Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

منکرین قیامت کو جواب اللہ تعالیٰ قیامت کے منکرین کو لاجواب کرنے کے لئے قیامت کے قائم ہونے اور لوگوں کے دوبارہ جی اٹھنے کی دلیل دے رہا ہے ، فرماتا ہے کہ جب ہم نے پہلی مرتبہ جبکہ تم کچھ نہ تھے تمہیں پیدا کر دیا تو اب فنا ہونے کے بعد جبکہ کچھ نہ کچھ تو تم رہو گے ہی ۔ تمہیں دوبارہ پیدا کرنا ہم پر کیا گراں ہوگا ؟ جب ابتدائی اور پہلی پیدائش کو مانتے ہو تو پھر دوسری مرتبہ کے پیدا ہونے سے کیوں انکار کرتے ہو؟ دیکھو انسان کے خاص پانی کے قطرے تو عورت کے بچہ دان میں پہنچ جاتے ہیں اتنا کام تو تمہارا تھا لیکن اب ان قطروں کو بصورت انسان پیدا کرنا یہ کس کا کام ہے؟ ظاہر ہے کہ تمہارا اس میں کوئی دخل نہیں کوئی ہاتھ نہیں کوئی قدرت نہیں کوئی تدبیر نہیں ، پیدا کرنا یہ صفت صرف خالق کل اللہ رب العزت کی ہی ہے ٹھیک اسی طرح مار ڈالنے پر بھی وہی قادر ہے ۔ کل آسمان و زمین والوں کی موت کا متصرف بھی اللہ ہی ہے ۔ پھر بھلا اتنی بڑی قدرتوں کا مالک کیا یہ نہیں کر سکتا کہ قیامت کے دن تمہاری پیدائش میں تبدیلی کر کے جس صفت اور جس حال میں چاہے تمہیں از سر نو پیدا کر دے ۔ پس جبکہ جانتے ہو مانتے ہو کہ ابتدائے آفرینش اسی نے کی ہے اور عقل باور کرتی ہے کہ پہلی پہلی پیدائش دوسری پیدائش سے مشکل ہے پھر دوسری پیدائش کا انکار کیوں کرتے ہو ؟ یہی اور جگہ ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ ۭ وَلَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ 27؀ۧ ) 30- الروم:27 ) اللہ ہی نے پہلی پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے اور وہی دوبارہ دوہرائے گا اور یہ اس پر بہت ہی آسان ہے ، سورۃ یاسین میں آیت ( اولم یر الانسان ) سے علیم ) تک ارشاد فرمایا یعنی ہم انسان کو نطفے سے پیدا کرتے ہیں پھر وہ حجت بازیاں کرنے لگتا ہے اور ہمارے سامنے مثالیں بیان کرنے لگتا ہے اور کہتا پھرتا ہے ان بوسیدہ گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا تم اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف سے جواب دو کہ انہیں وہ زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلے پہل پیدا کیا ہے وہ ہر پیدائش کا علم رکھنے والا ہے سورئہ قیامہ میں فرمایا آیت ( اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًى 36؀ۭ ) 75- القيامة:36 ) سے آخر سورۃ تک یعنی کیا انسان یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اسے یونہی آوارہ چھوڑ دیا جائے گا ؟ کیا یہ ایک غلیظ پانی کے نطفے کی شکل میں نہ تھا ، پھر خون کے لوتھڑے کی صورت میں نمایا ہوا تھا ؟ پھر اللہ نے اسے پیدا کیا درست کیا مرد عورت بنایا ایسا اللہ مردوں کے زندہ کرنے پر قادر نہیں؟

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

