Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عالم نزع کی بےبسی اسی مضمون کی آیتیں سورۃ قیامہ میں بھی ہیں ۔ فرماتا ہے کہ ایک شخص اپنے آخری وقت میں ہے نزع کا عالم ہے روح پرواز کر رہی ہے تم سب پاس بیٹھے دیکھ رہے ہو کوئی کچھ نہیں کر سکتا ہمارے فرشتے جنہیں تم دیکھ نہیں سکتے تم سے بھی زیادہ قریب اس مرنے والے سے ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً 61؀ ) 6- الانعام:61 ) اللہ اپنے بندوں پر غالب ہے وہ تم پر اپنے پاس سے محافظ بھیجتا ہے جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے اسے ٹھیک طور پر فوت کر لیتے ہیں پھر وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ مولائے حق کی طرف بازگشت کرائے جائیں گے جو حاکم ہے اور جلد حساب لے لینے والا ہے ۔ یہاں فرماتا ہے اگر سچ مچ تم لوگ کسی کے زیر فرمان نہیں ہوا اگر یہ حق ہے کہ تم دوبارہ جینے اور میدان قیامت میں حاضر ہونے کے قائل نہیں ہو اور اس میں تم حق پر ہو اگر تمہی حشر و نشر کا یقین نہیں اگر تم عذاب نہیں کئے جاؤ گے وغیرہ تو ہم کہتے ہیں اس روح کو جانے ہی کیوں دیتے ہو؟ اگر تمہارے بس میں ہے تو حلق تک پہنچی ہوئی روح کو واپس اس کی اصلی جگہ پہنچا دو ۔ پس یاد رکھو جیسے اس روح کو اس جسم میں ڈالنے پر ہم قادر تھے اور اس کو بھی تم نے بہ چشم خود دیکھ لیا یقین مانو اسی طرح ہم دوبارہ اسی روح کو اس جسم میں ڈال کر نئی زندگی دینے پر بھی قادر ہیں ۔ تمہارا اپنی پیدائش میں دخل نہیں تو مرنے میں پھر دوبارہ جی اٹھنے میں تمہارا دخل کہاں سے ہو گیا ؟ پھر کیوں تم کہتے پھرتے ہو کہ ہم مر کر زندہ نہیں ہوں گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ ۔۔۔۔۔۔” مدینین “ ” دان یدین دینا “ ( جزادینا ، مالک ہونا ، حساب لینا ، حاکم ہونا) سے اسم مفعول ” مدین “ کی جمع ہے جو اصل میں ” مدیون “ تھا ، بدلا دیے گئے ، محاسبہ کیے گئے ، محکوم ، مملوک ، ان آیات میں ” فلولا “ دو دفعہ آیا ہے اور دونوں کی جزائ ” ترجعونھا ان کنتم صدقین “ ہے ۔ ان آیات میں نزع کے عالم کا نقشہ کھینچ کر قیامت کے منکروں سے کہا گیا ہے کہ ایسا کیوں نہیں کہ مرتے وقت جب جان حلق تک آپہنچتی ہے اور تم پاس بیٹھے مرنے والے کو دیکھ رہے ہوتے ہو اور ہم تم سے زیادہ اس مرنے والے کے قریب ہوتے ہیں ، تو پھر اگر تم کسی کے محکوم نہیں اور نہ تم سے کوئی محاسبہ کرنے والا ہے اور تم خود ہی ہر طرح صاحب اختیار ہو ، تو اگر تم سچے ہو تو نکلنے والی اس جان کو واپس کیوں نہیں لے آتے ؟ تمہاری بےبسی سے ثابت ہوا کہ تم سب اللہ تعالیٰ کے مملوک اور اس کے حکم کے پابند ہو ، جب وہ لے جانا چاہے گا لے جائے گا اور جب زندہ کر کے محاسبے کے لیے اپنے سامنے کھڑا کرنا چاہے گا کر دے گا ۔ اس لیے تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ اس کی توحید پر ، اس کے رسول پر اور یوم قیامت پر ایمان لے آؤ تا کہ تمہیں اس دن شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔ جان نکلنے کے وقت انسان کی حالت اور اس کے غم گساروں کے بےبسی کا نقشہ سورة ٔ قیامہ کی آیات (٢٦ تا ٣٠) میں بھی خوب کھینچا گیا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

