7 3 1کہ اس کے اثرات اور فوائد حیرت انگیز ہیں اور دنیا کی بیشمار چیزوں کی تیاری کے لئے اسے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ جو ہماری قدرت عظیمہ کی نشانی ہے، پھر ہم نے جس طرح دنیا میں یہ آگ پیدا کی ہے، ہم آخرت میں بھی پیدا کرنے پر قادر ہیں جو اس سے 6 9درجہ حرارت میں زیادہ ہوگی۔ 2 مقوین، مقوی کی جمع ہے، قواء یعنی خالی صحراء میں داخل ہونے والا، مراد مسافر ہے، یعنی مسافر صحراؤں اور جنگلوں میں ان درختوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اس سے روشنی، گرمی اور ایندھین حاصل کرتے ہیں۔ بعض نے مقوی سے وہ فقراء مراد لیے ہیں جو بھوک کی وجہ سے خالی پیٹ ہوں۔ بعض نے اس کے معنی مستمعین (فائدہ اٹھانے والے) کیے ہیں۔ اس میں امیر غریب، مقیم اور مسافر سب آجاتے ہیں اور سب ہی آگ سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی لیے حدیث میں جن تین چیزوں کو عام رکھنے کا اور ان سے کسی کو نہ روکنے کا حکم دیا گیا ہے، ان میں پانی اور گھاس کے علاوہ آگ بھی ہے، امام ابن کثیر نے اس مفہوم کو زیادہ پسند کیا ہے۔
[٣٤] مقوین کا لغوی مفہوم :۔ مُقْوِیْنٌ۔ القوٰی بمعنی بھوک اور بات الْقَوٰی بمعنی بھوکا رہ کر رات گزاری اور القاویۃ بمعنی کم بارش کا سال اور تقاوٰی بمعنی بارش کی قلت یا افراط جس سے فصل تباہ ہوجائے اور قحط نمودار ہوجائے۔ اور تقاوی قرضے وہ ہوتے ہیں جو ایسے قحط کے سال میں حکومت زمینداروں کو بالا قساط ادائیگی کی شرط پر دیتی ہے اور تقاوی بمعنی بھوکے رات بسر کرنا اور قوت لایموت بمعنی خوراک کی اتنی کم مقدار جس سے انسان بس زندہ رہ سکے اور مقوین بمعنی قوت کی احتیاج میں سفر کرتے پھرتے لوگ۔ خانہ بدوش لوگ جو رزق کی تلاش میں ادھرادھر منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ درختوں کی لکڑیوں سے عارضی مکان بھی کھڑے کرسکتے ہیں۔ ایندھن بیچ کر اپنی دوسری ضروریات بھی پوری کرسکتے ہیں۔
نَحْنُ جَعَلْنٰـہَا تَذْکِرَۃً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِیْنَ :” قوی یقوی قیا واقوایۃ “ ( س) ” الدار “ گھر خالی ہوگیا ۔ ” وقوی “ سخت بھوکا ہونا ۔ ” المطر “ بار ش رک جانا ۔ ” القوائ “ خالی زمین ، بیانان بھوک ۔ ” بات القوی “ اس نے بھوکے رات گزاری ۔ ” المقوین “ اس مادہ کے باب افعال ” اقوی یقوی اقوا “ سے اسم فاعل ” مقوی “ کی جمع ہے ، اس کا معنی قوائ ( جنگل بیابان) کے مسافر یا اس میں ٹھہرنے یا رہنے والے خانہ بدوش بھی ہے اور بھوکے لوگ بھی ۔ کوئی شک نہیں کہ آگ کی ضرورت ہر ایک کو پڑتی ہے ، مگر ان لوگوں کو اس سے بہت زیادہ کام لینا پڑتا ہے جن کا آیت میں ذکر ہے۔ آیت کا یہ مطلب نہیں کہ آگ دوسرے لوگوں کے لیے نصیحت یا زندگی کا سامان نہیں ، بلکہ ان دونوں کا خصوصاًذکر اس لیے فرمایا کہ سفر اور بھوک میں یہ احساس زیادہ واضح ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر و قیمت زیادہ ہوتی ہے۔
