7 9 1یعنی اس قرآن کو فرشتے ہی چھوتے ہیں، یعنی آسمانوں پر فرشتوں کے علاوہ کسی کی بھی رسائی اس قرآن تک نہیں ہوتی۔ مطلب مشرکین کی تردید ہے جو کہتے تھے کہ قرآن شیاطین لے کر اترتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا یہ کیوں کر ممکن ہے یہ قرآن تو شیطانی اثرات سے بالکل محفوظ ہے۔
[٣٧] مطہرون سے مراد کون ؟ اس کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ پاکیزہ لوگوں سے مراد فرشتے ہیں۔ یعنی یہ کتاب قرآن کریم لوح محفوظ میں ثبت ہے اور وہاں سے پاکیزہ فرشتے ہی اسے لا کر رسول اللہ تک پہنچاتے ہیں۔ کسی شیطان کی وہاں تک دسترس نہیں ہوسکتی جو اسے لا کر کسی کاہن کے دل پر نازل کر دے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے مضامین و مطالب تک رسائی صرف ان لوگوں کی ہوسکتی ہے جن کے خیالات پاکیزہ ہوں۔ کفر و شرک کے تعصبات سے پاک ہوں۔ عقل صحیح اور قلب سلیم رکھتے ہوں۔ جن لوگوں کے خیالات ہی گندے ہوں۔ قرآن کے بلند پایہ مضامین و مطالب تک ان کی رسائی ہو ہی نہیں سکتی۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کو صرف پاکیزہ لوگ ہی چھو سکتے ہیں یا چھونا چاہئے۔ مشرک اور ناپاک لوگوں کو ہاتھ نہ لگانا چاہئے۔ اسی آیت سے بعض علماء نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ بےوضو لوگوں کو قرآن کو ہاتھ نہ لگانا چاہیے۔ لیکن راجح تر بات یہی ہے کہ بےوضو بھی قرآن کو چھو سکتا اور اس سے تلاوت کرسکتا ہے۔ صرف جنبی اور حیض و نفاس والی عورت قرآن کو چھو نہیں سکتے۔ جب تک پاک نہ ہوں۔ البتہ حیض و نفاس والی عورت زبانی قرآن پڑھ بھی سکتی ہے اور پڑھا بھی سکتی ہے۔
لَّا يَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ ، یہاں دو مسئلے غور طلب اور ائمہ تفسیر میں مختلف فیہ ہیں، اول یہ کہ نحوی ترکیب کے اعتبار سے اس جملے میں دو احتمال ہیں، ایک یہ کہ جس کتاب کی ایک صفت مکنون آئی یہ جملہ اسی کتاب کی دوسری صفت ہے اور ضمیر لا یمسہ کی اسی کتاب کی طرف راجع ہے، اس صورت میں معنی آیت کے یہ ہوتے ہیں کتاب مکنون یعنی لوح محفوظ کو سوائے پاک لوگوں کے اور کوئی نہیں چھو سکتا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس صورت میں مطہرون کی مراد صرف فرشتے ہی ہو سکتے ہیں، جن کی رسائی لوح محفوظ تک ہو سکے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس صورت میں لفظ مس اپنے حقیقی معنی ہاتھ سے چھونے کے مفہوم میں نہیں لیا جاسکتا، بلکہ مس کرنے اور چھونے کے مجازی اور لازمی معنی مراد لینے ہوں گے، یعنی لوح محفوظ میں لکھے ہوئے مضامین پر مطلع ہونا کیونکہ لوح محفوظ کو ہاتھ سے چھونا کسی مخلوق فرشتے وغیرہ کا کام نہیں (قرطبی) بیان القرآن کے مذکور الصدر خلاصہ تفسیر میں یہی ترکیب اور مفہوم اختیار کر کے تفسیر کی گئی ہے۔- دوسرا احتمال اس جملے کی ترکیب نحوی میں یہ ہے کہ اس کو قرآن کی صفت بنایا جائے جو اوپر اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ میں مذکور ہے اس صورت میں لا یمسہ کی ضمیر قرآن کی طرف راجع ہوگی اور اس سے مراد وہ صحیفہ ہوگا جس میں قرآن لکھا ہوا ہو اور لفظ مس اپنے حقیقی معنی ہاتھ سے چھونے کے مفہوم میں رہے گا، مجاز کی ضرورت نہ ہوگی، اسی لئے قرطبی وغیرہ مفسرین نے اس کو ترجیح دی ہے اور امام مالک نے فرمایا کہ آیت لّا يَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ کی تفسیر میں کچھ میں نے سنا ہے ان سب میں بہتر یہ قول ہے کہ اس کا وہی مفہوم ہے جو سورة عبس کی آیت کا ہے یعنی فِيْ صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ مَّرْفُوْعَةٍ مُّطَهَّرَةٍۢ بِاَيْدِيْ سَفَرَةٍ كِرَامٍۢ بَرَرَةٍ (قرطبی و روح المعانی) اور اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ جملہ کتاب مکنون کی صفت نہیں بلکہ قرآن کی صفت ہے اور قرآن سے مراد وہ صحیفے ہیں جو وحی لانے والے فرشتوں کے ہاتھ میں دیئے جاتے ہیں۔ - دوسرا مسئلہ غور طلب اور مختلف فیہ اس آیت میں یہ ہے کہ مطہرون سے کون مراد ہیں، صحابہ وتابعین اور مفسرین کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک مطہرون سے مراد فرشتے ہیں جو معاصی اور رذائل سے پاک و معصوم ہیں، یہ قول حضرت انس اور سعید بن جبیر سے منقول ہے (قرطبی) حضرت ابن عباس کا بھی یہی قول ہے (ابن کثیر) امام مالک نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے (قرطبی)- اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ قرآن سے مراد وہ مصحف ہے جو ہمارے ہاتھوں میں ہے اور مطہرون سے مراد وہ لوگ ہیں جو نجاست ظاہری اور معنوی یعنی حدث اصغر و اکبر سے پاک ہوں، حدث اصغر کے معنی بےوضو ہونے کے ہیں، اس کا ازالہ وضو کرنے سے ہوجاتا ہے اور حدث اکبر جنابت اور حیض و نفاس کو کہا جاتا ہے جس سے پاکی کے لئے غسل ضروری ہے، یہ تفسیر حضرت عطاء، طاؤس، سالم اور حضرت محمد باقر سے منقول ہے (روح) اس صورت میں جملہ لا یمسہ اگرچہ جملہ خبریہ ہے مگر اس خبر کو بحکم انشاء یعنی نہی و ممانعت کے معنی میں قرار دیا جائے گا اور مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ مصحف قرآن کو چھونا بغیر طہارت کے جائز نہیں اور طہارت کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ ظاہری نجاست سے بھی اس کا ہاتھ پاک ہو اور بےوضو بھی نہ ہو اور حدث اکبر یعنی جنابت بھی نہ ہو، قرطبی نے اسی تفسیر کو اظہر فرمایا ہے، تفسیر مظہری میں اسی کی ترجیح پر زور دیا ہے۔- حضرت فاروق اعظم کے اسلام لانے کے واقعہ میں جو مذکور ہے کہ انہوں اپنی بہن کو قرآن پڑھتے ہوئے پایا تو اوراق قرآن کو دیکھنا چاہا، ان کی بہن نے یہی آیت پڑھ کر اوراق قرآن ان کے ہاتھ میں دینے سے انکار کیا کہ اس کو پاک لوگوں کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا، فاروق اعظم نے مجبور ہو کر غسل کیا، پھر یہ اوراق پڑھے، اس واقعہ سے بھی اسی آخری تفسیر کی ترجیح ہوتی ہے اور روایات حدیث جن میں غیر طاہر کو قرآن کے چھونے سے منع کیا گیا ہے، ان روایات کو بھی بعض حضرات نے اس آخری تفسیر کی ترجیح کے لئے پیش کیا ہے۔- مگر چونکہ اس مسئلے میں حضرت ابن عباس اور حضرت انس وغیرہ کا اختلاف ہے جو اوپر آ چکا ہے، اس لئے بہت سے حضرات نے بےوضو قرآن کو ہاتھ لگانے کی ممانعت کے مسئلے میں آیت مذکورہ سے استدلال چھوڑ کر صرف روایات حدیث کو پیش کیا (روح المعانی) وہ احادیث یہ ہیں :۔- امام مالک نے مؤطاء میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ مکتوب گرامی نقل کیا ہے جو آپ نے حضرت عمرو بن حزم کو لکھا تھا، جس میں ایک جملہ یہ بھی ہے لا یمس القران الا طاھر (ابن کثیر) یعنی قرآن کو وہ شخص نہ چھوئے جو طاہر نہ ہو۔ - اور روح المعانی میں روایت مسند عبدالرزاق، ابن ابی داؤد اور ابن المنذر سے بھی نقل کی ہے اور طبرانی و ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا یمس القران الا طاہر (روح المعانی) یعنی قرآن کو ہاتھ نہ لگائے بجز اس شخص کے جو پاک ہو۔