9 2 1یہ تیسری قسم ہے جنہیں آغاز سورت میں کہا گیا تھا، بائیں ہاتھ والے یا حاملین نحوست۔ یہ اپنے کفر و نفاق کی سزا یاس اس کی نحوست عذاب جہنم کی صورت میں بھگتیں گے۔
وَ اَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُکَذِّبِیْنَ الضََّآلِّیْنَ ۔۔۔۔۔:” نزل “ مہمانی ۔ ( دیکھئے کہف : ١٠٢)” تصلیۃ “ ” صلی یصلی “ (ع) سے با ب تفعیل کا مصدر ہے ، داخل کرنا ۔ ابوہریرہ (رض) سے مروی حدیث کا ایک حصہ آیت (٨٨، ٨٩) کی تفسیر میں گزر چکا ہے ، اس میں کفار کی موت کا بھی حال بیان ہوا ہے ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( واذا کان لرجل السوء قال اخرجی ایتھا النفس الخبیثۃ کانت فی الجسد الخبیث ، اخرجی ذمیمۃ وابشری بحمیم وغساق وآخر من شکلہ ازواج فلا یزال یقال لھا ذلک حتیٰ تخرج ثم یعرج بھا الی السماء فلا یفتح لھا فیقال من ھذا ؟ فیقال فلان، فیقال لا مرحبا ًبالنفس الخبیثۃ کانت فی الجسد الخبیث ارجعی ذمیمۃ قولھا لا تفتح لک ابواب السماء ، فیرسل بھا من السماء ثم تصیر الی القبر) (ابن ماجہ ، الزھد، باب ذکر الموت والا س تعداد لہ : ٤٢٦٢، وقال الالبانی صحیح)” اور جب آدمی برا ہو تو اسے ( فرشتہ) کہتا ہے :” نکل اے خبیث جان جو خبیث جسم میں تھی اور بشارت سن کھولتے ہوئے پانی اور پیپ کی اور دوسری اس کی ہم شکل کئی قسموں کی ۔ “ پھر اسے مسلسل یہی کہا جاتا ہے ، یہاں تک کہ وہ نکل آتی ہے ۔ پھر اسے اوپر آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے ، مگر اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا اور کہا جاتا ہے :” کون ہے ؟ “ بتایا جاتا ہے کہ یہ فلاں ہے تو کہا جاتا ہے :” اس خبیث جان کو جو خبیث جسم میں تھی کوئی مرحبا ہیں ، مذمت کی ہوئی حالت میں واپس لوٹ جا ، کیونکہ تیرے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے “۔ پھر اسے آسمان سے چھوڑ دیا جاتا ہے اور پھر وہ قبر کی طرف لوٹ جاتی ہے “۔
وَاَمَّآ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِيْنَ الضَّاۗلِّيْنَ ٩٢ ۙ- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔
(٩٢۔ ٩٤) اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور رسول اور کتاب کو جھٹلانے والوں اور گمراہوں میں سے ہوگا تو اس کو کھانے میں درخت زقوم اور پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی ملے گا اور اس کو دوزخ میں داخل ہونا ہوگا۔
آیت ٩٢ وَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُکَذِّبِیْنَ الضَّآلِّیْنَ ۔ ” اور اگر وہ تھا جھٹلانے والوں اور گمراہوں میں سے۔ “- یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ قبل ازیں دوسرے رکوع میں جب اس گروہ کا ذکر ہوا تو وہاں ان لوگوں کو ” اَیُّھَا الضَّآلُّـــوْنَ الْمُکَذِّبُوْنَ “ کہہ کر مخاطب فرمایا گیا تھا ‘ لیکن یہاں پر انہیں ” الْمُکَذِّبِیْنَ الضَّآلِّیْنَ “ کہا گیا ہے۔ یعنی یہاں پر الفاظ کی ترتیب بدل گئی ہے ۔ بظاہر اس کی توجیہہ یہ سمجھ آتی ہے کہ سزا کے حوالے سے ان کے بڑے اور اصل جرم کا ذکر پہلے کیا گیا ہے۔ حق کو جھٹلا دینے کے مقابلے میں گمراہی نسبتاً چھوٹا جرم ہے ‘ کیونکہ کسی گمراہ اور بھٹکے ہوئے شخص کو اگر کوئی سیدھا راستہ دکھا دے تو ممکن ہے وہ اسے قبول کرلے ۔ لیکن جو حق کو جھٹلا دے اس کا سیدھے راستے پر گامزن ہونا ممکن نہیں۔