مقربین کون ہیں؟ اور اولین کون؟ ارشاد ہوتا ہے کہ مقربین خاص بہت سے پہلے کے ہیں اور کچھ پچھلوں میں سے بھی ہیں ، ان اولین و آخرین کی تفسیر میں کئی قول ہیں ، مثلاً اگلی امتوں میں سے اور اس امت میں سے ، امام ابن جریر اسی قول کو پسند کرتے ہیں اور اس حدیث کو بھی اس قول کی پختگی میں پیش کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا ہم پچھلے ہیں اور قیامت کے دن پہلے ہیں اور اس قول کی تائید ابن ابی حاتم کی اس روایت سے بھی ہو سکتی ہے کہ جب یہ آیت اتری اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت گراں گزری ۔ پس یہ آیت اتری ( ثُـلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ 13ۙ ) 56- الواقعة:13 ) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے امید ہے کہ کل اہل جنت کی چوتھائی تم ہو بلکہ تہائی تم ہو بلکہ آدھوں آدھ تم ہو تم آدھی جنت کے مالک ہو گے اور باقی آدھی تمام امتوں میں تقسیم ہو گی جن میں تم بھی شریک ہو ۔ یہ حدیث مسند احمد میں بھی ہے ۔ ابن عساکر میں ہے حضرت عمر نے اس آیت کو سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اگلی امتوں میں سے بہت لوگ سابقین میں داخل ہوں گے اور ہم میں سے کم لوگ ؟ اس کے ایک سال کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ اگلوں میں سے بھی بہت اور پچھلوں میں سے بھی بہت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کو بلا کر کہا سنو حضرت آدم سے لے کر مجھ تک ثلہ ہے اور صرف میری امت ثلہ ہے ، ہم اپنے ( ثلہ ) کو پورا کرنے کے لئے ان حبشیوں کو بھی لے لیں گے جو اونٹ کے چرواہے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے واحد اور لاشریک ہونے کی شہادت دیتے ہیں ۔ لیکن اس روایت کی سند میں نظر ہے ، ہاں بہت سی سندوں کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ثابت ہے کہ مجھے امید ہے کہ تم اہل جنت کی چوتھائی ہو آخر تک ۔ پس الحمد اللہ یہ ایک بہترین خوشخبری ہے ۔ امام ابن جریر نے جس قول کو پسند فرمایا ہے اس میں ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ دراصل یہ قول بہت کمزور ہے ۔ کیونکہ الفاظ قرآن سے اس امت کا اور تمام امتوں سے افضل و اعلیٰ ہونا ثابت ہے ، پھر کیسے ہو سکتا ہے؟ کہ مقربین بار گاہ صمدیت اور امتوں میں سے تو بہت سے ہوئے اور اس بہترین امت میں سے کم ہوں ، ہاں یہ توجیہ ہو سکتی ہے کہ ان تمام امتوں کے مقرب مل کر صرف اس ایک امت کے مقربین کی تعداد سے بڑھ جائیں ، لیکن بہ ظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اکل امتوں کے مقربین سے صرف اس ایک امت کے مقربین کی تعداد سے بڑھ جائیں ، لیکن بہ ظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کل امتوں کے مقربین سے صرف اس امت کے مقربین کی تعداد زیادہ ہوگی ۔ آگے اللہ کو علم ہے ۔ دوسرا قول اس جملہ کی تفسیر میں یہ ہے کہ اس امت کے شروع زمانے کے لوگوں میں سے مقربین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور بعد کے لوگوں میں کم ۔ یہی قول رائج ہے ۔ چنانچہ حضرت حسن سے مروی ہے کہ آپ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا سابقین تو گذر چکے اے اللہ تو ہمیں اصحاب یمین میں کر دے ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس امت میں سے جو گزر چکے ان میں مقربین بہت تھے ۔ امام ابن سیرین بھی یہی فرماتے ہیں ، کوئی شک نہیں کہ ہر امت میں یہی ہوتا چلا آیا ہے کہ شروع میں بہت سے مقربین ہوتے ہیں اور بعد والوں میں یہ تعداد کم ہو جاتی ہے ، تو یہ بھی ممکن ہے کہ مراد یونہی ہو یعنی ہر امت کے اگلے لوگ سبقت کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں بہ نسبت ہر امت کے پچھلے لوگوں کے ، چنانچہ صحاح وغیرہ کی احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب زمانوں میں بہتر زمانہ میرا زمانہ ہے پھر اس کے بعد والا پھر اس کا متصل زمانہ ، الخ ۔ ہاں ایک حدیث میں یہ بھی آیا میری امت کی مثال بارش جیسی ہے نہ معلوم کہ شروع زمانے کی بارش بہتر ہو یا آخر زمانے کی ، تو یہ حدیث جب کہ اس کی اسناد کو صحت کا حکم دے دیا جائے اس امر پر محمول ہے کہ جس طرح دین کو شروع کے لوگوں کی ضرورت تھی جو اس کی تبلیغ اپنے بعد والوں کو کریں اسی طرح آ کر میں بھی اسے قائم رکھنے والوں کی ضرورت ہے جو لوگوں کو سنت رسول پر جمائیں اس کی روایتیں کریں اسے لوگوں پر ظاہر کریں ، لیکن فضیلت اول والوں کی ہی رہے گی ۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح کھیت کو شروع بارش کی اور آخری بارش کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بڑا فائدہ ابتدائی بارش سے ہی ہوتا ہے اس لئے کہ اگر شروع شروع بارش نہ ہو تو دانے اگیں ہی نہیں نہ ان کی جڑیں جمیں ۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک جماعت میری امت میں سے ہمیشہ حق پر رہ کر غالب رہے گی ان کے دشمن انہیں ضرر نہ پہنچا سکیں گے ، ان کے مخالف انہیں رسوا اور پست نہ کر سکیں گے یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے گی اور وہ اس طرح ہوں ۔ الغرض یہ امت باقی تمام امتوں سے افضل و اشرف ہے اور اس میں مقربین الیہہ بنسبت اور امتوں کے بہت ہیں ، اور بہت بڑے مرتبے والے کیونکہ دین کے کامل ہونے اور نبی کے عالی مرتبہ ہونے کے لحاظ سے یہ سب بہتر ہیں ۔ تواتر کے ساتھ یہ حدیث ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس امت میں سے ستر ہزار لوگ بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے اور ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے ، طبرانی میں ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے ایک بہت بڑی جماعت قیامت کے روز کھڑی کی جائے گی جو اس قدر بری اور گنتی میں زائد ہو گی کہ گویا رات آ گئی زمین کے تمام کناروں کو گھیرا لے گی فرشتے کہنے لگیں گے سب نبیوں کے ساتھ جتنے لوگ آئے ہیں ان سے بہت ہی زیادہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں ۔ مناسب مقام یہ ہے کہ بہت بری جماعت اگلوں میں سے اور بہت ہی بڑی پچھلوں میں سے والی آیت کی تفسیر کے موقع پر یہ حدیث ذکر کر دی جائے جو حافظ ابو بکر بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل نبوۃ میں وارد کی ہے کہ رسول اللہ لی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز پڑھتے پاؤں موڑے ہوئے ہی ستر مرتبہ یہ پڑھتے دعا ( سبحان اللہ وبحمدہ استغفر اللہ ان اللہ کان تواباً ) پھر فرماتے ستر کے بدلے سات سو ہیں جس کے ایک دن کے گناہ سات سو سے بھی بڑھ جائیں وہ بےخبر ہے پھر دو مرتبہ اسی کو فرماتے پھر لوگوں کی طرف منہ کر کے بیٹھے اور چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب اچھا معلوم ہوتا تھا اس لئے پوچھتے کہ کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟ ابو زمل کہتے ہیں ایک دن اسی طرح حسب عادت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا تو میں نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے ایک خواب دیکھا ہے ، فرمایا اللہ خیر سے ملائے شر سے بچائے ہمارے لئے بہتر بنائے اور ہمارے دشمنوں کے لئے بدتر بنائے ہر قسم کی تعریفوں کا مستحق وہ اللہ ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ، اپنا خواب بیان کرو ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے دیکھا کہ ایک راستہ ہے کشادہ ، آسان ، نرم ، صاف اور بیشمار لوگ اس راستے میں چلے جا رہے ہیں یہ راستہ جاتے جاتے ایک سر سبز باغ کو نکلتا ہے کہ میری آنکھوں نے ایسا لہلہاتا ہوا ہرا بھرا باغ کبھی نہیں دیکھا پانی ہر سو رواں ہے سبزے سے پٹا پڑا ہے انواع و اقوام کے درخت خوشنما پھلے پھولے کھڑے ہیں اب میں نے دیکھا کہ پہلی جماعت جو آئی اور اس باغ کے پاس پہنچی تو انہوں نے اپنی سواریاں تیز کرلیں دائیں بائیں نہیں گئے اور تیز رفتاری کے ساتھ یہاں سے گزر گئے ۔ پھر دوسری جماعت آئی جو تعداد میں بہت زیادہ تھی ، جب یہاں پہنچے تو بعض لوگوں نے اپنے جانوروں کو چرانا چگانا شروع کیا اور بعضوں نے کچھ لے لیا اور چل دیئے پھر تو بہت زیادہ لوگ آئے جب ان کا گذرا ان گل و گلزار پر ہوا تو یہ تو پھول گئے اور کہنے لگے یہ سب سے اچھی جگہ ہے گویا میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ دائیں بائیں جھک پڑے میں نے یہ دیکھا لیکن میں آپ تو چلتا ہی رہا جب دور نکل گیا تو میں نے دیکھا کہ ایک منبر سات سیڑھیوں کا بچھا ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اعلیٰ درجہ پر تشریف فرما ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب ایک صاحب ہیں گندم گوں رنگ بھری انگلیوں والے دراز قد جب کلام کرتے ہیں تو سب خاموشی سے سنتے ہیں اور لوگ اونچے ہو ہو کر توجہ سے ان کی باتیں سنتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں طرف ایک شخص ہیں بھرے جسم کے درمیانہ قد کے جن کے چہرہ پر بکثرت تل ہیں ان کے بال گویا پانی سے تر ہیں جب وہ بات کرتے ہیں تو ان کے اکرام کی وجہ سے سب لوگ جھک جاتے ہیں پھر اس سے آگے ایک شخص ہیں جو اخلاق و عادات میں اور چہرے نقشے میں بالکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے ہیں ، آپ لوگ سب ان کی طرف پوری توجہ کرتے ہیں اور ان کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ ان سے آ گئے ایک دبلی پتلی بڑھیا اونٹنی ہے میں نے دیکھا کہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اٹھا رہے ہیں ، یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ متغیر ہو گیا تھوڑی دیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت بدل گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سیدھے سچے اور صحیح راستے سے مراد تو وہ دین ہے جسے میں لے کر اللہ کی طرف سے آیا ہوں اور جس ہدایت پر تم ہو ، ہر بھرا سبز باغ جو تم نے دیکھا ہے وہ دنیا ہے اور اس کی عیش و عشرت کا دل لبھانے والا سامان ، میں اور میرے اصحاب تو اس سے گذر جائیں گے نہ تم اس میں مشغول ہوں گے نہ وہ ہمیں چمٹے گی نہ ہمارا تعلق اس سے ہوگا نہ اس کا تعلق ہم سے نہ ہم اس کی چاہت کریں گے نہ وہ ہمیں لپٹے گی ، پھر ہمارے بعد دوسری جماعت آئے گی جو ہم سے تعداد میں بہت زیاددہ ہوگی ان میں سے بعض تو اس دنیا میں پھنس جائیں گے اور بعض بقدر حاجت لے لیں گے اور چل دیں گے اور نجات پالیں گے ، پھر ان کے بعد زبردست جماعت آئے جو اس دنیا میں بالکل مستغرق ہو جائے گی اور دائیں بائیں بہک جائے گی آیت ( فانا للہ وانا الیہ راجعون ) ۔ اب رہے تم سو تم اپنی سیدھی راہ چلتے رہو گے یہاں تک کہ مجھ سے تمہاری ملاقات ہو جائے گی ، جس منبر کے آخری ساتوں درجہ پر تم نے مجھے دیکھا اس کی تعبیر یہ ہے کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال کی ہے میں آخری ہزارویں سال میں ہوں میرے دائیں جس گندمی رنگ موٹی ہتھیلی والے انسان کو تم نے دیکھا وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں جب وہ کلام کرتے ہیں تو لوگ اونچے ہو جاتے ہیں اس لئے کہ انہیں اللہ تعالیٰ سے شرف ہم کلامی ہو چکا ہے اور جنہیں تم نے میرے بائیں دیکھا جو درمیانہ قد کے بھرے جسم کے بہت سے تلوں والے تھے جن کے بال پانی سے تر نظر آتے تھے وہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ہیں چونکہ ان کا اکرام اللہ تعالیٰ نے کیا ہے ہم سب بھی ان کی بزرگی کرتے ہیں اور جن شیخ کو تم نے بالکل مجھ سا دیکھا وہ ہمارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں ہم سب ان کا قصد کرتے ہیں اور ان کی اقتداء اور تابعداری کرتے ہیں اور جس اونٹنی کو تم نے دیکھا کہ میں اسے کھڑی کر رہا ہوں اور اس سے مراد قیامت ہے جو میری امت پر قائم ہوگی نہ میرے بعد کوئی نبی آئے گا ، نہ میری امت کے بعد کوئی امت ہے ۔ فرماتے ہیں اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پوچھنا چھوڑ دیا کہ کسی نے خواب دیکھا ہے؟ ہاں اگر کوئی شخص اپنے آپ اپنا خواب بیان کر دے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم تعبیر دے دیا کرتے تھے ۔ ان کے بیٹھنے کے تخت اور آرام کرنے کے پلنگ سونے کے تاروں سے بنے ہوئے ہوں گے جن میں جگہ جگہ موتی ٹکے ہوئے ہوں گے در و یاقوت جڑے ہوئے ہوں گے ۔ یہ فعیل معنی میں مفعول کے ہے اسی لئے اونٹنی کے پیٹ کے نیچے والے کو وضین کہتے ہیں ۔ سب کے منہ ایک دوسرے کے سامنے ہوں گے کوئی کسی کی طرف پیٹھ دیئے ہوئے نہ ہو گا ، وہ علماء ان کی خدمت گزاری میں مشغول ہوں گے جو عمر میں ویسے ہی چھوٹے رہیں گے نہ بڑے ہوں نہ بوڑھے ہوں ۔ نہ ان میں تغیر تبدیل آئے ۔ اکواب کہتے ہیں ان کوزوں کو جن کی ٹونٹی اور پکڑنے کی چیز نہ ہو اور اباریق وہ آفتابے جو ٹنٹی دار اور پکڑے جانے کے قابل ہوں ۔ یہ سب شراب کی جاری نہر سے چھلکتے ہوئے ہوں گے جو شراب نہ ختم ہو نہ کم ہو کیونکہ اس کے چشمے بہ رہے ہیں ، جام چھلکتے ہوئے ہر وقت اپنے نازک ہاتھوں میں لئے ہوئے یہ گل اندام ساقی ادھر ادھر گشت کر رہے ہوں گے ۔ اس شراب سے انہیں درد سر ہو نہ ان کی عقل زائل ہو بلکہ باوجود پورے سرور اور کیف کے عقل و حواس اپنی جگہ قائم رہیں گے اور کامل لذت حاصل ہو گی ۔ شراب میں چار صفتیں ہیں نشہ سر درد قی اور پیشاب ، پس پروردگار عالم نے جنت کی شراب کا ذکر کر کے ان چاروں نقصانوں کی نفی کر دی کہ وہ شراب ان نقصانات سے پاک ہے ۔ پھر قسم قسم کے میوے اور طرح طرح کے پرندوں کے گوشت انہیں ملیں گے جس میوے کو جی چاہے اور جس طرح کے گوشت کی طرف دل کی رغبت ہو موجود ہوجائیگا ، یہ تمام چیزیں لئے ہوئے ان کے سلیقہ شعار خدام ہر وقت ان کے ارد گرد گھومتے رہیں گے تا کہ جس چیز کی جب کبھی خواہش ہو لے لیں ، اس آیت میں دلیل ہے کہ آدمی میوے چن چن کر اپنی خواہش کے مطابق کھا سکتا ہے ، مسند ابو یعلی موصلی میں ہے حضرت عکراش بن ذویب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اپنی قوم کے صدقہ کے مال لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین اور انصار میں تشریف فرما تھے میرے ساتھ زکوٰۃ کے بہت سے اونٹ تھے گویا کہ وہ ریت کے درختوں کے چرئے ہوئے نوجوان اونٹ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کون ہو؟ میں نے کہا عکراش بن ذویب فرمایا اپنا نسب نامہ دور تک بیان کر دو میں نے مرہ بن دبیک تک کہہ سنایا اور ساتھ ہی کہا کہ زکوٰۃ مرہ بن عبید کی ہے پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمانے لگے یہ میری قوم کے اونٹ ہیں یہ میری قوم کے صدقہ کا مال ہے پھر حکم دیا کہ صدقے کے اونٹوں کے نشان ان پر کر دو اور ان کے ساتھ انہیں بھی ملا دو پھر میرا ہاتھ پکڑ کر ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہہ کے گھر تشریف لائے اور فرمایا کچھ کھانے کو ہے؟ جواب ملا کہ ہاں چنانچہ ایک بڑے لگن میں ٹکڑے ٹکڑے کی ہوئی روٹی آئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور میں نے کھانا شروع کیا ۔ میں ادھر ادھر سے نوالے لینے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے میرا داہنا ہاتھ تھام لیا ، اور فرمایا اے عکراش یہ تو ایک قسم کا کھانا ہے ایک جگہ سے کھاؤ ۔ پھر ایک سینی تر کھجوروں خشک کھجوروں کی آئی میں نے صرف میرے سامنے جو تھیں انہیں کھانا شروع کیا ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سینی کے ادھر ادھر سے جہاں سے جو پسند آتی تھی لے لیتے تھے اور مجھ سے بھی فرمایا اے عکراش اس میں ہر طرح کی کھجوریں ہیں جہاں سے چاہو کھاؤ جس قسم کی کھجور جس قسم کی کھجور چاہو لے لو ، پھر پانی آیا پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ دھوئے اور وہی تر ہاتھ اپنے چہرے پر اور دونوں بازوؤں اور سر پر تین دفعہ پھیر لئے اور فرمایا اے عکراش یہ وضو ہے اس چیز سے جسے آگ نے متغیر کیا ہو ۔ ( ترمزی اور ابن ماجہ ) امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب پسند تھا بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھ لیا کرتے تھے کہ کسی نے خواب دیکھا ہے؟ اگر کوئی ذکر کرتا اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس خواب سے خوش ہوتے تو اسے بہت اچھا لگتا ۔ ایک مرتبہ ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے آج ایک خواب دیکھا ہے کہ گویا میرے پاس کوئی آیا اور مجھے مدینہ سے لے چلا اور جنت میں پہنچا دیا پھر میں نے یکایک دھماکا سنا جس سے جنت میں ہل چل مچ گئی میں نے جو نظر اٹھا کر دیکھا تو فلاں بن فلاں اور فلاں بن فلاں کو دیکھا بارہ شخصوں کے نام لئے انہیں بارہ شخصوں کا ایک لشکر بنا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی دن ہوئے ایک مہم پر روانہ کیا ہوا تھا فرماتی ہیں انہیں لایا گیا یہ اطلس کے کپڑے پہنچے ہوئے تھے ان کی رگیں جوش مار رہی تھیں حکم ہوا کہ انہیں نہر بیدج میں لے جاؤں یا بیذک کہا ، جب ان لوگوں نے اس نہر میں غوطہ لگایا تو ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح چمکنے لگ گئے پھر ایک سونے کی سینی میں گدری کھجوریں آئیں جو انہوں نے اپنی حسب منشا کھائیں اور ساتھ ہی ہر طرح کے میوے جو چاروں طرف چنے ہوئے تھے جس میوے کو ان کا جی چاہتا تھا لیتے تھے اور کھاتے تھے میں نے بھی ان کے ساتھ شرکت کی اور وہ میوے کھائے ، مدت کے بعد ایک قاصد آیا اور کہا فلاں فلاں اشخاص جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر میں بھیجا تھا شہید ہو گئے ٹھیک بارہ شخصوں کے نام لئے اور یہ وہی نام تھے جنہیں اس بیوی صاحبہ نے اپنے خواب میں دیکھا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان نیک بخت صحابیہ کو پھر بلوایا اور فرمایا اپنا خواب دوبارہ بیان کرو اس نے پھر بیان کیا اور انہیں لوگوں کے نام لئے جن کے نام قاصد نے لئے تھے ۔ طبرانی میں ہے کہ جنتی جس میوے کو درخت سے توڑے گا وہیں اس جیسا اور پھل لگ جائے گا ۔ مسند احمد میں ہے کہ جنتی پرند بختی اور اونٹ کے برابر ہیں جو جنت میں چرتے چگتے رہتے ہیں ، حضرت صدیق نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پرند تو نہایت ہی مزے کے ہوں گے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کے کھانے والے ان سے بھی زیادہ ناز و نعمت والے ہوں گے ۔ تین مرتبہ یہی جملہ ارشاد فرما کر پھر فرمایا مجھے اللہ سے امید ہے کہ اے ابو بکر تم ان میں سے ہو جو ان پرندوں کا گوشت کھائیں گے ۔ حافظ ابو عبداللہ مصری کی کتاب صفۃ الجنت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے طوبی کا ذکر ہو پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضور صدیق اکبر سے دریافت فرمایا کہ جانتے ہو طوبیٰ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اللہ اور اس کے رسول کو پورا علم ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت کا ایک درخت ہے جس کی طولانی کا علم سوائے اللہ کے اور کسی کو نہیں اس کی ایک ایک شاخ تلے تیز سوار ستر ستر سال تک چلا جائے گا ۔ پھر بھی اس کا سایہ ختم نہ ہوا اس کے پتے بڑے چوڑے چوڑے ہیں ان پر بختی اونٹنی کے برابر پرند آ کر بیٹھتے ہیں ، ابو بکر نے فرمایا پھر تو یہ پرند بڑی ہی نعمتوں والے ہوں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان سے زیادہ نعمتوں والے ان کے کھانے والے ہوں گے اور انشاء اللہ تم بھی انہی میں سے ہو ۔ حضرت قتادہ سے بھی یہ پچھلا حصہ مروی ہے ۔ ابن ابی الدنیا میں حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کوثر کی بابت سوال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جنتی نہر ہے جو مجھے اللہ عزوجل نے عطا فرمائی ہے دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا اس کا پانی ہے اس کے کنارے بختی اونٹوں کی گردنوں جیسے پرند ہیں ۔ حضرت عمر نے فرمایا وہ پرند تو بڑے مزے میں ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کا کھانے والا ان سے زیادہ مزے میں ہے ۔ ( ترمذی ) امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنت میں ایک پرند ہے جس کے ستر ہزار پر ہیں جنتی کے دسترخوان پر وہ آئے گا اور اس کے ہر پر سے ایک قسم نکلے گی جو دودھ سے زیادہ سفید اور مکھن سے زیادہ نرم اور شہد سے زیادہ میٹھی پھر دوسرے پر سے دوسری قسم نکلے گی اسی طرح ہر پر سے ایک دوسرے سے جداگانہ ، پھر وہ پرند اڑ جائے گا یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور اس کے راوی رصانی اور ان کے استاد دونوں ضعیف ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں حضرت کعب سے مروی ہے کہ جنتی پرند مثل بختی اونٹوں کے ہیں جو جنت کے پھل کھاتے ہیں اور جنت کی نہروں کا پانی پیتے ہیں جنتیوں کا دل جس پرند کے کھانے کو چاہے گا وہ اس کے سامنے آجائے گا وہ جتنا چاہے گا جس پہلو کا گوشت پسند کرے گا کھائے گا پھر وہ پرند اڑ جائے گا اور جیسا تھا ویسا ہی ہوگا ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جنت کے جس پرند کو تو چاہے گا وہ بھنا بھنایا تیرے سامنے آ جائے گا ۔ حور کی دوسری قرأت رے کے زیر سے بھی ہے ۔ پیش سے تو مطلب ہے کہ جنتیوں کے لئے حوریں ہوں گی اور زیر سے یہ مطلب ہے کہ گویا اگلے اعراب کی ماتحتی میں یہ اعراب بھی ہے ، جیسے آیت ( وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ Č ) 5- المآئدہ:6 ) میں زبر کی قرأت ہے اور جیسے کہ آیت ( عٰلِيَهُمْ ثِيَابُ سُـنْدُسٍ خُضْرٌ وَّاِسْتَبْرَقٌ 21 ) 76- الإنسان:21 ) ہیں ۔ اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ غلمان اپنے ساتھ حوریں بھی لئے ہوئے ہوں گے لیکن ان کے محلات میں اور خیموں میں نہ کہ عام طور پر واللہ اعلم ۔ یہ حوریں ایسی ہوں گی جیسے تروتازہ سفید صاف موتی ہوں ، جیسے سورۃ صافات میں ہے آیت ( كَاَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ 49 ) 37- الصافات:49 ) سورۃ الرحمن میں بھی یہ وصف مع تفسیر گذر چکا ہے ۔ یہ ان کے نیک اعمال کا صلہ اور بدلہ ہے یعنی یہ تحفے ان کی حسن کارگزاری کا انعام ہے ۔ یہ جنت میں لغو بیہودہ بےمعنی خلاف طبع کوئی کلمہ بھی نہ سنیں گے حقارت اور برائی کا ایک لفظ بھی کان میں نہ پڑے گا ، جیسے اور آیت میں ہے ( لَّا تَسْمَعُ فِيْهَا لَاغِيَةً 11ۭ ) 88- الغاشية:11 ) فضول کلامی سے ان کے کان محفوظ رہیں گے ۔ نہ کوئی قبیح کلام کان میں پڑے گا ۔ ہاں صرف سلامتی بھرے سلام کے کلمات ایک دوسروں کو کہیں گے ، جیسے اور جگہ ارشاد فرمایا آیت ( تَحِيَّتُهُمْ فِيْهَا سَلٰمٌ 23 ) 14- ابراھیم:23 ) انکا تحفہ آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرنا ہوگا ۔ انکی بات چیت لغویت اور گناہ سے پاک ہوگی ۔
ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ قَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ :” ثلۃ “ پر تنوین تعظیم کے لیے ہے ، ایک بڑی جماعت ۔ اللہ تعالیٰ نے سابقون کے متعلق ” ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ قَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ “ اور اصحاب الیمین کے متعلق ” ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ قَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ “ فرمایا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں جگہ ” الاولین “ اور ” الاخرین “ سے مراد کیا ہے ؟ تو اس کے متعلق اہل علم کے دو قول ہیں ، ایک یہ کہ ” الاولین “ سے مراد پہلی امتیں ہیں اور ’ ’ الاخرین “ سے مراد ہماری امت ہے۔ انہیں ” الاخرین “ اس لیے کہا گیا کہ وہ تمام امتوں میں سے آخری امت ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ سابقون پہلی امتوں میں سے ایک بڑی جماعت ہیں اور آخری امت میں سے قلیل ہیں ۔ طبری نے تفسیر میں یہی قول ذکر فرمایا ہے، کوئی اور قول ذکر ہی نہیں کیا اور راحج قول بھی یہی قوم ہوتا ہے ، کیونکہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک مشہور قول کے مطابق ایک لاکھ سے زیادہ تو انبیاء ہی گزرے ہیں ۔ انبیاء سمیت ان کی امتوں کے سابقون یقینا بہت بڑی جماعت ہوں گے ، ان کی نسبت سے ہماری امت کے سابقون کی تعداد کم ہوگی۔ ہاں اصحاب الیمین جس طرح پہلی امتوں کے بہت بڑی جماعت ہوں گے ، ان کی نسبت سے ہماری امت کے سابقون کی تعداد کم ہوگی۔ ہاں اصحاب الیمین جس طرح پہلی امتوں کے بہت بڑی جماعت ہوں گے ہماری امت کے بھی بہت بڑی جماعت ہوں گے ، حتیٰ کہ ہماری امت کے افراد اہل جنت کا نصف ہوں گے ، جیسا کہ ” ثلثۃ من الاخرین “ کی تفسیر میں احادیث آرہی ہیں۔- اس قول کے راحج ہونے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اس سورت میں قیامت کا ذکر ہو رہا ہے اور اس دن یہ تین گروہ صرف ہماری امت کے نہیں ہوں گے بلکہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر آخری ابن آدم تک سب لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہوں گے ۔ اس اعتبار سے بھی اولین سے مراد پہلی امتیں ہیں اور آخرین سے مراد امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لوگ ہیں ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حدیث سے بھی اس قول کی تائید ہوتی ہے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( نحن الاخرون السابقون یوم القیاۃ بید انھم اوتوا الکتاب من قلبنا ، ثم ھذا یومھم الذی فرض علیھم فاختلفوا فیہ ، فھدانا اللہ ، فالناس لنا فیہ تبع ، الیھود عذر والنصاری بعد غد) (بخاری ، الجمعۃ ، باب فرض الجمعۃ۔۔۔۔۔ ٨٧٦، عن ابی ہریرۃ (رض) ) ” ہم آخر میں آنے والے ہیں ، قیامت ے دن پہلے ہوں گے ۔ اس لیے ان لوگوں کو ہم سے پہلے کتاب دی گئی ، پھر یہ ( جمعہ کا) دن جو ان پر فرض کیا گیا تو انہوں نے اس میں اختلاف کیا ، تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت دی ، چناچہ لوگ اس میں ہمارے پیچھے ہیں ، یہود اگلے دن اور نصاری اس سے اگلے دن “۔- دوسرا قول جسے ابن کثیر نے ترجیح دی ہے ، یہ ہے کہ دونوں جگہ اولین اور آخرین سے مراد امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اولین و آخرین ہیں اور مطلب یہ ہے کہ سابقون اس امت کے شروع کے لوگوں میں سے ایک بہت بڑی جماعت ہوں گے اور بعد کے لوگوں میں سے کم تعداد میں ہوں گے ۔ البتہ اصحاب الیمین امت کے شروع کے لوگوں میں بہت بڑی جماعت ہوں گے اور آخرحصے کے لوگوں سے بھی بہت بڑی جماعت ہوں گے۔ شروع کے لوگوں سے مراد صحابہ کرام (رض) اور ان سے قریب زمانوں کے لوگ ہیں۔ عبد اللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(خیر الناس قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم ثم یحییٰ ء قوم تسبق شھادۃ احدھم یمینہ و یمینہ شھادتہ) ( بخاری ، فضائل الصحابۃ ، باب فضائل اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔۔۔: ٣٦٥١)” سب لوگوں سے بہتر میرا زمانہ ہے ، پھر وہ لوگ جو ان سے ملیں گے ، پھر وہ لوگ جو ان سے ملیں گے ، پھر کچھ لوگ آئیں گے جن کی شہادت ان کی قسم سے پہلے اور ان کی قسم ان کی شہادت سے پہلے ہوگی ۔ “ ابن کثیر (رح) تعالیٰ نے ایک تیسرا قول ذکر فرمایا ہے کہ ہر امت کے ابتدائی لوگوں میں سابقون کی ایک بڑی جماعت ہوئی ہے جب کہ بعد کے لوگوں میں وہ قلیل ہوئے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان تینوں اقوال میں کوئی تعارض نہیں ، اپنی اپنی جگہ تینوں درست ہیں ، البتہ آیات کے سیاق کے مطابق یہاں پہلا راجح معلوم ہوتا ہے۔ ( واللہ اعلم)
ثُـلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ ، لفظ ثلہ بضم ثاء جماعت کو کہتے ہیں اور زمخشری نے کہا کہ بڑی جماعت کو ثلہ کہا جاتا ہے (روح)- اولین و آخرین سے کیا مراد ہے :- یہاں اولین و آخرین کی تقسیم کا دو جگہ ذکر آیا ہے، اول سابقین مقربین کے سلسلہ میں، دوسرا اصحاب الیمین یعنی عامہ مومنین کے سلسلے میں، پہلی جگہ یعنی سابقین میں تو یہ فرق کیا گیا ہے کہ یہ سابقین مقربین اولین میں سے ثلہ یعنی بڑی جماعت ہوگی اور آخرین میں سے کم ہوں گے، جیسا کہ آیت مذکورہ میں ہے اور دوسری جگہ اصحاب الیمین کے بیان میں اولین و آخرین دونوں میں لفظ ثلہ وارد ہوا ہے، جس کے معنی یہ ہوئے کہ اصحاب یمین اولین میں سے بڑی جماعت ہوگی، اسی طرح آخرین میں سے بھی بڑی جماعت ہوگی (ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ )- اب قابل غور یہ امر ہے کہ اولین سے مراد کون ہیں اور آخرین سے کون، اس میں حضرات مفسرین کے دو قول ہیں، ایک یہ کہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر قرب زمانہ خاتم الانبیاء تک کی تمام مخلوقات اولین میں داخل ہیں اور خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لے کر قیامت تک آنے والی مخلوق آخرین میں داخل ہے، یہ تفسیر مجاہد اور حسن بصری سے ابن ابی حاتم نے سند کے ساتھ نقل کی ہے اور ابن جریر نے بھی اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے، بیان القرآن کے خلاصہ تفسیر میں بھی اسی کو اختیار کیا گیا ہے، جو اوپر بیان ہوچکا ہے اور اس کی دلیل میں حضرت جابر کی مرفوع حدیث نقل کی ہے، یہ حدیث ابن عساکر نے اپنی سند کے ساتھ اس طرح نقل کی ہے کہ جب پہلی آیت جو سابقین مقربین کے سلسلے میں آئی ہے نازل ہوئی ۉثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ ، تو حضرت عمر بن خطاب نے عجب کے ساتھ عرض کیا کہ یا رسول اللہ کیا پچھلی امتوں میں سابقین زیادہ ہوں گے اور ہم میں کم ہوں گے ؟ اس کے بعد سال بھر تک اگلی آیت نازل نہیں ہوئی، جب ایک سال کے بعد آیت نازل ہوئی ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔- اسمع یا عمر ما قد انزل اللہ ثلة من الاولین وثلة من الاخرین الا و ان من ادم الی ثلة و امتی ثلة الحدیث (ابن کثیر)- " اے عمر سنو جو اللہ نے نازل فرمایا کہ اولین میں سے بھی ثلہ یعنی بڑی جماعت ہوگی اور آخرین میں سے بھی ثلہ یعنی بڑی جماعت ہوگی اور یاد رکھو کہ آدم (علیہ السلام) سے مجھ تک ایک ثلہ ہے اور میری امت دوسرا ثلہ "- اور اس مضمون کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو امام احمد اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ جب آیت ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ نازل ہوئی تو صحابہ کرام پر شاق ہوا کہ ہم بہ نسبت امم سابقہ کے کم رہیں گے، اس وقت دوسری آیت نازل ہوئی، ۉثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ ، اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ تم یعنی امت محمدیہ جنت میں ساری مخلوق کے مقابلہ میں چوتھائی، تہائی، بلکہ نصف اہل جنت ہو گے اور باقی نصف میں بھی کچھ تمہارا حصہ ہوگا ، (ابن کثیر) جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مجموعی طور پر اہل جنت میں اکثریت امت محمدیہ کی ہوجائے گی، مگر ان دونوں حدیثوں سے استدلال میں ایک اشکال یہ ہے کہ قَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ تو سابقین مقربین کے متعلق آیا ہے اور دوسری آیت میں جو ثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ آیا ہے وہ سابقین مقربین کے متعلق نہیں بلکہ اصحاب الیمین کے متعلق ہے۔