3۔ 1 پستی اور بلندی سے مطلب ذلت اور عزت ہے۔ یعنی اللہ کے اطاعت گزار بندوں کو یہ بلند اور نافرمانوں کو پست کرے گی، چاہے دنیا میں معاملہ اس سے برعکس ہو،۔
[٢] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جب قیامت قائم ہوگی تو نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا۔ ستارے جھڑ جائیں گے۔ پہاڑ اڑنے لگیں گے اور اس عالم کی تمام اشیاء زیر و زبر ہوجائیں گی۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ متکبر، سرکش اور ظالم لوگوں کے سرنگوں کردے گی اور وہ ذلیل اور رسوا ہوجائیں گے۔ جس بلند مقام پر اپنے آپ کو وہ سمجھے بیٹھے تھے وہاں سے نیچے پٹخ دیئے جائیں گے اور جو لوگ متواضع، منکسرالمزاج اور پاکیزہ سیرت کے مالک ہوں گے جنہیں متکبرین دنیا میں حقیر اور رذیل مخلوق سمجھتے تھے انہیں ہی سربلندی عطا ہوگی اور وہ بلند درجات کے مالک اور اونچے مقام پر فائز ہوں گے۔
خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ : یعنی وہ بڑے بڑے متکبروں کو جو دنیا میں معزز اور بلند مرتبہ سمجھے جاتے تھے ، گرا کر جہنم میں پھینک دے گی اور مستضعفین اہل ایمان کو جو دنیا میں حقیر اور کم مرتبہ سمجھے جاتے تھے ، اٹھا کر جنت کے اعلیٰ مراتب تک پہنچا دے گی۔ مزید دیکھئے سورة ٔ مصطففین (٢٩ تا ٣٥)
خَافِضَةٌ رَّافِعَةٌ، یعنی واقعہ قیامت بہت سی بلند رتبہ قوموں اور افراد کو پست و ذلیل کر دے گا اور بہت سی پست و حقیر قوموں اور افراد کو سر بلند کر دے گا، حضرت ابن عباس سے اس جملہ کی یہی تفسیر منقول ہے اور مقصد اس کا ہولناک ہونا اور اس میں عجیب قسم کے انقلابات پیش آنے کا بیان ہے، جیسا کہ سلطنتوں اور حکومتوں کے انقلاب کے وقت مشاہدہ ہوا کرتا ہے کہ اوپر والے نیچے اور نیچے والے اوپر ہوجاتے ہیں، فقیر مالدار ہوجاتے ہیں مالدار فقیر ہوجاتے ہیں (روح)
خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ ٣ ۙ- خفض - الخَفْض : ضدّ الرّفع، والخَفْض الدّعة والسّير اللّيّن وقوله عزّ وجلّ : وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِ- [ الإسراء 24] ، فهو حثّ علی تليين الجانب والانقیاد، كأنّه ضدّ قوله : أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ [ النمل 31] ، وفي صفة القیامة : خافِضَةٌ رافِعَةٌ [ الواقعة 3] ، أي : تضع قوما وترفع آخرین، فخافضة إشارة إلى قوله : ثُمَّ رَدَدْناهُ أَسْفَلَ سافِلِينَ [ التین 5] .- ( خ ف ض )- الخفض ۔ یہ رفع کی ضد ہے اور خفض کے معنی نرم رفتاری اور سکون و راحت بھی آتے ہیں اور آیت کریمہ : وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِ [ الإسراء 24] اور عجز ونیاز سے ان کے آگے جھکے رہو ۔ میں ماں باپ کے ساتھ نرم بر تاؤ اور ان کا مطیع اور فرمانبردار ہوکر رہنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ گویا یہ ( کہ مجھ سے سر کشی نہ کرنا ) کی ضد ہے اور قیامت کے متعلق فرمایا : خافِضَةٌ رافِعَةٌ [ الواقعة 3] کسی کو پست کر ہی اور کسی کو بلند ۔ کیونکہ وہ بعض کو پست اور بعض کو بلند کردے گی پس خافضتہ میں آیت کریمہ : ثُمَّ رَدَدْناهُ أَسْفَلَ سافِلِينَ [ التین 5] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ - رفع - الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ- [ البقرة 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] - ( ر ف ع ) الرفع - ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔
آیت ٣ خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ ۔ ” وہ پست کرنے والی اور بلند کرنے والی ہوگی۔ “- بہت سے ایسے لوگ جو دنیا میں بہت بلند مقام و مناصب کے مالک تھے ‘ قیامت انہیں ذلیل و رسوا کر دے گی۔ اس کے برعکس کئی فقراء و مساکین جن کا دنیا میں کوئی ُ پرسانِ حال نہیں تھا ‘ اس دن بہت بلند مقامات پر فائز نظر آئیں گے۔ اس دن حضرت ابوہریرہ ‘ حضرت ابودردائ ‘ حضرت ابوذر غفاری اور دوسرے فقراء صحابہ کو ایسے اعلیٰ مراتب عطا ہوں گے جن کے بارے میں آج ہم لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے۔
سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :2 اصل الفاظ ہیں خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ ، گرانے والی اور اٹھانے والی ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ سب کچھ الٹ پلٹ کر کے رکھ دے گی ۔ نیچے کی چیزیں اوپر اور اوپر کی چیزیں نیچے ہو جائیں گی ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ گرے ہوئے لوگوں کو اٹھانے والی اور اٹھے ہوئے لوگوں کو گرانے والی ہو گی ، یعنی اس کے آنے پر انسانوں کے درمیان عزت و ذلت کا فیصلہ ایک دوسری ہی بنیاد پر ہو گا ۔ جو دنیا میں عزت والے بنے پھرتے تھے وہ ذلیل ہو جائیں گے اور جو ذلیل سمجھے جاتے تھے وہ عزت پائیں گے ۔