6 0 1یعنی ہر شخص کی موت کا وقت مقرر کردیا ہے، جس سے کوئی تجاوز نہیں کرسکتا، چناچہ کوئی بچپن میں، کوئی جوانی میں اور کوئی بڑھاپے میں فوت ہوتا ہے 6 0 2یا مغلوب اور عاجز نہیں ہیں، بلکہ قادر ہیں۔
[٢٨] انسان جو نطفہ رحم مادر میں ٹپکاتا ہے۔ اس کا ایک ایک قطرہ لاکھوں خوردبینی جراثیم پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان میں سے صرف ایک جرثومہ نسوانی بیضہ سے مل کر حمل کے استقرار کا سبب بنتا ہے باقی سب متحرک جرثومے رحم مادر سے خارج ہوتے ہی مرجاتے ہیں۔ استقرار حمل کے بعد بسا اوقات عورت کو خون جاری ہوجاتا ہے اور حمل ضائع ہوجاتا ہے۔ بعض دفعہ اسقاط ہوجاتا ہے اور بعض دفعہ بچہ پیٹ میں ہی مرجاتا ہے اور کبھی پیدا ہوتے ہی مرجاتا ہے اور جو زندہ پیدا ہوجاتے ہیں۔ ان کے سر پر بھی موت کی تلوار لٹکتی رہتی ہے معلوم نہیں کہ کس وقت رگ جان کو کاٹ ڈالے۔ کوئی بچپن میں ہی مرجاتا ہے کوئی جوانی میں اور کوئی بڑھاپے میں، اور کوئی سالہا سال بڑھاپے میں بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتا ہے۔ گویا موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ اور اس کا وقت بھی پہلے سے طے شدہ ہے۔ نہ اس لمحہ سے پہلے آسکتی ہے اور نہ اس کے وقت میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت نہ موت کو ٹال سکتی ہے نہ اس کا وقت بدل سکتی ہے۔ اب بتاؤ تمہاری زندگی اور تمہاری موت کے بارے میں اللہ کے سوا تمہارا اپنا یا کسی دوسرے کا کچھ اختیار ہے ؟ پھر بھی تمہیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ اللہ رب العالمین جو چاہے کرتا ہے اور کرسکتا ہے۔
نَحْنُ قَـدَّرْنَـا بَـیْـنَـکُمُ الْمَـوْتَ : یعنی تمہاری پیدائش کی طرح تمہاری موت بھی ہمارے ہی اختیار میں ہے اور ہم نے یہ طے کردیا ہے کہ کس کی موت کس وقت ہوگی ، ماں کے پیٹ میں مرجائے گا یا پیدا ہوتے ہی یا جوان ہو کر یا ادھڑ عمر میں یا ارذل العمر کو پہنچ کر۔ اس سے پہلے نہ کوئی اسے مار سکتا ہے اور نہ اس کے بعد کوئی اسے زندہ رکھ سکتا ہے۔ مزید دیکھئے سورة ٔ مومن (٦٧) ، فاطر (١١) ، منافقون (١١) ، اعراف (٣٤) ، نوح (٤) اور سورة ٔ آل عمران (٤٥) ۔- ٢۔” بینکم “ کے لفظ میں ایک اور معنی بھی ہے کہ موت ایسی چیز ہے جو تمہارے درمیان رکھ دی گئی ہے ، سب میں تقسیم ہوگی مگر ایک وقت میں نہیں ، بلکہ باری باری ہر ایک پر آئے گی ، جیسے کوئی مال لوگوں میں تقسیم ہونا اور انہیں اس کے لیے بلایا جائے تو وہ سب اس کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ کب ان کے نام کی آواز آئے اور انہیں ان کا حصہ ملے ، مگر کسی کو خبر نہیں ہوتی کہ اس کی باری کب آئے گی۔- ٣۔ وَمَـا نَحْنُ بِمَسْبُـوْقِـیْنَ :” سابق “ جو آگے نکل جائے ، غالب آجائے۔ ” مسبوق “ جو پیچھے رہ جائے ، مغلوب ہوجائے ، عاجز رہ جائے ۔ باء نفی کی تاکید کے لیے ہے ، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” اور ہم ہرگز عاجز نہیں “۔
نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِيْنَ ٦٠ ۙ- قَدْرُ والتَّقْدِيرُ- والقَدْرُ والتَّقْدِيرُ : تبيين كمّيّة الشیء . يقال :- قَدَرْتُهُ وقَدَّرْتُهُ ، وقَدَّرَهُ بالتّشدید : أعطاه الْقُدْرَةَ.- يقال : قَدَّرَنِي اللہ علی كذا وقوّاني عليه،- فَتَقْدِيرُ اللہ الأشياء علی وجهين :- أحدهما : بإعطاء القدرة .- والثاني : بأن يجعلها علی مقدار مخصوص ووجه مخصوص حسبما اقتضت الحکمة، وذلک أنّ فعل اللہ تعالیٰ ضربان :- ضرب أوجده بالفعل، ومعنی إيجاده بالفعل أن أبدعه کاملا دفعة لا تعتريه الزّيادة والنّقصان إلى إن يشاء أن يفنيه، أو يبدّله کالسماوات وما فيها . ومنها ما جعل أصوله موجودة بالفعل وأجزاء ه بالقوّة، وقدّره علی وجه لا يتأتّى منه غير ما قدّره فيه، کتقدیره في النّواة أن ينبت منها النّخل دون التّفّاح والزّيتون، وتقدیر منيّ الإنسان أن يكون منه الإنسان دون سائر الحیوانات .