571یعنی تم جانتے ہو کہ تمہیں پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے، پھر تم اس کو مانتے کیوں نہیں ہو ؟ یا دوبارہ زندہ کرنے پر یقین کیوں نہیں کرتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ نَحْنُ خَلَقْنٰـکُمْ : قیامت کے دن لوگوں کے تین گروہوں میں تقسیم ہونے اور تینوں گروہوں کے ثواب اور عقاب کے ذکر کے بعد یہاں سے آیت (٧٤) تک جو دلائل پیش کئے گئے ہیں ان میں آخرت اور توحید دونوں پر استدلال کیا گیا ہے ، کیونکہ مشرکین ان دونوں کے منکر تھے ۔ یہ دلائل محض خیالی یا فلسفی باتیں نہیں بلکہ وہ واقعی اور حقیقی چیزیں ہیں جنہیں آدمی اپنی ذات میں محسوس کرتا ہے اور آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ ان میں اس کی اپنی پیدائش کا ذکر ہے ، کھیتی کا ذکر ہے جسے وہ خود کاشت کرتا ہے ، پانی کا ذکر ہے جسے وہ پیتا ہے اور آگ کا ذکر ہے جس سے وہ بیشمار فوائد حاصل کرتا ہے۔- ٢۔ فَلَوْلَا تُصَدِّقُوْنَ : یعنی تم جانتے ہو کہ ہم ہی نے تمہیں پیدا کیا ، کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں ، پھر تم کیوں نہیں مانتے کہ عبادت بھی صرف ہمارا حق ہے اور اس بات کو سچ کیوں نہیں مانتے کہ جس طرح ہم نے تمہیں پہلے پیدا کیا اسی طرح دوبارہ بھی پیدا کریں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - ہم نے تم کو (اول بار) پیدا کیا ہے (جس کو تم بھی تسلیم کرتے ہو) تو پھر تم (باعتبار اس کے نعمت ہونے کے توحید کی اور باعتبار اس کے دلیل قدرت علی الاعادہ ہونے کے قیامت کی) تصدیق کیوں نہیں کرتے (آگے اس تخلیق کی پھر اس کے اسباب بقاء کی تفصیل و تذکیر ہے یعنی) اچھا پھر یہ بتلاؤ تم جو (عورتوں کے رحم میں) منی پہنچاتے ہو اس کو تم آدمی بناتے ہو یا ہم بنانے والے ہیں (اور ظاہر ہے کہ ہم ہی بناتے ہیں اور) ہم ہی نے تمہارے درمیان میں موت کو (معین وقت پر) ٹھہرا رکھا ہے (مطلب یہ کہ بنانا اور اس بنائے ہوئے کو ایک وقت خاص تک باقی رکھنا یہ سب ہمارا ہی کام ہے، آگے یہ بتلاتے ہیں کہ جیسا انسان کی ذات کا پیدا کرنا اور باقی رکھنا ہمارا فعل ہے، اسی طرح تمہاری موجودہ صورت کو باقی رکھنا بھی ہمارا ہی فعل ہے) اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں کہ تمہاری جگہ تو تم جیسے اور (آدمی) پیدا کردیں اور تم کو ایسی صورت بنادیں جن کو تم جانتے بھی نہیں (یعنی مثلاً آدمی سے جانور کی صورت میں مسخ کردیں جس کا گمان بھی نہیں) اور (آگے تنبیہ ہے اس کی دلیل پر یعنی) تم کو اول پیدائش کا علم حاصل ہے (کہ وہ ہماری قدرت سے ہے) پھر تم کیوں نہیں سمجھتے (کہ سمجھ کر اس نعمت کا شکر ادا کرو اور توحید کا اقرار کرو اور قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے پر بھی استدلال کرو، آگے ایک دوسری تنبیہ ہے یعنی) اچھا پھر یہ بتلاؤ تم جو کچھ (تخم وغیرہ) بوتے ہو اس کو تم اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں (یعنی زمین میں بیج ڈالنے میں تو تم کو کچھ دخل ہے بھی، لیکن اس کو زمین سے نکالنا یہ کس کا فعل ہے، آگے یہ بتلاتے ہیں کہ زمین سے درخت اگانا جیسا ہمارا کام ہے آگے اس درخت سے تمہارا فائدہ اٹھانا بھی ہماری قدرت و حکمت پر موقوف ہے، جیسا اوپر بھی فرمایا تھا یعنی) اگر ہم چاہیں تو اس (پیداوار) کو چورا چورا کردیں (یعنی دانہ کچھ نہ پڑے، پتی خشک ہو کر ریزہ ہوجاوے) پھر تم متعجب ہو کر رہ جاؤ کہ (اب کے تو) ہم پر تاوان ہی پڑگیا (یعنی سرمایہ میں نقصان آ گیا، اور نقصان کیا) بلکہ بالکل ہی محروم رہ گئے (یعنی سارا ہی سرمایہ گیا گزرا، آگے تیسری تنبیہ ہے یعنی) اچھا پھر یہ بتلاؤ کہ جس پانی کو تم پیتے ہو اس کو بادل سے تم برساتے ہو یا ہم برسانے والے ہیں (پھر اس پانی کو پینے کے قابل بنانا ہماری دوسری نعمت ہے کہ) اگر ہم چاہیں اس کو کڑوا کر ڈالیں، تو تم شکر کیوں نہیں کرتے (اور بڑا شکر عقیدہ توحید و ترک کفر ہے، آگے چوتھی تنبیہ ہے یعنی) اچھا پھر یہ بتلاؤ جس آگ کو تم سلگاتے ہو اس کے درخت کو (جس میں سے یہ آگ جھڑتی ہے جس کا بیان آخر سورة یٰس میں آ چکا ہے اور اسی طرح جن ذرائع سے یہ آگ پیدا ہوتی ہے ان ذرائع کو) تم نے پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرنے والے ہیں ہم نے اس کو (آتش دوزخ کی یا اپنی قدرت عجیبہ کی) یاد دہانی کی چیز اور مسافروں کے لئے فائدہ کی چیز بنایا ہے (یاد دہانی ایک دینی فائدہ ہے اور دوسرا دنیوی فائدہ آگ سے کھانا پکانے کا ہے اور تخصیص مسافر کی حصر کے لئے نہیں بلکہ سفر میں آگ کمیاب ہونے کے سبب ایک شے عجیب ہوتی ہے اور متاعاً میں اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ آگ سے فائدہ اٹھانا بھی ہماری قدرت سے ہے) سو (جس کی ایسی قدرت ہے) اپنے (اس) عظیم الشان پروردگار کے نام کی تسبیح (وتحمید) کیجئے ، (کہ کمال ذات وصفات مقتضی استحقاق حمد و ثنا ہیں اور نام کی تسبیح وغیرہ کی تحقیق آیتہ آخر سورة رحمن میں گزر چکی ہے )- معارف و مسائل - شروع سورت سے یہاں تک محشر میں انسانوں کی تین قسمیں اور تینوں قسموں کے احکام اور جزا و سزا کا بیان تھا، مذکور الصدر آیات میں ان گمراہ لوگوں کو تنبیہ ہے جو سرے سے قیامت قائم ہونے اور دوبارہ زندہ ہونے ہی کے قائل نہیں، یا اللہ تعالیٰ کی عبادت میں دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں، انسان کی اس غفلت اور جہالت کا پردہ چاک کرنا ہے جس نے اس کو بھول میں ڈال رکھا ہے، توضیح اس کی یہ ہے کہ اس عالم کائنات میں جو کچھ موجود ہے یا وجود میں آ رہا ہے یا آئندہ آنے والا ہے اس کی تخلیق پھر اس کو باقی رکھنا اور پھر اس کو انسان کے مختلف کاموں میں لگا دینا یہ سب درحقیت حق تعالیٰ جل شانہ کی قدرت و حکمت کے کرشمے ہیں، اگر اسباب کے پردے درمیان میں نہ ہوں اور انسان ان سب چیزوں کی تخلیق بلا واسطہ اسباب کے مشاہدہ کرلے تو ایمان لانے پر مجبور ہوجائے، مگر حق تعالیٰ نے دنیا کو دار الامتحان بنایا ہے، اس لئے یہاں جو کچھ وجود و ظہور میں آتا ہے وہ اسباب کے پردوں میں آتا ہے۔- اور حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے ان اسباب اور مسببات میں ایک ایسا رابطہ مستحکم قائم فرما دیا ہے کہ جہاں کہیں سبب موجود ہوجاتا ہے تو مسبب ساتھ ساتھ وجود میں آجاتا ہے، جس کو دیکھنے والا لازم و ملزوم سمجھتا ہے اور ظاہر بین نظریں اسی سلسلہ اسباب میں الجھ کر رہ جاتی ہیں اور تخلیق کائنات کو انہی اسباب کی طرف منسوب کرنے لگتی ہیں، اصل قدرت اور حقیقی قوت فاعلہ جو ان اسباب و مسببات کو گردش دینے والی ہے اس کی طرف التفات نہیں رہتا۔