یقینی امر: واقع قیامت کا نام ہے کیونکہ اس کا ہونا یقینی امر ہے ۔ جسے اور آیت میں ہے آیت ( فَيَوْمَىِٕذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَةُ 15ۙ ) 69- الحاقة:15 ) اس دن ہو پڑے گی ، اس کا واقعہ ہونا حتمی امر ہے ، نہ اسے کوئی ٹال سکے نہ ہٹا سکے وہ اپنے مقررہ وقت پر آ کر ہی رہے گی ، جسے اور آیت میں ہے ، آیت ( اِسْتَجِيْبُوْا لِرَبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ ۭ مَا لَكُمْ مِّنْ مَّلْجَاٍ يَّوْمَىِٕذٍ وَّمَا لَكُمْ مِّنْ نَّكِيْرٍ 47 ) 42- الشورى:47 ) اپنے پروردگار کی باتیں مان لو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جسے کوئی دفع کرنے والا نہیں اور جگہ فرمایا آیت ( سَاَلَ سَاۗىِٕلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ Ǻۙ ) 70- المعارج:1 ) سائل کا سوال اس کے متعلق ہے جو یقیناً آنے والا ہے جسے کوئی روک نہیں سکتا ۔ اور آیت میں ہے آیت ( وَيَوْمَ يَقُوْلُ كُنْ فَيَكُوْنُ ڛ قَوْلُهُ الْحَقُّ ۭوَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ ۭ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۭوَهُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ 73 ) 6- الانعام:73 ) جس دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہو جا تو ہوجائے گی ۔ وہ عالم غیب و ظاہر ہے اور وہ حکیم و خبیر ہے ، قیامت کا ذبہ نہیں یعنی برحق ہے ضرور ہونے والی ہے اس دن نہ تو دوبارہ آنا ہے نہ وہاں سے لوٹنا ہے نہ واپس آنا ہے ۔ ( کاذبہ ) مصدر ہے جیسے ( عاقبۃ ) اور ( عافیہ ) وہ دن پست کرنے والا اور ترقی دینے والا ہے ، بہت لوگوں کو پست کر کے جہنم میں پہنچا دے گا جو دنیا میں برے ذی عزت و وقعت تھے اور بہت سے لوگوں کو وہ اونچا کر دے گا اعلیٰ علین ہو کر جنتی ہو جائیں گے ، متکبرین کو وہ ذلیل کر دے گی اور متواضعین کو وہ عزیز کر دے وہی نزدیک و دور والوں کو سنا دے گی اور ہر اک کو چوکنا کر دے گی وہ نیچا کرے گی اور قریب والوں کو سنائے گی پھر اونچی ہو گی اور دور والوں کو سنائے گی ، زمین ساری کی ساری لرزنے لگے گی ، چپہ چپہ کپکپانے لگے گا طور و عرج زمین میں زلزلہ پڑ جائے گا ، اور بےطرح ہلنے لگے گی ، یہ حالت ہو جائے گی کہ گویا چھلنی میں کوئی چیز ہے جسے کوئی ہلا رہا ہے اور آیت میں ہے ( اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا Ǻۙ ) 99- الزلزلة:1 ) اور جگہ ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ ۚ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ Ǻ ) 22- الحج:1 ) لوگو اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے یقین مانو کہ قیامت کا زلزلہ بہت بری چیز ہے ۔ پھر فرمایا کہ پہاڑ اس دن ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور جگہ الفاظ آیت ( يَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِيْبًا مَّهِيْلًا 14 ) 73- المزمل:14 ) آئے ہیں ، پس وہ مثل غبار پریشان کے ہو جائیں گے جسے ہوا ادھر ادھر بکھیر دے اور کچھ نہ رہے ( ھباء ) ان شراروں کو بھی کہتے ہیں جو آگ جلاتے وقت پتنگوں کی طرح اڑتے ہیں ، نیچے گرنے پر وہ کچھ نہیں رہتے ۔ ( منبث ) اس چیز کو کہتے ہیں جسے ہوا اوپر کر دے اور پھیلا کر نابود کر دے جیسے خشک پتوں کے چورے کو ہوا ادھر سے ادھر کر دیتی ہے ۔ اس قسم کی اور آیتیں بھی بہت سی ہیں جن سے ثابت ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ ٹل جائیں گے ٹکڑے ہو جائیں گے پھر ریزہ ریزہ ہو کر بےنام و نشان ہو جائیں گے ۔ لوگ اس دن تین قسموں میں منقمس ہو جائیں گے ۔ ایک جماعت عرش کے دائیں ہو گی اور یہ لوگ وہ ہوں گے جو حضرت آدم کی دائیں کروٹ سے نکلے تھے نامہ اعمال داہنے ہاتھ دیئے جائیں گے اور دائیں جانب چلائے جائیں گے ، یہ جنتیوں کا عام گروہ ہے ۔ دوسری جماعت عرش کے بائیں جانب ہو گی یہ وہ لوگ ہوں گے جو حضرت آدم کی بائیں کروٹ سے نکالے گئے تھے انہیں نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیئے گئے تھے اور بائیں طرف کی راہ پر لگائے گئے تھے ۔ یہ سب جہنمی ہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے ۔ تیسری جماعت اللہ عزوجل کے سامنے ہوگی یہ خاص الخاص لوگ ہیں یہ اصحاب یمین سے بھی زیادہ باقعت اور خاص قرب کے مالک ہیں ۔ یہ اہل جنت کے سردار ہیں ان میں رسول ہیں انبیاء ہیں صدیق و شہداء ہیں ۔ یہ تعداد میں بہت دائیں ہاتھ والوں کی نسبت کم ہیں ۔ پس تمام اہل محشر یہ تین قسمیں ہو جائیں گی جیسے کہ اس سورت کے آخر میں بھی اختصار کے ساتھ ان کی یہی تقسیم کی گئی ہے ۔ اسی طرح سورۃ ملائیکہ میں فرمایا ہے آیت ( ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ ۚ وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَــيْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الْــفَضْلُ الْكَبِيْرُ 32ۭ ) 35- فاطر:32 ) یعنی پھر ہم نے اپنی کتاب کا وارث اپنا چیدہ بندوں کو بنایا پس ان میں سے بعض تو اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض میانہ روش ہیں اور بعض اللہ کے حکم سے نیکیوں کی طرف آگے بڑھنے والے ہیں ۔ پس یہاں بھی تین قسمیں ہیں یہ اس وقت جبکہ آیت ( وَّظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ مُبِيْنٌ ١١٣ۧ ) 37- الصافات:113 ) کی وہ تفسیر لیں جو اس کے مطابق ہے ، ورنہ ایک دوسرا قول بھی ہے جو اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر گذر چکا ۔ حضرت ابن عباس وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ دو گروہ تو جنتی اور ایک جہنمی ۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں آیت ( وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ Ċ۽ ) 81- التكوير:7 ) جب لوگوں کے جوڑے ملائے جائیں فرمایا قسم قسم کی یعنی ہر عمل کے عامل کی ایک جماعت جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم تین قسم پر ہو جاؤ گے ، یعنی اصحاب یمین اصحاب شمال اور سابقین ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیا بند کرلیں اور فرمایا یہ جنتی ہیں مجھے کوئی پرواہ نہیں یہ سب جہنمی ہیں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانتے ہو اللہ تعالیٰ کے سائے کی طرف قیامت کے دن سب سے پہلے کون لوگ جائیں گے ؟ انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ اور رسول خوب جانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ لوگ جو جب اپنا حق دیئے جائیں قبول تو کرلیں اور جو حق ان پر ہو جب مانگا جائے ادا کر دیں اور لوگوں کے لئے بھی وہی حکم کریں جو خود اپنے لئے کرتے ہیں ۔ سابقون کون لوگ ہیں؟ اس کے بارے میں بہت سے اقوال ہیں ، مثلاً انبیاء اہل علین حضرت یوشع بن نون جو حضرت موسیٰ پر سب سے پہلے ایمان لائے تھے وہ مومن جن کا ذکر سوۃ یاسین میں ہے جو حضرت عیسیٰ پر پہلے ایمان لائے تھے ، حضرت علی بن ابی طالب جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سبقت کر گئے تھے ، وہ لوگ جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی تھی ، ہر امت کے وہ لوگ جو اپنے اپنے نبیوں پر پہلے پہل ایمان لائے تھے ، وہ لوگ جو مسجد میں سب سے پہلے جاتے ہیں ، جو جہاد میں سب سے آگے نکلتے ہیں ۔ یہ سب اقوال دراصل صحیح ہیں یعنی یہ سب لوگ سابقون ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کو آگے بڑھ کر دوسروں پر سبقت کر کے قبول کرنے والے سب اس میں داخل ہیں ، قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت ( وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ ١٣٣ۙ ) 3-آل عمران:133 ) اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جلدی کرو جس کا عرض مثل آسمان و زمین کے ہے ، پس جس شخص نے اس دنیا میں نیکیوں کی طرف سبقت کی وہ آخرت میں اللہ کی نعمتوں کی طرف بھی سابق ہی رہے گا ، ہر عمل کی جزا اسی جنس سے ہوتی ہے جیسا جو کرتا ہے ویسا ہی پاتا ہے ، اسی لئے یہاں ان کی نسبت فرمایا گیا یہ مقربین اللہ ہیں یہ نعمتوں والی جنت میں ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں حضرت عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ فرشتوں نے درگاہ اللہ میں عرض کی کہ پروردگار تو نے ابن آدم کے لئے تو دنیا بنا دی ہے وہ وہاں کھاتے پیتے ہیں اور بیوی بچوں سے لطف اٹھاتے ہیں پس ہمارے لئے آخرت کر دے جواب ملا کہ میں ایسا نہیں کروں گا انہوں نے تین مرتبہ یہی دعا کی ، پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے جسے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اسے ان جیسا ہرگز نہ کروں گا جنہیں میں نے صرف لفظ کن سے پیدا کیا ، حضرت امام دارمی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس اثر کو اپنی کتاب ( الرد علی الجہمیہ ) میں وارد کیا ہے ، اس کے الفاظ یہ ہیں کہ اللہ عزوجل نے فرمایا جسے میں نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے اس کی نیک اولاد کو میں اس جیسا نہ کروں گا جیسے میں نے کہا ہو جا تو وہ ہو گیا ۔
1۔ 1 واقعہ بھی قیامت کے ناموں سے ہے، کیونکہ یہ لامحالہ واقع ہونے والی ہے، اس لئے اس کا نام بھی ہے۔
اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ :” الواقعۃ “ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے ، جیسے ” الطامۃ ، الازفعۃ، ” لضاحۃ “ اور ” القارعۃ “ اس کے نام ہیں ۔ ان میں ’ ’ تائ “ مبالغہ کے لیے ہے۔ اس کا نام ” الواقعۃ “ اس کے یقینی ہونے کی وجہ سے رکھا گیا ہے ، کیونکہ وہ ہر حال میں ہو کر رہنے والی ہے۔ یعنی جب قیامت قائم ہوگی، جیسا کہ سورة ٔ حاقہ میں ہے :(فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ وَّ حُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَّاحِدَۃً فَیَوْمَئِذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعۃَُ ) (الحاقۃ : ١٣ تا ١٥)” پس جب صور میں پھونکا جائے گا ، ایک بار پھونکنا ۔ اور زمین اور پہاڑوں کو اٹھایا جائے گا ، پس دونوں ٹکرا دیئے جائیں گے ، ایک بار ٹکرا دینا ، تو اس دن ہونے والی ہوجائے گی “۔
خلاصہ تفسیر - جب قیامت آوے گی جس کے واقع ہونے میں کوئی خلاف نہیں (بلکہ اس کا واقع ہونا بالکل صحیح اور حق ہے) تو وہ (بعض کو) پست کر دے گی (اور بعض کو) بلند کر دے گی (یعنی کفار کی ذلت کا اور مومنین کی رفعت کا اس روز ظہور ہوگا) جبکہ زمین کو سخت زلزلہ آوے گا اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ ہوجاویں گے پھر وہ پراگندہ غبار ( کی طرح) ہوجاویں گے اور تم (سب آدمی جو اس وقت موجود ہو یا پہلے گزر چکے ہیں یا آئندہ آنے والے ہیں) تین قسم ہوجاؤ گے (جن کی تفصیل آگے آتی ہے، خواص مومنین اور عوام مومنین اور کفار کہ سورة رحمن میں بھی یہی تین قسمیں مذکور ہیں اور آئندہ آیات میں خواص کو مقربین اور سابقین کہا ہے اور عوام مومنین کو اصحاب الیمین اور کفار کو اصحاب الشمال اور ان آیات اذا وقعت سے ثلتہ تک میں بعض واقعات نفخہ اولیٰ یعنی پہلے صور کے وقت کے بیان فرمائے ہیں جسے رجت، جیسا شروع سورة حجر میں آیا ہے اور بست اور بعض واقعات نفخہ ثانیہ یعنی دوسرے صور کے وقت کے جیسے خافضتہ رافعتہ اور کنتم ازواجا اور بعض مشترک جیسے اذا وقعت اور لیس لوقعتہا، چونکہ نفخہ اولیٰ سے نفخہ ثانیہ تک کا تمام وقت ایک وقت کے حکم میں ہے اس لئے ہر جز وقت کو ہر واقعہ کا وقت کہا جاتا ہے، آگے ان تینوں قسموں میں تقسیم بیان کرنے کے بعد تینوں کے احکام الگ الگ ذکر کئے ہیں، اول اجمالاً پھر تفصیلاً کہ تین قسمیں جو مذکور ہیں) سو (ان میں ایک قسم یعنی) جو داہنے والے ہیں وہ داہنے والے کیسے اچھے ہیں (مراد اس سے جن کے نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیئے جائیں گے اور گویہ مفہوم مقربین میں بھی مشترک ہے، لیکن اسی صفت پر اکتفا کرنے سے اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ ان میں اصحاب الیمین سے زائد کوئی اور صفت قرب خاص کی نہیں پائی جاتی، اس طرح مراد اس سے عوام مؤمنین ہوگئے، اور اس میں اجمالاً ان کی حالت کا اچھا ہونا بتلا دیا، آگے فی سدر مخضود الخ سے اس اجمال کی تفصیل کی گئی ہے) اور (دوسری قسم یعنی) جو بائیں والے ہیں وہ بائیں والے کیسے برے ہیں (مراد