- اس کا جواب روح المعانی میں یہ دیا ہے کہ صحابہ کرام اور حضرت عمر کو جو پہلی آیت سے رنج و غم ہوا، اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انہوں نے یہ خیال کیا ہوگا کہ جو نسبت سابقین میں ہے وہی شاید اصحاب الیمین اور عام اہل جنت میں ہوگی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کل اہل جنت میں ہماری تعداد بہت کم رہے گی، جب اصحاب الیمین کی تشریح میں اولین و آخرین دونوں میں لفظ ثلتہ نازل ہوا تو اس شبہ کا ازالہ ہوگیا کہ مجموعی اعتبار سے اہل جنت میں امت محمدیہ کی اکثریت رہے گی، اگرچہ سابقین اولین میں ان کی تعداد مجموعہ امم سابقہ کے مقابلہ میں کم رہے خصوصاً اس وجہ سے کہ مجموعہ امم سابق میں ایک بھاری تعداد انبیاء (علیہم السلام) کی ہے، ان کے مقابلہ میں امت محمدیہ کے لوگ کم رہیں تو کوئی غم کی چیز نہیں۔- لیکن ابن کثیر، ابو حیان، قرطبی، روح المعانی، مظہری وغیرہ نے سب تفسیروں میں دوسری تفسیر کو ترجیح دی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ اولین و آخرین دونوں طبقے اسی امت کے مراد ہیں، اولین اس امت کے قرون اولیٰ یعنی صحابہ وتابعین وغیرہ ہیں، جن کو حدیث میں خیر القرون فرمایا ہے اور آخرین قرون اولیٰ کے بعد والے حضرات ہیں۔- ابن کثیر نے حضرت جابر کی مرفوع حدیث جو پہلی تفسیر کی تائید میں اوپر لکھی گئی ہے، اس کی سند کے متعلق کہا ہے ولکن فی اسنادہ نظر، دوسری تفسیر کے لئے استدلال میں، وہ آیات قرآنی پیش کی ہیں جن میں امت محمدیہ کا خیر الامم ہونا مذکور ہے جیسے کنتم خیر امۃ وغیرہ اور فرمایا کہ یہ بات بہت مستبعد ہے کہ سابقین مقربین کی تعداد خیر الامم میں دوسری امتوں کی نسبت سے کم ہو، اس لئے راج یہ ہے کہ ثـلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ سے مراد اسی امت کے قرون اولیٰ ہیں، اور قَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ سے مراد بعد کے لوگ ہیں کہ ان میں مسابقین مقربین کی تعداد کم ہوگی۔- اس قول کی تائید میں ابن کثیر نے حضرت حسن بصری کا قول بروایت ابن ابی حاتم یہ پیش کیا ہے کہ حضرت حسن نے یہ آیت السابقون السابقون تلاوت کر کے فرمایا کہ سابقین تو ہم سے پہلے گزر چکے، لیکن یا اللہ ہمیں اصحاب الیمین میں داخل فرما دیجئے اور حضرت حسن سے دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ ثلتہ من الاولین کی تفسیر میں فرمایا ثلتہ ممن مضے من ہذہ الامۃ یعنی اولین سے مراد اسی امت کے سابقین ہیں۔- اسی طرح محمد بن سیرین نے فرمایا کہ ثـلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ کے متعلق علماء یہ کہتے اور توقع کرتے تھے کہ یہ اولین و آخرین سب اسی امت میں سے ہوں (ابن کثیر)- اور روح المعانی میں اس دوسری تفسیر کی تائید میں ایک حدیث مرفوع بسند حسن حضرت ابوبکرہ کی روایت سے یہ نقل کی ہے :۔- اخرج مسدد فی مسندہ وابن المنذر و الطبرانی و ابن مردویہ بسند حسن عن ابی بکرة عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی قولہ سبحانہ ثلة من الاولین و ثلة من الاخرین قال ھما جمیعا من ھذہ الامة- " مسدد نے اپنی مسند میں اور ابن المنذر، طبرانی اور ابن مردویہ نے سند حسن کے ساتھ حضرت ابوبکرہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت ۉثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ دونوں جماعتیں اسی امت محمدیہ میں سے ہوں گی "- اور حضرت ابن عباس سے بھی سند ضعیف کے ساتھ حدیث مرفوع بہت سے حضرات محدثین نے نقل کی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں ھما جمیعا من امتی، یعنی یہ دونوں اولین و آخرین میری ہی امت میں سے ہوں گے۔- اس تفسیر کے مطابق شروع آیت میں كُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَةً کا مخاطب امت محمدیہ ہی ہوگی اور یہ تینوں قسمیں امت محمدیہ ہی کی ہوں گی (روح المعانی )- تفسیر مظہری میں پہلی تفسیر کو اس لئے بہت بعید قرار دیا ہے کہ آیات قرآن کی واضح دلالت اس پر ہے کہ امت محمدیہ تمام امم سابقہ سے افضل ہے اور ظاہر یہ ہے کہ کسی امت کی فضیلت اس کے اندر اعلیٰ طبقہ کی زیادہ تعداد ہی سے ہوتی ہے، اس لئے یہ بات بعید ہے کہ افضل الامم کے اندر سابقین مقربین کی تعداد کم ہو آیات قرآن کنتم خیر امة اخرجت للناس اور لتکونوا شھدآء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا سے امت محمدیہ کی افضلیت سب امتوں پر ثابت ہے۔ اور ترمذی، ابن ماجہ و دارمی نے حضرت بہز بن حکیم سے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں :۔- انتم تتمون سبعین امة انتم اخیرھا واکرمھا علی اللہ تعالیٰ- " تم ستر سابقہ امتوں کا تتمہ ہوگے جن میں تم سب سے آخر میں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ اکرم و افضل ہو گے "- اور امام بخاری نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کے چوتھائی تم لوگ ہوجاؤ گے، ہم نے عرض کیا کہ بیشک ہم اس پر راضی ہیں تو آپ نے فرمایا :- والذی نفسی بیدہ انی لارجو ان تکونوا نصف اہل الجنة (از مظہری )- " قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے مجھے یہ امید ہے کہ تم (یعنی امت محمدیہ) اہل جنت کے نصف ہو گے "- اور ترمذی، حاکم و بیہقی نے حضرت بریدہ سے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کی سند کو حسن اور حاکم نے صحیح کہا ہے، الفاظ حدیث کے یہ ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :۔- اہل الجنتہ مائة وعشرون صفا ثمانون منہا من ھذہ الامۃ و اربعون من سائر الامم (مظہری)- " اہل جنت کل ایک سو بیس صفوں میں ہوں گے جن میں سے اسی صفیں اس امت کی ہوں گی باقی چالیس صفوں میں ساری امتیں شریک ہوں "- مذکور الصدر روایات میں اس امت کے اہل جنت کی نسبت دوسری امتوں کے اہل جنت سے کہیں چوتھائی کہیں نصف اور اس آخری روایت میں دو تہائی مذکور ہے، اس میں کوئی تعارض اس لئے نہیں کہ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اندازہ بیان کیا گیا ہے اس اندازہ میں مختلف اوقات میں زیادتی ہوتی رہی۔ واللہ اعلم
ثُـلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ ١٣ ۙ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ ١٤ ۭ- قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔
(١٣۔ ١٤) اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص قرب رکھنے والے ہیں۔ ان مقربین کا ایک بڑا گروہ تو اگلی امتوں میں سے ہوگا اور تھوڑے پچھلے لوگوں میں سے ہوں گے یعنی رسول اکرم کی امت میں سے اور کہا گیا ہے کہ یہ دونوں گروہ رسول اللہ کی امت میں سے ہوں گے۔- جس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو رسول اکرم اور صحابہ کرام اس آیت کے نزول کی وجہ سے غمگین ہوئے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی : ثُـلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ ۔ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ ۔- شان نزول : ثُـلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ ۔ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ (الخ)- امام احمد بن منذر اور ابن ابی حاتم نے سند غیر معروف کے ساتھ ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی ُـلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ ۔ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ تو یہ چیز صحابہ کرام پر گراں گزری اس وقت یہ آیت نازل ہوئی ُـلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ ۔ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ ۔- ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں ایسی سند کے ساتھ جس میں نظر ہے بطریق عروہ بن رویم جابر بن عبداللہ سے روایت کیا ہے کہ جس وقت سورة واقعہ نازل ہوئی اور اس میں ـلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ ۔ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ ۔ یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر فاروق نے عرض کیا یا رسول اللہ ایک بڑا گروہ اگلوں میں سے اور تھوڑا سا ہم میں سے تو اس پر سورت کا آخری حصہ ایک سال تک رکا رہا تب یہ آیت نازل ہوئی۔ ُـلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ ۔ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ ۔- تب رسول اکرم نے فرمایا عمر آؤ اور جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے اسے سنو یعنی ـلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ ۔ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ ۔- اور ابن ابی حاتم نے عروہ بن رویم سے مرسلا اور سعید بن منصور نے اپنی سنن میں اور بیہقی نے بعث میں عطاء و مجاہد سے روایت نقل کی ہے۔ کہ جب اہل طائف نے اس وادی کی درخواست کی جو کہ ان کے لیے تیار کی جائے اور اس میں شہد ہو، چناچہ ایسا ہی ہوا اور وہ بہت اچھی وادی تھی تو لوگوں کو کہتے ہوئے سنا کہ جنت میں ایسی ایسی چیزیں ہیں اس پر اور لوگوں نے کہا کاش جنت میں ہمارے لیے اس وادی کی طرح وادی ہو، اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی اور جو دائیں والے ہیں وہ دائیں والے کچھ اچھے ہیں۔ اور امام بیہقی نے دوسرے طریق سے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ لوگ وادی بوج اور اس کے سایہ اور اس کے کیلوں اور بیروں پر تعجب کیا کرتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور جو داہنے والے ہیں۔ (الخ)
آیت ١٣ ثُـلَّـۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ ۔ ” یہ بڑی تعداد میں ہوں گے پہلوں میں سے۔ “