- مسئلہ :- روایات مذکورہ کی بنا پر جمہور امت اور ائمہ اربعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم کو ہاتھ لگانے کے لئے طہارت شرط ہے اس کے خلاف گناہ ہے، ظاہری نجاست سے ہاتھ کا پاک ہونا، باوضو ہونا، حالت جنابت میں نہ ہونا سب اس میں داخل ہے، حضرت علی مرتضیٰ ، ابن مسعود، سعد بن ابی وقاص، سعید ابن زید، عطاء اور زہری، نخعی، حکم، حماد، امام مالک، شافعی، ابوحنیفہ سب کا یہی مسلک ہے، اوپر جو اختلاف اقوال نقل کیا گیا ہے وہ صرف اس بات میں ہے کہ یہ مسئلہ جو احادیث مذکورہ سے ثابت اور جمہور امت کے نزدیک مسلم ہے، کیا یہ بات قرآن کی آیت مذکورہ سے بھی ثابت ہے یا نہیں، بعض حضرات نے اس آیت کا مفہوم اور احادیث مذکورہ کا مفہوم ایک قرار دیا اور اس آیت اور احادیث مذکورہ کے مجموعہ سے اس مسئلہ کو ثابت کیا، دوسرے حضرات نے آیت کو استدلال میں پیش کرنے سے بوجہ اختلاف صحابہ احتیاط کی، لیکن احادیث مذکورہ کی بناء پر مسلک سب نے یہی اختیار کیا کہ بےوضو و بےطہارت قرآن کو ہاتھ لگانا جائز نہیں، اس لئے خلاف مسئلے میں نہیں، بلکہ اس کی دلیل میں ہوا ہے۔- مسئلہ :- قرآن مجید کا غلاف جو جلد کے ساتھ سلا ہوا ہو وہ بھی بحکم قرآن ہے، اس کو بھی بغیر وضو و بغیر طہارت کے ہاتھ لگانا باتفاق ائمہ اربعہ ناجائز ہے، البتہ قرآن مجید کا جز دان جو علیحدہ کپڑے کا ہوتا ہے اگر اس میں قرآن بند ہے تو اس جزدان کے ساتھ قرآن کریم کو ہاتھ لگنا بلا وضو ابوحنیفہ کے نزدیک جائز ہے، مگر امام مالک اور شافعی کے نزدیک یہ بھی ناجائز ہے (مظہری )- مسئلہ :- جو کپڑا آدمی نے پہنا ہوا ہے اس کی آستین یا دامن سے قرآن مجید کو بلا وضو چھونا بھی جائز نہیں، البتہ علیحدہ رومال یا چادر سے چھوا جاسکتا ہے (مظہری)- مسئلہ :- علماء نے فرمایا کہ اسی آیت سے بدرجہ اولیٰ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جنابت یا حیض و نفاس کی حالت میں قرآن کی تلاوت بھی جائز نہیں، جب تک غسل نہ کرے کیونکہ مصحف میں لکھے ہوئے حروف و نقوش کی جب یہ تعظیم واجب ہے تو اصل حروف جو زبان سے ادا ہوتے ہیں ان کی تعظیم اس سے زیادہ اہم اور واجب ہونا چاہئے، اس کو مقتضی تو یہ تھا کہ بےوضو آدمی کو بھی تلاوت قرآن جائز نہ ہو، مگر حضرت ابن عباس کی حدیث جو بخاری و مسلم میں ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حدیث میں مسند احمد میں ہے اس سے بغیر وضو کے تلاوت قرآن فرمانا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے، اس لئے فقہاء نے بلا وضو تلاوت کی اجازت دی ہے (تفسیر مظہری)
لَّا يَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ ٧٩ ۭ- لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - مُطَهَّرُونَ- لا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ [ الواقعة 79] ، أي : إنه لا يبلغ حقائق معرفته إلّا من طَهَّرَ نفسه وتنقّى من درن الفساد - اور آیت کریمہ : ۔ لا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ [ الواقعة 79] اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ قرآن پاک کے حقائق کی معرفت انہی لوگوں کو حاصل ہوسکتی ہے جو اپنے نفوس کو آلودگیوں سے پاک وصاف رکھتے ہیں اور دل و دماغ کو ہر قسم کی آلائش سے محفوط رکھتے ہیں
آیت ٧٩ لَّا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ ” اسے چھو نہیں سکتے مگر وہی جو بالکل پاک ہیں۔ “- یعنی اسے فرشتے ہی چھو سکتے ہیں جو بالکل پاک مخلوق ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید کی عظمت کے ضمن میں سورة عبس میں فرمایا گیا ہے : کَلَّآ اِنَّھَا تَذْکِرَۃٌ - فَمَنْ شَآئَ ذَکَرَہٗ - فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ - مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَھَّرَۃٍم - بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍ - کِرَامٍم بَرَرَۃٍ ۔ ” ہرگز نہیں ‘ یہ تو ایک نصیحت ہے۔ پس جو کوئی چاہے اسے قبول کرے۔ یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو باعزت ہیں ‘ بلند مرتبہ ہیں ‘ پاکیزہ ہیں۔ ایسے کاتبوں کے ہاتھوں میں ہیں جو معزز اور نیک ہیں۔ “- آیت زیر مطالعہ میں الْمُطَہَّرُوْنَسے مراد فرشتے ہیں اور یَمَسُّہٗ میں ہٗ کی ضمیر کا تعلق ” کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ “ سے ہے۔ مَوٰقِعِ النُّجُوم کی قسم کا مقسم علیہ یہ ہے کہ یہ ایک نہایت باعزت اور برتر کلام ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایک محفوظ کتاب میں ہے ‘ جس تک اس کے پاک فرشتوں کے سوا کسی کی بھی رسائی نہیں۔ یعنی اس کو صرف ملائکہ مقربین ہی ہاتھ لگا سکتے ہیں ‘ جنات اور شیاطین وہاں پھٹک بھی نہیں سکتے۔ - فقہاء نے اس آیت سے یہ حکم بھی استنباط کیا ہے کہ قرآن مجید کو ناپاکی کی حالت میں چھونے کی اجازت نہیں ہے۔ اس بارے میں فقہاء کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید کو چھونے اور چھوکر پڑھنے کے لیے وضو ضروری ہے ‘ جبکہ زبانی تلاوت بغیر وضو بھی کی جاسکتی ہے ‘ البتہ جنابت کی حالت میں قرآن مجید کے الفاظ کو زبانی پڑھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ - اس کے علاوہ اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ قرآن کے اصل لب لباب تک پہنچنے اور اس کی ہدایت سے مستفیض ہونے کے لیے باطنی صفائی ضروری ہے ۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لیے قرآن کے ظاہر اور باطن کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے ۔ جس طرح ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں پڑھتے ہیں : ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُج (الحدید : ٣) ” کہ وہ اول بھی ہے ‘ آخر بھی ہے ‘ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ہے “۔ اسی طرح قرآن کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔ قرآن کا ظاہر اس کی عبارت اور اس کے الفاظ ہیں۔ جہاں تک قرآن کے اس ظاہر کا تعلق ہے ہر عربی دان شخص اس کے معانی و مطالب کو سمجھ سکتا ہے اور اس کی صرف و نحو پر بحث کرسکتا ہے۔ اس اعتبار سے کئی ایسے غیر مسلموں کی مثالیں بھی موجود ہیں جنہوں نے عربی میں مہارت حاصل کر کے قرآن کے تراجم کیے اور تفسیریں لکھیں۔ لیکن ایسے لوگ قرآن کے باطن تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے ۔ اقبال نے اسی مفہوم میں ایسی ہی بات بندئہ مومن کے بارے میں کہی ہے :- فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا - ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے - اقبال نے اس شعر میں بندئہ مومن کے وجود کے مرکز کا ذکر کیا ہے۔ بالکل اسی مفہوم میں قرآن مجید کا بھی ” مرکز “ ہے۔ قرآن کے مرکز سے مراد اس کی روح باطنی ‘ اس کی ہدایت ‘ اس کا اصل علم اور اس کا لب لباب ہے۔ اس لحاظ سے آیت زیر مطالعہ اس حقیقت کی طرف ہماری راہنمائی کرتی ہے کہ قرآن مجید کے مرکز ( ) تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تزکیہ باطنی ضروری ہے۔ اس تزکیہ باطنی کا ذکر حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی اس دعا میں بھی ہے : - رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ - (البقرۃ : ١٢٩)- ” پروردگار ان لوگوں میں اٹھائیو ایک رسول خود انہی میں سے جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاک کرے۔ “ - یہاں پر یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اس دعا میں تعلیم کتاب و حکمت کا ذکر پہلے کیا اور تزکیہ کو آخر پر رکھا ‘ لیکن جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے ان ہی چار امور کا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو ترتیب بدل دی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تین مقامات (البقرۃ : ١٥١ ‘ آل عمران : ١٦٤ ‘ الجمعہ : ٢) پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان ذمہ داریوں کا ذکر کیا اور تینوں مقامات پر تزکیہ کا ذکرتعلیم کتاب و حکمت سے پہلے کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص قرآن مجید کی روح باطنی تک رسائی کا طالب ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے دل کو تکبر ‘ حسد ‘ حب ِدُنیا سمیت تمام خباثتوں سے پاک کرے ‘ ورنہ قرآن مجید کا نور اس کے باطن میں کبھی سرایت نہیں کرے گا اور نہ ہی اس کا اصل فہم اس پر کبھی منکشف ہوگا ‘ اگرچہ بظاہر وہ قرآن کا بہت بڑا مفسر ہی کیوں نہ بن جائے۔ تزکیہ باطن کے حوالے سے یہاں سورة یونس کی آیت ٥٧ کا پیغام بھی ذہن میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کو انسانی دل کی تمام باطنی امراض کے لیے شفا قرار دیا ہے : - یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ قَدْجَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِلا وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ۔ - ” اے لوگو آگئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے اور تمہارے سینوں (کے اَمراض ) کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت اور (بہت بڑی) رحمت۔ “
سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :39 یہ تردید ہے کفار کے ان الزامات کی جو وہ قرآن پر لگایا کرتے تھے ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاہن قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ کلام آپ پر جن اور شیاطین القا کرتے ہیں ۔ اس کا جواب قرآن مجید میں متعدد مقامات پر دیا گیا ہے ۔ مثلاً سورہ شعراء میں ارشاد ہوا ہے وَمَا تَنَزَّلَتْ بِہِ الشَّیٰطِیْنُ ، وَمَا یَنْبَغِیْ لَھُمْ وَمَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ، اِنَّھُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ ۔ اس کو لے کر شیاطین نہیں اترے ہیں ، نہ یہ کلام ان کو سجتا ہے اور نہ وہ ایسا کر ہی سکتے ہیں ۔ وہ تو اس کی سماعت تک سے دور رکھے گئے ہیں ( آیات ۔ 210 تا 212 ) ۔ اسی مضمون کو یہاں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ اسے مطہرین کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا ۔ ، یعنی شیاطین کا اسے لانا ، یا اس کے نزول کے وقت اس میں دخل انداز ہونا تو درکنار ، جس وقت یہ لوح محفوظ سے نبی پر نازل کیا جاتا ہے اس وقت مُطَہرین ، یعنی پاک فرشتوں کے سوا کوئی قریب پھٹک بھی نہیں سکتا ۔ فرشتوں کے لیے مطہرین کا لفظ اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر قسم کے ناپاک جذبات اور خواہشات سے پاک رکھا ہے ۔ اس آیت کی یہی تفسیر انس بن مالک ، ابن عباس ، سعید بن جبیر ، عکرمہ ، مجاہد ، قتادہ ، ابوالعالیہ ، سُدی ، ضحاک اور ابن زید ( رضی اللہ عنہم ) نے بیان کی ہے ، اور نظم کلام کے ساتھ بھی یہی مناسبت رکھتی ہے ۔ کیونکہ سلسلہ کلام خود یہ بتا رہا ہے کہ توحید اور آخرت کے متعلق کفار مکہ کے غلط تصورات کی تردید کرنے کے بعد اب قرآن مجید کے بارے میں ان کے جھوٹے گمانوں کی تردید کی جا رہی ہے اور مواقع نجوم کی قسم کھا کر یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ ایک بلند پایہ کتاب ہے ، اللہ تعالیٰ کے محفوظ نوشتے میں ثبت ہے جس میں کسی مخلوق کی دراندازی کا کوئی امکان نہیں ، اور نبی پر یہ ایسے طریقے سے نازل ہوتی ہے کہ پاکیزہ فرشتوں کے سوا کوئی اسے چھو تک نہیں سکتا ۔ بعض مفسرین نے اس آیت میں لا کو نہی کے معنی میں لیا ہے اور آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ کوئی ایسا شخص اسے نہ چھوئے جو پاک نہ ہو ، یا ‘’کسی ایسے شخص کو اسے نہ چھونا چاہیے جو ناپاک ہو ۔ اور بعض دوسرے مفسرین اگرچہ لا کو نفی کے معنی میں لیتے ہیں اور آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ اس کتاب کو مطہرین کے سوا کوئی نہیں چھوتا ، مگر ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ نفی اسی طرح نہی کے معنی میں ہے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ المسلم اَخُوا المسلم لا یظلمہ ( مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا ) ۔ اس میں اگرچہ خبر دی گئی ہے کہ مسلمان مسلمان پر ظلم نہیں کرتا ، لیکن دراصل اس سے یہ حکم نکلتا ہے کہ مسلمان مسلمان پر ظلم نہ کرے اسی طرح اس آیت میں اگرچہ فرمایا یہ گیا ہے کہ پاک لوگوں کے سوا قرآن کو کوئی نہیں چھوتا ، مگر اس سے حکم یہ نکلتا ہے کہ جب تک کوئی شخص پاک نہ ہو ، وہ اس کو نہ چھوئے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تفسیر آیت کے سیاق و سباق سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ سیاق و سباق سے الگ کر کے تو اس کے الفاظ سے یہ مطلب نکالا جا سکتا ہے ، مگر جس سلسلہ کلام میں یہ وارد ہوئی ہے اس میں رکھ کر اسے دیکھا جائے تو یہ کہنے کا سرے سے کوئی موقع نظر نہیں آتا کہ اس کتاب کو پاک لوگوں کے سوا کوئی نہ چھوئے ۔ کیونکہ یہاں تو کفار مخاطب ہیں اور ان کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ اللہ رب العالمین کی نازل کردہ کتاب ہے ، اس کے بارے میں تمہارا یہ گمان قطعی غلط ہے کہ اسے شیاطین نبی پر القا کرتے ہیں ۔ اس جگہ یہ شرعی حکم بیان کرنے کا آخر کیا موقع ہو سکتا تھا کہ کوئی شخص طہارت کے بغیر اس کو ہاتھ نہ لگائے؟ زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ آیت یہ حکم دینے کے لیے نازل نہیں ہوئی ہے ۔ مگر فحوائے کلام اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کتاب کو صرف مطہرین ہی چھو سکتے ہیں ، اسی طرح دنیا میں بھی کم از کم وہ لوگ جو اس کے کلام الٰہی ہونے پر ایمان رکھتے ہیں ، اسے ناپاکی کی حالت میں چھونے سے اجتناب کریں ۔ اس مسئلے میں جو روایات ملتی ہیں وہ حسب ذیل ہیں: ( 1 ) امام مالک نے مؤطا میں عبداللہ بن ابی بکر محمد بن عمرو بن حزم کی یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے جو تحریری احکام عمرو بن حزم کے ہاتھ یمن کے رؤسا کو لکھ کر بھیجے تھے ان میں ایک حکم یہ بھی تھا کہ لا یمسُّ القرآن الا طاہرٌ ( کوئی شخص قرآن کو نہ چھوئے مگر طاہر ) یہی بات ابوداؤد نے مراسیل میں امام زہری سے نقل کی ہے کہ انہوں نے ابو بکر محمد بن عمرو بن حزم کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تحریر دیکھی تھی اس میں یہ حکم بھی تھا ۔ ( 2 ) حضرت علی کی روایت ، جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لم یکن یحجزہ عن القراٰن شئ لیس الجنابۃ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی چیز قرآن کی تلاوت سے نہ روکتی تھی سوائے جنابت کے ۔ ( ابو داؤد ، نسائی ، ترمذی ) ۔ ( 3 ) ابن عمر کی روایت ، جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لا تقرأ الحائض والجنب شیئاً من القراٰن ۔ حائضہ اور جنبی قرآن کا کوئی حصہ نہ پڑھے ۔ ( ابوداؤد ۔ ترمزی ) ( 4 ) بخاری کی روایت ، جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم ہرقل کو جو نامہ مبارک بھیجا تھا اس میں قرآن مجید کی یہ آیت بھی لکھی ہوئی تھی کہ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلیٰ کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ ………… صحابہ و تابعین سے اس مسئلے میں جو مسالک منقول ہیں وہ یہ ہیں: حضرت سَلْمان فارسی وضو کے بغیر قرآن پڑھنے میں مضائقہ نہیں سمجھتے تھے ، مگر ان کے نزدیک اس حالت میں قرآن کو ہاتھ لگانا جائز نہ تھا ۔ یہی مسلک حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد اللہ بن عمر کا بھی تھا ۔ اور حضرت حسن بصری اور ابراہیم نخعی بھی وضو کے بغیر مصحف کو ہاتھ لگانا مکروہ سمجھتے تھے ( احکام القرآن للجصاص ) ۔ عطاع اور طاؤس اور شعبی اور قاسم بن محمد سے بھی یہی بات منقول ہے ( المغنی لابن قدامہ ) ۔ البتہ قرآن کو ہاتھ لگا ئے بغیر اس میں دیکھ کر پڑھنا ، یا اس کو یاد سے پڑھنا ان سب کے نزدیک بے وضو بھی جائز تھا ۔ جنابت اور حیض و نفاس کی حالت میں قرآن پڑھنا حضرت عمر ، حضرت علی ، حضرت حسن بصری ، حضرت ابراہیم نخعی اور امام زہری ( رضی اللہ عنہم ) کے نزدیک مکروہ تھا ۔ مگر ابن عباس کی رائے یہ تھی اور اسی پر ان کا عمل بھی تھا کہ قرآن کا جو حصہ پڑھنا آدمی کا معمول ہو وہ اسے یاد سے پڑھ سکتا ہے ۔ حضرت سعید بن المسیب اور سعید بن جبیر سے اس مسئلے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا ، کیا قرآن اس کے حافظہ میں محفوظ نہیں ہے؟ پھر اس کے پڑھنے میں کیا حرج ہے؟ ( المغنی ۔ اور المھلّٰی لابن حزم ) ۔ فقہاء کے مسالک اس مسئلے میں حسب ذیل ہیں: مسلک حنفی کی تشریح امام علاء الدین الکاشانی نے بدائع الصنائع میں یوں کی ہے : جس طرح بے وضو نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اسی طرح قرآن مجید کو ہاتھ لگانا بھی جائز نہیں ۔ البتہ اگر وہ غلاف کے اندر ہو تو ہاتھ لگایا جا سکتا ہے ۔ غلاف سے مراد بعض فقہاء کے نزدیک جلد ہے اور بعض کے نزدیک وہ خریطہ یا لفافہ یا جزدان ہے جس کے اندر قرآن رکھا جاتا ہے اور اس میں سے نکالا بھی جا سکتا ہے ۔ اسی طرح تفسیر کی کتابوں کو بھی بے وضو ہاتھ نہ لگانا چاہیے ، کسی ایسی چیز کو جس میں قرآن کی کوئی آیت لکھی ہوئی ہو ۔ البتہ فقہ کی کتابوں کو ہاتھ لگایا جا سکتا ہے اگرچہ مستحب یہ ہے کہ ان کو بھی بے وضو ہاتھ نہ لگایا جائے ، کیونکہ ان میں بھی آیات قرآنی بطور استدلال درج ہوتی ہیں ۔ بعض فقہائے حنفیہ اس بات کے قائل ہیں کہ مصحف کے صرف اس حصے کو بے وضو ہاتھ لگانا درست نہیں ہے جہاں قرآن کی عبارت لکھی ہوئی ہو ، باقی رہے حواشی تو خواہ وہ سادہ ہوں یا ان میں بطور تشریح کچھ لکھا ہوا ہو ، ان کو ہاتھ لگانے میں مضائقہ نہیں ۔ مگر صحیح بات یہ ہے کہ حواشی بھی مصحف ہی کا ایک حصہ ہیں اور ان کو ہاتھ لگانا مصحف ہی کو ہاتھ لگانا ہے ۔ رہا قرآن پڑھنا ، تو وہ وضو کے بغیر جائز ہے فتاویٰ عالمگیری میں بچوں کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے ۔ تعلیم کے لیے قرآن مجید بچوں کے ہاتھ میں دیا جا سکتا ہے خواہ وہ وضو سے ہوں یا بے وضو ۔ مسلک شافعی کو امام جودی نے المنہاج میں اس طرح بیان کیا ہے ، نماز اور طواف کی طرح مصحف کو ہاتھ لگانا اور اس کے کسی ورق کو چھونا بھی وضو کے بغیر حرام ہے ۔ اسی طرح قرآن کی جلد کو چھونا بھی ممنوع ہے ۔ اور اگر قرآن کسی خریطے ، غلاف یا صندوق میں ہو ، یا درس قرآن کے لیے اس کا کوئی حصہ تختی پر لکھا ہوا ہو تو اس کو بھی ہاتھ لگانا جائز نہیں ۔ البتہ قرآن کسی کے سامان میں رکھا ہو ، یا تفسیر کی کتابوں میں لکھا ہوا ہو ، یا کسی سکہ میں اس کا کوئی حصہ درج ہو تو اسے ہاتھ لگانا حلال ہے ۔ بچہ اگر بے وضو ہو تو وہ بھی قرآن کو ہاتھ لگا سکتا ہے ۔ اور بے وضو آدمی اگر قرآن پڑھے تو لکڑی یا کسی اور چیز سے وہ اس کا ورق پلٹ سکتا ہے ۔ مالکیہ کا مسلک جو الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں نقل کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جمہور فقہاء کے ساتھ وہ اس امر میں متفق ہیں کہ مصحف کو ہاتھ لگانے کے لیے وضو شرط ہے ۔ لیکن قرآن کی تعلیم کے لیے وہ استاد اور شاگرد دونوں کو اس سے مستثنیٰ کرتے ہیں ۔ بلکہ حائضہ عورت کے لیے بھی وہ بغرض تعلیم مصحف کو ہاتھ لگانا جائز قرار دیتے ہیں ۔ ابن قدامہ نے المغنی میں امام مالک کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ جنابت کی حالت میں تو قرآن پڑھنا ممنوع ہے ، مگر حیض کی حالت میں عورت کو قرآن پڑھنے کی اجازت ہے ، کیونکہ ایک طویل مدت تک اگر ہم اسے قرآن پڑھنے سے روکیں گے تو وہ بھول جائے گی ۔ حنبلی مذہب کے احکام جو ابن قدامہ نے نقل کیے ہیں یہ ہیں کہ ۔ جنابت کی حالت میں اور حیض و نفاس کی حالت میں قرآن یا اس کی کسی پوری آیت کو پڑھنا جائز نہیں ہے ، البتہ بسم اللہ ، الحمد للہ وغیرہ کہنا جائز ہے ، کیونکہ اگرچہ یہ بھی کسی نہ کسی آیت کے اجزاء ہیں ، مگر ان سے تلاوت قرآن مقصود نہیں ہوتی ۔ رہا قرآن کو ہاتھ لگانا ، تو وہ کسی حال میں وضو کے بغیر جائز نہیں ، البتہ قرآن کی کوئی آیت کسی خط یا فقہ کی کسی کتاب ، کا کسی اور تحریر کے سلسلے میں درج ہو تو اسے ہاتھ لگانا ممنوع نہیں ہے ۔ اسی طرح قرآن اگر کسی چیز میں رکھا ہوا ہو تو اسے وضو کے بغیر اٹھایا جا سکتا ہے ۔ تفسیر کی کتابوں کو ہاتھ لگانے کے لیے بھی وضو شرط نہیں ہے ۔ نیز بے وضو آدمی کو اگر کسی فوری ضرورت کے لیے قرآن کو ہاتھ لگانا پڑے تو وہ تیمم کر سکتا ہے ۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں مسلک حنبلی کا یہ مسئلہ بھی درج ہے کہ بچوں کے لیے تعلیم کی غرض سے بھی وضو کے بغیر قرآن کو ہاتھ لگانا درست نہیں ہے اور یہ ان کے سرپرستوں کا فرض ہے کہ وہ قرآن ان کے ہاتھ میں دینے سے پہلے انہیں وضو کرائیں ۔ ظاہریہ کا مسلک یہ ہے کہ قرآن پڑھنا اور اس کو ہاتھ لگانا ہر حال میں جائز ہے خواہ آدمی بے وضو ہو ، یا جنابت کی حالت میں ہو ، یا عورت حیض کی حالت میں ہو ۔ ابن حزم نے المحلّٰی ( جلد اول ، صفحہ 77 تا 84 ) میں اس مسئلے پر مفصل بحث کی ہے جس میں انہوں نے اس مسلک کی صحت کے دلائل دیے ہیں اور یہ بتایا ہے کہ فقہاء نے قرآن پڑھنے اور اس کو ہاتھ لگانے کے لیے جو شرائط بیان کی ہیں ان میں سے کوئی بھی قرآن و سنت سے ثابت نہیں ہے ۔
23: راجح تفسیر کے مطابق اس سے مراد فرشتے ہیں، اور کافروں کے اس اشکال کا جواب دیاجارہا ہے کہ ہم یہ کیسے یقین کرلیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام کسی کمی زیادتی کے بغیر اپنی اصلی صورت میں ہمارے پاس پہنچ رہا ہے اور کسی شیطان وغیرہ نے اس میں کوئی تصرف نہیں کیا؟ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ قرآن کریم لوح محفوظ میں درج ہے اور اسے پاک فرشتوں کے سوا کوئی اور چھو بھی نہیں سکتا، اگرچہ یہاں خوب پاک سے مراد فرشتے ہیں، لیکن اس میں ایک اشارہ اس طرف بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح عالم بالا میں پاک فرشتے ہی اسے چھوتے ہیں، اسی طرح دنیا میں بھی انہی لوگوں کو چھونا چاہئیے جو پاک حالت میں ہوں، چنانچہ احادیث میں قرآن کریم کو بغیر وضو کے چھونے سے ممانعت آئی ہے۔