نَحْنُ جَعَلْنٰهَا تَذْكِرَةً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِيْنَ ، مقوین، اقواء سے مشتق ہے اور وہ قواء بمعنی صحرا سے مشتق ہے، مقوی کے معنے ہوئے صحرا میں اترنے والا، مراد اس سے مسافر ہے جو جنگل میں کہیں ٹھہر کر اپنے کھانے کے انتظام میں لگا ہو اور مراد آیت کی یہ ہے کہ یہ سب تحقیقات ہماری ہی قدرت و حکمت کا نتیجہ ہیں۔
نَحْنُ جَعَلْنٰہَا تَذْكِرَۃً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِيْنَ ٧٣ ۚ- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- تَّذْكِرَةُ- : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] ، أي : القرآن . وذَكَّرْتُهُ - التذکرۃ - جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ مراد قرآن پاک ہے ۔ ذَكَّرْتُهُ كذا - متع - الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی:- وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] ،- ( م ت ع ) المتوع - کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔- مُقْوِينَ ( قوي)- وسمّيت المفازة قِوَاءً ، وأَقْوَى الرّجل : صار في قِوَاءٍ أي : قفر، وتصوّر من حال الحاصل في القفر الفقر، فقیل : أَقْوَى فلان، أي : افتقر، کقولهم : أرمل وأترب . قال اللہ تعالی: وَمَتاعاً لِلْمُقْوِينَ [ الواقعة 73] .- مفازۃ یعنی ریگستان کو قعواء کہا جاتا ہے اور افوا الرجل کے معنی کسی آدمی کے قواء یعنی بیابان میں چلے جانے کے ہیں ۔ پھر قفر یعنی بیابان سے قفر کا معنی لے کر اقوی الرجل کا محاورہ افتقر یعنی محتاج اور نادار کے معنی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَمَتاعاً لِلْمُقْوِينَ [ الواقعة 73] اور محتاج اور ضرورتمندوں کے لئے سامان آسا آسا ئش بنایا ہے ۔ میں مقوین کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے ۔- المقوین - : اسم فاعل جمع مذکر۔ مجرور۔ المقوی واحد۔ اقواء ( افعال) مصدر قواء یاقوۃ ماخذ۔ اس لفظ کے ترجمہ میں اہل تفسیر کا اختلاف ہے :۔ حضرت علامہ ثناء اللہ پانی پتی (رح) لکھتے ہیں :۔- مقوین کا ترجمہ کیا گیا ہے مسافر۔ یہ لفظ قواء سے مشتق ہے قواء کا معنی ہے ویران، بیابان۔ جہاں کوئی عمارت نہ ہو۔ آبادی سے دور۔ سو مسافروں کو بہ نسبت اہل اقامت آگ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ درندوں اور جنگلی جانوروں سے حفاظت کے لئے وہ اکثر اوقات رات کو آگ روشن رکھتے ہیں ( کہیں ٹیلے یا پہاڑی پر) آگ جل رہی ہو تو مسافروں کو راستہ مل جاتا ہے ۔ پھر سردی کی وجہ سے ان کو تانبے کی اور جسم کو سینکنے کی بھی زیادہ ضرورت پڑتی ہے اسی لئے مسافروں کے لئے فائدہ رساں ہونے کا ذکر کیا۔ اکثر اہل تفسیر نے مقوین کا یہی ترجمہ کیا ہے۔- ترجمہ :۔ ہم نے ہی اس کو مسافروں کے لئے نصیحت اور فائدہ مند چیز بنایا۔