اس سے جن کے نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیئے جاویں گے یعنی کفار اور اس میں اجمالاً ان کی حالت کا برا ہونا بتلا دیا آگے فی سموم الخ سے اس اجمال کی تفصیل کی گئی ہے) اور (تیسری قسم یعنی) جو اعلیٰ درجہ کے ہی ہیں (اور) وہ (خدا تعالیٰ کے ساتھ) خاص قرب رکھنے والے ہیں (اس میں تمام اعلیٰ درجہ کے بندے داخل ہیں، انبیاء اور اولیاء و صدیقین اور کامل متقی اور اس میں اجمالا ان کی حالت کا عالی ہونا بتلا دیا، آگے فی جنت النعم الخ سے اس اجمال کی تفصیل کی جاتی ہے یعنی) یہ (مقرب) لوگ آرام کے باغوں میں ہوں گے (جس کی مزید تفصیل علیٰ سرر سے آتی ہے اور درمیان میں ان مقربین خاص میں بہت سی جماعتوں کا شامل ہونا بتلاتے ہیں کہ) ان (مقربین) کا ایک بڑا گروہ تو اگلے لوگوں میں سے ہوگا اور تھوڑے پچھلے لوگوں میں سے ہوں گے (اگلوں سے مراد متقدمین ہیں آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قبل تک اور پچھلوں سے مراد حضور کے وقت سے لے کر قیامت تک، کذا فی الدر عن جابر مرفوعاً اور متقدمین میں کثرت سابقین اور متاخرین میں قلت سابقین کی وجہ یہ ہے کہ خواص ہر زمانہ میں کم ہوتے ہیں اور متقدمین یعنی آدم (علیہ السلام) سے زمانہ خاتم الانبیاء تک کا زمانہ بہت طویل ہے، بہ نسبت امت محمدیہ کے جو قرب قیامت میں پیدا ہوئی ہے، تو باقتضاء عادت زمانہ اس طویل زمانہ کے خواص بہ نسبت امت محمدیہ کے مختصر زمانے کے خواص کے زیادہ ہوں گے کیونکہ اس طویل زمانہ میں لاکھ دو لاکھ تو انبیاء ہی ہیں اور خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں کوئی اور نبی نہیں، اس لئے خواص مقربین کا بڑا گروہ متقدمین کا ہوگا اور متاخرین یعنی امت محمدیہ میں اس سے کم ہوگا، آگے مقربین خواص کے لئے جو نعمتیں مقرر ہیں ان کی تفصیل یہ ہے کہ) وہ (مقرب) لوگ سونے کے تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر تکیہ لگائے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے (در منثور میں حضرت ابن عباس سے لفظ موضونہ کی یہی تفسیر نقل کی ہے اور) ان کے پاس ایسے لڑکے ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے، یہ چیزیں لے کر آمد و رفت کیا کریں گے آبخورے اور آفتابے اور ایسا جام شراب جو بہتی ہوئی شراب سے بھرا جاوے گا (اس کی تحقیق سورة صافات میں گزر چکی ہے) نہ اس سے ان کو درد سر ہوگا اور نہ اس سے عقل میں فتور آئے گا (یہ بھی سورة صافات میں گزر چکا ہے) اور میوے جن کو وہ پسند کریں اور پرندوں کا گوشت جو ان کو مرغوب ہو اور ان کے لئے گوری گوری بڑی بڑی آنکھوں والی عورتیں ہوں گی (مراد حوریں ہیں جن کی رنگت ایسی صاف شفاف ہوگی) جیسے (حفاظت سے) پوشیدہ رکھا ہوا موتی، یہ ان کے اعمال کے صلہ میں ملے گا (اور) وہاں نہ بک بک سنیں گے اور نہ وہ کوئی اور بیہودہ بات (سنیں گے، یعنی شراب پی کر یا ویسے بھی ایسی چیزیں نہ پائی جاویں گے جن سے عیش مکدر ہوتی ہے) بس (ہر طرف سے) سلام ہی سلام کی آواز آوے گی (کقولہ تعالیٰ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ يَدْخُلُوْنَ عَلَيْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ ، سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ ، وقولہ تعالیٰ وَتَحِيَّتُھُمْ فِيْهَا سَلٰمٌ جو کہ دلیل اکرام و اعزاز کی ہے، غرض روحانی و جسمانی ہر طرح کی لذت و مسرت اعلیٰ درجہ کی ہوگی، یہ اجر سابقین کا بیان کیا گیا) اور (آگے اصحاب الیمین کی جزا کی تفصیل ہے یعنی) جو داہنے والے ہیں وہ داہنے والے کیسے اچھے ہیں (اس اجمال کا اعادہ تفصیل کے قبل اس لئے کیا گیا کہ اس اجمال کو فصل ہوگیا تھا آگے ان کے اچھے ہونے کا بیان ہے کہ) وہ ان باغوں میں ہوں گے جہاں بےخار بیریاں ہوں گی اور تہہ بتہ کیلے ہوں گے اور لمبا لمبا سایہ ہوگا اور چلتا ہوا پانی ہوگا اور کثرت سے میوے ہوں گے جو نہ ختم ہوں گے (جیسے دنیا کے میوے کہ فصل تمام ہونے سے تمام ہوجاتے ہیں) اور ان کی روک ٹوک ہوگی (جیسے دنیا میں باغ والے اس کی روک تھام کرتے ہیں) اور اونچے اونچے فرش (کیونکہ جن درجوں میں وہ بچھے ہیں وہ درجے بلند) ہوں گے (اور چونکہ مقام خوش عیشی کا ہے اور خوشی عیشی بدون عورتوں کے کامل نہیں ہوتی، اس طور پر ان اسباب عیش کے ذکر ہی سے عورتوں کا ہونا معلوم ہوگیا، لہٰذا آگے بہشتی عورتوں کی طرف انشانھن کی ضمیر راجع کر کے ان کا ذکر فرمایا جاتا ہے کہ) ہم نے (وہاں کی) ان عورتوں کو (جن میں جنت کی حوریں بھی شامل ہیں اور دنیا کی عورتیں بھی، جیسا کہ روح المعانی میں ترمذی کے حوالہ سے یہ حدیث مرفوع نقل کی ہے کہ اس آیت میں جن عورتوں کی تخلیق جدید کا ذکر ہے ان سے مراد وہ عورتیں ہیں جو دنیا میں بوڑھی یا بدشکل تھیں ان کے متعلق فرمایا کہ ہم نے ان عورتوں کو) خاص طور پر بنایا ہے (جن کی تفصیل آگے ہے) یعنی ہم نے ان کو ایسا بنایا کہ وہ کنواریاں ہیں (یعنی بعد مقاربت کے پھر کنواری ہوجاویں گی، جیسا کہ درمنثور میں حضرت ابو سعید خدری کی مرفوع حدیث سے ثابت ہے اور) محبوبہ ہیں (یعنی حرکات و شمائل و ناز و انداز و حسن و جمال سب چیزیں ان کی دلکش ہیں اور اہل جنت کی) ہم عمر ہیں (اس کی تحقیق سورة ص میں گزر چکی ہے) یہ سب چیزیں داہنے والوں کے لئے ہیں (آگے یہ بتلاتے ہیں کہ داہنے والے بھی مختلف قسم کے لوگ ہوں گے یعنی) ان (اصحاب الیمین) کا ایک بڑا گروہ اگلے لوگوں میں سے ہوگا اور ایک بڑا گروہ پچھلے لوگوں میں سے ہوگا (بلکہ متاخرین میں اصحاب الیمین بہ نسبت متقدمین کے تعداد میں زیادہ ہوں گے، چناچہ احادیث میں تصریح ہے کہ اس امت کے مؤمنین کا مجموعہ پچھلی تمام امتوں کے مؤمنین کے مجموعہ سے زیادہ ہوگا اور اس کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ اصحاب الیمین اس امت میں زیادہ ہوں کیونکہ خواص مقربین کی اکثریت تو متقدمین میں خود آیت بالا سے ثابت ہوچکی ہے اور جب اصحاب الیمین مرتبہ میں مقربین سے کم ہیں تو ان کی جزا بھی کم ہوگی سو اس کی توجیہ یہ ہے کہ مقربین کی جزا میں وہ سامان عیش زیادہ مذکور ہے جو اہل شہر کو زیادہ مرغوب ہے اور اصحاب الیمین کی جزا میں وہ سامان عیش زیادہ مذکور ہے جو