونوں میں میوے ‘ کھجور اور انار ہوں گے۔ “- ان جنتوں کی کیفیت کے بیان میں ایک طرف گویا عجمی پسند کی جھلک نظر آتی ہے تو دوسری طرف عربی ذوق کی عکاسی ۔ عجمی علاقوں کے درختوں اور باغات کے جوبن کا کمال یہ ہے کہ ان کے سبز پتوں کا رنگ گہرا ہوتے ہوتے سیاہی مائل ہوجائے۔ ایسے درختوں اور پودوں کا سایہ بھی مثالی ہوتا ہے اور ان کے پھلوں کی پیداوار اور کو الٹی بھی بہترین ہوتی ہے ۔ دوسری طرف سرزمین عرب خصوصاً نزولِ قرآن کے علاقے حجاز کے ذوق کے مطابق ایک مثالی باغ کا نقشہ بھی دکھایا گیا ہے۔ یعنی پہاڑی ڈھلوان سے ابلتا ہوا چشمہ ‘ چشمے کے نشیب میں کھجور اور انار کے درختوں کا جھنڈ اور ان درختوں کے جھرمٹ میں انگور کی لہلہاتی بیلیں

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani