Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٥] اہل جنت کو ملنے والی حوروں کی تیسری صفت یعنی وہ باکرہ یا کنواری ہوں گی۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو پرہیزگار جنّ جنت میں داخل ہوں گے ان کو بھی حوریں ملیں گی۔ واضح رہے کہ طمث کے معنی حیض کا خون بھی ہے۔ اور طمث کا معنی عورت کا حیض والا ہونا بھی اور مرد کا عورت کے پردہ بکارت کو زائل کرنا بھی۔ گویا یہ لفظ مجامعت کے معنوں میں پہلی بار کی مجامعت سے مخصوص ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَمْ يَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَاۗنٌّ۝ ٧٤ ۚ- طمث - الطَّمْثُ : دم الحیض والافتضاض، والطَّامِثُ : الحائض، وطَمِثَ المرأةَ : إذا افتضَّها . قال تعالی: لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلا جَانٌ [ الرحمن 56] ، ومنه استعیر : ما طَمِثَ هذه الرّوضةَ أحدٌ قبلنا أي : ما افتضَّها، وما طَمِثَ الناقةَ جَمَلٌ- ( ط م ث ) الطمث ( ن س ) کے معنی ( 1 ) دم حیض اور ( 2 ) کسی عورت کی بکارت کو زائل کرنا کے ہیں اور طامت کے معنی حیض والی عورت کے ہیں طمث المرءۃ اس نے عورت کی بکارت زائل کردی قرآن میں ہے : ۔ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلا جَانٌ [ الرحمن 56] جس کو اہل جنت سے پہلے نہ کسی انسان نے ہاتھ لگایا اور نہ جن نے ۔ اور اسی سے استعارہ کے طور پر کہا جاتا ہے ماطمث ھذہ الروضۃ احد قبلنا یعنی ہم سے قبل اس سبز زار میں کوئی اور وارد نہیں ہؤا ماطمث الناقۃ جمل اس اونٹنی کو کسی اونٹ نے بھی نہیں چھوڑا۔- إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی:- وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل :- فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- جان - وقوله تعالی: وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر 27] فنوع من الجنّ ، وقوله تعالی: كَأَنَّها جَانٌّ [ النمل 10] ، قيل : ضرب من الحيّات .- اور آیت کریمہ ؛۔ وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر 27] اور جان کو اس سے بھی پہلے بےہوئیں کی آگ سے پیدا کیا تھا ۔ میں جان سے بھی جنوں کی ایک قسم مراد ہے ۔ لیکن آیت کریمۃ ؛ كَأَنَّها جَانٌّ [ النمل 10] میں جان سے ایک قسم سانپ مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٤۔ ٧٥) جو حوریں انسانوں کے لیے ہوں گی ان پر ان کے خاوندوں سے پہلے کسی انسان نے تصرف نہ کیا ہوگا اور اسی طرح جنوں کے لیے جو حوریں ہوں گی ان پر ان کے خاوندوں سے پہلے کسی جن نے تصرف نہ کیا ہوگا۔ سو اے جن و انس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٤ لَمْ یَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَآنٌّ ۔ ” نہیں چھوا ہوگا ان سے پہلے انہیں نہ کسی انسان نے اور نہ کسی جن نے۔ “- یہاں خصوصی طور پر جن اور انسان کے ذکر سے بھی میری اس رائے کو تقویت ملتی ہے کہ یہ جنوں اور انسانوں کے لیے الگ الگ جنتوں کا بیان ہے۔ اس اعتبار سے آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ جنوں کی جنت کی حوروں کو ان کے خاوندوں سے پہلے کسی جن نے نہیں چھوا ہوگا اور انسانوں کی جنت کی حوروں کو قبل ازاں کسی انسان نے ہاتھ نہیں لگایا ہوگا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani