اِنَّـآ اَنْشَاْنٰـہُنَّ اِنْشَآئً :” انشانھن “ میں ” ھن “ کی ضمیر ان عورتوں کی طرف جا رہی ہے جن کا پچھلی آیت ” وَّ فُرُشٍ مَّرْفُوْعَۃٍ “ کے ضمن میں ذکر ہے ، کیونکہ جنتیوں کے بستروں میں ان کے ساتھ ان کی بیویاں بھی ہوں گی ، جیسا کہ فرمایا :(ہُمْ وَاَزْوَاجُہُمْ فِیْ ظِـلٰـلٍ عَلَی الْاَرَآئِکِ مُتَّکِئُوْنَ ) (یٰسین : ٥٦)” وہ اور ان کی بیویاں گھنے سایوں میں تختوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے “۔ ” انشا ینشی انشاء “ کا معنی نیا پیدا کرنا “ ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی مومن عورتیں بوڑھی یا بد صورت جیسی بھی تھیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں نئے سرے سے جوان، کنواری ، خوبصورت اور ان اوصاف والی بنا دے گا جس کا ان آیات میں ذکر ہے۔ اس کے علاوہ ان الفاظ میں وہ ” حورعین “ بھی شامل ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ جنتیوں ہی کے لیے پیدا فرمائے گا ۔
اِنَّآ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَاۗءً ، انشاء کے معنی پیدا کرنے کے ہیں، ہُنَّ کی ضمیر جنت کی عورتوں کی طرف راجع ہے، اگرچہ سابقہ قریبی آیات میں ان کا ذکر نہیں ہے، مگر ذرا فاصلہ سے سابقون کے بیان میں ان کا ذکر آ چکا ہے، اس لئے ضمیر ان کی طرف راجع ہو سکتی ہے اور اگر آیت مذکورہ میں فراش سے مراد جنت کی عورتیں ہیں، تو ضمیر ان کی طرف ہونا ظاہر ہے، نیز فرش و بستر وغیرہ عیش کی چیزوں کے ذکر میں خود ایک دلالت عورت کی طرف پائی جاتی ہے، اس لئے بھی ضمیر اس طرف راجع ہو سکتی ہے۔- معنی آیت کے یہ ہیں کہ ہم نے جنت کی عورتوں کی پیدائش و تخلیق ایک خاص انداز سے کی ہے یہ خاص انداز حوران جنت کے لئے تو اس طرح ہے کہ وہ جنت ہی میں بغیر ولادت کے پیدا کی گئی ہیں اور دنیا کی عورتیں جو جنت میں جائیں گی ان کی خاص تخلیق سے مطلب یہ ہوگا کہ جو دنیا میں بدشکل، سیاہ رنگ یا بوڑھی تھی اب اس کو حسین شکل و صورت میں جوان رعنا کردیا جائے گا، جیسا کہ ترمذی اور بیہقی حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (اِنَّآ اَنْشَاْنٰهُنَّ ) کی تفسیر میں فرمایا کہ جو عورتیں دنیا میں بوڑھی چندھی، سفید بال، بد شکل تھیں انہیں یہ نئی تخلیق حسین نوجوان بنا دے گی اور بیہقی نے حضرت صدیقہ عائشہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ایک روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر میں تشریف لائے میرے پاس ایک بوڑھیا بیٹھی ہوئی تھی، آپ نے دریافت فرمایا یہ کون ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میری رشتہ کی ایک خالہ ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطور مزاح کے فرمایا لا تدخل الجنة عجوز، یعنی جنت میں کوئی بڑھیا نہ جائے گی، یہ بیچاری سخت غمگین ہوئی، بعض روایات میں ہے کہ رونے لگی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو تسلی دی اور اپنی بات کی حقیقت یہ بیان فرمائی کہ جس وقت یہ جنت میں جائے گی تو بوڑھی نہ ہوگی بلکہ جوان ہو کر داخل ہوگی اور یہی آیت تلاوت فرمائی (مظہری)
اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ اِنْشَاۗءً ٣٥ ۙ- نشأ - النَّشْءُ والنَّشْأَةُ : إِحداثُ الشیءِ وتربیتُهُ. قال تعالی: وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة 62] . يقال : نَشَأَ فلان، والنَّاشِئُ يراد به الشَّابُّ ، وقوله : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل 6] يريد القیامَ والانتصابَ للصلاة، ومنه : نَشَأَ السَّحابُ لحدوثه في الهواء، وتربیته شيئا فشيئا . قال تعالی: وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] والإنْشَاءُ : إيجادُ الشیءِ وتربیتُهُ ، وأكثرُ ما يقال ذلک في الحَيَوانِ. قال تعالی: قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک 23] ، وقال : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم 32] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون 31] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون 14] ، وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة 61] ، ويُنْشِئُ النَّشْأَةَالْآخِرَةَ [ العنکبوت 20] فهذه كلُّها في الإيجاد المختصِّ بالله، وقوله تعالی: أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة 71- 72] فَلِتشبيه إيجادِ النَّارِ المستخرَجة بإيجادِ الإنسانِ ، وقوله : أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف 18] أي : يُرَبَّى تربيةً کتربيةِ النِّسَاء، وقرئ : يَنْشَأ» أي : يَتَرَبَّى.