- فَتَقْدِيرُ اللہ علی وجهين :- أحدهما بالحکم منه أن يكون کذا أو لا يكون کذا، إمّا علی سبیل الوجوب، وإمّا علی سبیل الإمكان . وعلی ذلک قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] .- والثاني : بإعطاء الْقُدْرَةِ عليه . وقوله :- فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات 23] ، تنبيها أنّ كلّ ما يحكم به فهو محمود في حكمه، أو يكون من قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] ، وقرئ : فَقَدَرْنا - «1» بالتّشدید، وذلک منه، أو من إعطاء القدرة، وقوله : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة 60] ، فإنه تنبيه أنّ ذلک حكمة من حيث إنه هو الْمُقَدِّرُ ، وتنبيه أنّ ذلک ليس كما زعم المجوس أنّ اللہ يخلق وإبلیس يقتل، وقوله : إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ، إلى آخرها . أي : ليلة قيّضها لأمور مخصوصة . وقوله : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ- [ القمر 49] ، وقوله : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل 20] ، إشارة إلى ما أجري من تكوير اللیل علی النهار، وتكوير النهار علی اللیل، وأن ليس أحد يمكنه معرفة ساعاتهما وتوفية حقّ العبادة منهما في وقت معلوم، وقوله : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ- [ عبس 19] ، فإشارة إلى ما أوجده فيه بالقوّة، فيظهر حالا فحالا إلى الوجود بالصّورة، وقوله : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب 38] ، فَقَدَرٌ إشارة إلى ما سبق به القضاء، والکتابة في اللّوح المحفوظ والمشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : «فرغ ربّكم من الخلق والخلق والأجل والرّزق» «1» ، والْمَقْدُورُ إشارة إلى ما يحدث عنه حالا فحالا ممّا قدّر، وهو المشار إليه بقوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] ، وعلی ذلک قوله : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر 21] ، قال أبو الحسن : خذه بقدر کذا وبقدر کذا، وفلان يخاصم بقدر وقدر، وقوله : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ- [ البقرة 236] ، أي : ما يليق بحاله مقدّرا عليه، وقوله : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى- [ الأعلی 3] ، أي : أعطی كلّ شيء ما فيه مصلحته، وهداه لما فيه خلاصه، إمّا بالتّسخیر، وإمّا بالتّعلیم کما قال : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه 50] ، والتَّقْدِيرُ من الإنسان علی وجهين : أحدهما : التّفكّر في الأمر بحسب نظر العقل، وبناء الأمر عليه، وذلک محمود، والثاني : أن يكون بحسب التّمنّي والشّهوة، وذلک مذموم کقوله : فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر 18- 19] ، وتستعار الْقُدْرَةُ والْمَقْدُورُ للحال، والسّعة في المال،- القدر ( والتقدیر کے معنی کسی چیز کی کمیت کو بیان کرنے کے ہیں۔ کہاجاتا ہے ۔ قدرتہ وقدرتہ اور قدرہ ( تفعیل ) کے معنی کسی کو قدرت عطا کرنا بھی آتے ہیں محاور ہ ہے ۔ قدرنی اللہ علی کذا وتوانی علیہ اللہ نے مجھے اس پر قدرت عطافرمائی پس ، ، تقدیرالہی ِ ، ، کی دوصورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا یا اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرز مخصوص پر بنانا جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے اس لئے کہ فعل دوقسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء سے کسی چیز کو ایسا کامل وجو عطا کرنا کی جب تک مشیت الہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیما کی تخلیق ( کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا ) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجو عطافرمانا اور ان کو اس ندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پزیر نہ ہوسکیں جیسا کہ خرما کی گھٹلی کے متعلق تقیدر الہٰی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب بازیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان پی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے ۔ پس تقدیر الہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا ۔ عام اس سے کم وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چناچہ آیت ؛ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں دوم کی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات 23] پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کا ہر حکم قابل ستائش ہے ۔ اور یہ آیت : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کررکھا ہے ۔ کے ہم معنی ہے اور اس میں ایک قراءت ققدر نا ( تشدیددال ) کے ساتھ بھی ہے اور اس کے معنی یا تو حکم کرنے کے ہیں اور یا اعطاء قدرت کے اور آیت کریمہ : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة 60] ہم نے تم میں مرنا ٹھہراد یا ۔ میں اس امر تنبیہ ہے کہ موت مقدر کرنے والا چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لئ یہ بھی عین حکمت کے مطابق ہے اور مجوس کا یہ علم غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور ابلیس مارتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس ( قرآن ) گوشب قدر میں نازل کرنا شروع کیا ۔ میں لیلۃ القدر سے خاص رات مراد ہے جسے اور مخصوصہ کی انجام دہی لے لئے اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ۔ نیز فرمایا :إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل 20] اور خدا تو رات اور دن ، کا اندازہ رکھتا ہے اس نے معلوم کیا کہ تم اس کی نباہ نہ سکوگے ۔ میں سلسلہ لیل ونہار کے اجرء کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ ان کے اوقات کی معرفت حاصل کرنا اور پھر اوقات معینہ ، میں حق عبادات ادا کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہے اور آیت کریمہ : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس 19] نطفے سے بنایا پھر اس کا اندازہ مقرر کیا ۔ میں ان قویٰ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے نطفہ میں بالقوۃ ودیعت کر رکھے ہیں اور وہ قتا فوقتا صورت کا لباس بہن کر ظہور پذیر ہوتے ہیں آیت کریمہ : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب 38] اور خدا کا حکم ٹھہرچکا ہے ۔ میں قدر کے لفظ سے ان امور کی طرف اشارہ ہے جن کا فیصلہ ہوچکا ہے اور وہ لوح محفوظ میں لکھے جا چکے ہیں جن کی طرف کہ آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : فرغ ربکم من الخلق والاجل والرزق کہ اللہ تبارک وتعالیٰ خلق ۔ عمر اور رزق سے فارغ ہوچکا ہے اور مقدور کے لفظ سے ان امور کیطرف اشارہ ہے جو وقتا فوقتا ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ جن کی طرف آیت : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وہ ہر روز کام میں مصروف ر ہتا ہے ۔ میں اشارہ فرمایا ہے اسی معنی میں فرمایا : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر 21] اور ہم ان کو بمقدار مناسب اتارتے رہتے ہیں ۔ ابوالحسن نے کہا ہے کہ یہ قدر وقدر ( بفتح الدال وسکونہا ) دونوں طرح بولا جاتا ہے چناچہ محاورہ خذ بقدر کذا ) وقدر کذا ( کہ اتنی مقدار میں لے لو ) وفلان یخاصم بقدر وقدر اور آیت کریمہ : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة 236] یعنی ) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپی حیثیت کے مطابق ۔ میں قدر کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص اپنی مقدور کے مطابق اخراجات ادا کرے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى[ الأعلی 3] اور جس نے ( اس کا ) اناازہ ٹھہرادیا ( پھر اس کو ) رستہ بتایا : کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو وہ سمجھ عطا فرمادیا جس میں اس کی مصلحت ہے اور اسے تعلیمی یا تسخیری طور پر ان چیزوں کی طرف ہدایت کردی ہے جن میں اس کی نجات مضمرہ جیسے فرمایا : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه 50] جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی پھر راہ دکھائی ۔ جب ، ، تقدیر ، ، کا فاعل انسان ہو تو اس کے دومعنی ہوتے ہیں ایک تقدیر محمود یعنی عقل وفکر کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی امر بچہ غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی کام کو سرا نجام دینا ۔ دوم تقدیر مذموم کہ انسان اپنی تمنا اور خواہش کے پیمانہ کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرے اور عقل وفکر سے کام نہ لے جیسے فرمایا فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر 18- 19] اس نے فکر کیا اور تجویز کی یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی ۔ اور استعارہ کے طورپر قدرۃ اور مقدور کے معنی حالت اور وسعت مالی کے بھی آتے ہیں اور قدر کے معنی اس معین وقت یا مقام کے بھی ہوتے ہیں جو کسی کام کے لئے مقرر ہوچکا ہو چناچہ فرمایا : إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ [ المرسلات 22] ایک معین وقت تک ۔ نیز فرمایا : فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها [ الرعد 17] پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ یعنی نالے اپنے ( ظرف کے مطابق بہ نکلتے ہیں ایک قرات میں بقدر ھا ہے جو بمعنی تقدیر یعنی اندازہ ۔۔۔ کے ہے اور آیت کریمہ : وَغَدَوْا عَلى حَرْدٍ قادِرِينَ [ القلم 25]( اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جاپہنچے ( گویا کھیتی پر ) قادر ہیں ۔ میں قادرین کے معنی قاصدین کے ہیں یعنی جو وقت انہوں نے مقرر کر رکھا تھا ۔ اندازہ کرتے ہوئے اس وقت پر وہاں جا پہنچے اور یہی معنی آیت کریمہ : فَالْتَقَى الْماءُ عَلى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ [ القمر 12] تو پانی ایک کام کے لئے جو مقدر ہوچکا تھا جمع ہوگیا میں مراد ہیں ۔ اور قدرت علیہ الشئی کے معنی کسی پر تنگی کردینے کے ہیں گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی ہے اس کے بالمقابل بغیر حساب ( یعنی بےاندازہ ) آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق 7] اور جس کے رزق میں تنگی ہو ۔ یعنی جس پر اس کی روزی تنگ کردی گئی ہو ۔ نیز فرمایا : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم 37] خدا جس پر جاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ۔ فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء 87] اور خیال کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور ایک قرآت میں لن نقدر علیہ سے اور اسی سے لفظ اقدر مشتق ہے جس کے معنی کوتاہ گردن آدمی کے ہیں اوراقدر اس گھوڑے کو بھی کہتے ہیں جس کے دوڑتے وقت پچھلے پاؤں ٹھیک اس جگہ پڑیں جہاں اگلے پاؤں پڑے تھے ۔ اور آیت کریمہ وما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ [ الأنعام 91] ان لوگوں نے خدا کی قدرشناسی جیسی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ۔ یعنی لوگ اس کی حقیقت کو نہیں پاسکے اور پھر اس امر پر تنبیہ کی ہے کہ وہ اس کی کنہہ کا ادارک بھی کیسے کرسکتے ہیں جب کہ اس کی شان یہ ہے کہوالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] اور قیامت کے دن تمام زمین آں کی مٹھی میں ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : أَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ [ سبأ 11] کو کشادہ زر ہیں بناؤ اور کڑیوں کو اندازے سے جوڑ دو ۔ میں قدرفی السرد کے معنی یہ ہیں کہ مضبوطی اور محکم زر ہیں بناؤ ۔ اور مقدارالشئی اس وقت یاز مانہ وغیرہ کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کے لئے مقرر کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : يَوْمٍ كانَ مِقْدارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ [ المعارج 4] اور اس روز ( نازل ہوگا ) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ [ الحدید 29]( یہ باتیں ) اسلئے ( بیان کی گئی ہیں ) کہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ خدا کے فضل کے ساتھ مختص ہے ( یعنی اس میں تاویل سے چارہ نہیں ہے ) القدر ( دیگ) برتن جس میں گوشت پکایا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] اور دیگیں جو ایک ہی جگہ رکھی ہیں ۔ اور قدرت اللحم کے معنی ہانڈی میں گوشت پکانے کے ہیں اور ہینڈیاں پکائے ہوئے گوشت کو قدیر کہاجاتا ہے ۔ القدار ( قصاب ) وہ شخص جو اونٹ کو نحر ( ذبح ) کرکے دیگ میں اس کا گوشت پکاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل) (351) ضرب القدار نقیعۃ القدام جیسا کہ قصاب سفر سے آنے والے کی خوشی میں دعوت کے لئے گوشت کاٹتا ہے ۔ - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - سبق - أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] ،- ( س ب ق) السبق - اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔
اور ہم نے تمہارے درمیان موت کو مقرر کر رکھا ہے تم سب مرو گے یا یہ کہ مرنے تک ہم نے تمہارے درمیان عمروں کو تقسیم کر رکھا ہے کہ تم میں سے بعض اسی سال تک اور بعض سو اور بعض پچاس سال تک زندہ رہتے ہیں اور بعض کی عمریں اس سے کم یا زیادہ ہوتی ہیں اور ہمارے لیے یہ مشکل نہیں۔
آیت ٦٠ ‘ ٦١ نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَکُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ عَلٰٓی اَنْ نُّـبَدِّلَ اَمْثَالَـکُمْ ” ہم نے تمہارے مابین موت کو ٹھہرا دیا ہے اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں کہ تمہاری مثل بدل کر لائیں “- یہ مقام بھی مشکلات القرآن میں سے ہے۔ بہرحال اس کی ایک توجیہہ جو میری سمجھ میں آتی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ یہاں دو انسانی زندگیوں اور ان کے درمیان طے شدہ موت کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی ایک دنیا کی زندگی ہے اور دوسری آخرت کی زندگی اور درمیان میں اللہ تعالیٰ نے موت کا پردہ حائل کردیا ہے۔ موت کی اس سرحد کے اس طرف بھی تم ہو اور دوسری طرف بھی تم ہو۔ گویا موت کے وقفے کے بعد زندگی کا تسلسل پھر سے بحال ہوجائے گا۔ بقول شاعر ؎- موت اِک زندگی کا وقفہ ہے - یعنی آگے چلیں گے دم لے کر - یہاں سمجھنے کا اصل نکتہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد انسان کا جسم تو مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے ‘ جبکہ اس کی روح کو موت نہیں آتی ‘ روح زندہ رہتی ہے۔ قیامت میں انسان کو جس جسم کے ساتھ دوبارہ زندہ کیا جائے گا وہ بعینہٖ اس کا دنیا والا جسم نہیں ہوگا ‘ بلکہ ” اس جیسا “ جسم ہوگا۔ اس حوالے سے یہ نکتہ بھی سمجھنے کا ہے کہ انسان کا دنیوی زندگی والا جسم تو اس زندگی میں بھی مسلسل بدلتا رہتا ہے ۔ زندہ جسم کے اربوں خلیے مسلسل ختم ہوتے رہتے ہیں اور ایسے ہی نئے خلیے مسلسل بنتے رہتے ہیں۔ جلد کی جھلی بھی بدلتی رہتی ہے اور ناخن بھی لگاتار گھستے اور نئے بنتے رہتے ہیں۔ اس عمل کو ذہن میں رکھیں تو یہ حقیقت بخوبی سمجھ میں آجاتی ہے کہ ایک انسان کا چند سال پہلے جو جسم تھا آج اس کا جسم وہ نہیں ہے اور جو جسم اس کا آج ہے چند سال بعد بعینہٖ یہ نہیں رہے گا۔ چناچہ جب انسان کا جسم مسلسل تبدیل ہو رہا ہے تو آخرت میں اسے بعینہٖ دنیا والا جسم ملنا ویسے ہی بعید از قیاس ہے۔ اگر وقتی طور پر یہ فرض کرلیا جائے کہ انسان کو آخرت میں دنیا والا جسم ملے گا تو پھر اس سوال کا جواب بھی دینا پڑے گا کہ وہ اس کا کون سا جسم ہوگا ؟ بیس برس کی عمر والا ؟ چالیس سال کی عمر والا ؟ یا ساٹھ سال کی عمر والا ؟ لہٰذا یہ بات عقل اور منطق ہی کے خلاف ہے کہ انسان کو دوبارہ دنیا والے جسم کے ساتھ زندہ کیا جائے گا۔ - چناچہ آخرت میں انسان کو دنیا کے جسم جیسا جسم دیا جائے گا اور اس کی روح کو اس کے اس جسم سے ملا کر اسے نئی زندگی بخشی جائے گی۔ یہ مضمون قرآن میں تین مقامات (بنی اسرائیل : ٩٩ ‘ یٰسٓ: ٨١ ‘ الدھر : ٢٨) پر آیا ہے۔ بہرحال دوبارہ زندہ ہونے کے بعد انسان کی جان اور روح جب نئے جسم میں منتقل ہوجائے گی تو اس کے شعور اور اس کی یادداشت کا دنیوی تسلسل بعینہٖ بحال کردیا جائے گا۔ دنیا میں وہ کیا تھا ؟ وہاں اس نے کب کیا کیا تھا ؟ زندہ ہوتے ہی اسے سب کچھ یاد آجائے گا۔ کیونکہ دنیوی زندگی کے دوران اس کا جسم تو بدلتا رہا تھا لیکن اس کے شعور ذات کا تسلسل بغیر کسی خلل کے آخر تک برقرار رہا تھا۔ اس لیے وہ سلسلہ موت کے باعث جہاں سے ٹوٹا تھا عین وہیں سے اسے جوڑ دیا جائے گا ۔ چناچہ ان آیات کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ اے لوگو تمہاری دو زندگیوں کے درمیان ہم نے ہی موت کا پردہ حائل کر رکھا ہے ‘ تو کیا ہم اس پر قادر نہیں ہیں کہ تم جیسے وجود دوبارہ پیدا کردیں۔- وَنُنْشِئَـکُمْ فِیْ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ۔ ” اور تمہیں ایسی تخلیق میں اٹھائیں جسے تم نہیں جانتے “- اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ تمہیں ہم ایسے عالم میں اٹھا کھڑا کریں گے جس کی کیفیت سے آج تم واقف نہیں ہو یعنی عالم آخرت میں۔
سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :25 یعنی تمہاری پیدائش کی طرح تمہاری موت بھی ہمارے اختیار میں ہے ۔ ہم یہ طے کرتے ہیں کہ کس کو ماں کے پیٹ ہی میں مر جانا ہے ، اور کسے پیدا ہوتے ہی مر جانا ہے ، اور کسے کس عمر تک پہنچ کر مرنا ہے ۔ جس کی موت کا جو وقت ہم نے مقدر کر دیا ہے اس سے پہلے دنیا کی کوئی طاقت اسے مار نہیں سکتی ، اور اس کے بعد ایک لمحہ کے لیے بھی زندہ نہیں رکھ سکتی ۔ مرنے والے بڑے بڑے ہسپتالوں میں بڑے سے بڑے ڈاکٹروں کی آنکھوں کے سامنے مرتے ہیں ، بلکہ ڈاکٹر خود بھی اپنے وقت پر مر جاتے ہیں ۔ کبھی کوئی نہ موت کے وقت کو جان سکا ہے ، نہ آتی ہوئی موت کو روک سکا ہے ، نہ یہ معلوم کر سکا ہے کہ کس کی موت کس ذریعہ سے ، کہاں ، کس طرح واقع ہونے والی ہے ۔