دیہات و قصبات والوں کو مرغوب ہے، اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ ان دونوں میں ایسا تفاوت ہوگا جیسا اہل شہر و اہل قریہ میں ہوا کرتا ہے، (کذافی الروح) اور (آگے کفار کا اور ان کے عقاب و عذاب کا ذکر ہے، یعنی) جو بائیں والے ہیں وہ بائیں والے کیسے برے ہیں (اور اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ) وہ لوگ آگ میں ہوں گے اور کھولتے ہوئے پانی میں اور سیاہ دھویں کے سیا یہ میں جو نہ ٹھنڈا ہوگا اور نہ فرحت بخش ہوگا (یعنی سایہ سے ایک جسمانی نفع ہوتا ہے راحت برودت اور ایک روحانی نفع ہوتا ہے لذت و فرحت، وہاں دونوں نہ ہوں گے، یہ وہی دھواں ہے جس کا ذکر اوپر سورة رحمن میں بلفظ نحاس آیا ہے، آگے اس عذاب کی وجہ ارشاد ہے کہ) وہ لوگ اس کے قبل (یعنی دنیا میں) بڑی خوشحالی میں رہتے تھے اور (اس خوشحالی کے غرہ میں) بڑے بھاری گناہ (یعنی شرک و کفر) پر اصرار کیا کرتے تھے (مطلب یہ کہ ایمان نہیں لائے تھے) اور (آگے ان کے کفر کا بیان ہے جس کو زیادہ دخل ہے طلب حق نہ ہونے میں یعنی وہ) یوں کہا کرتے تھے کہ جب ہم مر گئے اور مٹی اور ہڈیاں (ہو کر) رہ گئے تو کیا (اس کے بعد) ہم دوبارہ زندہ کئے جاویں گے اور کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی (زندہ ہوں گے، چونکہ منکرین قیامت میں بعض کفار پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں بھی تھے اس لئے اس کے متعلق ارشاد ہے کہ) آپ کہہ دیجئے کہ سب اگلے اور پچھلے جمع کئے جاویں گے ایک معین تاریخ کے وقت پر پھر (جمع ہونے کے بعد) تم کو اے گمراہو جھٹلانے والو درخت زقوم سے کھانا ہوگا پھر اس سے پیٹ بھرنا ہوگا، پھر اس پر کھولتا ہوا پانی پینا ہوگا پھر پینا بھی پیاسے اونٹوں کا سا (غرض) ان لوگوں کی قیامت کے روز یہ مہمانی ہوگی۔- معارف و مسائل - سورة واقعہ کی خصوصی فضیلت مرض وفات میں عبداللہ بن مسعود کی سبق آموز ہدایات :- ابن کثیر نے بحوالہ ابن عساکر ابوظبیہ سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے مرض وفات میں حضرت عثمان غنی عیادت کے لئے تشریف لے گئے، حضرت عثمان نے پوچھا ما تشتکی (تمہیں کیا تکلیف ہے) تو فرمایا، ذنوبی (یعنی اپنے گناہوں کی تکلیف ہے) پھر پوچھا ما تشتھی (یعنی آپ کیا چاہتے ہیں) تو فرمایا رحمة ربی (یعنی اپنے رب کی رحمت چاہتا ہوں ) ، پھر حضرت عثمان نے فرمایا کہ میں آپ کے لئے کسی طبیب (معالج) کو بلاتا ہوں تو فرمایا الطبیب امرضی (یعنی مجھے طبیب ہی نے بیمار کیا ہے) پھر حضرت عثمان نے فرمایا کہ میں آپ کے لئے بیت المال سے کوئی عطیہ بھیج دوں تو فرمایا لا حاجة لی فیھا (مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں) حضرت عثمان نے فرمایا کہ عطیہ لے لیجئے وہ آپ کے بعد آپ کی لڑکیوں کے کام آئے گا تو فرمایا کہ کیا آپ کو میری لڑکیوں کے بارے میں یہ فکر ہے کہ وہ فقروقاقہ میں مبتلا ہوجائیں گی، مگر مجھے یہ فکر اس لئے نہیں کہ میں نے اپنی لڑکیوں کو تاکید کر رکھی ہے کہ ہر رات سورة واقعہ پڑھا کریں، کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے :- من قرا سورة الواقعة کل لیلة لم تصبہ فاقة ابدا (ابن کثیر)- " جو شخص ہر رات میں سورة واقعہ پڑھا کرے وہ کبھی فاقہ میں مبتلا نہیں ہوگا "۔- ابن کثیر نے یہ روایت بسند ابن عساکر نقل کرنے کے بعد اس کی تائید دوسری سندوں اور دوسری کتابوں سے بھی پیش کی ہے۔- اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ ، ابن کثیر نے فرمایا کہ واقعہ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے، کیونکہ اس کے وقوع میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔
اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ ١ ۙ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- وقع - الوُقُوعُ : ثبوتُ الشیءِ وسقوطُهُ. يقال : وَقَعَ الطائرُ وُقُوعاً ، والوَاقِعَةُ لا تقال إلّا في الشّدّة والمکروه، وأكثر ما جاء في القرآن من لفظ «وَقَعَ» جاء في العذاب والشّدائد نحو : إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة 1- 2] ،- ( و ق ع ) الوقوع - کے معنی کیس چیز کے ثابت ہونے اور نیچے گر نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ وقع الطیر وقوعا پر ندا نیچے گر پڑا ۔ الواقعۃ اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں سختی ہو اور قرآن پاک میں اس مادہ سے جس قدر مشتقات استعمال ہوئے ہیں وہ زیادہ تر عذاب اور شدائد کے واقع ہونے کے متعلق استعمال ہوئے ہیں چناچہ فرمایا ۔- إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة 1- 2] جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے اس کے واقع ہونے میں کچھ جھوٹ نہیں ۔
(١۔ ٦) جب قیامت قائم ہوگی جس کے واقع ہونے میں کوئی اختلاف اور شبہ و تردد نہیں ہے وہ بعض کو ان کے اعمال کی وجہ سے پست کر کے دوزخ میں داخل کردے گا اور بعض کو ان کے اعمال کی وجہ سے بلند کر کے جنت میں داخل کردے گا۔- اور قیامت کو واقع سخت آواز کی وجہ سے کہا گیا ہے کیونکہ اس وقت ایسی سخت ترین آواز ہوگی کہ نزدیک اور دور والے سب سن لیں گے جبکہ زمین کو سخت زلزلہ آئے گا کہ اونچی اونچی عمارتیں اور پہاڑ پارہ پارہ ہوجائیں گے۔- اور روئے زمین پر پہاڑ بادلوں کی طرح اڑنے لگیں گے یا یہ کہ اکھڑ پڑیں گے یا یہ کہ ستو اور اونٹوں کے چارہ کی طرح ریزہ ریزہ ہوجائیں گے پھر وہ پراگندہ غبار کی طرح ہوجائیں گے جیسا کہ سواریوں کے پیروں سے غبار اڑتا ہے یا سورج کی کرن ہوتی ہے جو کہ دروازہ کے سوراخ یا روشن دان سے کمرہ میں داخل ہوتی ہے۔
آیت ١ اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ ۔ ” جب وہ ہونے والا واقعہ رونما ہوجائے گا۔ “- اس آیت کا ترجمہ یوں بھی کیا جاسکتا ہے کہ ” جب وہ وقوع پذیرہونے والی وقوع پذیر ہوجائے گی “۔ یعنی جس قیامت کی خبر تم لوگوں کو دی جا رہی ہے جب وہ آجائے گی۔
1: اس آیت میں قیامت کو واقعہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ آج تو یہ کافر لوگ اس کا انکار کررہے ہیں، لیکن جب وہ واقعہ پیش آجائے گا تو کوئی اسے جھٹلا نہیں سکے گا۔