آیت ٧٣ نَحْنُ جَعَلْنٰہَا تَذْکِرَۃً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِیْنَ ” ہم نے بنا دیا اس کو ایک نشانی یاد دلانے کو اور ایک بہت فائدہ مند چیز صحرا کے مسافروں کے لیے ۔ “- جیسا کہ سورة یٰسین کی آیت ٨٠ کے ضمن میں بھی وضاحت کی جا چکی ہے ‘ بعض صحرائوں میں ایسے درخت پائے جاتے ہیں جن کی سبز گیلی شاخوں کو آپس میں رگڑنے سے آگ پیدا ہوتی ہے۔ یہاں پر شَجَرَتَہَآ سے وہ مخصوص درخت بھی مراد ہے اور عام درخت بھی۔ کیونکہ درختوں کی لکڑی آگ جلانے کا ایک بہت بڑاذریعہ ہے۔ اور یہ درخت ظاہر ہے اللہ نے پیدا کیے ہیں اور اسی نے ان میں جلنے کی خصوصیت رکھی ہے۔
سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :33 اس آگ کو یاد دہانی کا ذریعہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ چیز ہے جو ہر وقت روشن ہو کر انسان کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلاتی ہے ۔ اگر آگ نہ ہوتی تو انسان کی زندگی حیوان کی زندگی سے مختلف نہ ہو سکتی ۔ آگ ہی سے انسان نے حیوانات کی طرح کچی غذائیں کھانے کے بجائے ان کو پکا کر کھانا شروع کیا اور پھر اس کے لیے صنعت و ایجاد کے نئے نئے دروازے کھلتے چلے گئے ۔ ظاہر ہے کہ اگر خدا وہ ذرائع پیدا نہ کرتا جن سے آگ جلائی جا سکے ، اور وہ آتش پذیر مادے پیدا نہ کرتا جو آگ سے جل سکیں ، تو انسان کی ایجادی صلاحیتوں کا قفل ہی نہ کھلتا ۔ مگر انسان یہ بات فراموش کر گیا ہے کہ اس کا خالق کوئی پروردگار حکیم ہے جس نے اسے ایک طرف انسانی قابلیتیں دے کر پیدا کیا تو دوسری طرف زمین میں وہ سرو سامان بھی پیدا کر دیا جس سے اس کی یہ قابلیتیں رو بعمل آ سکیں ۔ وہ اگر غفلت میں مد ہوش نہ ہو تو تنہا ایک آگ ہی اسے یہ یاد دلانے کے لیے کافی ہے کہ یہ کس کے احسانات اور کس کی نعمتیں ہیں جن سے وہ دنیا میں متمتع ہو رہا ہے ۔ سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :34 اصل میں لفظ مُقْوِیْن استعمال کیا گیا ہے ۔ اس کے مختلف معنی اہل لغت نے بیان کیے ہیں ۔ بعض اسے صحرا میں اترے ہوئے مسافروں کے معنی میں لیتے ہیں ۔ بعض اس کے معنی بھوکے آدمی کے لیتے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس سے مراد وہ سب لوگ ہیں جو آگ سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، خواہ وہ کھانا پکانے کا فائدہ ہو یا روشنی کا یا تپش کا ۔
20: نصیحت کا سامان اس لئے کہ اول تو اس پر غور کرکے انسان اللہ تعالیٰ کی قدرت کو یاد کرتا ہے کہ اس نے کس طرح ایک درخت کو آگ پیدا کرنے کا ذریعہ بنادیا، اور دوسرے اس سے دوزخ کی آگ بھی یاد آتی ہے تو اس سے بچنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے، اور اگرچہ یہ درخت سبھی کے لئے آگ جلانے کے کام آتے ہیں ؛ لیکن صحرا میں سفر کرنے والوں کے لئے یہ خاص طور پر بڑی نعمت تھی کہ چلتے چلتے یہ درخت مل جائے اور مسافر اس سے اپنی ضرورت پوری کرلے، اس لئے مسافروں کا بطور خاص ذکر فرمایا گیا ہے۔