- ( ن ش ء) النشا والنشاۃ کسی چیز کو پیدا کرنا اور اس کی پرورش کرنا ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة 62] اور تم نے پہلی پیدائش تو جان ہی لی ہے ۔ نشافلان کے معنی کے بچہ کے جوان ہونے کے ہیں ۔ اور نوجوان کو ناشی کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل 6] کچھ نہیں کہ رات کا اٹھنا دنفس بہیمی کی سخت پامال کرتا ہے ۔ میں ناشئۃ کے معنی نماز کے لئے اٹھنے کے ہیں ۔ اسی سے نشاء السحاب کا محاورہ ہے جس کے معنی فضا میں بادل کے رونما ہونے اور آہستہ آہستہ بڑھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے َ : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے ۔ الانشاء ۔ ( افعال ) اس کے معنی کسی چیز کی ایجاد اور تربیت کے ہیں ۔ عموما یہ لفظ زندہ چیز ۔۔ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک 23] وہ خدا ہی جس نے تمہیں پیدا کیا ۔ اور تمہاری کان اور آنکھیں اور دل بنائے ۔ نیز فرمایا : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم 32] وہ تم کو خوب جانتا ہے جسب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون 31] پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور جماعت پیدا کی ۔ وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة 61] اور تم کو ایسے جہان میں جس کو تم نہیں جانتے پیدا کردیں ۔ ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون 14] پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا ويُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ [ العنکبوت 20] پھر خدا ہی پچھلی پیدائش پیدا کرے گا ۔ ان تمام آیات میں انسشاء بمعنی ایجاد استعمال ہوا ہے جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة 71- 72] بھلا دیکھو جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں ۔ میں آگ کا درخت اگانے پر بطور تشبیہ انشاء کا لفظ بولا گیا ہے اور آیت کریمہ ) أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف 18] کیا وہ جوز یور میں پرورش پائے ۔ میں ینشا کے معنی تربیت پانے کے ہیں نفی عورت جو زبور میں تربیت ۔ ایک قرآت میں ينشاء ہے یعنی پھلے پھولے ۔
آیت ٣٥ اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ اِنْشَآئً ۔ ” ان (کی بیویوں) کو اٹھایا ہے ہم نے بڑی اچھی اٹھان پر۔ “
8: قرآن کریم نے ان خواتین کا ذکر بڑے لطیف انداز میں فرمایا ہے کہ بس ضمیر سے ان کی طرف اشارہ فرمادیا ہے، صراحت کے ساتھ نام نہیں لیا، اس میں بڑی بلاغت بھی ہے اور ان خواتین کی پردہ داری بھی، بعض مفسرین نے اس سے مراد حوریں لی ہیں جو جنتیوں کے لئے خاص طور پر پیدا کی گئی ہیں یا پیدا کی جائیں گی، اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ان سے مراد نیک لوگوں کی وہ نیک بیویاں ہیں جو دنیا میں ان کی شریک حیات تھیں، آخرت میں ان کو نئی اٹھان دینے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں وہ کیسی ہی رہی ہوں جنت میں انہیں اپنے شوہروں کے لئے بہت خوبصورت بنا دیا جائے گا، جیسا کہ ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تصریح فرمائی ہے، اسی طرح جو خواتین دنیا میں بن بیاہی رہ گئی تھیں انہیں بھی نئی اٹھان دے کر کسی نہ کسی جنتی سے ان کا نکاح کردیا جائے گا، حدیث کی متعدد روایتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت دونوں قسم کی عورتوں کو شامل ہے، حوروں کو بھی اور دنیا کی نیک خواتین کو بھی (تفصیل کے لیے دیکھئے روح المعانی)