سابقہ آیات میں پہلے عقلی دلائل سے پھر حق تعالیٰ کی طرف سے ستاروں کی قسم کھا کر اور ان کے مقہور و مغلوب ہونے کی کیفیت کی طرف اشارہ کر کے دو باتیں ثابت کی گئی ہیں، اول یہ کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس میں کسی شیطان و جن وغیرہ کا کوئی تصرف نہیں ہو سکتا، جو کچھ اس میں ہے وہ حق ہے، دوسرا مسئلہ جو قرآن کے مسائل میں خاص اہمیت رکھتا ہے، وہ قیامت کا آنا اور سب مردوں کا زندہ ہو کر رب العزت کے سامنے حساب کے لئے پیش ہونا ہے اور اس کے آخر میں کفار و مشرکین کا ان سب دلائل واضحہ کے خلاف قرآن کی حقانیت اور قیامت میں مردوں کے زندہ ہونے سے انکار کا ذکر کیا گیا تھا۔- قیامت اور مرنے کے بعد زندہ ہونے سے انکار گویا ان کی طرف سے اس کا دعویٰ ہے کہ ان کی جان اور روح خود ان کے قبضہ میں ہے اور ان کی اپنی زندگی میں ان کو بھی کچھ دخل ہے، ان کے اس خیال باطل کی تردید کے لئے آیات مذکورہ میں ایک قریب الموت انسان کی مثال دے کر بتلایا کہ جب اس کی روح حلق میں پہنچتی ہے اور تم یعنی مرنے والے کے عزیز، دوست و احباب سب اس کے حال کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور بتقاضائے محبت وتعلق یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس کی روح نہ نکلے، یہ زندہ رہے، مگر اس وقت سب کو اپنی بیچارگی اور عاجزی کا احساس و اقرار ہوتا ہے کہ کوئی اس مرنے والے کی جان نہیں بچا سکتا اس پر حق تعالیٰ نے فرمایا کہ اس وقت اپنے علم وقدرت کے لحاظ سے ہم تمہاری نسبت اس مرنے والے سے زیادہ قریب ہوتے ہیں، قریب ہونے سے مراد اس کے اندرونی اور ظاہری حالات سے واقفیت اور اس پر پوری قدرت ہے اور فرمایا کہ مگر تم ہمارے اس قرب کو اور مرنے والے کے زیر تصرف ہونے کو آنکھوں سے نہیں دیکھتے، خلاصہ یہ ہے کہ تم سب مل کر اس کی زندگی اور روح کی حفاظت چاہتے ہو مگر تمہاری بات نہیں چلتی، ہم اپنے علم وقدرت کے اعتبار سے اس کے زیادہ قریب ہیں، وہ ہمارے زیر تصرف اور مشیت و حکم کے تابع ہے، جس لمحہ میں اس کی روح نکالنا ہم طے کرچکے ہیں، اس کو کوئی روک نہیں سکتا، اس مثال کو سامنے کر کے ارشاد ہوتا ہے کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ مرنے کے بعد تمہیں زندہ نہیں کیا جاسکتا اور تم اتنے قوی اور بہادر ہو کر خدا تعالیٰ کی گرفت سے باہر ہو تو ذرا اپنی قوت وقدرت کا امتحان یہیں کر دیکھو کہ اس مرنے والے کی روح کو نکلنے سے بچا لو، یا نکلنے کے بعد اس میں لوٹا دو اور جب تم سے اتنا بھی نہیں ہوسکتا تو پھر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی گرفت سے باہر سمجھنا اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے سے انکار کرنا کس قدر بےعقلی کی علامت ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ۝ ٨٣ ۙ- «لَوْلَا»- يجيء علی وجهين :- أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] .- والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن .- ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- بلغ - البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15]- ( ب ل غ ) البلوغ - والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : - بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ - حلق - الحَلْق : العضو المعروف، وحَلَقَهُ : قطع حلقه، ثم جعل الحَلْق لقطع الشعر وجزّه، فقیل : حلق شعره، قال تعالی: وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] ، وقال تعالی: مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح 27] ، ورأس حَلِيق، ولحية حلیق، و «عقری حَلْقَى» في الدعاء علی الإنسان، أي : أصابته مصیبة تحلق النساء شعورهنّ ، وقیل معناه : قطع اللہ حلقها . وقیل للأكسية الخشنة التي تحلق الشعر بخشونتها : مَحَالِق والحَلْقَة سمّيت تشبيها بالحلق في الهيئة، وقیل : حلقه، وقال بعضهم : لا أعرف الحَلَقَة إلا في الذین يحلقون الشعر، وهو جمع حالق، ککافر وکفرة، والحَلَقَة بفتح اللام لغة غير جيدة . وإبل مُحَلَّقَة :- سمتها حلق . واعتبر في الحلقة معنی الدوران، فقیل : حَلْقَة القوم، وقیل : حَلَّقَ الطائر : إذا ارتفع ودار في طيرانه - ( ح ل ق ) الحلق حلق ( وہ جگہ جہاں سے جانور کو ذبح کیا جاتا ہے ) حلقۃ ( ض ) اسکے حلق کو قطع کر ڈالا ۔ پھر یہ لفظ بال مونڈے نے پر بولا جاتا ہے ہی کہا جاتا ہے حلق شعرۃ اس نے اپنے بال منڈوا ڈالے قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] اور سر نہ منڈ واو ۔ مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح 27] اپنے سر منند وا کر اور اپنے بال کتر وا کہ راس حلیق مونڈا ہوا مہر ۔ لحیۃ حلیقۃ مونڈی ہوئی داڑھی ۔ اور کسی انسان کے حق میں بددعا کے وقت عقرٰی حلقیٰ کہا جاتا ہے یعنی اسے ایسی مصیبت پہنچنے جس پر عورتیں اپنے سرکے بال منڈوا ڈالیں ۔ بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے حلق کو قطع کر ڈالے ۔ المحالق وہ کمبل جو کھردار ہونے کی وجہ سے بدن کے بال کاٹ ڈالیے ۔ جماعت جو دائرہ کی شکل میں جمع ہو ۔ کیونکہ وہ دائرہ ہیئت میں انسان کے حلق کے مشابہ ہوتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ حلقۃ کا لفظ صرف اس جماعت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو اپنے سر منڈوا ڈالتے ہیں ۔ ابل محلقۃ شتراں کہ بمشکل حلقہ داغ بر آنہا کردہ باشند اور حلقہ میں معنی دوران کا اعتبار کر کے حلق الطائر کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی پرندے کا چکر لگا کر اڑنا کے ہیں ۔.

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

جیسا کہ قبل ازیں بھی بار بار ذکر ہوا ہے کہ سورة الرحمن اور سورة الواقعہ باہم جوڑا ہیں اور ان کے مضامین بھی باہم مشابہ و مربوط ہیں۔ البتہ زیر مطالعہ آیات کا مضمون صرف اسی سورت میں آیا ہے۔ اس کے مقابل سورة الرحمن میں ایسا کوئی مضمون نہیں ہے۔ گویا یہ مضمون اس سورة کی اضافی شان ہے۔- آیت ٨٣ فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ ۔ ” تو کیوں نہیں ‘ جب جان حلق میں آ (کر پھنس) جاتی ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani