4 5 1یعنی دنیا اور آخرت سے غافل ہو کر عیش و عشرت کی زندگی میں ڈوبے ہوئے تھے۔
اِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُتْرَفِیْنَ : یعنی ان کا یہ انجام بد اس لیے ہوا کہ اس سے پہلے دنیا میں انہیں ہر طرح کی خوش حالی عطاء کی گئی تھی ، مگر اس خوش حالی نے ان پر الٹا اثر کیا اور وہ شکر گزار ہونے کے بجائے نافرمانی پر تل گئے اور حلال و حرام کی پرواہ کیے بغیر اپنے نفس کی لذتوں میں منہمک ہوگئے۔
اِنَّہُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُتْرَفِيْنَ ٤٥ ۚ ۖ - ترف - التُّرْفَةُ : التوسع في النعمة، يقال : أُتْرِفَ فلان فهو مُتْرَف . أَتْرَفْناهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ المؤمنون 33] ، وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ما أُتْرِفُوا فِيهِ [هود 116] - ( ت ر ف) الترفۃ - ۔ عیش و عشرت میں فراخی اور وسعت کو کہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ اترف فلان فھو مترف وہ آسودہ حال اور کثرت دولت کی وجہ سے بدمست ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَتْرَفْناهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ المؤمنون 33] اور دنیا کی زندگی میں ہم نے اس کو آسودگی دی رکھی تھی ۔ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ما أُتْرِفُوا فِيهِ [هود 116] اور جو ظالم تھے و ہ ان ہی باتوں کے پیچھے لگے رہے ۔ جن میں عیش و آرام تھا ۔
(٤٥۔ ٥٣) وہ لوگ دنیا میں بڑے حد سے تجاوز کرنے والے تھے یا یہ کہ بڑی خوش حالی میں رہتے تھے اور وہ بڑے بھاری گناہ پر یعنی شرک یا یہ کہ جھوٹی قسموں پر اصرار کیا کرتے تھے اور دنیا میں یوں کہا کرتے تھے کہ جب ہم مرگئے اور مٹی اور ہڈیاں ہوگئے تو کیا اس کے بعد ہم دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔- اور پھر اس کے بعد اے ایمان و ہدایت سے گمراہ ہونے والو اللہ تعالیٰ اور رسول اور کتاب کو جھٹلانے والو یعنی ابو جہل اور اس کے ساتھیو درخت زقوم سے کھانا ہوگا اور پھر اس درخت زقوم سے پیٹ بھرنا ہوگا یہ درخت دوزخ کی جڑ میں سے اگا ہوا ہے۔
آیت ٤٥ اِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُتْرَفِیْنَ ۔ ” یہ لوگ اس سے پہلے (دنیا میں) بڑے خوشحال تھے۔ “- دنیا میں انہیں ہر طرح کا عیش و آرام میسر تھا۔ وہاں انہوں نے خوب مزے کیے۔