76۔ 1 مطلب یہ ہے کہ جنتی ایسے تختوں پر بیٹھے ہوں گے جس پر سبز رنگ کی مسندیں، غالیچے اور اعلٰی قسم کے خوب صورت منقش فرش بچھے ہوں گے۔
[٤٦] عبقری کا مفہوم :۔ عَبْقَرِیٍّ عرب کے دور جاہلیت کے انسانوں میں جنوں کے دارالسلطنت کا نام عبقر تھا جہاں صرف جن اور پریاں ہی رہتے تھے جسے ہم اردو میں پرستان بھی کہتے ہیں یعنی پریوں کے رہنے کی جگہ۔ پھر لفظ عبقری کا اطلاق ہر نفیس اور نادر چیز پر ہونے لگا تو یا وہ پرستان کی چیز ہے جس کا مقابلہ دنیا کی عام چیزیں نہیں کرسکتیں۔ پھر اس لفظ کا اطلاق ایسے آدمی پر بھی ہونے لگا جو غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہو۔ اسی لیے اہل عرب کو جنت کے سروسامان کی غیر معمولی نفاست اور خوبی کا تصور دلانے کے لیے یہاں عبقری کا لفظ آیا ہے۔
مُتَّکِئِیْنَ عَلٰی رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّعَبْقَرِیٍّ حِسَانٍ :” زفرف “ اس جنس یا اسم جمع ہے ، مفردم اس کا ” رفرفۃ “ ہے ، منقش قالین جو بستر پر بچھایا جائے۔ ’ ’ عقبری “ کوئی بھی چیز جو اپنی جنس میں سب سے فائق اور نادر الوجودہو ۔ اس کی نسبت ” عبقر “ کی طرف ہے جو جاہلیت کے افسانوں میں جنوں کا شہر تھا۔ جسے اردو میں پرستان کہتے ہیں ۔ عرب میں فوق العادت خوبصورت یا کمال چیز کی نسبت اس کی طرف کردیتے تھے ، گویا یہ انسانوں کی سر زمین کی نہیں بلکہ جنوں اور پریوں کی سرزمین کی چیز ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے کنویں سے پانی کھینچنے والے خواب کے ذکر میں فرمایا :(ثم اخذھا عمر ، فاستحالت بیدہ غربا ، فلم ار عبقربا فی الناس یفری فریۃ) ( بخاری ، المناقب ، باب علامات النبوۃ فی الاسلام : ٣٦٣٤)” پھر وہ ڈول عمر (رض) نے پکڑا تو وہ ایک بڑے ڈول کی شکل میں بدل گیا ۔ تو میں نے کوئی نادر قوت والا شخص نہیں دیکھا جو اس جیسی کاٹ کاٹتا ہو۔ “ اس لیے اس کا ترجمہ شاہ رفیع الدین (رح) تعالیٰ نے ” نادر “ کیا ہے اور ” حسان “ کا ترجمہ ” نفیس “ کیا ہے۔ ” زفرف ‘ ‘ کا لفظ منفرد ہے ، اس کے مطابق ” عبقری “ صفت مفرد لائی گئی ہے اور اسم جنس یا اسم جمع ہونے کی وجہ سے اس میں جمع کا مفہوم پایا جاتا ہے ، اس لیے اس کی صفات ” خضر “ اور ” حسان “ جمع لائی گئی ہیں ۔
مُتَّكِــــِٕيْنَ عَلٰي رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ ، قاموس میں ہے کہ رفرف سبز رنگ کا ریشمی کپڑا ہے جس کے فرش اور تکئے اور دوسرا زینت کا سامان بنایا جاتا ہے اور صحاح میں ہے کہ اس پر نقش و نگار درختوں اور پھولوں کے ہوتے ہیں، جس کو اردو میں مشجر کہا جاتا ہے عبقری ہر عمدہ خوبصورت کپڑے کو کہا جاتا ہے حسان سے اسی کا وصف خوبصورتی بیان کیا گیا ہے۔
مُتَّكِــــِٕيْنَ عَلٰي رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ ٧٦ ۚ- تكأ - المُتَّكَأ : المکان الذي يتكأ عليه، والمخدّة : المتکأ عليها، وقوله تعالی: وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] ، أي : أترجا «1» . وقیل : طعاما متناولا، من قولک : اتكأ علی كذا فأكله، - ( ت ک ء ) التکاء - ( اسم مکان سہارہ لگانے کی جگہ ۔ تکیہ جس پر ٹیک لگائی جائے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں متکاء کے معنی ترنج کے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ مراد کھانا ۔- رَفْرَفٍ- والرَّفْرَفُ : المنتشر من الأوراق، وقوله تعالی: عَلى رَفْرَفٍ خُضْرٍ [ الرحمن 76] ، فضرب من الثّياب مشبّه بالرّياض، وقیل : الرَّفْرَفُ : طرف الفسطاط، والخباء الواقع علی الأرض دون الأطناب والأوتاد، وذکر عن الحسن أنها المخادّ.- ( ر ف ف ) رفیف الشجر ۔ درخت کی شاخوں کا ہوا سے لہلہانا اور منتشر ہونا کہا جا تا ہے ۔ رف الطیر جناحیہ پرند کا اپنے بچے کی حفاظت کے لئے دونوں بازو پھیلانا ۔ یہ باب رف یرف ( ن) سے ہے اور استعارہ کے طور پر رف کا لفظ کسی چیز کی دیکھ بھال کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے عام محاورہ میں کہا جاتا ہے ۔ ما لفلان حاف ولا راف یعنی اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ اس پر کوئی شفقت کرنے والا نہیں رہا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) من حفنا اور فنا فلیقتصد : جو ہم پر شفقت کرے اسے چاہیے کہ اعتدال سے کام لے ۔ الرفرف : کے معنی درخت کے منتشر پتوں کے ہیں ۔ اور قرآن کی آیت : عَلى رَفْرَفٍ خُضْرٍ [ الرحمن 76] وہ سبز قالینوں پر ( تکیہ لگائے ) رفرف سے خاص قسم کے کپڑے مراد ہیں ۔ جو مرغزار کے مشابہ ہوتے ہیں ۔ اور بعض کا قول ہے ۔ کہ رفرف سے خیمے کا کنارہ مراد ہے ۔ جو زمین پر پڑا رہتا ہے اور حسن ( بصری ) سے مروی ہے کہ اس سے گاؤتکئے مراد ہیں ۔- خضر - قال تعالی: فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً [ الحج 63] ، وَيَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً مِنْ سُنْدُسٍ- [ الكهف 31] ، فَخُضْرٌ جمع أخضر، والخُضْرَة : أحد الألوان بين البیاض والسّواد، وهو إلى السّواد أقرب، ولهذا سمّي الأسود أخضر، والأخضر أسود قال الشاعر :- قد أعسف النازح المجهول معسفه ... في ظلّ أخضر يدعو هامه البوم«2» وقیل : سواد العراق للموضع الذي يكثر فيه الخضرة، وسمّيت الخضرة بالدّهمة في قوله سبحانه : مُدْهامَّتانِ [ الرحمن 64] ، أي : خضراوان، وقوله عليه السلام : «إيّاكم وخَضْرَاء الدّمن» «3» فقد فسّره عليه السلام حيث قال :«المرأة الحسناء في منبت السّوء» ، والمخاضرة :- المبایعة علی الخَضْرِ والثمار قبل بلوغها، والخضیرة : نخلة ينتثر بسرها أخضر .- ( خ ض ر )- قرآن میں ہے : فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً [ الحج 63] تو زمین سر سبز ہوجاتی ہے۔ وَيَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً مِنْ سُنْدُسٍ [ الكهف 31] سبز رنگ کے کپڑے ۔ خضرا کا واحد اخضر ہے اور الخضرۃ ایک قسم کا دنگ ہوتا ہے جو سفیدی اور سیاہی کے بین بین ہوتا ہے مگر سیاہی غالب ہوتی ہے یہی وجہ ہے ک اسور ( سیاہ ) اور اخضر ( سبز) کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( البسیط) (136) قد اعسف النازح المجھود مسفۃ فی ظل اخضر یدعوھا مہ الیوم میں تاریک اور بھیانک راتوں میں دور دراز راستوں میں سفر کرتا ہوں جو بےنشان ہوتے ہیں ۔ اور سبزی اور شادابی کی وجہ سے عراق کے ایک حصہ کو سواد العراق کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ مُدْهامَّتانِ [ الرحمن 64] کے معنی سر سبز کے ہیں اور خضرۃ کی جگہ دھمۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی سیاہی کے ہیں ۔ حدیث میں ہے :۔ (114) ایاکم وخضواء الدمن تم کوڑی کی سر سبزی سے بچو۔ اور خضراء الدمن کی تفسیر بیان کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا المرآۃ الحسنۃ فی منبت السوء یعنی خوبصورت عورت جو بدطنت ہو ۔ المخاضرۃ سبزیوں اور کچے پھلوں کی بیع کرنا ۔ الخضیرۃ کھجور کا درخت جس کی سبزا در نیم پختہ کھجوریں جھڑجائیں - عبقر - عَبْقَرٌ قيل : هو موضعٌ للجنّ ينسب إليه كلّ نادر من إنسان، وحیوان، وثوب، ولهذا قيل في عمر : «لم أر عَبْقَرِيّاً مثله» ، قال تعالی: وَعَبْقَرِيٍّ حِسانٍ [ الرحمن 76] ، وهو ضرب من الفرش فيما قيل، جعله اللہ مثلا لفرش الجنّة .- ( ع ب ق ر ) عبقر بعض نے کہا ہے کہ جنوں کی آبادی کا نام ہے ۔ عرب لوگ جب کسی انسان حیوان یا کپڑے وغیرہ میں نادرہ کاری دیکھتے تو اسے اسکی طرف نسبت کردیتے اسی بنا حضرت عمررضی اللہ عنہ کے بارے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خواب بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔ لم ارعبقریامثلہ کہ میں نے اس جیسا نادر المثال شخص نہیں دیکھا ۔ اور ایت کریمہ : ۔ وَعَبْقَرِيٍّ حِسانٍ [ الرحمن 76] اور نفس مسندوں پر میں عبقری کے معنی ایک قسم کے عمدہ فرش کے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے جنت کے فروش کے لئے ضرب المثل کے طور پر بیان فرمایا ہے ۔
(٧٦۔ ٧٧) اور وہ لو سبز شجر اور عجیب خوبصورت کپڑوں کے فرشوں پر خوشی کے ساتھ تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے سو اے جن و انس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔
آیت ٧٦ مُتَّکِئِیْنَ عَلٰی رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّعَبْقَرِیٍّ حِسَانٍ ۔ ” وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے سبز مسندوں اور بہت نفیس بچھونوں پر۔ “
سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :52 اصل میں لفظ عَبْقَرِی استعمال ہوا ہے ۔ عرب جاہلیت کے افسانوں میں جنوں کے دارالسلطنت کا نام عَبْقَر تھا جسے ہم اردو میں پرستان کہتے ہیں ۔ اسی کی نسبت سے عرب کے لوگ ہر نفیس و نادر چیز کو عَبْقَری کہتے تھے ، گویا وہ پرستان کی چیز ہے جس کا مقابلہ اس دنیا کی عام چیزیں نہیں کر سکتیں ۔ حتیٰ کہ ان کے محاورے میں ایسے آدمی کو بھی عبقری کہا جاتا تھا جو غیر معمولی قابلیتوں کا مالک ہو ، جس سے عجیب و غریب کارنامے صادر ہوں ۔ انگریزی میں لفظ ( ) بھی اسی معنی میں بولا جاتا ہے ، اور وہ بھی سے ماخوذ ہے جو جن کا ہم معنی ہے ۔ اسی لیے یہاں اہل عرب کو جنت کے سروسامان کی غیر معمولی نفاست و خوبی کا تصور دلانے کے لیے عبقری کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔
13: رَفرَف نقش ونگار والے قالین کو کہتے ہیں۔ یہاں یہ واضح رہنا چاہئے کہ جنت کی نعمتوں میں سے جن جن چیزوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، اگرچہ دُنیا میں بھی اُن کے وہی نام ہیں جو ان آیات میں مذکور ہیں، لیکن اُن کی حقیقت اُن کا حسن اور اُن کی لذت دُنیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگی ؛ کیونکہ صحیح حدیث کے مطابق اﷲ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی نعمتیں تیار فرمائی ہیں جو آج تک نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں، اور نہ کسی کے دِل پر اُن کا خیال گزرا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ان سے بہرہ ور فرمائیں۔ آمین۔