- آیات مذکورہ میں حق تعالیٰ نے اول خود انسان کی تخلیق کی حقیقت کو واضح فرمایا، پھر انسانی ضروریات کی تخلیق کی حقیقت سے پردہ اٹھایا، خود انسان کو مخاطب کر کے سوالات کئے، ان سوالات کے ذریعہ اصل جواب کی طرف رہنمائی فرمائی، کیونکہ سوالات میں ان اسباب کی کمزوری اور ان کی علت تخلیق نہ ہونا واضح فرما دیا۔- آیات مذکورہ میں پہلی آیت نَحْنُ خَلَقْنٰكُمْ ایک دعویٰ ہے اور اگلی آیات اس کے دلائل ہیں، سب سے پہلے خود انسان کی تخلیق پر ایک سوال کیا گیا، کیونکہ غافل انسان چونکہ روز مرہ اس کا مشاہدہ کرتا رہتا ہے کہ مرد و عورت کے اختلاط سے حمل قرار پاتا ہے اور پھر وہ رحم مادر میں بڑھتا اور تیار ہوتا رہتا ہے اور نو مہینے کے بعد ایک مکمل انسان کی صورت میں پیدا ہوجاتا ہے، اس روز مرہ کے مشاہدہ سے غفلت شعار انسان کی نظر بس یہیں تک رہ جاتی ہے، کہ مرد و عورت کے باہمی اختلاط ہی کو تخلیق انسانی کی علت حقیقی سمجھنے لگتا ہے، اس لئے سوال یہ کیا گیا اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تُمْـنُوْنَ ءَاَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَهٗٓ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَ ، یعنی اے انسان ذرا غور تو کر کہ بچے کی پیدائش میں تیرا دخل اس کے سوا کیا ہے کہ تو نے ایک قطرہ منی ایک خاص محل میں پہنچا دیا، اس کے بعد کیا تجھے کچھ خبر ہے کہ اس نطفہ پر کیا کیا دور گزرے، کیا کیا تغیرات آئے کس کس طرح اس میں ہڈیاں اور گوشت پوست پیدا ہوئے اور کس کس طرح اس عالم اصغر کے وجود میں کیسی نازک نازک مشینیں غذا حاصل کرنے، خون بنانے اور روح حیوانی پیدا کرنے کی پھر دیکھنے، بولنے، سننے چکھنے اور سوچنے سمجھنے کی قوت اس کے وجود میں نصب فرمائیں کہ ایک انسان کا وجود ایک متحرک فیکٹری بن گیا، نہ باپ کو خبر ہے نہ ماں کو جس کے پیٹ میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے، آخر اگر عقل دنیا میں کوئی چیز ہے تو وہ یہ کیوں نہیں سمجھتی کہ عجیب و غریب حکمتوں پر مشتمل انسانی وجود کیا خود بخود بغیر کسی کے بنائے بن گیا ؟ اور اگر کوئی بنانے والا ہے تو وہ کون ہے ؟ ماں باپ کو تو خبر بھی نہیں کہ کیا بنا کس طرح بنا ؟ ان کو تو وضع حمل تک یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ حمل لڑکا ہے یا لڑکی، پھر آخر وہ کونسی قدرت ہے جس نے پیٹ کی پھر رحم کی پھر بچے کے اوپر پیک کی ہوئی جھلی کی تین اندھیریوں میں یہ حسین و جمیل، سمیع وبصیر، سوچنے سمجھنے والا وجود تیار کردیا، یہاں جو تبارک اللہ احسن الخا یقین بول اٹھنے پر مجبور نہ ہوجائے وہ عقل کا اندھا ہی ہوسکتا ہے۔- اس کے بعد کی آیات میں یہ بھی بتلا دیا کہ اے انسانو تم پیدا ہوجانے اور چلتا پھرتا فعال آدمی بن جانے کے بعد بھی اپنے وجود و بقا اور تمام کاروبار میں ہمارے ہی محتاج ہو، ہم نے تمہاری موت کا بھی ابھی سے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے اور اس وقت مقرر سے پہلے پہلے جو عمر تمہیں ملی اس میں تم اپنے آپ کو خود مختار پاتے ہو، یہ بھی تمہارا مغالطہ ہی ہے، ہمیں اس پر بھی قدرت ہے کہ ابھی ابھی تمہیں فنا کر کے تمہاری جگہ کوئی دوسری قوم پیدا کردیں اور یہ بھی قدرت ہے کہ تمہیں فنا کرنے کے بجائے کسی دوسری صورت حیوانی یا جماداتی میں تمہیں تبدیل کردیں، یہ مضمون ان آیات کا ہے نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِيْنَ ، عَلٰٓي اَنْ نُّبَدِّلَ اَمْثَالَكُمْ وَنُنْشِـىَٔـكُمْ فِيْ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ۔ موت کے مقدر اور وقت معین پر آنے میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ تم اپنی بقا میں آزاد و خود مختار نہیں، بلکہ تمہاری بقا ایک معین وقت تک ہے تمہیں حق تعالیٰ نے ایک خاص قوت وقدرت اور عقل و حکمت کا حامل بنایا ہے، اس سے کام لے کر تم بہت کچھ کرسکتے ہو، وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِيْنَ کا حاصل یہ ہے کہ ہمارے ارادے پر سبقت کرنے والا ہماری مشیت پر غالب آنے والا کوئی نہیں، ہم اس وقت بھی جو چاہیں کرسکتے ہیں کہ اَنْ نُّبَدِّلَ اَمْثَالَكُمْ ، یعنی تمہاری جگہ تمہارے مثل کوئی اور قوم لے آئیں، وَنُنْشِـىَٔـكُمْ فِيْ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ اور تمہاری وہ شکل بنادیں جس کو تم جانتے بھی نہیں، اس کی یہ شکل بھی ہو سکتی ہے کہ مر کر مٹی ہوجاؤ، یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کسی جانور کی شکل میں تبدیل ہوجاؤ، جیسے پچھلی امتوں پر صورتیں مسخ ہو کر بندر اور خنزیر بن جانے کا عذاب آ چکا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تمہیں پتھروں اور جمادات کی شکل میں تبدیل کردیا جائے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

نَحْنُ خَلَقْنٰكُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُوْنَ۝ ٥٧- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - «لَوْلَا»- يجيء علی وجهين :- أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] .- والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن .- ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ نَحْنُ خَلَقْنٰـکُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُوْنَ ۔ ” ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے ‘ تو تم لوگ تصدیق کیوں نہیں کرتے ؟ “- جب یہ تسلیم کرتے ہو کہ تم سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو پھر تم لوگوں کو یہ یقین کیوں نہیں آتا کہ وہی اللہ تمہیں دوبارہ بھی پیدا کرسکتا ہے۔ اس میں آخر تعجب اور شک والی کون سی بات ہے ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :22 یہاں سے آیت 74 تک جو دلائل پیش کیے گئے ہیں ان میں بیک وقت آخرت اور توحید دونوں پر استدلال کیا گیا ہے ، چونکہ مکہ کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے ان دونوں بنیادی اجزاء پر معترض تھے اس لیے یہاں دلائل اس انداز سے دیے گئے ہیں کہ آخرت کا ثبوت بھی ان سے ملتا ہے اور توحید کی صداقت کا بھی ۔ سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :23 یعنی اس بات کی تصدیق کہ ہم ہی تمہارے رب اور معبود ہیں ، اور ہم تمہیں دوبارہ بھی پیدا کر سکتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani